اچھا ہواسشما سوراج پاکستان ہو آئیں

مودی سرکار میں یوں تو کسی وزیرا ورسفیر کی کوئی اہمیت نہیں رہ گئی ہے کہ سارے فیصلے پی ایم او میں ہونے لگے ہیں۔بقول پی چدمبرم محترم سفراء کی حیثیت ایونٹ منیجر کی رہ گئی ہے کہ وہ مودی کے غیرملکی دوروں کے موقعوں پر تاشے باجے کے ساتھ جلسوں اورملاقاتوں کابندوبست کردیاکریں اوروزیرخارجہ کی حیثیت ایک ریسکیو آپریشن آپریٹر (بچاؤ مہم آپریٹر )کی رہ گئی ہے۔ جہاں کوئی ہندستانی کسی غیر ملک میں پھنسا اورانہوں نے اس کو بخیرگھر لانے کا بندوبست کیا۔ (لیکن اس پر کسی کواعتراض نہیں ہونا چاہئے۔یہ اہم کام ہے جو سابقہ حکومتوں میں صرف اندرکمارگجرال نے کیا تھا جب وہ وزیر خارجہ تھے اورامریکا کی شہ پر عراق نے کویت پر قبضہ کرلیا تھا۔تب وہ خود جنگ زدہ خطے میں گئے اور ہزاروں ہندستانیوں کو بخیر نکال کرلائے ) بہرحال پارلیمانی جمہوری نظام میں کابینہ کا وجود ناگزیر ہے اوراس کابینہ میں محترمہ سشما سوراج وزیرخارجہ ہیں اوروہ اچانک پاکستان ہوآئی ہیں۔بہانا افغانستان پر ایک کانفرنس میں شرکت کا تھا۔

ان کے اس دورے سے متعلق جو خبریں ہم پڑھ سکے اورجو کلپنگس ٹی وی پر نظرآئیں، ان سے ظاہرہوتا ہے کہ محترمہ سشما سوراج نے میزبانوں کے ساتھ ملاقات میں نہایت شائستہ ہندستانی خاتون کی شبیہ پیش کی ہے۔سب سے جھک کرملیں۔ان کی وہ اکڑپھوں جو پاکستان کے تعلق سے ان کی شخصیت کا جزوبن گئی ہے، کہیں نظرنہیں آئی۔ ان کے ہاؤ بھاؤ سے محسوس ہوتا تھاکہ وہ واقعی دوطرفہ رشتوں میں تلخیوں کو کم کرنے کے ارادے سے اسلام آباد آئی ہیں۔نوازشریف کے گھران کی والدہ، بیٹی اورنواسی سے وہ بے تکلفی سے ملیں۔ان ملاقاتوں میں پنجابی زبان کی مٹھاس بھی شامل ہوگئی۔ سشما سوراج نے صحافیوں سے خطاب کیا تو ہندی کی جگہ صاف شستہ اردوکااستعمال کیا۔یہاں آکرکہہ بھی دیا، اردو ہماری بھی زبان ہے۔ وہاں سبز رنگ کی ساڑی زیب تن کی۔ ان سب سے ایک خوشگوار تاثرضرور پیدا ہوتا ہے۔ سفارت کاری میں صرف مکالمہ ہی اہم نہیں ہوتا،لب ولہجہ، ملاقات کا انداز اور لباس کا انتخاب بھی بولتا ہے۔ ہر امن پسند اورہندوپاک دوست کو اس پیش رفت کا خیرمقدم کرنا چاہئے ہرچند کہ یہ معلوم نہیں جو ابرابھی برسا ہے وہ اگلے لمحے آگ تو نہیں برسانے لگے گا۔ مودی جی کے دورحکومت میں پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات میں جو چیز سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے وہ یہ کہ اقدام میں تسلسل نہیں اور پالیسی کا کوئی متعین رخ نہیں۔ برسے توایسے کہ شرابور کردیا۔بگڑے تو ایسے کے قریبی دوستوں کو بھی ہلکان کردیا۔ وزیراعظم بنتے ہی نیپال کا دورہ کیا۔انعام واکرام کی بارش کردی۔ زلزلہ آیا تو رلیف کے سامان کا انبار لگادیا اور سردیاں آئیں تو بلا وجہ کی رکاوٹیں کھڑی کرکے ضروری رسد کی ترسیل میں رخنہ ڈال دیا جس سے وہاں کے عوام مشکلات سے گھرگئے۔گویا سب کیا کرایا خاک میں ملادیا۔ پاکستان کے ساتھ رشتوں میں بھی کئی مرتبہ رخ بدل چکا ہے۔ کل بروز منگل (15دسمبر)انہوں نے فوجی کمانڈروں کے درمیان کہا ہے کہ’’ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کااز سرنو آغازاس لئے کیا جارہا ہے کہ تاریخ کے دھارے کو بدلا جائے، دہشت گردی کا خاتمہ ہو،علاقے میں پرامن فضا قائم ہو، باہمی تعاون بڑھے، خوشحالی آئے۔‘‘ حیرت کی بات ہے کہ وزیراعظم کو یہ خیال اس وقت کیوں نہیں آیا جب انہوں نے خیرسگالی کے اس ماحول کو فلیتہ لگایا جو رسم حلف برداری میں نواز شریف کی شرکت سے پیدا ہوا تھا اورکیوں خارجہ سیکریٹری کو اسلام آباد جانے سے روک دیا تھا؟ کیوں اوفا اعلانیہ کے بعد سلامتی مشیر کی ملاقات میں رخنہ ڈالا تھا؟

انہوں نے اپنی اس خواہش کو بھی مشروط کردیا ہے اوریہ خیال نہیں رکھا کہ پاکستان سرکار کی بھی اپنی کچھ داخلی مجبوریاں ہوسکتی ہیں۔ اگرآپ اپنی ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دے سکتے توآپ کا پڑوسی کیونکر گوارا کرلیگا کہ آپ اس کی ناک پر مکھیوں کی یلغارکرادیں۔داخلی سیاسی مجبوریاں اس کے ساتھ بھی ہیں۔ ان کا لحاظ رکھنا ہوگا۔لازم زبان کو سنبھال کراستعمال کیا جائے۔ پرامن بقائے باہم ، اعتماد اورباہمی تعاون اورپورے خطے کی خوشحالی کا نشانہ اسی صورت پورا ہوگا جب دونوں فریق کچھ تکلیف بھی برداشت کرلینے پرآمادہ ہونگے۔ امن مذاکرات اورجنگ میں یہی فرق ہوتا ہے۔ہندستان سادھو سنتوں کا دیش ہے جو دوسروں کے آرام کے لئے خود تکلیف اٹھالیتے ہیں۔

پاکستان سے واپسی پر محترمہ سشماسوراج نے پارلیمنٹ میں جو بیان دیا ہے اس کے دونکات اہم اورقابل توجہ ہیں۔ اول انہوں نے کہا: ’’ ہم چاہیں گے کہ تخریب کارکسی نا کسی طرح مکالمہ کو رکوانا چاہتے ہیں، ہم ان سے provoke (مشتعل) نہ ہوں۔‘‘دوسری بات انہوں نے یہ کہی کہ مذاکرات باہمی اعتماد کے ماحول میں ہی آگے بڑھ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا ’’جب ہم نے یہ طے کرلیا کہ باہمی مسائل کو حل کرنے کے لئے کسی تیسرے فریق کے ثالثی یا مدد قبول نہیں کریں گے تو پھر دونوں ممالک کو بات چیت تو جاری رکھنی ہی ہوگی۔‘‘

مذاکرات کی کامیابی کے لئے ہرچندکہ یہ دونوں باتیں نئی نہیں ہیں، مگر سشماسوراج کی زبان سے سن کرایک گونہ خوشی ہوئی۔ان کے لہجہ میں خود اعتمادی نظرآئی۔ بس آرزو یہی ہے کہ حکومت ہند ان نکات کو اپنی ترجیحات میں شامل کرلے اوران پر ٹکی رہے۔ ان کا پہلا امتحان اس وقت ہوگا جب پاکستان کا کوئی وفد ہند آئیگا اوروہ اپنی پسند کے چند کشمیریوں سے ملاقات کرنا چاہے گا۔ یہ بات جگ ظاہر ہے کہ پاکستان جن کشمیریوں سے راہ ورسم قائم رکھنا چاہتا ہے وہ رائے عامہ کی نمائندگی نہیں کرتے۔ ان میں تو اتنی بھی سکت نہیں کہ بلدیاتی انتخابات میں ہی اپنے نمائندوں کو منتخب کراسکیں۔چنانچہ پاکستان کو یہ مشورہ ضرور دیا جانا چاہئے کہ ان لیڈروں سے بھی ملیں جو کشمیری رائے عامہ کی نمائندگی کرتے ہیں۔اچھا ہوگا کہ وزیراعلا کو مذاکرات کے دائرے میں رکھا جائے۔

ہماری حکومت کو بھی یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ کشمیری عوام میں اگر کوئی غم وغصہ ہے تو وہ ہماری اپنی پالیسیوں کی بدولت ہے کہ ہماری روش ان کے ساتھ ایسی نہیں رہی جیسی اپنے ملک کے شہریوں کے ساتھ ہونی چاہئے۔ آج کشمیری نہ خود کو کشمیر میں محفوظ پاتے ہیں اور ملک کے دوسرے حصوں میں۔کشمیریوں کے خلا ف نفرت ، حقارت، عداوت کی اس ملک گیر فضاکے بنانے میں سنگھ اوربھاجپا کے کیڈر کابہت بڑا رول ہے۔ مودی کی سنگھی سرکار کو اس کی فکرکرنی چاہئے۔سرینگر جاکر تقریر کرلینے سے اورنوٹوں کی جھپکی دکھانے سے بات نہیں بنے گی۔کشمیری عوام کو دولت کی نہیں، جان مال، عزت آبرو اورخوشحال مستقبل درکار ہے۔ اگر پڑوسی ملک کے ساتھ مذاکرات کی پیش رفت کے لئے اعتمادکی فضا درکار ہے تو مذاکرات کو بامقصدبنانے کے لئے کشمیر میں امن اور خوشحالی کے لئے بھی یہ لازم ہے کشمیری عوام میں اعتماد بحال کیا جائے ۔پورے ملک میں ان کے لئے قبولیت اورمرحمت کی فضا بنائی جائے۔ بیرون کشمیر جو درجہ وہاں کے پنڈت بھائیوں کو مل گیا ہے، جس طرح وہ بے خوف وخطرملک میں کہیں بھی آجا سکتے ہیں، بس سکتے ہیں، اسی طرح کی فضااورماحول دیگرفرقوں کو بھی میسرآنا چاہئے۔ دہشت گردی کی مارصرف پنڈت بھائیوں پر ہی نہیں پڑی، ان کے پڑوسی مسلمانوں پر بھی پڑی ہے اوران سے شدید پڑی ہے۔ سیاست دانوں اورمیڈیا نے ان کے خلاف خوف اورنفر ت کا ایسا ماحول بنادیا ہے کہ ان کورہنے کو گھرنہیں مل سکتا، ہوٹلوں میں قیام نہیں کرسکتے اور کہیں سکون کے ساتھ پھل فروشی تک نہیں کرسکتے۔ پولیس کے لئے وہ آسان چارہ بن گئے ہیں جن کو وہ اپنی کارکردگی دکھانے کے لئے آلہ کار بنا لیتے ہیں۔

اعتماد کی فضا بنانے کے لئے قول وفعل میں یکسانیت اورموقف میں استقلال بھی درکار ہے ۔ یہ عنصر مودی کی پاکستان پالیسی میں دوردور تک نظرنہیں آتا۔ مثال کے طور پر انہوں نے ایک جلسے میں کہا: ’’دہلی سرکار عوام کو اندھیرے میں رکھ کر پاکستان سے سودے بازی کررہی ہے۔‘‘(12دسمبر2012)۔ پاکستان کی فوج ہندستانی سپاہی کا سرکاٹ کر لیجاسکتی ہے، لیکن دہلی سرکار پروٹوکال کے نام پر پاکستانی وزیراعظم کی تواضع چکن بریانی سے کررہی ہے‘‘ (26 ستمبر 2013)۔ انتخابات میں اپنی کامیابی کی پوری امید کے دوران 8مئی 2014کو انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا: کیا ایسی صورت میں جامع مذاکرات ممکن ہیں جب کہ بم دھماکے ہورہے ہوں اور گولیاں چل رہی ہوں۔‘‘ آج جو مقاصد وہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی بحالی کے گنوارہے ہیں وہ ان کواس وقت کیوں بھول جاتے تھے جب پوپی اے بھی انہیں مقاصد کے تحت آگے بڑھنے کی کوشش کررہی تھی؟ان کے سابقہ بیانات پر غورکیجئے، ان میں وہ عنصر نظر نہیں آتا جو بین اقوامی امور میں کسی سنجیدہ سمجھدار سیاست کار کے بیانات میں ہونا چاہئے۔ یہ سب انتخابی نعرے ہیں جو اپنے ووٹ بنک کو خوش کرنے کے لئے دئے گئے۔ان سے فضامسموم ہوتی ہے اور اگر کسی بیرونی دباؤ میں آپ بات کرنا چاہتے ہیں عوام کو ہی نہیں وزارت خارجہ اور داخلہ کے حکام کو بھی اندھیرے میں رکھ کراس طرح کی جاتی ہے جس طرح بنکاک میں حال ہی میں ہوئی۔ مودی جی اورسشما جی کی اور ان کی نظریاتی ماں آرایس ایس کی یہ ذمہ داری ہے کہ عوام کے ذہنوں میں انہوں نے پچھلی چھ ، سات دہائیوں سے پاکستان کے خلاف اورکشمیر کے اکثریتی فرقہ کے خلاف جوزہرگھولا ہے ،اس کو ختم کیا جائے۔ 56انچ کی چھاتی اور لوک سبھا میں تاریخی اکثریت نے بھی کیااتنا اعتماد پیدا نہیں کیا ہے کہ عوام سے کہہ سکیں ملک ، قوم اوراس پورے خطے کے مفاد میں ہمیں پاکستان سے مفاہمت کرنی ہے، چاہے کچھ نقصان ہی اٹھانا کیوں نہ پڑے۔ ہندستان نے ابھی حال میں بنگلہ دیش کے ساتھ محصورعلاقوں کے تبادلے کا جو معاملہ کیا ہے آخر اس میں بھی ہندستان کو اپنی کچھ زیادہ آراضی چھوڑنی پڑی ہے۔ لیکن پڑوسی کے ساتھ اچھے رشتوں کے لئے یہ گھاٹے کا سودا نہیں۔

محترمہ سشما سوراج کے کچھ غیرسنجیدہ اور اشتعال انگیز بیا نات کا حولہ دیا جاسکتا ہے۔اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے وہ ہمیشہ ہند پاک مفاہمت کی کوششوں کی شدید نکتہ چینی کرتی رہیں۔ ایک بارانہوں نے کہہ دیا کہ اگر پاکستانی فوج ہمارے ایک سپاہی کا سرقلم کرکے لے گئی ہے توہم کو اس کے 30سپاہیوں کے سر قلم کرکے لے آنے چاہئے۔‘‘بہت دنوں تک بھاجپائی لیڈر یہ اصرار بھی کرتے رہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کی تربیت گاہوں کو نشانہ بنایا جائے۔ ان کی پارٹی کے وزیراورایم پی پاکستان کو اب بھی گالی کے طور استعمال کرتے ہیں۔ جب جی چاہا، جس کو جی چاہا کہہ دیا، پاکستان چلے جاؤ۔ ان کو شرم نہیں آتی یہ کہتے ہوئے۔ دوسروں کو تو بتاتے ہو پاکستان چلے جاؤ، یہ بتاؤ کہ تمہار ا بھی کوئی دوسرا ٹھکانا ہے؟

اعتماد کی بحالی کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ پاکستان کے تئیں پالیسی کے خطوط متعین ہوں۔ ان میں استحکام واستقلال ہو۔ انتخابی مہم کے دوران پاکستان کے خلاف مودی نے بہت کچھ کہا اورنازیبا انداز میں کہا ۔ لیکن جب حلف برداری کا وقت آیا تو انہوں نے دیگر سارک لیڈروں کے ساتھ نواز شریف کو بھی مدعو کرکے سب کو چونکادیاتھا۔ہم نے کہا چلو انتخابی بیانات کی تلخی مٹ جائیگی اور آغاز اچھا ہوگا کہ انجام اچھا ہو۔ لیکن چند ہی ماہ بعد جب خارجہ سیکریٹڑی کے پاکستان جانے کا موقع آیا تو وزارت خارجہ میں پاکستانی امور کے ماہرین کو سنے بتائے بغیر مذاکرات کو منسوخ کردیا گیا۔ چند ماہ بعد پی ایم صاحب نے پھرپلٹی ماری اورجولائی میں روس میں نواز شریف سے خودملاقات کی۔ مشترکہ اعلانیہ بھی جاری کردیا گیا۔ اس کے تحت جب پاکستان کے مشیرقومی سلامتی دہلی آنے والے تھے تو ایسی سخت باتیں کہی گئیں کہ یہ ملاقات ملتوی ہوگئی۔ اس کے چار ہی ماہ بعد فرانس میں پھر کچھ نیا کرنے کی سوجھی اورگپ چپ بنکاک میں بشمول خارجہ سیکریٹریز سلامتی مشیروں کی بھرپوراعلاسطحی میٹنگ ہوگئی۔دو ہی دن بعد سشما سوراج کو بھی اسلام آباد جانے کی ہری جھنڈی مل گئی۔اور جامع مذاکرات کے احیا کا اعلان ہوگیا۔ اس تلون مزاجی کا کوئی جواز نہیں۔ لیکن اس کے باوجود اگرہماری وزیرخارجہ کو یہ احساس ہے کہ اعتماد کی فضا میں ہی بات چیت بارآور ہوسکتی ہے تو پھر وزیراعظم کو بھی محتاط ہونا پڑیگا اور دونوں ملکوں کے درمیان میڈیا کے بجائے تبادلہ خیال ، شکوے شکایت سفارتی سطح تک محدود رکھنے ہونگے۔ وزیراعظم صاحب کی مشکل یہ ہے کہ وہ ازدواجی زندگی اورخاندانی معاملات سے پلا جھاڑے بیٹھے ہیں، جن میں آدمی ایڈجسٹ کرنا سیکھتا ہے۔ مگرسشما جی توپریوار میں رہتی ہیں۔ وہ جانتی ہیں کہ بعض اوقات کوئی ایسی بات بھی بخوشی گواراکرنی پڑتی ہے جو اپنے مزاج کے خلاف ہوتی ہے۔ہم توبس آرزو ہی کرسکتے ہیں ہند اور پاکستان کے نادان بدخواہوں کو اﷲ عقل دے۔ ان کے ظرف میں وسعت دے کہ ہم بقول اٹل بہاری باجپئی اپنا دوست تو بدل سکتے ہیں، پڑوسی نہیں۔ آر ایس ایس کو بھی اب تسلیم کرلینا چاہئے کہ پاکستا ن ایک حقیقت کے اوراس کووجود بخشنے میں اکثریتی فرقہ کے نادانیوں کو بڑا کردار رہا ہے۔

چار اموات
گزشتہ ہفتہ ہمارے محترم دوست ماسٹر فضل عالم صاحب، سابق پرنسپل اینگلو عربک کالج کا انتقال ہوگیا۔ وہ ضعیف العمر تھے اورعرصہ سے علیل تھے۔زائد از تئس سال سے ہمارے پڑوسی تھے ۔ نہایت حوصلہ مند،مقبول اورکھرے انسان تھے۔ پختہ نمازی اورمسجد کی خدمت میں ہمیشہ مستعد۔ صدمہ کی تاب نہ لاکراسی دن ان کے صاحبزادی کا بھی اچانک انتقال ہوگیا۔وہ ذیابیطس کی مریضہ تھیں۔ دونوں کے جنازے ساتھ اٹھے۔ تدفین ان کے وطن سیوال میں ہوئی۔چندروز قبل دہلی کی ایک اورمعروف سماجی شخصیت ماسٹر فریداحمد صاحب کا 51سال کی عمرمیں انتقال ہوگیا وہ غیرشادی شدہ تھے۔11؍دسمبر کو اس کالم نویس کے چچازاد بھائی اوربچپن کے ساتھی سید اعجازالحق اچانک فوت ہوگئے۔ تدفین آبائی وطن جوہری ضلع باغپت میں ہوئی، جہاں وہ نو سال قبل ریٹائرمنٹ کے بعد بس گئے تھے۔انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔ اﷲ ان سب کی مغفرت فرمائے اورپسماندگان کو صبر جمیل عطافرمائے۔آمین۔
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 162439 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.