دسمبر اب بھی لہو لہو ہے!
(Faisal Azfar Alvi, Islamabad)
سولہ دسمبر 2014 ء کے خون آشام دن نے سقوط
ڈھاکہ جیسے جگر کو چھلنی کردینے والے واقعے کا غم بھی پسِ پشت ڈالنے پر
مجبور کر دیا، یہ وہ دن تھا جسے پاکستان کا ہر محب الوطن ، انسانیت سے
ہمدردی رکھنے والا شخص چاہ کر بھی کسی طور بھلا نہیں سکتا، ہاتھوں میں قلم
اٹھائے، بستے کمر سے لگائے، مستقبل کے سہانے خواب آنکھوں میں سجائے ننھے
پھول روٹین کی طرح مکتب عشق تشنگی مٹانے کیلئے گئے اور پھر تاریخ نے وہ دن
دیکھا جس میں اپنی ماؤں سے ماتھوں پر بوسہ لینے والوں نے انسانی روپ میں
چھپے درندے، بھیڑیوں کی گولیوں کو اپنے ماتھے کا جھومر بنایا، یہ ننھے پھول
اپنی تشنہ لبی ساتھ لئے اپنے خون سے گلشن کی آبیاری کرتے چکے گئے، شاید
شاعر نے انہی ننھے شہداء کیلئے لکھا تھا کہ
خون دل دے کے نکھاریں گے رخ برگ گلاب
ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے
130 سے زائد شہید ہونے والے نونہالان وطن نے آج میں رہنے والوں کے کل کو
محفوظ بنانے کیلئے قوم پر وہ احسان کیا جس کا بدلہ ہم رہتی دنیا تک دے نہیں
سکتے، خاک آلودہ، خون میں لتھڑی لاشوں کو دیکھ کر فلک شگاف چیخیں اور شہر
خموشاں کی خاموشی کو چیرتی ہوئی سسکیاں آج بھی کانوں سے ٹکرا رہی ہیں اور
وطن عزیز کے ہر شہری سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ اپنی بے حسی کی روایت کو قائم
نہ رکھنا، ہمیں اور ہماری قربانیوں کو بھول مت جانا، سولہ دسمبر 2014 ء کے
دن بجھنے والے چراغوں نے پورے ملک کو سوگوار کر دیا اور ایسا زخم دیا جو
شاید ہی قیامت تک بھر سکے، پشاور کے آرمی پبلک سکول میں پڑھنے والے ان ننھے
پھولوں نے ظالموں اور دہشتگردوں کے خلاف ایک بے ہنگم ہجوم کو قوم کی شکل
میں تبدیل کر دیا اور احسان پر احسان کرتے چلے گئے، قارئین کو یاد ہوگا کہ
سانحہ اے پی ایس کے بعد پاکستانی قوم میں مثالی یکجہتی دیکھنے میں آئی تھی
لیکن ہماری بد قسمتی کہ ہم اس یکجہتی کو برقرار نہ رکھ سکے، ہم ایک بار پھر
بھول گئے کہ یہ بکھراؤ اور ایک دوسرے سے الگ رہنا ہی سانحہ پشاور جیسے
واقعات کو جنم دیتا ہے اور دشمنوں کو موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ ہماری عدم
توجہی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے مذموم مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکیں،
اسی عدم توجہی و بے اعتنائی پر سانحہ اے پی ایس کے ایک ماہ بعد ہی اپنی
حالت دیکھتے ہوئے میں نے ایک شعر لکھا تھا کہ
اگر غیرت ہے کچھ باقی تو آنکھیوں کھول لو اپنی
وگرنہ روز ایسا اِک یہاں پر سانحہ ہوگا
اور مورخ نے لکھا کہ سانحہ اے پی ایس کے بعد روایتی بے حسی چشم پوشی نے
ہمیں ہولناک دہشتگردی کے مزید واقعات سے دوچار کیا، کوئی شک نہیں کہ ہم
مردی پرست قوم بنتے جا رہے ہیں اور ہر نئے ہونے والے سانحے کے بعد ایک نیا
عہد کرتے ہیں اور چند ہی دنوں میں اسے بھلا دیتے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں
کہ پاکستانی قوم کی جرات اور بہادری کی مثالوں سے تاریخ بھری پڑی ہے لیکن
ایسی جرات و بہادری کا کوئی فائدہ نہیں جس میں ہم بحیثیت قوم کردار ادا نہ
کر سکیں، ہماری ذہنی حالت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہم
ظالموں کو ووٹ دے کر کرسی اقتدار پر بٹھاتے ہیں اور انصاف فوج سے طلب کرتے
ہیں، ہمیں اس روش کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اور ہمارے پاس بہترین موقع ہے،
سانحہ اے پی ایس کو ایک سال مکمل ہو چکا ہے اور قوم کا دہشتگردی کے خلاف
جذبہ اور شہدائے اے پی ایس کا غم اپنے عروج پر ہے تو کیا ہی اچھا ہو کہ ہم
اپنے اس جذبے اور غم کو ایک مشن میں تبدیل کر دیں اور اسی پر چلتے رہیں،
سیکیورٹی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پاکستان آرمی سے تعاون کریں
اور اپنی صفوں سے کالی بھیڑوں کو نکال باہر کریں، دہشت گردی کیخلاف ہم سب
اپنا انفرادی فرض نبھاتے ہوئے ایک تاریخی کردار ادا کر سکتے ہیں، ہمیں ان
بچوں سے سیکھنے کی ضرورت ہے جو اپنے ساتھیوں کی قربانیوں کے بعد بھی دشمن
کے بچوں کو پڑھانے اور تعلیم سے ان کی سوچ اور ذہن کو تبدیل کرنے کی باتیں
کر رہے ہیں، ہمیں پاک فوج کے ان نوجوانوں سے سیکھنے کی ضرورت ہے جو اپنے
عزیز و اقارب سے میلوں دور ہماری نیند، سکون کی خاطر سینے پر گولیاں کھا
رہے ہیں،ہمیں سیاچن کی جان لیوا، جسم کو گلا سڑا دینے والی سردی میں ہمارا
مستقبل بچانے والے خدائی فوجداروں سے سیکھنے کی ضرورت ہے، ہمیں ضرورت ہے
اور ہمارا فرض ہے کہ ہم تمام شہداء کے خون کو ضائع نہ ہونے دیں، ایک قوم
بنیں ، آگے بڑھیں اور دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں۔
سانحہ اے اپی ایس میں شہداء کی قربانیوں کو تا دیر زندہ رکھنے کیلئے وزیر
اعظم میاں نواز شریف کی طرف سے خراج تحسین پیش کرنے کی ایک عمدہ مثال
دیکھنے میں آئی ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف نے اسلام آباد میں قائم 122 سے
زائد سکولوں اور کالجوں کے ناموں کو سانحہ اے پی ایس میں شہید ہونے والوں
بچوں کے ناموں پر رکھنے کی منظوری دے دی ہے اور دلچسپ بات یہ کہ سکولوں کا
نام شہداء کے ناموں پر رکھنے کی ابتداء تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کی
جانب سے کی گئی تھی اور وزیر اعظم کی جانب سے ننھے پھولوں کی قربانی کو دیر
تک یاد رکھنے اور ان کے قرض کو ادا کرنے میں اسی طرح کی یہ کاوش بہترین
ثابت ہو سکتی ہے، اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہم متاثرین اے پی ایس کی
قربانیوں کو کسی صورت لوٹا نہیں سکتے لیکن ان بچوں کے لواحقین کے غموں کا
کسی حد تک مداوا کرنے کی کوشش ضرور کر سکتے ہیں ، اسی سلسلے میں ایک اور
خوش آئند بات یہ دیکھنے میں آئی کہ آرمی پبلک سکول حملہ کے بعد 147 متاثرہ
خاندانوں کے 471 افراد کو عمرہ کروایا گیا،22 خاندانوں کے بچوں کو مفت
تعلیم دی جا رہی ہے،77بچوں کو کیڈٹ کالجز میں، 10بچوں کو میڈیکل کالج میں
داخلے دیے گئے،بچوں کو بیرون ملک علاج کی سہولیات دی گئیں،بڑی تعداد میں
بچوں کو انٹرنیشنل دورہ کرایا گیا، خیبر پختنونخواہ کی صوبائی حکومت بھی اس
معاملے میں پیچھے نہیں رہی اور صوبائی حکومت کی طرف سے 286 ملین روپے
متاثرین کی داد رسی کو دیے گئے،2ٹیچرز کو ستارہ امتیاز سے نوازا گیا‘142
سویلین شہداء کو فی کس 6 لاکھ اور ستارہ شجاعت دیے گئے،زخمیوں کو 4 لاکھ پر
پرسن کے حساب سے 29.2 ملین دیے گئے،101 سکولوں کو بچوں کے نام سے موسوم کر
دیا گیا،مزید 21 سکولوں کے نام بچوں کے ناموں پر رکھے جا رہے ہیں، پاکستان
آرمی کی جانب سے آرمی پبلک سکولز میں مختلف تقریبات کا انعقاداور بچوں کے
مورال کو بلند رکھنے میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہے، آئی ایس پی آر کی جانب
سے ریلیز کیا گیا نغمہ ’’مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے‘‘ نے بچوں سمیت
بڑوں اور بوڑھوں میں بھی ایک نئی روح پھونک دی ہے اور پاک فوج اس ضمن میں
دشمن کے بچوں کی سوچ، ان کا مستقبل بدل دینے کا ایک ایسا ڈاکٹرائن سامنے
لائی ہے جسے کسی صورت مات نہیں دی جا سکتی کیونکہ علم ایک روشنی ہے اور
روشنی کو پھیلنے سے روکا نہیں جا سکتا،، سانحہ اے پی ایس کی یاد میں اپنے
ایک قطعہ پر اختتام کروں گا کہ
دسمبر اب بھی لہو لہو ہے!
فلک سے آنسو ٹپک رہے ہیں
فرشتے بچوں کی پیشوائی
کی خاطر اظفر لپک رہے ہیں |
|