شہزادہ!

 چند روز قبل دو اضلاع کے درمیانی سڑک پر پولیس ہی پولیس تھی، اگرچہ یہ فاصلہ صرف سولہ کلومیٹر پر مشتمل تھا، تاہم پولیس نے اسے اپنے گھیرے میں لے رکھا تھا۔ مسافر ایک دوسرے سے استفسار کر رہے تھے اور کوئی اپنی تسلی کے لئے پولیس والوں سے معلومات لے رہا تھا۔ کچھ ہی دیر بھی دسیوں گاڑیوں پر مشتمل ایک قافلہ گزرا، جس میں بڑی اور لگژری گاڑیوں کے علاوہ پولیس کی گاڑیوں کے جھرمٹ میں ایک گاڑی تھی، جس کے دونوں طرف پولیس کے بڑے بڑے موٹر سائکل تھے، سائرن کی آواز ماحول کو مزید متاثر کن اور جذباتی بنا رہی تھی۔ یہ قافلہ گزر گیا، معلوم ہوا کہ مرکزی گاڑی میں تخت لاہور سے آیا ہوا، شہزادہ حمزہ تھا۔ بادشاہت کے دور میں گھر کے ہر فرد کی اہمیت ہوتی ہے، اسے وہی پروٹوکول دیا جاتا ہے جو بادشاہوں کے شایانِ شان ہوتا ہے۔ اس سے قبل قومی الیکشن کے موقع پر بھی یہ شہزادہ یہاں آچکا ہے، شہر بھر میں جہازی سائز کے پینا فیلیکس لگائے گئے تھے، شہر سے باہر سٹیڈیم میں پروگرام تھا، پروٹوکول تھا، سائرن کی گونج تھی، اور نعرے اور دعوے تھے۔ اب بھی یہ شہزادہ لودھراں کے قومی اسمبلی کے ضمنی الیکشن کی مہم کو گرمانے کے لئے لاہور سے خاص طور پر آیا تھا، اور خاص ہی طریقے سے آیا تھا۔

ضلع لودھراں میں قومی اسمبلی کے کل دو حلقے ہیں، ان میں سے ایک پر ضمنی الیکشن ہورہے ہیں، یہاں سے قومی الیکشن میں منتخب ہونے والے قومی اسمبلی کے ممبر کو نااہلی کا سامنا کرنا پڑ گیا تھا، یہ حلقہ ان چار معروف حلقوں میں سے ہے جنہیں تحریک انصاف نے کھولنے کے لئے کہا تھا اور بعد ازاں دھرنا بھی دیا تھا، کیونکہ یہاں سے جہانگیر ترین امیدوار تھے (اب بھی ہیں)۔ مذکورہ امیدوار کی نااہلیوں کی داستان طویل ہے، دھاندلی کا الزام بھی تھا اور تعلیمی اسناد کے جعلی ہونے کی کہانی بھی تھی، صدیق بلوچ نااہل ہوتے گئے اور اعلیٰ عدالتوں سے بحال ہوتے رہے۔ ان کی اسناد یقینا اصلی ہیں، کیونکہ وہ پورے بندوبست کے ساتھ بنوائی گئی ہیں، مگر تعلیم کے بارے میں وہ کچھ نہیں جانتے ، کیونکہ وہ انہوں نے حاصل نہیں کی۔ قومی الیکشن انہوں نے ضلعی سطح پر بننے والے’ ’شہید کانجو گروپ‘‘ کے پلیٹ فارم سے لڑا اور جیتا تھا، بعد میں وہ ن لیگ کے ساتھ مل گئے تھے، 23دسمبر کو ہونے والے الیکشن میں وہ ن لیگ کے ہی امیدوار ہیں۔ حمزہ شہباز بھی انہی کی حمایت کے لئے لودھراں آئے ہوئے ہیں۔

ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ حمزہ شہباز کو الیکشن کمیشن نے نوٹس جاری کردیا ہے، کہ وہ الیکشن کمیشن کے مرتب کردہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کر رہے ہیں، سات یوم میں اس بارے وضاحت کریں۔ الیکشن کمیشن کا ضابطہ اخلاق اگر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبران کو بھی انتخابی مہم سے روکتا ہے، تو پھر لاہو رکے حلقہ 122کی تو پوری مہم میں حمزہ شہباز پیش پیش تھے ، اگر یہ پابندی وزراء پر بھی ہے تو لاہور میں تو وفاقی وزراء نے دن رات ایک کر دیا تھا۔ سنا تو یہی جاتا تھا کہ وزیراعظم، وزیراعلیٰ وغیرہ پر انتخابی مہم کی پابندی ہے۔ بلدیاتی الیکشن میں بھی اس پابندی کا لحاظ کسی نے نہیں کیا، ممبران اسمبلی سے لے کر وزراء تک سب نے یہ مہم چلائی اور اپنے حمایت یافتہ امیدواروں کی کھل کر حمایت کی۔ وزراء کی جانب سے فنڈز تک بھی جاری ہوتے رہے، ترقیاتی کاموں کے وعدے بھی ہوئے۔ مخالفین نے الیکشن کمیشن کو درخواستیں بھی دیں، مگر ’نوٹس‘ اور ’وراننگ‘ کے سوا کوئی مسئلہ حل نہ ہوا۔

اپنے ضابطہ اخلاق کے بارے میں تو الیکشن کمیشن ہی بہتر جان سکتا ہے، مگر سرکاری پروٹوکول کے ساتھ کسی ایم این اے کا الیکشن مہم چلانا کیا ثابت کرتا ہے؟ کیا قومی اسمبلی کے ایک ممبر کو اس قدر استحقاق ہے کہ اس کے تمام راستوں پر پولیس تعینات کردی جائے، اس کی موومنٹ کے ساتھ پوری ضلعی مشینری بھی حرکت میں آجائے، کیا اس طرح حکومت ووٹر ز پر اثر انداز نہیں ہورہی؟ سیاسی جلسوں میں چونکہ مقررین کا سب سے زیادہ زور مخالف کو لتاڑنا ہوتا ہے، حمزہ شہباز نے کاغذ لہرا کر بتایا کہ جہانگیر ترین نے کروڑوں کے قرضے معاف کروائے ہیں۔ دوسری طرف جہانگیر ترین نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ میرے بارے میں جھوٹ بولا جارہا ہے، میں نے قرضے معاف نہیں کروائے، میں سب سے زیادہ ٹیکس دینے والا ممبر اسمبلی تھا۔ بہرحال جھوٹ سچ اپنی جگہ ، پاکستانی سیاست اور جمہوریت اپنی جگہ۔ اور یہ بھی سچ ہی ہے کہ ضروری نہیں کہ الیکشن میں کامیاب ہونے والا ہر فرد ہی سچا اور اچھا ہوتا ہے، اس کے مخالف غلط اور بُرے ہوتے ہیں۔ معاملہ چونکہ عوام کے ہاتھ میں ہوتا ہے، وہ جس ماحول کے زیر اثر ہوتے ہیں، ویسا ہی نتیجہ سامنے آتا ہے، تاہم اب شعور بہتر ہورہا ہے۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 429117 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.