دورِرسالت میں حضرت خالد بن ولیدرضی اﷲ عنہ کی مجاہدانہ سرگرمیاں قسط نمبر۵

حضرت خالد بن ولید رضی اﷲ عنہ نے پیغمبر اسلام ﷺکی ظاہری حیات میں جمادی الاول ۸ھ بمطابق ستمبر۶۲۹ء اردن میں جنگ موتہ،۸ھ بمطابق۶۳۰ء میں فتح مکہ،۸ھ بمطابق۶۳۰ء میں غزوۂ حنین،۱۵؍شوال ۸ھ بمطابق ۵؍فروری۶۳۰ء کوغزوۂ طائف،رجب ۹ھ بمطابق اکتوبر۶۳۰ء میں تبوک اور دومۃ الجندل کی مہمات اور ربیع الاول ۱۰ھ بمطابق جولائی۶۳۱ء میں نجران کی مہم سر کیں۔

حصارِ طائف میں حضرت خالد رضی اللّٰہ عنہ کامکالمہ:معرکۂ حنین میں ہوازن وثقیف کا لشکرجرارشکست سے دوچار ہوکرنخلہ،اوطاس اور طائف کی طرف بھاگ کھڑاہوا۔لشکرکی کثیر تعداد طائف کے مستحکم قلعوں میں مورچہ بندہونے کے لئے دوڑی۔ماہ شوال ۸؍ہجری میں سرکاردوعالم فداہ ابی وامی ﷺنے طائف کی طرف روانگی کاحکم فرمایا۔دفاعی نقطۂ نظرسے طائف کاشہر بہت مستحکم تھااس کے ارد گرد دوہری فصیل تھی۔طائف کے باشندوں نے جب دیکھاکہ اسلامی لشکر ان کے شہرکے قریب پہنچنے والاہے توانہوں نے عزم مصمم کرلیاکہ وہ ہرقیمت پر اپنے شہرکادفاع کریں گے اور مسلمانوں کے لئے اس شہر میں داخلے کوناممکن بنادیں گے۔ سرکار دو عالم ﷺ کو جب طائف کے قبیلۂ ثقیف کی جنگی تیاریوں کاعلم ہواتونبی کریمﷺنے اس کی سرکوبی کے لئے طائف کارخ کیا۔حضور پاکﷺنے اپنے سے پہلے حضرت خالد بن ولید کوایک ہزار مجاہدین کاکماندار بناکر طائف کی طرف پیش قدمی کاحکم دیا۔حضرت خالد رضی اﷲ عنہ نے طائف پہنچ کرقلعہ کے ایک کونہ میں اپنے خیمے نصب کردیئے۔قبیلۂ ثقیف کے جوان مسلح ہوکرقلعہ کی دیوار پرکھڑے ہوگئے۔حضرت خالد رضی اﷲ عنہ نے قلعہ کے اردگرد چکرلگایاتاکہ اس میں داخل ہونے کاکوئی راستہ دریافت کرسکیں۔جب کوئی راستہ نہ ملاتو آپ نے ایک طرف کھڑے ہوکربلندآواز سے قلعہ والوں کوپکاراکہ تم سے بعض آدمی قلعہ سے اترکرمیرے پاس آئیں تاکہ ہم باہمی مذاکرات سے کسی نتیجہ پرپہنچیں۔جب تک تمہارے آدمی ہمارے پاس رہیں گے ہم ان کی حفاظت کے ذمہ دار ہوں گے اوراگر تمہیں ہمارے پاس آنے میں کوئی عذر ہے تواسی شرط پر میں تمہارے پاس آنے کے لئے اور گفتگوکرنے کے لئے تیار ہوں۔تمہیں میری حفاظت کایقین دلاناہوگا۔انہوں نے کہا:نہ ہم سے کوئی آدمی آپ کے پاس بات چیت کے لئے آئے گااور نہ ہم آپ کواپنے پاس آنے کی اجازت دیتے ہیں۔انہوں نے کہا:اے خالد!آج تک تمہارے صاحب کوکسی ایسی قوم سے جنگ کرنے کااتفاق نہیں ہواجوجنگ کرنے میں مہارت رکھتی ہو۔پہلی دفعہ انہیں ہم سے برسرپیکار ہونے کاموقع ملاہے۔ہم انھیں بتائیں گے کہ جنگجوکیسے ہوتے ہیں اور میدان کارزار میں وہ اپنے مدمقابل کوکس طرح شکست سے دوچار کرتے ہیں۔حضرت خالد رضی اﷲ عنہ نے فرمایاکہ ان گیدڑ بھبکیوں کاکوئی فائدہ نہیں۔میرے آقامحمدمصطفیﷺ نے اس سے پہلے خیبر میں یہودکے قلعوں کوپاش پاش کرکے رکھ دیا۔اہلِ فدک کی طرف حضورﷺ نے صرف ایک آدمی بھیجاتوانہوں نے ہتھیار ڈال دیئے۔میں تمھیں اس ہولناک انجام سے ڈراتا ہوں جوبنی قریظہ کامقدر بنا۔پھرحضورﷺ نے مکہ پراپنی فتح کاپرچم نصب کیا۔اس کے بعد قبیلۂ بنی ہوازن کودندان شکن شکست دی۔تمہاری تو ان طاغوتی قوتوں کے مقابلے میں کوئی حیثیت ہی نہیں۔تم صرف ایک چھوٹے قلعہ میں سمٹ کربیٹھے ہو۔اگر رسول گرامی وقارﷺ تم پر حملہ نہ بھی کریں گے تواردگرد کے قبائل ہی تمہاری تکہ بوٹی کردیں گے۔حضرت خالد رضی اﷲ عنہ کوپہلے بھیجنے کے بعد رسول اکرمﷺ ۸؍ہجری ماہِ شوال میں بنفس نفیس طائف میں تشریف لائے۔(ضیاء النبیﷺ،ج۴، ص، ۵۲۱) اس محاصرے سے فائدہ یہ حاصل ہواکہ طائف کے نواحی قبائل مسلمان ہوگئے۔طائف کی فتح کوحضورﷺنے اسی وقت ضروری نہ سمجھ کروہاں سے مراجعت کی۔(تاریخ اسلام،جلداول،ص؍۲۱۰)

نجران میں حضرت خالد بن ولید کی دعوتی خدمات:ماہ ربیع الاول ۱۰؍ہجری میں پیغمبر اسلامﷺ نے حضرت خالد رضی اﷲ عنہ کوچار سو مجاہدین کاسالار بناکرنجران کی طرف بھیجاتاکہ بنوالحارث بن کعب کواسلام کی دعوت دیں۔حضورانورﷺ نے حضرت خالد رضی اﷲ عنہ کوحکم دیاجب وہاں پہنچیں توفوراً ان پر حملہ نہ کردیں بلکہ انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دیں۔صرف ایک مرتبہ نہیں بلکہ تین مرتبہ اسلام قبول کرنے کی دعوت دیں۔اگر وہ اسلام قبول کرلیں توان کوامن دے دیں اور وہاں سکونت پذیرہوں اور اس اثناء میں قرآن کریم اور سنّت نبوی کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اسلام کے بنیادی عقائد وفرائض کے بارے میں ان کوتلقین کریں۔لیکن اگر وہ تین بار اسلام قبول کرنے کی دعوت کے بعد بھی اسلام کوقبول کرنے سے انکار کردیں توپھر ان کے ساتھ جنگ کرنے کی اجازت ہے۔اہل نجران،نصرانی تھے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شریعت پر عمل پیراتھے۔حضرت خالد رضی اﷲ عنہ مدینۂ طیبہ سے روانہ ہوکرنجران کے علاقے میں پہنچے اور اپنے سواروں کے چھوٹے چھوٹے دستے بناکراس علاقے کے مختلف اطراف واکناف میں بھیجے تاکہ انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دیں۔جب ان حضرات نے مختلف آبادیوں میں پہنچ کراسلام قبول کرنے کی دعوت دی توان سب نے اسلام قبول کرلیا۔حضرت خالد رضی اﷲ عنہ یہاں کچھ عرصہ سکونت پذیر رہے اور حسب ارشادِ رسالت مآبﷺ ان کو قرآن کریم کی سورتیں یاد کراتے رہے۔حضورﷺ کی سنت مطہرہ پر ان کوآگاہ کرتے رہے اور دین اسلام کے بنیادی عقائد اور احکام پر عمل کرنے کی دعوت دیتے رہے۔حضرت خالد رضی اﷲ عنہ نے کامیابی کے ساتھ اس علاقہ کونورِاسلام سے منورکرنے کے بعد بارگاہِ رسالتﷺ میں ایک عریضہ ارسال کیاجس میں اپنی ساری سرگرمیوں کے بارے میں اطلاع درج کی۔سرکاردوعالمﷺ نے اس مکتوب کاجواب تحریر فرمایااور ان لوگوں کے اسلام قبول کرنے پراﷲ تعالیٰ کی حمدوثناء کی،پھرفرمایا:ان کو اﷲ کی رحمت کی بشارت سنائیں،اﷲ کی نافرمانی سے ڈرائیں۔جب بھی مدینہ واپس آؤ تو ان کاایک وفد اپنے ہمراہ لاؤ۔ حضرت خالد رضی اﷲ عنہ جب مدینۂ طیبہ حاضر ہوئے تو ان کاایک وفداپنے ہمراہ لائے جو ان کے رؤساء پر مشتمل تھا۔(ضیاء النبیﷺ،ج۴،ص؍۷۳۰)
Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 731545 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More