پاکستان کے اندرونی معاملات میں
بھارت کی مداخلت کے عمل کوسمجھنے کیلئےاس کے صحیح تاریخی پس منظر کا مطالعہ
ضروری ہے۔ پاکستان کے خلاف بھارت کے عناد کا اصل سبب ہندوستان کو متحد
رکھنے میں کانگریس قیادت کی کوششوں کی ناکامی تھا۔ہندوؤں کیلئے پاکستان کی
تخلیق دراصل بھارت ماتا کودولخت کرنے کے مترادف تھی۔اسی لیے انہوں نے تقسیم
ہند کے نظریے کوکبھی بھی دل سے قبول نہ کیا۔ ''اکھنڈ بھارت''کا خواب ہمیشہ
سے ان کااجتماعی آدرش رہاہے۔چنانچہ پاکستان میں پیدا ہونے والے ۱۹۷۱ء کے
بحران نے بھارت کو اپنی اس دیرینہ خواہش کی تکمیل کے لیے بہتر موقع فراہم
کیا۔ بھارت کو یقین تھا کہ ایسا موقع دوبارہ نہیں آئے گا۔ چنانچہ اس صورت
حال سے فائدہ اٹھانے کیلئے بھارت نے تمام مسلمہ اقدار کو خیر باد کہہ دیا۔
حقیقت یہ ہے کہ بھارت نے تقسیم کواس امید کے ساتھ قبول کیاتھاکہ پاکستان کی
نوزائیدہ ریاست حالات کامقابلہ نہیں کرسکے گی اورتھوڑے ہی عرصہ میں دم
توڑجائے گی۔ جواہرلعل نہرونے کہاکہ پاکستان کی تخلیق ایک عارضی اقدام ہے
اوریہ آخرکارمتحدہ ہندوستان پرمنتج ہوگی۔ جوزف کاربل سے گفتگو کرتے ہوئے
انہوں نے کہا کہ پاکستان ناقابل عمل مذہبی نظریے کی حامل قرون وسطیٰ کی ایک
ریاست ہے،ایک وقت آئے گاکہ بھارت کے ساتھ اس الحاق ضروری ہو جائے گا۔ آل
انڈیا کانگریس کمیٹی نے ۱۴جون۱۹۷۴ء کو ایسے ہی جذبات کا اظہار کرتے ہوئے
اپنی قراردارمیں کہاتھا کہ ہندوستان کی صورت گری اس کے جغرافیے،پہاڑوں
اورسمندروں نے کی ہے اورکوئی انسانی کوشش اس کی ہیئت میں تبدیلی نہیں
کرسکتی،نہ اس کی حتمی منزل کی راہ میں حائل ہوسکتی ہے۔ ہندوستان کاجونقشہ
ہمارے خوابوں کی سرزمین ہے وہ ہمارے دلوں اوردماغوں میں ہمیشہ زندہ رہے
گا۔آل انڈیاکانگرس کمیٹی دیانت داری سے یہ سمجھتی ہے کہ جب جذبات کایہ
طوفان کم ہوگا تو ہندوستان کے مسئلے کا اس کے صحیح پس منظرمیں جائزہ
لیاجاسکے گااوردوقوموں کے باطل نظریے کوکوئی حامی نہیں مل سکے گا۔آل
انڈیاکانگرس کمیٹی کی یہ قراردادپاکستان کے ہندوستانی رہنماؤں کے رویے
پرہمیشہ سایہ فگن رہی ۔اس قرارداد پرتقریرکرتے ہوئے مولاناابوالکلام آزادنے
کہا کہ تقسیم کے عمل سے صرف ہندوستان کانقشہ متاثر ہواہے لوگوں کے دل تقسیم
نہیں ہوئے اورمجھے یقین ہے کہ یہ تقسیم عارضی ثابت ہوگی۔ گاندھی نے
کہا:کانگریس پاکستان کی مخالف تھی اوروہ ان لوگوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے
ہندوستان کی تقسیم کی ثابت قدمی سے مخالفت کی ۔
مشرقی پاکستان میں فوجی کاروائی اورشیخ مجیب الرحمن کی گرفتاری پر بھارت نے
فوری ردعمل کااظہارکیا۔ بھارتی خوش تھے کہ ان کا دشمن پاکستان مصیبت میں
مبتلا ہے۔۲۷مارچ کوجب بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی نے سرکاری طورپربنگالیوں
سے اپنی ہمدردی کااظہارکیاتواُس وقت تک ایک بھی بنگالی مہاجرسرحدپارکر کے
بھارت نہیں پہنچاتھا۔بھارتی مداخلت کے پسِ پشت کارفرماعزائم اورجذبات کا
اظہار۲۷مارچ کولوک سبھا اورراجیہ سبھامیں اندرا گاندھی کے اس خطاب سے
ہوتاہے کہ:''مشرقی بنگال میں حالات بدل چکے ہیں ،ہم نے نئی صورت حال کوخوش
آمدیدکہا ہے،ہم حالات پرمسلسل نظر رکھے ہوئے ہیں اورہم نے ممکنہ حدتک رابطہ
قائم کررکھا ہے،معززارکان بخوبی سمجھتے ہیں کہ اس موقع پرحکومت کیلئے اس سے
زیادہ کہناممکن نہیں۔ میں ان فاضل اراکین کوجنہوں نے سوال کیاہے کہ
کیافیصلے بروقت کیے جائیں گے،یقین دلانا چاہتی ہوں کہ اس وقت ہمارے لیے اہم
ترین کام یہی ہے۔ اس مرحلے پر ہماراردِّعمل صرف نظری نہیں
ہوناچاہیے''۔مشرقی بنگال میں اپنی گہری دلچسپی کااظہارکرتے ہوئے انہوں نے
اس امرکااظہارکیاکہ بھارتی حکومت مناسب وقت پرعملی اقدامات سے گریزنہیں کرے
گی۔ وقت آنے پر اندراگاندھی نے اپنے الفاظ کوسچ کردکھایا۔
تقسیم کے بعدبھارتی حکومت نے پاکستان کی سالمیت اوریکجہتی کوگزند پہنچانا
تھی۔۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان کے دگرگوں حالات نے وہ زریں موقع فراہم کر دیا
جس کابھارت کوبرسوں سے انتظارتھا۔بھارتی پارلیمنٹ کے رکن سبرامنیم سوامی نے
پاکستان کے بارے میں بھارتی رویے کاتجزیہ کرتے ہوئے لکھا کہ حالات کے
معروضی مطالعہ سے ظاہرہوگا کہ بھارت نے پاکستان کومہاجرین کے مسئلے سے
نمٹنے کے لیے ٹکڑے ٹکڑے نہیں کیا۔یہ ایک لغو تصوّر ہے۔ بھارت نے پاکستان کے
خلاف جنگ کاآغازقوم پرستوں کی تشفی اوراس معقول نقطہ نظر کے پیش
نظرکیاتھاکہ پاکستان کی تقسیم بھارت کے طول المیعادمفاد میں ہے۔
بھارت نے پروپیگنڈہ کے محاذ پربھی پاکستان سے سبقت لے جانے میں کامیابی
حاصل کی۔اس نے صورت حال سے بھرپورفائدہ اٹھایااورغیرملکی پریس کی مددسے
خودکوبنگالیوں کے نجات دہندہ کے طورپرپیش کیا۔ بھارت کی بہترپروپیگنڈہ
مشینری کے علاوہ اورعوامل بھی پاکستان کیلئےکامیابی سے اپنا مؤقف پیش کرنے
کی مساعی میں رکاوٹ کا باعث بنے۔ ان میں سے بعض عوامل یہ تھے:
۱۔ بھارت سب سے بڑا ایشیائی جمہوری ملک تھا جبکہ پاکستان میں فوجی حکومت
قائم تھی۔
۲۔مغرب میں ذرائع ابلاغ کے بڑے حصے پر قابض صہیونی لابی نے بھارت کا کھل
کرساتھ دیا۔ تل ابیب(اسرائیل) نے مغربی دنیامیں بسنے والے اپنے پیرو کاروں
کو یہ پیغام بھجوادیا تھا کہ وہ بنگلہ علیحدگی پسندوں کی اخلاقی،مالی
اورمادی مدد کریں اوراس ضمن میں بھارت سے تعاون کریں۔
۳۔سیاسی مسائل کے حل کے لیے فوجی کارروائی کے خلاف عمومی نفرت پھیلائیں۔
۴۔عوامی لیگ کے رہنمائوں کے غیر ملکی نامہ نگاروں سے ذاتی مراسم اور سب سے
بڑھ کرفوجی حکومت کا غیرملکی نامہ نگاروں کے ساتھ غیردانش مندانہ سلوک
اورڈھاکا کی فوجی انتظامیہ کی طرف سے انہیں شہر چھوڑ دینے کاحکم''۔
غیر ملکی نامہ نگاروں کی ذاتی رنجش اورغصے کاعکس''فوجی کاروائی کے بارے میں
ان کی مبالغہ آمیز رپورٹنگ''میں بخوبی دیکھاجاسکتا ہے۔ جنرل ٹکا خاں کایہ
کہناغلط نہیں تھاکہ ''دنیا آج بھی سمجھتی ہے کہ آغازہماری طرف سے ہوا،یہ
تاریخ کے ساتھ سنگین مذاق ہے۔مجیب الرحمن بہرصورت طاقت کا مظاہرہ کرناچاہتے
تھےجس کے نتیجے میں جنم لینے والے تصادم میں بنگالی ہلاک شد گان کی
تعدادکوہزارفیصداوربعض اوقات اس سے بھی بڑھاکرپیش کیا گیا۔ مجیب الرحمن
کہتاہے کہ فوجی کارروائی کے دوران آبروریزی کے دو لاکھ۲۰ہزار واقعات وقوع
پذیر ہوئے، جبکہ ایک رومن کیتھولک تنظیم کے مطابق جس کا ذکر اخبارات نے
مناسب نہیں سمجھا،یہ تعدادچارہزارتھی جس میں ۹۵فیصدمکتی باہنی کے افرادملوث
تھے ۔فوجی کارروائی کے بعدعوام کے جذبات اس بری طرح بھڑک چکے تھے کہ عوامی
لیگ کی پروپیگنڈہ مشینری نے حق اورصداقت کودبادیا۔جذبات کایہ طوفان تھمنے
کے بعدغیرملکی اخبارات میں مشرقی پاکستان میں ہلاک شدگان کی مبالغہ
آمیزتعدادکے بارے میں تردیدی رپورٹیں شائع ہونے لگیں۔ ایسی ہی ایک رپورٹ
میں کہاگیاہے کہ''میں نے بنگلہ دیش کا تفصیلی دورہ کیا ہے اوریہی عوام
اوردیہی کارندوں سے بے شمار ملاقاتوں کے بعداس نتیجے پرپہنچاہوں کہ تیس
لاکھ افرادکی ہلاکت کادعویٰ لغو اورمبالغہ آمیز ہے۔بنگلہ دیش کی وزارت
داخلہ نے مارچ میں تحقیقات کی تو شہریوں نے پاکستانی فوج کے ہاتھوں
تقریباً۲ہزارافرادکی ہلاکت کی اطلاعات فراہم کیں’’۔
(جاری ہے) |