بے لگام این جی اوز کو لگام
(Raja Tahir Mehmood, Rawat)
نان گورنمنٹ
آرگنائیزیشن(NGO) کسی بھی ملک میں کسی بھی ناگہانی صورت حال میں وہاں کی
گورنمنٹ کا ہاتھ بٹانے اور اس مشکل صورت حال سے اس ملک کو نکالنے میں اہم
کردار ادا کرتی ہیں ملکی تاریخ کے سب سے بڑے اکتوبر 2008 زلزلے کے بعد ملک
بھر میں ہونے والی تباہی کو کنٹرول کرنے کے لئے ان این جی اوز کا کردار کسی
تعارف کا محتاج نہیں ہے اس وقت حکومت نے ان این جی اوز کو جس طرح ملک بھر
میں اپنے آپریشن آزادانہ طور پر سر انجام دینے کی سہولت دی وہ بھی سب کے
سامنے ہے اور اس وقت کی صورت حال کے مطابق شاید اس وقت ضرورت بھی یہی تھی
لیکن بعد ازاں وہی سہولت ناصرف پاکستانی عوام کے لئے بلکہ ملک کے لئے
انتہائی مہلک صورت اختیار کر گئی جس طرح کی صورت حال بنی اس پر سب سے پہلے
میڈیا نے آوازاٹھائی جو بعد ازاں پورے ملک کی آواز بن گئی اور حکومت کو اس
بارے میں خصوصی ایکشن لینا پڑا جب اس پر سوچ بچار کی گئی تو پتہ چلا کہ
دہشت گردی ، لاقانونیت اور دیگر کئی طرح کے مسائل کا مرکز و محور یہی این
جی اوز بن رہی ہیں۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان شاید اس بات کو اچھی طرح جان چکے تھے
کے اگر اس مرض پر بر وقت قابو نہ پایا گیا تو پھر ملک کو درست سمت میں لانا
مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہو گا سو اس طرف خصوصی توجہ دی گئی بے شک بہت
تاخیر کے بعد حکومت نے ملک میں کام کرنے والی این جی اوز کے حوالے سے ایک
درست اور قابل عمل پالیسی وضع کی ہے اس سے قبل کسی قسم کی کوئی پالیسی نہ
تھی اور این جی اوز اپنے اپنے ڈونرز کے ایماء اور فنڈز پر پاکستان میں آ
زادانہ کام کر رہی تھیں وہ کیا کر رہی ہیں یا کیا کروا رہی ہیں اس بارے میں
ان کو کھلی چھٹی تھی کسی نے ان سے پوچھا تک نہیں کہ پاکستان کی سر زمین پر
پاکستان کے مفادات کے خلاف کام کرنے ترغیب کس نے انھیں دی تھی چلیں جو دیر
ہوئی سو ہوئی اب بھی شکر ہے کہ حکومت کو اس بارے میں خیال آ ہی گیا سو
حکومت نے تین حصوں پر مبنی نئی پالیسی کا اعلان کیاہے وزیر داخلہ چوہدری
نثار علی نے اس پالیسی کا اعلان کرتے کہا کہ این جی اوز کی رجسٹریشن کے
معاملات وزارت داخلہ دیکھے گی بین الاقوامی این جی اوز کو حکومت کے ساتھ
مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کرنا ہوں گے این جی اوز حکومت کی اجازت کے بغیر
فنڈز جمع نہیں کرسکتیں ان کے مقام کا ویزا تبدیل نہیں کیا جاسکے گا ان کے
کام کی کری نگرانی ہو گی۔ تمام رجسٹریشن فارم آن لائن ملیں گے ان کی آن
لائن درخواست پبلک پراپرٹی ہوگی کسی بھی این جی اوز کے خلاف کارروائی ہوگی
تو وہ مشتہر ہوگی رپورٹس کے مطابق ملک میں بڑی بڑی نامی گرامی این جی اوز
کسی اجازت کے بغیر ملک کے طول و عرض میں کام کر رہی ہیں پہلے این جی
اوزاقتصادی امور ڈویژن کے ماتحت تھیں اس کی ذمہ داری تھی کہ ان کی مانیٹرنگ
کرتا مگر کچھ نہ ہواجس کی وجہ سے بہت سے مہلک اثرات سامنے آئے۔ جب سے یہ
وزارت داخلہ کے زیر کنٹرول آئی ہیں ان کے معاملات کو ایک دائرے میں لانے کی
کوشش کی گئی ہے غیر ملکی این جی اوز کو ملک میں تین سال تک کام کرنے کے لئے
ایم او یو سائن کرنا پڑے گا، چھ ماہ کے اندر این جی اوز رجسٹریشن کے لئے
درخواستیں دے سکتی ہیں ان کی مانیٹرنگ ہوگی جس علاقے میں کام کرنے کا
معاہدہ ہوگا اس کی سرگرمیاں بھی اسی علاقے تک محدود ہونگی عالمی این جی اوز
حکومت کی اجازت کے بغیر فنڈز اکٹھے نہیں کر سکیں گی جس مقصد کے لئے ویزا
ہوگا وہی کام کرنا ہوگا ویزا تبدیل نہیں ہوسکے گا کسی قسم کی غیر قانونی
سرگرمی کی ا جازت نہ ہوگی کالعدم تنظیموں کے ساتھ رابطوں کی اجازت نہ ہوگی
ایسا کرنے پر رجسٹریشن خود بخود منسوخ ہو جائے گی وزیر داخلہ نے این جی اوز
کے حوالے سے جو پالیسی وضع کی ہے اس میں قومی مفادات کو زبردست تحفظ دیا
گیا ہے ملکی تاریخ میں پہلی بار کسی نے اس اہم مسئلے کو ناصرف زیر بحث لایا
ہے بلکہ اس کو ایک دائرے میں لانے کے لئے خصوصی اقدامات بھی کیے ہیں اگر یہ
عمل ایک بار ریگولر ہو گیا تو بہت سے ایسے عوامل خود بخود ختم ہو جائیں گے
جن سے ملک دشمن عناصر فائدہ حاصل کر سکتے ہیں ۔
بلاشبہ چوہدری نثار علی خان وہ واحد قومی لیڈر ہیں جنھوں نے مغربی اقوام کی
آنکھوں میں انکھیں ڈال کر ایک مشکل کام سر انجام دینے کی کوشش کی ہے اس سے
پہلے جتنے بھی قومی لیڈر آتے رہے ہیں وہ تو مغربی اقوام کے ایک اشارے پر
اپنی پالیسوں کو ناصرف تبدیل کرتے رہے ہیں بلکہ ان کے کہنے پر پالیساں بنتی
اور ٹوٹتی رہی ہیں وفاقی وزیر داخلہ کے ایسے اقدامات کی بدولت شاید ماضی
میں بے لگام ہونے والی ان این جی اوز کو لگام ڈالی جا سکے ۔ |
|