بے نظیر قتل کیس اور اقوام متحدہ کی
تحقیقاتی رپورٹ
بالآخر سابق وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کے حوالے سے
اقوام متحدہ کمیشن کی رپورٹ اردو کے مشہور محاورے”کھودا پہاڑ نکلا چوہا“ یا”
وہی ڈھاک کے تین پات“ کی مصداق نکلی، دس ملین ڈالرز( تقریباً 86کروڑ
پاکستانی روپئے) کی ادائیگی اور نو ماہ کے انتظار کے بعد اقوام متحدہ کی
جانب سے 65صفحات پر مشتمل ایک ایسی رپورٹ کا اجراء جس کی خاص خاص باتوں سے
ایک عام پاکستانی بھی بخوبی آگاہ ہے، کو صدر اور حکومت کی جانب سے اپنی
توقعات کے عین مطابق قرار دینا انتہائی اہم اور حیرت ناک ہے، اہم اِس لئے
کہ ِاس رپورٹ سے صدر صاحب اور اُن کے خاندان کی بریت کا اظہار ہوتا ہے اور
حیرت ناک اِس لئے کہ پاکستانی قوم کی خون پسینے کی کمائی کو عوام دوستی کے
نعرے لگانے والی حکومت نے ایک ایسے کار لاحاصل میں پھونک ڈالا، جس کا نتیجہ
سوائے صفر کے اور کچھ نہیں اور دو سال میں لاکھوں ڈالر کے اخراجات کے بعد
قوم کو صرف یہ بتایا گیا کہ” پاکستانی پولیس نالائق ہے، سیکورٹی کا نظام
ناقص تھا، قتل میں طالبان، القاعدہ اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے کردار کا
جائزہ لیا جانا چاہیے، بے نظیر کی موت میں گاڑی کے لیور لگنے یا بیت اللہ
محسود کے ملوث ہونے کے حکومتی دعوے سے قبل از وقت ہیں، جس دور حکومت میں بے
نظیر بھٹو کا قتل ہوا تھا اُس دور کے حکمران اِس قتل کے ذمہ دار ہیں، بم
دھماکے کے بعد مناسب تحقیقات نہیں کی گئیں، جائے حادثہ سے ہزاروں شواہد مل
سکتے تھے لیکن صرف23 شواہد اکھٹے کیے گئے، حادثہ کے بعد علاقہ کی دھلائی
اور پوسٹ مارٹم نہ کرانا تحقیقات پر اثرانداز ہوا، بینظیر بھٹو کے قتل کے
بعد پولیس اہلکاروں کی جانب سے درست اقدامات کرنے میں ناکامی جان بوجھ کر
تھی، رحمان ملک جو کہ نجی طور پر بے نظیر بھٹو کی سکیورٹی کے ذمہ دار تھے،
اِس سانحہ کے فوراً بعد گاڑی سمیت غائب ہوگئے، ایسے کوئی شواہد نہیں ملے کہ
صدر آصف زرداری یا اُن کے خاندان کا کوئی فرد اِس واقعے میں ملوث ہو سکتا
ہے اور موجودہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ مجرموں کو کیفر کردارتک پہنچائے۔“
دلچسپ بات یہ ہے کہ چلی کے سفیر ہیرالڈو منوز کی قیادت میں قائم تین رکنی
کمیٹی نے جن لوگوں سے ملاقات کی اور جن افراد سے تفتیش کی ہے اُن سب نے ہی
تقریباً وہ تمام باتیں دہرا دیں جو وہ کمیشن کے پاکستان آنے سے قبل میڈیا
کے سامنے آچکی تھیں، پاکستانی قوم اپنی ایک محبوب لیڈر سے محرومی اور اُس
کی موت کی تحقیقات پر ایک کروڑ ڈالر ضائع کرنے کے بعد جس نتیجے کو ہاتھ میں
لیے کھڑی ہے اُس میں ایسی کون سی انہونی بات ہے جو قوم کو پہلے سے معلوم
نہیں تھی، ہاں اقوام متحدہ کے ذریعے اِس تحقیقات سے دنیا کے سامنے یہ ضرور
آگیا کہ پاکستان ایک ایسا غیر محفوظ ملک ہے، جہاں سیکورٹی کے انتظامات ناقص،
پولیس کرپٹ اور نااہل ہے اور اسٹیبلشمنٹ اتنی طاقتور ہے کہ وہ کچھ بھی
کرسکتی ہے، اب رہی یہ بات کہ بے نظیر کے قتل کی ذمہ دار پرویز مشرف حکومت
ہے، تو اصول و قاعدہ یہی کہتا ہے کہ وہی حکومت اور حاکم وقت مورد الزام
ٹھہرایا جاتا ہے جس کے دور حکومت میں سانحہ وقوع پزیر ہوتا ہے، لہٰذا اِس
لحاظ سے رپورٹ میں پرویز مشرف اور اُس کی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرانا بھی
کوئی نئی بات نہیں، یہی وہ معلوم اہم نقاط ہیں جن کی طرف اقوام متحدہ کے
کمیشن نے توجہ دلائی ہے اور جس کیلئے ہماری حکومت نے قوم کے کروڑوں ڈالر
ضائع کردیئے، جبکہ عوام، میڈیا اور حکومتی ذمہ داراِن یہ نتائج کو بہت اچھی
طرح جانتے تھے، لیکن خدا معلوم وہ کیا وجوہات تھیں کہ حکومت نے اِس واقعہ
کی کرمنل انکوائری کرانے کے بجائے اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹانے میں
بہتری جانی اور جس کی وجہ سے بات گھوم پھر کر وہیں آکھڑی ہوئی”کہ بے نظیر
کے قتل کی تحقیقات حکومت وقت کی ذمہ داری ہے۔“اسطرح ایک کروڑ ڈالر خرچ کر
کے آج ہماری قوم وہیں آکھڑی ہوئی جہاں27دسمبر 2007 کو تھی ۔
درحقیقت بے نظیر بھٹو قتل کیس کی اقوام متحدہ کی رپورٹ نے اُن بے شمار
پاکستانیوں کو شدید مایوس کیا ہے جو یہ توقع لگائے بیٹھے تھے کہ بین
الاقوامی ادارہ کسی بڑی سازش کو بے نقاب کرے گا، البتہ بعض حلقوں کا یہ
کہنا ہے کہ رپورٹ میں اُس پولیس افسر کی نشاندہی کردی گئی ہے جسے شامل
تفتیش کر کے قاتلوں تک پہنچا جا سکتا ہے اور بے نظیر قتل کیس کا کھرا تلاش
کیا جاسکتا ہے، بعض سیاسی مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگرچہ اقوام متحدہ
نے اپنی رپورٹ میں بے نظیر کے قاتلوں اور منصوبہ سازوں کی براہ راست
نشاندہی نہیں کی ہے، لیکن ایسے اشارے ضرور دیئے ہیں جو اِس معاملے میں اُس
وقت کی فوجی قیادت کے کردار کو مشکوک کرتے ہیں، بعض تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ
نہ صرف اُس پولیس افسر کو شامل تفتیش کرنا ضروری ہے جس پر حقائق کو چھپانے
کا الزام عائد کیا گیا ہے بلکہ رپورٹ میں واضح نشاندہی کے بعد اُس پولیس
افسر کی زندگی کے حفاظت بھی ضروری ہوگئی ہے، کیونکہ بے نظیر بھٹو کی
سکیورٹی میں شامل ایک اہم شخص خالد شہنشاہ پہلے ہی پراسرار حالات میں ہلاک
کیا جا چکا ہے۔
مشہور دفاعی تجزیہ نگار بریگیڈیر (ر)فاروق حمید کے مطابق ” اب آصف علی
زرداری پر یہ دباؤ بڑھ جائے گا کہ وہ اُن قاتلوں کا نام بتائیں جن کے بارے
میں انہوں نے 30دسمبر 2007کو گڑھی خدا بخش میں بے نظیر بھٹو کی سوئم کے
اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ وہ بے نظیر کے
قاتلوں کو جانتے ہیں۔“اِس موقع پر انہوں نے مسلم لیگ ق کیلئے قاتل لیگ کی
اصطلاح بھی استعمال کی، اُن کی اِس تقریر سے عام خیال یہی پیدا ہوا تھا کہ
پیپلز پارٹی آنے والے وقت میں مسلم لیگ ق اور اُس کے سرپرست اعلیٰ پرویز
مشرف سے بے نظیر بھٹو کے خون ناحق کا حساب لے گی، لیکن چشم فلک نے یہ حیرت
ناک منظر بھی دیکھا کہ پیپلز پارٹی ہی کی حکومت کے دور میں پرویز مشرف (جنہیں
آج بے نظیر بھٹو کے قتل کا ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے ) کو بے نظیر کی
زندگی کے تحفظ میں ناکامی کے باوجود انتہائی عزت و احترام اور مکمل
پروٹوکول کے ساتھ گارڈ آف آنر کے سائے میں رخصت کیا گیا، ایک آمر وقت کے
ساتھ اِس حسن سلوک پر عوامی حلقے اور خود پیپلز پارٹی کے وابستگان آج بھی
ششدر اور انگشت بدنداں ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی رائے عامہ نے اقوام متحدہ کمیشن رپورٹ کو اِس وجہ
سے بری طرح مسترد کردیا ہے کہ اِس میں کوئی نئی بات نہیں، تاہم پیپلز پارٹی
کے شریک چیئر مین اور صدر مملکت جناب آصف علی زرداری اِس بات پر خوش ہیں کہ
اقوام متحدہ کی رپورٹ انہیں اور پیپلز پارٹی کو بے گناہ قرار دیتی ہے، جبکہ
امر واقعہ یہ ہے کہ بے نظیر کی شہادت پر کسی نے بھی پیپلز پارٹی کی جانب
انگلی نہیں اٹھائی کیوں کہ محترمہ بےنظیر بھٹو کی ذات خود پیپلز پارٹی تھی
اوراُن کی ذات سے پارٹی کے ہر جیالے سمیت وطن عزیز کا ہر محب وطن فرد محبت
اور عقیدت رکھتا تھا، تاہم کچھ انگلیاں خود آصف زرداری اور بے نظیر بھٹو کی
حفاظت پر مامور رحمان ملک کی طرف ضرور اٹھی تھیں، جس کی وجہ اپنی لیڈر کی
حفاظت کیلئے خاطر خواہ انتظامات کا نہ کرنا اور حادثے کے وقت وہاں سے غائب
ہوجانا تھا، یہی وہ وجوہات ہیں جس کی وجہ سے رحمان ملک ایک عرصے سے عوامی
تنقید کا نشانہ بنتے چلے آئے ہیں اور اسی وجہ سے کمیشن نے جہاں پرویز مشرف
حکومت کو بے نظیر کی شہادت کا ذمہ دار قرار دیا، وہیں اُس ٹیم کو بھی مشکوک
قرار دیا جو پیپلز پارٹی کی طرف سے محترمہ کی حفاظت پر مامور تھی۔
گو کہ اقوام متحدہ کے نام نہاد تلاش حقیقت کمیشن نے ہر چند کہ کسی حقیقت کا
انکشاف نہیں کیا، لیکن جناب زرداری صاحب کیلئے مندرجہ بالا پہلو کے ساتھ یہ
بات بھی خاص توجہ طلب ہے کہ حکومت کی طرف سے حفاظتی اقدامات کی ذمہ داری
اُس وقت کے سیکرٹری داخلہ کمال شاہ کی تھی جبکہ پیپلز پارٹی کی طرف سے جناب
رحمان ملک کی، لیکن کیا اسے اتفاق سمجھا جائے گا کہ پیپلز پارٹی نے حکومت
سنبھالتے ہی کمال شاہ کی مدت ملازمت میں دو سال کی توسیع کردی، جبکہ رحمان
ملک آج وفاقی وزیر داخلہ ہیں، اقوام متحدہ کی رپورٹ میں تو اِس پر بھی شبہ
کا اظہار کیا گیا ہے کہ بی بی کے آگے چلنے والی سیاہ مرسیڈیز حملہ ہوتے ہی
غائب ہوگئی، جس میں جناب رحمان ملک، بابر اعوان اور فرحت اللہ بابر سوار
تھے، آج یہ تینوں حضرات اہم حکومتی مناصب پر فائز ہیں، آج پیپلز پارٹی کے
ذمہ داران نے اِس بات پر اطمینان کا اظہار کررہے ہیں کہ رپورٹ میں آصف
زرداری اور بی بی کے خاندان کے کسی فرد کو حادثہ کا ذمہ دار قرار نہیں دیا
گیا، لیکن یہ بات توجہ طلب ہے کہ جب ایک اخباری نمائندے نے نیویارک میں
کمیشن کے چیئر مین مسٹر ہیرالڈو سے اِس حوالے سے سوال کیا تو انہوں نے کہا
کہ ہم نے آصف زرداری سمیت کسی کو باعزت بری کیا، نہ کسی پر فرد جرم عائد کی،
کیوں کہ یہ کمیشن کے دائرہ اختیار میں نہیں تھا، ہیرالڈو مونیز کا کہنا تھا
کہ آصف زرداری کے بارے میں افواہیں بہت سنی ہیں، لیکن کوئی ثبوت پیش نہیں
کیا گیا۔
اب جبکہ بلی تھیلے سے باہر آچکی ہے اور کروڑوں روپے کے اخراجات سے اقوام
متحدہ کی تحقیقاتی رپورٹ جو اِس وقت قوم کے سامنے ہے، میں کوئی نئی بات اور
نیا انکشاف نہیں بلکہ وہی باتیں دہرائی گئی ہیں جو پہلے سے میڈیا میں گردش
کرتی رہی ہیں، لیکن حیرت انگیز طور پر رپورٹ میں اُن اہم باتوں مثلاً یہ کہ
”یہ ہولناک واقعہ27 دسمبر2007ءکو پیش آیا، اُس وقت سے لے کر آج، دوسال
ساڑھے تین ماہ تک صدر مملکت آصف زرداری یا اُن کے کسی عزیز نے قتل کے اتنے
بڑے واقعہ کی ایف آئی آر کیوں درج نہیں کرائی.....؟ رپورٹ میں اِس بات کی
نشاندہی بھی نہیں کی گئی کہ بے نظیر بھٹو ہجوم کے درمیان گاڑی میں آرام سے
بیٹھی ہوئی تھیں، انہیں کس بات نے مجبور کیا کہ وہ گاڑی کی چھت سے سر نکال
کر باہر کی طرف دیکھیں.....؟رپورٹ میں اِس بات کا ذکر ہی نہیں کیا گیا اِس
سانحہ کے بعد بے نظیر کو ہسپتال لے جانے والی گاڑی کے پہیے کس طرح اچانک
پنکچر ہوگئے تھے.....؟ رپورٹ میں اِس بات کا بھی جائزہ بھی نہیں لیا گیا کہ
بے نظیر بھٹو کی اِس المناک شہادت سے کس کس کو کیا کیا فائدہ حاصل ہوا.....؟
رپورٹ میں بعض اعلیٰ شخصیات پر رکاوٹ ڈالنے کا الزام تو لگایا گیا، لیکن
اِس کے باوجود اُن کے نام صیغہ راز میں کیوں رکھے گئے....؟ اس کے ساتھ یہ
بات بھی قابل توجہ تھی کہ پیپلز پارٹی نے اپنے دور حکومت میں
بریگیڈئر(ر)جاوید اقبال چیمہ، سابق سیکرٹری خارجہ سید کمال شاہ اور سابق سی
سی پی او راولپنڈی سعود عزیز سمیت رپورٹ میں مذکور ہر مشکوک شخص کو مراعات
سے نوازا.....؟“پر یا تو توجہ ہی نہیں دی گئی یا پھر انہیں جان بوجھ کر نظر
انداز کیا گیا جو محترمہ کی شہادت کے بعد سے مسلسل سوالیہ نشان بنی ہوئی
ہیں، بے نظیر بھٹو کے قتل سے جڑی یہ وہ پراسرار کڑیاں ہیں جن کے حوالے چہ
مگوئیاں آج بھی زبان زد عام ہیں اور اُس وقت تک جاری رہیں گی جب تک کہ اصل
حقائق سامنے نہیں آجاتے۔
بہرحال حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ رپورٹ بے معنی اور اِس کے معین مفہوم کی
بنیاد پہلے سے زیر گردش معلومات کا زخیرہ ہے، حسب توقع اقوام متحدہ کی
کمیشن کی جاری کردہ رپورٹ سے بے نظیر کے قتل کے حقیقی محرکات اور اِس کے
ذمہ داروں کا تعین کرنے میں کوئی مدد نہیں مل سکی ہے، اِس رپورٹ نے اِس کے
علاوہ کسی اہم بات کی طرف اشارہ نہیں کیا کہ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف
کی حکومت بے نظیربھٹو کی حفاظت کی ذمہ داری میں ناکام رہی اور حکومت کے پاس
بے نظیربھٹو کی زندگی کو لاحق خطرات کے پیش نظر کوئی مناسب حفاظتی منصوبہ
نہیں تھا، اسی کے ساتھ کمیشن نے راولپنڈی پولیس کی جانب سے کی جانے والی
تحقیقات پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کے ساتھ بے نظیر بھٹو کے حفاظتی
انتظام کے سلسلے میں پیپلزپارٹی کے سیکورٹی انچارج کے انتظامات کو بھی
ناکافی قرار دیا ہے،اِس لحاظ سے اقوام متحدہ کی رپورٹ سے کم ازکم ایک بات
تو ثابت ہوگئی کہ پاکستانی پولیس تفتیشی اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں نے
جان بوجھ کر غیرذمہ داری کا مظاہرہ کیا اور بے نظیر بھٹو کے قتل کے حقیقی
محرکات اور اُس کے حقیقی ذمہ داروں پر پردہ ڈالا، یہ انکشاف اہل پاکستان کے
لیے کوئی نئی بات نہیں ہے، ہاں اقوام متحدہ کمیشن کی رپورٹ میں موجودہ
حکمرانوں کے لیے صرف ایک ہی بات منفی ہے اور وہ یہ کہ موجودہ حکومت نے بے
نظیربھٹو کے قتل کی حقیقی تحقیقات نہیں کیں، بے نظیربھٹو بے خون کے نتیجے
میں برسراقتدار آنے والی حکومت نے بے نظیر بھٹو کے حقیقی قاتلوں تک پہنچنے
کی کوشش کیوں نہیں کی؟ اگر صرف اِس سوال کا جواب ہی تلاش کرلیا جائے تو یہ
مسئلہ حل ہوسکتا ہے، جبکہ خود صدر آصف زرداری یہ کہتے ہیں کہ وہ قاتلوں سے
بخوبی واقف ہیں، لیکن اس کے باوجود انہوں نے تمام ذمہ داری اقوام متحدہ کے
کمیشن پر ڈال دی، جو یہ بھی نہیں بتاسکا کہ اِس قتل کے اصل محرکات اور
اسباب کیا تھے۔
اِس کی وجہ یہ ہے کہ کمیشن کا کام صرف تحقیقات اور حالات کے تعین تک محدود
تھا اور مجرموں کی تلاش اُس کی ذمہ داری نہیں تھی، لیکن اِس کے باوجود اگر
حالات اور ادارے سامنے آ گئے ہیں تو یہ موجودہ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے
کہ وہ تحقیقات کا دائرہ آگے بڑھائے اور ذمہ دار افراد کی نشاندہی کرے، تاکہ
اِس بات کا تعین کیا جاسکے کہ جن اداروں کا نام لیا گیا اُن کے کون کون سے
افراد غفلت اور غیر ذمہ داری کے مرتکب ہوئے ہیں، کس کے حکم پر ایسا کیا گیا
اور وہ کون ہے جو اِس راہ میں رکاوٹ بنا؟ اِس المناک سانحہ کے حوالے سے
مکمل تحقیقات اور اِس میں ملوث افراد کو قانون کی گرفت میں لانا اسلئے بھی
ضروری ہے کہ ماضی میں پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان، حسین شہید
سہروردی اور جنرل ضیاءالحق سمیت اعلیٰ فوجی حکام کی شہادت کے پس پردہ عوامل
اور اصل وجوہات کو آج تک قوم کے سامنے نہیں لایا جاسکا، اسلئے بے نظیر بھٹو
کی شہادت کے باب میں بھی یہی خدشہ تھا کہ شائد قوم کو اسباب اور افراد کا
علم نہیں ہو سکے گا، لیکن اِس رپورٹ کے اجراء کے بعد عوام یہ توقع رکھنے
میں حق بجانب ہیں کہ موجودہ حکومت جلد از جلد ایسا مؤثر، ٹھوس اور نتیجہ
خیز لائحہ عمل اختیار کرے گی جس سے محترمہ کے اصل قاتلوں کی نشاندہی ہو سکے
گی اور انہیں قانون کے کٹہرے میں لا کر نمونہ عبرت بنایا جاسکے گا، لیکن
اگر اب بھی حکومت نے ایسا نہیں کیا تو بی بی سی کے مطابق ”اقوام متحدہ نے
اِس رپورٹ کا گز میدان میں رکھ دیا ہے، اب دو ہی راستے ہیں یا تو حکومت اِس
گز سے بارودی سرنگوں سے اَٹا میدان ناپ لے یا پھر گردن نپوانے کیلئے تیار
رہے۔ |