حقیقت سے بھی بڑی حقیقت

کتاب سیرت رسول عربی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے صفحہ ۹۳پرہے کہ قریش کعبہ از سرنوتعمیرکررہے تھے کہ جب عمارت حجراسودکے مقام تک پہنچی توقبائل میں سخت جھگڑاپیداہوا۔ہرقبیلہ چاہتاتھا کہ ہم ہی حجر اسود کو اٹھا کر نصب کریں گے۔اس کشمکش میں چاردن گزرگئے اورتلواروں تک نوبت پہنچ گئی۔بنوعبدالداراوربنوعدی بن کعب نے تواس پرجان دینے کی قسم کھائی اورحسب دستوراس حلف کی تاکیدکے لیے ایک پیالہ خون بھرکراپنی انگلیاں اس میں ڈبوکرچاٹ لیں۔پانچویں دن سب مسجدحرام میں جمع ہوئے ابوامیہ بن مغیرہ مخزومی نے جوحضرت ام الموء منین کاوالداورقریش میں سب سے معمرتھا نے رائے دی کہ کل صبح جوشخص اس مسجدکے باب بنی شیبہ سے حرم میں داخل ہووہ ثالث قراردیاجائے ۔سب نے اس سے اتفاق کیا۔دوسرے روزسب سے پہلے داخل ہونے والے ہمارے آقائے نامدارصلی اللہ علیہ والہ وسلم تھے۔دیکھتے ہی سب پکاراٹھے یہ امین ہیں ہم ان پرراضی ہیں۔جب انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ والہ سلم سے یہ معاملہ ذکرکیاتوآپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک چادربچھاکراس میں حجراسودکورکھاپھرفرمایاہرطرف والے ایک ایک سردارکاانتخاب کرلیں اوروہ چاروں سرداردادرکے چاروں کونے تھام لیں اوراوپرکواٹھائیں اس طرح جب وہ چادرمقام نصب کے قریب پہنچ گئی توآپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضراسودکواپنے مبارک ہاتھ سے اٹھاکردیوارمیں نصب کردیا۔اوروہ سب خوش ہوگئے۔ اسی کتاب سیرت رسول کے صفحہ ۹۷ پر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مسلمانوں اوریہودمدینہ کے درمیان ایک معاہدہ تحریرفرمایا۔اس معاہدہ میں جوشرائط لکھی گئیں تھیں ان کاخلاصہ کچھ اس طرح ہے کہ خون بہااورفدیہ کاطریقہ سابقہ زمانہ کاقائم رہے گا۔ہردوفریق کومذہب کی آزادی ہوگی۔ایک دوسرے کے دین سے تعرض نہ کریں گے۔ہردوفریق ایک دوسرے کے خیرخواہ رہیں گے۔اگرایک فریق کوکسی سے لڑائی پیش آئے تودوسراس کی مددکرے گا۔اگرفریقین میں ایسااختلاف پیداہوجائے جس سے فسادکااندیشہ ہوتواس کافیصلہ خدااوراس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم پرچھوڑدیاجائے گا۔کوئی فریق قریش اوراس کے معاونین کوامان نہ دے گا۔اگرکوئی دشمن یثرب پرحملہ آورہوتوہردوفریق مل کراس کامقابلہ کریں گے۔اگرایک فریق کسی سے صلح کرے گاتودوسرابھی اس میں شامل ہوگا۔مگرمذہبی لڑائی اس سے مستثنیٰ ہوگی۔کتاب شان محمدصلی اللہ علیہ والہ وسلم کے درخشاں پہلوکے صفحہ ۸۶۱پرہے کہ سرورعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کفارکی ہرطرح کی حرکت سے بخوبی واقف تھے پھربھی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان کی جانب کوئی جارحانہ قدم نہ اٹھایا۔کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم توامن وسلامتی کے علمبردارہیں اورآپ صلی اللہ علیہ ولہ وسلم پہلے کوئی کارروائی کرنابھی نہیں چاہتے تھے۔رجب میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن حجش رضی اللہ عنہ کوطلب فرمایااورفرمایا کہ آپ رضی اللہ عنہ ایک مسلح سالاروں کی ٹولی لیں اورمقام نخلہ میں جاکرچھپ جائیں اوردشمن کی اطلاعات حاصل کریں۔اورسرورکونین صلی اللہ علیہ والہ وسلم کوان اطلاعات سے بروقت آگاہ فرمائیں۔سروردوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے سالارٹولی حضرت عبداللہ بن حجش رضی اللہ عنہ کوایک خط بھی دیااورفرمایااس کودودن کے سفرکے بعدکھولیں۔چنانچہ ہدایت کے مطابق حضرت عبداللہ بن حجش رضی اللہ عنہ نے خط کوکھولاتولکھاتھا کہ وادی نخلہ میں جاؤاورقریش کے گھات میں بیٹھو۔ابن اسحاق لکھتے ہیں کہ مکہ اورطائف کے درمیان نخلہ کی وادی جاؤاورقریش کی جاسوسی کرکے ان کے منصوبے وپلاننگ سے اسلامی دارالحکومت کوآگاہ کرو۔جس وقت حضرت عبداللہ بن حجش رضی اللہ عنہ قریش کی نقل وحرکت کاجائزہ لے رہے تھے ۔اسی وقت قریش کاایک چھوٹاساقافلہ جوکہ شام سے تجارتی معاملات حل کرکے آرہا تھا وہ قافلہ حضرت عبداللہ بن حجش رضی اللہ عنہ اوران کے دستہ کے قریب سے گزراتوغلطی سے انہوں نے اس پرحملہ کردیاجس کے نتیجے میں ایک معمولی سی جھڑپ ہوئی اورعمروحضرمی نامی آدمی جوکہ قریشی تھاماراگیانیزاس کے دوساتھیوں کومسلمانوں نے قیدی بنالیامسلمانوں کے ہاتھ کافی مال غنیمت لگا۔جس کولے کروہ مدینہ منورہ واپس آگئے اورواپسی پرحضرت عبداللہ بن حجش رضی اللہ عنہ نے سرورکونین صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ساراماجراعرض کردیا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس سارے ماجرے کوسن کرناپسندیدگی کااظہارکیااورناراض ہوکرفرمایامیں نے تمہیں ایساکرنے کی ہرگزاجازت نہیں دی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے وہ مال غنیمت لینے سے انکارکردیا۔اسی کتاب کے صفحہ دوسوچونتیس پرہے کہ اللہ نے اپناوعدہ سچاکردیااورسرداردوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کواس کاقبلہ واپس کردیااسلامی فوجیں جب مکہ کی دہلیزپرآئیں توسالارلشکرجرارحضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فتح کاسات نکاتی دستورمرتب فرماکراپنی فوجوں کے حوالے فرمایا اورحکم دیاکہ اس دستورپرسختی سے عمل کیاجائے وہ عالمی دستوراس طرح ہے ۔
۱۔ جوکوئی شخص ہتھیارپھینک دے اس قتل نہ کیاجائے
۲۔ جوکوئی شخص خانہ کعبہ کے اندرچلاجائے اس پرتلوارنہ اٹھائی جائے۔
۳۔جوکوئی شخص اپنے گھرکے اندربیٹھ جائے اس کی جان بخش دی جائے۔
۴۔جوکوئی آدمی ابوسفیان کے گھرمیں چلاجائے اس کوبھی امان ہے ،
۵۔ جوکوئی آدمی حکیم بن حزام کے گھرمیں داخل ہوجائے اس کوبھی تلوارکے وارسے بری قراردیاجائے ۔
۶۔ بھاگ جانے والے کاتعاقب نہ کیاجائے۔
۷۔زخمی پراپنی تلوارکے جوہرنہ دکھائے جائیں۔

وہ دستورجوسرداردوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ترتیب دیاتھا دراصل وہ امن وامان کادستورتھا۔اس دستورمیں انسانی خون کی حرمت کادرس ملتاہے۔جوکوئی اس دستورکی پابندی کرے گاوہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک عظیم انسان ہوگا۔شرط صرف اسلام ہے یہ سرداردوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شان ہی تھی کہ فوراًایک دستورمرتب کیااورعمل کرکے فاتحین کے لیے ایک روشن مثال قائم کردی۔اسی کتاب میں ہے کہ جب اہل کفرنے معاہدہ توڑتے ہوئے مسلمانوں کے حلیف قبیلے کے خلاف دوسرے گروہ کی حمایت کی ۔اورمسلمانوں کے گروہ کے کئی آدمی شہیدکرڈالے بجائے اس کے کہ اہل کفرشرمندہ ہوتے انہوں نے خودہی معاہدہ کے ٹوٹنے کااعلان کردیا۔ جس کوسن کرآپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے باقاعدہ مکہ پرچڑھائی کی تیاریاں شروع کردیں اوراپنے حضلیف قبائل کوبھی تیاری کاحکم دیااورجنگی تیاریوں کوآپصلی اللہ علیہ والہ وسلم نے خفیہ رکھا۔جب تیاریاں مکمل ہوگئیں تودس رمضان المبارک آٹھ ہجری کوآپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم دس ہزارکالشکرلے کرمکہ کی طرف روانہ ہوئے۔اس وقت اسلامی لشکرکے راہبرحضرت غالب بن عبداللہ رضی اللہ عنی مقررہوئے ۔آپ رضی اللہ عنہ اسلامی لشکرکومدینہ سے مکہ لے آئے ۔آپ رضی اللہ عنہ نے مسلمان لشکرکومکہ کی طرف مختصرترین راستہ بتایااورکامیاب راہبری فرمائی ۔اسلامی لشکرنے مکہ سے ایک منزل کی مسافت پرمرالظہران کے مقام پرقیام کیا۔قریش کومسلمانوں کی اچانک آمدکاپتہ چلاتوان کے اوسان خطاہوگئے۔ابوسفیان رات کے وقت تحقیق حال کے لیے نکلالشکراسلام کے چندسپاہیوں نے اسے گرفتارکرلیا۔اورحضورصلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں پیش کردیامسلمان اس کوقتل کرناچاہتے تھے۔مگرآپصلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے چچاحضرت عباس رضی اللہ عنہ کی سفارش پراسے معاف کردیااس حسن سلوک کایہ اثرہواکہ ابوسفیان فوراً مسلمان ہوگیا۔اگلے روزاسلامی فوج مکہ کی طرف روانہ ہوئی۔لشکراسلام کے سفراورجوش وولولہ کامنظردیدنی تھا۔مسلمانوں کے ہرقبیلہ کی فوج اپناجھنڈاتھامے بڑی شان سے آگے بڑھ رہی تھی سب سے آخرمیں انصارمدینہ کے دستہ کے ساتھ آپصلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف لے جارہے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس شان سے مکہ میں داخل ہوئے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ دس ہزارجاں نثارموجودتھے۔مکہ میں داخل ہوتے وقت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اعلان کرادیا کہ جوشخص ہتھیارڈال دے گا،یاحرم پاک میں پناہ لے گا، یاابوسفیان اورحکیم بن حزام کے گھرپناہ لے گایااپنے گھرکے دروازے بندرکھے گااسے امان دی جائے گی۔دنیاکی فاتح قوموں کاہمشہ سے یہ اصول رہا ہے کہ جب مفتوح علاقے میں داخل ہوتی ہیں۔تووہاں کی رعایا کی جان ومال ان کے رحم وکرم پرہوتی ہے اوروہ اسے جس طرح چاہیں تباہ وبربادکرسکتے ہیں۔لیکن جب اسلامی افوج فاتحانہ اندازمیں مکہ میں داخل ہوئیں توکسی شہری کوہاتھ تک نہیں لگایا۔کسی کافرکامال نہ لوٹاگیا۔آج تک اس حیرت انگیزحسن سلوک اوررواداری پردنیاانگشت بدندان ہے۔ اسی کتاب کے صفحہ ۹۳۲ پرہے کہ (فتح مکہ کے بعد) سب کواپنے جرائم کی سنگینی ستارہی ہے۔سرورکونین اوردوعالم کے قاضی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کعبہ سے باہرآتے ہیں سب دل دھڑکنابندکردیتے ہیں۔اب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کاحکم ہوگااوریہ سب مجرم اپناعدل حاصل کرلیں گے۔مگرادھرتومعاملہ اصل عدل وانصاف کاہے۔میرے آقاصلی اللہ علیہ والہ وسلم پھرمجرمین سے مخاطب ہوتے ہیں اورفرماتے ہیں
اے مکہ والو!تم آج اپنے ساتھ کس سلوک کی امیدرکھتے ہو؟انہوں نے کہاآپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ایک شریف بھائی ہیں اورکریم النفس بھتیجے ہیں۔
مخزن رحمت صلی اللہ علیہ والہ وسلم جوش میں آئے اورفرمایا۔
میں تم سے وہی کہتاہوں جوحضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے فرمایاتھا
آج تم پرکوئی الزام نہیں جاؤتم سب آزادہو۔
اسی کتاب کے صفحہ ۴۶۴پرہے کہ اللہ جل شانہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زبان مبارک میں بڑی مٹھاس ڈال دی تھی اسی موضوع پرراقم الحروف کے نعتیہ کلام عشق شناس کا مقطع کچھ یوں ہے کہ
صدیقؔ زبان مصطفی کے میٹھے میٹھے پھولوں جیسی
شہدمصری میں بھی پائی جاتی مٹھاس نہیں

اسی کتاب میں لکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کالہجہ بڑانرم تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اخلا ق بڑے اعلیٰ تھے۔ کسی کادل نہیں دکھاتے تھے۔ہرایک سے بڑی محبت اورپیارسے گفتگوفرماتے تھے۔چہرے مبارک پرہروقت دلنشین مسکراہٹ رہتی تھی۔جس کااثردیرپاتھا۔جوبھی آپصلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مسکراہٹ دیکھ لیتاتھا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کاشیدائی ہوجاتاتھا۔لوگ اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کوساحراورجادوگرکہتے تھے۔واقعی اللہ جل شانہ نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شخصیت پرکشش بنائی تھی۔جوبھی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہاں آتاتھاوہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کاہوکررہ جاتاتھا۔آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مسکراہٹ کمال کی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہرکسی کی خطاسے درگزرفرمایاکرتے تھے۔قریش مکہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کوبیس سال تک ستایا۔انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پرپتھرپھینکے کوڑاکرکٹ پھینکا،اونٹ کے اوجھ ڈالے،گالیاں دیں راستے میں کانٹے بچھائے،آوارہ لڑکوں کوآپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پیچھے لگادیاتاکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کوتکلیف دیں ۔گلاگھونٹا، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بیٹی کوزخمی کردیا۔آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے قتل کے درپے ہوگئے۔آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے وطن چھین لیا،کعبہ کاطواف نہ کرنے دیا۔مگرجب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے جانیدشمنوں پرقابوپالیاتویک جنبش قلم سے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان کی خطاؤں سے درگزرفرمایابلکہ ان کواعلیٰ مقام کاحامل ٹھہرایا۔ان کے گھروں کودارالامان قراردیا۔آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے بڑھ کردرگزرکرنے والاکوئی نہیں تھا(اورنہ ہے )

رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے دشمنوں سے کبھی بدلہ نہیں لیا۔کبھی کسی کوبدعانہیں دی۔جب بدلہ لینے کاوقت آیاتوسب کومعاف کردیا۔کفارمکہ کے مظالم خندہ پیشانی سے برداشت کیے۔ سرکاردوجہاں صلی اللہ علیہ والہ وسلم کاشعب ابی طالب میں اپنے خاندان کے ہمراہ پناہ گزیں ہونے اورطائف کاسفرکرنے کی دردناک داستانیں سن کرچودہ سوسال گزرجانے کے بعدبھی دل بھرآتا ہے آنکھیں نمناک ہوجاتی ہیں۔ چودہ صدیاں گزرجانے کے بعد غلاموں کی یہ کیفیت ہے جس رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ یہ قیامتیں گزریں ان کاعالم کیاہوگاتاہم کسی کوبددعانہیں دی۔ کسی سے شکایت نہیں کی۔جواپنے دشمنوں کوبھی معاف کردے اس رسول پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے بڑاامن پسنداورکون ہوسکتا ہے۔اس میں کوئی دورائے نہیں یہ بات حقیقت سے بڑھ کرحقیقت ہے کہ نبی اکرم نورمجسم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سب سے بڑے امن پسندہیں۔ ہم بھی سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اس درخشاں پہلوپرعمل کرتے ہوئے دوسروں کومعاف کرنا، کسی سے بدلہ نہ لینا،دوسروں کی غلطیوں سے درگزرکرناشروع کردیں تومعاشرہ آج بھی امن کاگہوارہ بن سکتا ہے۔ آئیے اس سال جشن عیدمیلادرسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم مناتے ہوئے یہ تہیہ کرلیں کہ آج کے بعدکسی کوتنگ نہیں کریں گے ،کسی کی دل آزاری نہیں کریں گے،کسی کامذاق نہیں اڑائیں گے،انتقام کی آگ سلگنے بھی نہیں دیں گے۔کسی کاحق غصب نہیں کریں گے۔
Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 407 Articles with 351116 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.