فروغ تعلیماتِ رضا کے سلسلے میں علماو اہل قلم کا کردار
(پروفیسر ڈاکٹرمجید اللہ قادری, India)
امام احمدرضا خاں قادری برکاتی محدث بریلوی
علیہ الرحمۃ کے علمی اثرات ان کی حیات ہی میں نہ صرف بر صغیر پاک و ہند
بلکہ بلادِ عرب و عجم میں بھی اثر پزیر ہوئے جس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں
کہ دنیا کے کونے کونے میں تعلیماتِ رضا نہ صرف فروغ پا چکی ہے بلکہ اس کے
گہرے اثرات آج ان کے بعد چوتھی اور پانچویں پشت کومتاثر کر رہی ہے اور
لاکھوں افراد ان کے نعتیہ کلام اور بالخصوص ان کے نعتیہ سلام پر جھوم جھوم
جاتے ہیں اور جب کہیں بھی کسی علمی معاملے میں بحث طول پکڑ جائے وہاں
تعلیماتِ رضا اس مسئلے کا صحیح اور پائیدار حل پیش کرتی ہے۔ اس موضوع پر
ہزاروں مقالات اور مضامین کی ضرورت ہے کہ جہاں جہاں امام احمدرضا کی
تعلیمات پہنچیں اس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے لوگوں کو راہِ ہدایت اور نجات
ملی۔ یقیناً امام احمدرضا کی تعلیمات کو (Grass Root) تک پہنچانے میں اس
خطے کے علما و مشائخ کے ساتھ ساتھ اہل قلم اور اداروں کا بھی بڑا کردار ہے۔
اگر اس موضوع پر دنیا کے تمام ان خطوں پر کام کی رفتار کو جمع کرکے شائع
کیا جائے تو یہ خود ایک بہت بڑا علمی ذخیرہ ہو جائے گا اور ایک شخص کے علمی
اثرات پر دنیا کا پہلا انسائیکلو پیڈیا بھی ہوجائے گا۔ راقم نےاس سلسلے میں
ایک کام کا آغاز کیا تھا اور اس سلسلے میں کئی مقالات قلم بند کئے تھے۔
مثلا:
(۱) امام احمدرضا اور علمائے کراچی۔
(۲) امام احمدرضا اور علمائے بھرچونڈی شریف۔
(۳) امام احمدرضا اور علمائے سندھ۔
(۴) امام احمدرضا اور علمائے لاہور۔
(۵) امام احمدرضا اور علمائے ڈیرہ غازی خاں۔
(۶) امام احمدرضا اور علمائے بلوچستان۔
(۷) امام احمدرضا اور علمائے ریاست بہاولپور۔
(۸) امام احمد رضا اور علمائے سیالکوٹ وغیرہ۔
راقم نے اسی طرح کے مقالات دیگر علاقوں کے حوالے سے بھی قلم بند کرنا تھے۔
مثلاً:
امام احمدرضا اورعلمائے پوٹوھار
امام احمدرضا اور علمائے میدانی پنجاب
امام احمدرضا اور علمائے سرحد وغیرہا
مگر دیگر قلمی مصروفیات کے باعث یہ کام ادھورا رہ گیا البتہ دو بیرونی
ممالک کے حوالے سے تعلیماتِ رضا کے اثرات کا دو مقالات میں اختصار سے جائزہ
لیا تھا۔ مثلاً:
۱۔ ۴۰ سالہ چمنستانِ رضا کی سیر
۲۔ تعلیماتِ رضا کے فروغ میں علمائے بنگلہ دیش کی خدمات۔
راقم کے ان تمام مقالات میں اختصار سے اس کام کا جائزہ لیا گیا ہے کہ امام
احمدرضا کی تعلیمات کو فروغ دینے میں علما و مشائخ اور اہلِ قلم نے کیا
کردار ادا کیا اور اکثر مقالات میں امام احمد رضا کے دور کے علما کی خدمات
کا تو جائزہ لیا ہے مگر بعد میں ان علاقوں میں علما و مشائخ اور دیگر اہلِ
قلم نے جواب تک خدمات انجام دی ہیں ان تمام پہلوؤں کو راقم اپنے مقالات
میں شامل نہ کرسکا۔ اگر وقت نے ساتھ دیا اور دیگر مصروفیات آڑے نہ آئیں تو
خود اس کام کو مکمل کرنے کی کوشش کروں گا، ورنہ نوجوان اسکالرز سے استدعا
ہے کہ اپنے اپنے علاقوں میں امام احمدرضا کی تعلیمات کے اثرات کا تحقیقی
مطالعہ کریں اور پھر پچھلی ایک صدی میں جن جن علما و مشائخ نے اپنے وعظ
ونصیحت اور قلم سے جو تعلیماتِ رضا کے فروغ میں کردار ادا کیا ہے اس کو
تحریر میں لائیں اور جن اہلِ قلم نے اپنے مقالات، مضامین اور تھیسس کے
ذریعے چاہے وہ MA، M.Ed، BEd، M.Phil، یا Ph.D کے لیول کے ہوں ان کا تذکرہ
جمع کرکے بھرپور مقالہ تحریر کریں اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس تمام کام
کو اکٹھا کرلیا گیا تو کئی جلدوں پر یہ کام مکمل ہوسکے گا اور شاید ہم امام
احمدرضا کو خود ان کے ایک شعر کے اس مصرعہ پر پورا اتار سکیں:
ملکِ سخن کی شاہی تم کو رضؔا مسلم
راقم یہاں صرف شہرِ کراچی کے حوالے سے امام احمدرضا محدث بریلوی علیہ
الرحمۃ کی تعلیمات کے اثرات اور علماے ومشائخ و اہلِ قلم کی خدمات کا
انتہائی اختصار سے ایک طویل مقالے کا خلاصہ پیش کررہا ہے۔
امام احمدرضا خاں قادری محدث بریلوی قدس سرہ العزیز اپنی حیات میں دنیا بھر
کے مسلمانوں کے لیے مرجعِ خلائق تھے۔ آپ سےاستفتا کرنے والوں میں نہ صرف
علما و مشائخ ہی ہوا کرتے تھے بلکہ معاشرے کے تمام طبقوں سے تعلق رکھنے
والے مثلا ً وکلا، جج صاحبان، اساتذۂ کرام، دانشورانِ ملت، سائنسداں،
سیاستدان وغیرہا اپنے اپنے مسائل کے حل کے لیے آپ سے رجوع کرتے۔ چنانچہ ایک
ایک وقت میں ۴۔۴ سو استفتا نہ صرف برصغیر پاک و ہند کے کونے کونے سے بلکہ
دیگر ممالک سے بھی مثلاً چین، برما، بھوٹان، نیپال، عراق، سعودی عرب، جنوبی
افریقہ، پرتگال، رنگون، سیلون، بنگلہ دیش، افغانستان اور مریکہ جیسے دور
دراز علاقوں سے سوالات آتھے اور آپ ان سب کا جواب ضرور ضرور تحریر فرماتے۔
موجودہ پاکستان کے مندرجہ ذیل علاقوں سے سینکڑوں استفتا امام احمدرضا خاں
محدث بریلوی کو بریلی شریف بھیجے گئے جن کے آپ نے جوابات دیے، وجو فتاوٰی
رضویہ کی ۱۲ ضخیم جلدوں میں دیکھے اور پڑھے جاسکتے ہیں اور وہ اسفتا اردو
کے علاوہ فارسی اور عربی زبان میں بھی ہوتے تھے، لہٰذا اب ان تمام عربی اور
فارسی استفتا اور ان کے جوابات کا اردو ترجمہ جدید فتاویٰ رضویہ کی ۳۰
جلدوں میں دیکھے اور پڑھے جاسکتے ہیں۔ پاکستان کے مختلف شہروں کے نام، جہاں
سے مستفتیان نے سوالات بھیجے، یہاں درج کیے جاتے ہیں:
گجرات، گھکر، گوجرانوالہ، وزیرآباد، لاہور، سیالکوٹ، کوٹلی لوہاراں، ڈسکہ،
گوجرخاں، راولپنڈی، پنڈی کھیپ، گولڑا شریف، ڈیرہ غازی خاں، جامپور، بھیرہ
شاہ پور، موضع غارنی مارہ، جہلم، وزیرستان، ڈیرہ اسمعٰیل خان، کیمبل پور،
اٹک، کوٹ نجیب، ہزارہ، بہاولپور، خانپور، جاچڑاں شریف، صادق پور، ججہ شریف،
گڑھی اختیار خاں، کراچی، بھرچونڈی شریف،سکھر، مٹیاری، حیدر آباد، ڈھرکی،
شکارپور، پشاور، ہری پور، فورٹ سنڈے من، بارکھان، کوہلو، بلوچستان وغیرہا۔
امام احمدرضا خاں قادری محدث بریلوی علیہ الرحمۃ کا کراچی شہر میں قیام
۱۹۰۶ء میں اس وقت ہوا جب آپ دوسرے حج سے واپس بریلی شریف تشریف لے جارہے
تھے تو کچھ ٹیکنیکل وجوہات کی بنا پر آپ کا بحری جہاز چند دنوں کے لیے
کراچی شہر کی بندر گاہ میں لنگر انداز رہا اور جب یہ بات اہلِ کراچی کے
علما و مشائخ کو پہنچی تو ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی اور اس زمانے کے علما
میں حضرت علامہ مولانا عبدالکریم درس (م ۱۳۴۴ھ)،شاہ غلام رسول قادری
(م۱۳۹۱ھ)، مولانا عبدالرحیم مکرانی تلمیذ حضرت عبدالکریم درس، مولوی احمد
صدیقی نقشبندی وغیرہ نے آپ کا استقبال کیا اور امام احمدرضا نے عبدالکریم
درس کی قیام گاہ صدر میں چند دن قیام بھی کیا۔
امام احمدرضا خاں قادری علیہ الرحمۃ سے شہر کراچی کے اکثر علما نے نہ صرف
اس وقت ملاقات کے دوران استفسار کیے بلکہ بریلی شریف بھی استفتا بھیج کر
جوابات حاصل کیے۔ ان میں چند اہم نام ملاحظہ کیجیے:
عبدالکریم درس، حضرت شاہ غلام رسول قادری، مولانا مرزا عبدالرحیم بیگ،
مولانا عبدالرحیم مکرانی، مولانا سید کریم شاہ، مولوں احمد صدیقی نقشبندی،
مولوی سید پیر ابراہیم قادری بغدادی۔
امام احمدرضا کے وصال کے موقعہ پر مولوی اللہ بخش فراؔق عقیلی ٹھٹھوی برادر
عزیز سابق وفاقی وزیر خزانہ حکومتِ پاکستان ایم، ایم عقیلی نے ایک مضمون
تحریر کیا تھا جو ماہنامہ ’’تصوف‘‘ لاہور نے اپنی اشاعت جلد دوم شمارہ ۳،
۱۹۲۲ ء میں شائع کیا تھا اس کے چند اقتباسات ملاحظہ کیجیے:
’’بریلی کی اس بزرگ ہستی کے نام سے کون واقف نہیں جن کی تقریروں اور
تحریروں کی آواز صرف ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ افغانستان، عربستان اور
مغرب میں بھی آج تک بشور و زور گونج رہی ہیں۔‘‘
’’میں نے آپ کے حالات بابر کات کا یہ صرف ایک مختصر خاکہ قارئین کرام کی
خدمت میں عرض کیا ہے، کیونکہ آپ کے وصال کو آج ۱۰ مہینے کا عرصہ گزر چکا
ہے، لیکن کسی نے آپ کے حالات پر قلم نہیں اٹھایا۔‘‘
’’اتنا عرض کرنا ہے کہ ہندوستان کی خاک میں بھی ایسے عالم، ایسے فقیہ اور
ایسے مجددگزرے ہیں لیکن ہم ہیں کہ غفلت کے پردے ڈال کر ایسی نیند سوئے ہوئے
ہیں کہ ان کی اتنی چیخ پکار کا بھی ہم پر اثر نہیں ہوتا۔ ہماری بے قدری اور
لاپرواہی میں اس طور اس مبارک گروہ کے افراد یکے بعد دیگرے چلے جاتے ہیں
اور اسلامی دنیا کا یہ رنگ سوتا ہوا چلا جاتاہے۔‘‘
’’مسلمانی در کتاب مسلمان در گور‘‘ (ماہنامہ تصوف، ص ۱۷۔۲۱)
مولوی اللہ بخش فراق عقیلی ٹھٹھوی معروف مذہبی دانشور کایہ مضمون سالنامہ
معارفِ رضا ۱۹۸۲ء کے شمارے میں شائع ہوا تھا وہاں اسے تفصیل سے پڑھا جاسکتا
ہے۔
پاکستان کے قیام کے بعد امام احمدرضا بریلوی کے تلامذہ یا خلفا میں سے کوئی
بھی ہجرت کرکے کراچی تشریف نہ لاسکا، البتہ حضرت امام احمدرضا کے چھوٹے
پوتے حضرت حماد رضا خاں بریلوی ابن حضرت حامد رضا خان بریلوی غالباً ۱۹۵۰ء
کے بعد اپنی فیملی کے ساتھ کراچی Shift ہوئے تھے مگر ان کا جلد ہی انتقال
ہوگیا اور ان کی اولاد نے تعلیماتِ رضا کے فروغ میں کوئی اہم کردار ادا نہ
کیا۔ دوسری جانب امام احمدرضاکے تلامذہ اور خلفا کی اولاد نے قیام پاکستان
کے بعد کراچی کی طرف رخ کیا اس میں نمایاں نام حضرت علامہ عبدالمصطفیٰ
الازہری وقاری رضا المصطفیٰ اعظمی ابن مولانا مفتی امجد علی اعظمی، علامہ
شاہ احمدنورانی بن شاہ عبدالعلیم صدیقی اور مولانا مفتی ظفر علی نعمانی کے
نام نمایاں ہیں، جنھوں نے یہاں دارالعلوم امجدیہ رضویہ اور مکتبہ رضویہ
آرام باغ میں قائم کیا اور تعلیماتِ رضا کا فروغ شروع کیا۔ امام احمدرضا کا
ترجمۂ قرآن کنزالایمان پاکستان بننے کے بعد سب سے پہلے کراچی سے مکتبہ
رضویہ نے مفتی ظفر علی نعمانی کی سرپرستی میں شائع کیا۔ ساتھ ہی نعتیہ کلام
حدائق بخشش بھی شائع کیا اور مولانا امجد علی کی مشہور و معروف تصنیف بہارِ
شریعت بھی شائع کی۔۱۹۷۰ء کے بعد فتاوٰی رضویہ کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہوا۔
دوسری جانب اسی شہرِ کراچی میں تعلیماتِ رضا کے فروغ کے لیے دارالعلوم مخزن
العلوم جامع کلاتھ مارکیٹ کے عقب میں مولانا مفتی عمر نعیمی تلمیذ و خلیفہ
حضرت علامہ مولانا مفتی نعیم الدین مراد آبادی نے قائم کیا، جبکہ آرام باغ
کی جامع مسجد میں دارالعلوم مظہر یہ قائم کیا گیا، جو حضرت مفتی مظہر اللہ
کے صاحبزادے مفتی مظفر احمد دہلوی نے مولانا سردار احمد (فیصل آباد) کی
سرپرستی میں قائم کیا اور سلسلہ بڑھتا جلا گیا۔ اس کے بعد شمس العلوم
رضویہ، دارالعلوم حامدیہ رضویہ، قادریہ رضویہ، غوثیہ رضویہ وغیرہا۔
ان دارالعلوم کے علاوہ اور بھی اہلِ سنّت وجماعت کے متعدد دارالعلوم قائم
ہوئے، جہاں تعلیمات رضا کو فروغ حاصل ہوا۔ مثلاً جامعہ قادریہ، دارالعلوم
قمر الاسلام، دارالعلوم مجددیہ نعیمیہ وغیرہا۔ ساتھ میں امام احمدرضا کی
کتب کی اشاعت کے لیے مکتبہ رضویہ کے بعد مدینہ پبلشنگ کمپنی نے اور بعد میں
ادارہ تصنیفاتِ رضا نے ایک اہم کردار ادا کیا اور سب سے نمایاں کردار ۱۹۸۰ء
کے بعد ادارۂ تحقیقات امام احمد رضاکاہے، جس نے متعدد کتب عربی، فارسی،
اردو اور انگریزی زبان میں شائع کرکے تعلیماتِ رضا کو نہ صرف پاکستان بلکہ
بیرونِ پاکستان میں بھی فروغ دیا۔ یہ فروغ آج بھی جاری ہے اور اب نہ صرف
کتب کے ذریعے بلکہ Internet کے ذریعے ادارۂ تحقیقاتِ اور اہلِ سنّت کے
متعدد ادارے تعلیماتِ رضا کے فروغ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ امام
احمدرضا کی تعلیمات کو جن اہلِ قلم نے فروغ دیا ان میں کراچی میں سب سے بڑا
نام پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد نقشبندی مجددی دہلوی علیہ الرحمہ کا ہے،
جنھوں نے ۱۹۷۱ء سے امام احمدرضا پر لکھنا شروع کیا اور وصال تک لگ بھگ ۴۰
سال امام احمدرضا پر تحقیقی کام انجام دیا۔ نہ صرف خود قلم سے خدمت کی بلکہ
بیسیوں اسکالرز کو تیار کیا اور ان سے امام احمدرضا پر مقالات اور کتب
تحریر کرائیں۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد کی نگرانی میں ادارۂ
تحقیقاتِ امام احمدرضا نے ریسرچ کے سلسلے میں سب سے اہم کردار ادا کیا اور
جامعہ کراچی سے ہونے والےاب تک 5 Ph.D تھیسس میں بھرپور کردار ادا کیا۔
ادارۂ تحقیقاتِ میں نہ صرف پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد کے قلم کے
شاہکار منصۂ شہود پر آئے، بلکہ سید ریاست علی قادری، سید وجاہت رسول قادری
صاحبان کے قلم کے جوھر بھی سامنے آئے اور احقر نے بھی اس سلسلے میں ادنیٰ
سی خدمت انجام دی ہے ادارۂ کے علاوہ جن علما اور اسکالرز نے کراچی میں
رہتے ہوئے تعلیماتِ رضا کے فروغ کے سلسلے میں قلمی رشحات یاد گار چھوڑے ہیں
ان میں چند نمایاں نام مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ علامہ عبدالمصطفیٰ الازہری، ۲۔ مفتی ڈاکٹر سید شجاعت قادری،
۳۔ مفتی محمد وقار الدین قادری، ۴۔ پروفیسر سید شاہ فرید الحق قادری،
۵۔ علامہ سید شاہ تراب الحق قادری، ۶۔ مفتی محمد اطہر نعیمی،
۷۔ مفتی جمیل احمد نعیمی، ۸۔ مفتی محمد عمر نعیمی،
۹۔ علامہ شمس الحسن شمس بریلوی، ۱۰۔ مولانا شفع اوکاڑوی،
۱۱۔ علامہ کوکب نورانی ۱۲۔ علامہ محمد الیاس قادری رضوی وغیرہ۔
ان کے علاوہ بے شمار وہ علما جنھوں نے اپنے وعظ و نصیحت کے ذریعے امام
احمدرضا کی تعلیمات کو فروغ دیا اسی طرح نعت گوشاعروں نے بھی اہم کردار ادا
کیا اس لحاظ سے اگر ان شخصیات کے تذکروں اور کارناموں کے ساتھ اس کام کو
جمع کیا جائے تو راقم کے نزدیک کم از کم M.Phil کا مقالہ ضرور لکھا جاسکتا
ہے۔ اس لیے راقم تو نوجوان اسکالرز کو دعوت دیتا ہے کہ اس کام کو آگے
بڑھائیں ادارۂ تحقیقاتِ امام احمدرضا آپ کی بھرپور مدد کرے گا پھر اسی طرح
کے کام دیگر علاقوں میں بھی کیے۔ جائیں اور پھر عالمی سطح پر بھی کیے۔
جائیں تو یقیناً امام احمد رضا کی تعلیمات دینِ اسلام کے فروغ میں ایک اہم
ستون ثابت ہوں گی۔
|
|