کاش میں بھی اس طرح کہہ سکتا
(Saleem Ullah Shaikh, Karachi)
اس میں تو کوئی دو رائے نہیں ہے کہ
کراچی میں ہونے والے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں جماعت ِ اسلامی اور تحریک
ِ انصاف کے اتحاد کو بری طرح شکست سے دو چار ہونا پڑا۔ 210یونین کونسلوں
میں سے اس اتحاد کو محض 17یا 18نشستیں ملی ہیں۔ یہ انتہائی بری شکست ہے۔
لیکن کیا شکست کا مطلب یہ ہے کہ انتخابات کو بالکل شفاف قرار دے دیا جائے؟
کاش میں بھی گھر بیٹھے ٹی وی دیکھ دیکھ کر جو کچھ ذرائع ابلاغ بتاتے رہے اس
کے مطابق مضامین لکھ سکتا، کاش میں بھی میدان ِ عمل میں اترے بغیر ڈرائنگ
میں بیٹھ بیٹھ کر تبصرے تجزیے کرسکتا۔
لیکن میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں صرف ایک لکھاری نہیں ہوں بلکہ ایک کارکن بھی
ہوں۔12مئی 2004 کو ضمنی انتخابات کے موقع پر لوگوں کو ٹی وی کے ذریعے پتا
چلا کہ شہر میں ہنگامے پھوٹ پڑے ہیں اور 12سے زیادہ افراد جاں بحق ہوچکے
ہیں، لیکن میں اس وقت ٹی وی کے سامنے نہیں بلکہ انتخابی کیمپ میں موجود تھا
، میں تجریے اور تبصرے سننے کے بجائے بطور پولنگ ایجنٹ پولنگ اسٹیشن کے
دورے کررہا تھا۔12مئی 2007کو جب لوگ ٹی وی پر قتل و غارت گری کے مناظر دیکھ
رہے تھے، میں ان مناظر کا عینی شاہد تھا، میں ان مناظر کا حصہ تھا، میں گھر
میں بیٹھنے ے بجائے چھوٹی چھوٹی گلیوں اور ذیل سڑکوں سے ہوتاہوا ریلی میں
پہنچنے کی جدوجہد کررہا تھا۔حالیہ انتخابات میں بھی گھر بیٹھے ووٹنگ کی
صورتحال دیکھنے کے بجائے انتخابی کیمپ میں موجود تھا، بحیثیت امیدوار وائس
چئیر مین میں پولنگ اسٹیشنز کے دورے کررہا تھا، اور ان پولنگ اسٹیشنز پر
ہونے والی بد عملی اور دھاندلیوں کا عینی شاہد رہا ہوں۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایم کیو ایم انتخابات جیت چکی ہے۔ لیکن اس جیت کے
بعد اپنے گھروں میں ٹی وی دیکھنے کر تجزیے اور تبصرے کرنے والوں نے ایسا
تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی گویا کہ پورا شہر متحدہ قومی موومنٹ کی پشت پر
کھڑا ہے۔حالانکہ ایسا نہیں ہے۔بحیثیت ایک کارکن اور امیدوار وائس چئیر مین
میں نے اپنے حلقے کے80سے 85فیصد علاقے میں گھر گھر جاکر رابطہ کیا۔ایک ایک
دروازہ کھٹکھٹایا، ہینڈ بل بانٹے، لوگوں سے بات چیت کی۔اور یہی سب کچھ
ڈسٹرکٹ سینٹرل میں ہمارے دیگر ساتھیوں نے بھی کیا، اس لیے میں ان تجزیوں سے
متفق نہیں ہوں۔
انتخابی مہم کے حوالے سے سب سے پہلے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ رینجرز کے
اقدامات کے باعث ایک طویل عرصے بعد ایسے انتخابات منعقد ہوئے جس میں تمام
پارٹیوں کو اپنی مہم چلانے کا موقع ملا ، اکا دکا واقعات ضروربد امنی کے
ہوئے لیکن مجموعی طور پر یہ انتخابات پُر امن ماحول میں منعقد ہوئے اور اس
کا سارا کریڈیٹ رینجرز کوجاتا ہے۔ ہمارے علاقے میں متحدہ قومی موومنٹ ،
جماعت اسلامی جے یو پی، آل پاکستان مسلم لیگ، پیپلز پارٹی مد مقابل تھے۔ ان
تمام پارٹیوں میں سے جماعت اسلامی اور متحدہ نے انتخابی مہم بھر پور انداز
میں چلائی۔ جبکہ دیگر جماعتوں کی مہم پول بینرز تک محدود رہی۔ متحدہ قومی
موومنٹ نے رابطہ عوام کے لیے خواتین ونگ کو فعال کیا۔جبکہ الیکشن کیمپس میں
نوجوانوں کی ذمہ داریاں لگائی گئیں، اس کے علاوہ کارنر میٹنگز کا انعقاد
کیا گیا۔ جماعت اسلامی نے بھی بھر پور رابطہ مہم چلائی، گھر گھر رابطے کیے،
مساجد میں ہینڈل بلز بانٹے، پوسٹرز اور بینرز لگائے، اور کارنر میٹنگز کیں
۔
حلقے کے ایک بڑے حصے میں ہمارے لگائے گئے پوسٹرز ’’نامعلوم ‘‘ افراد نے
پھاڑ دیئے۔حلقے کے لوگوں نے ہمیں ان ’’نامعلوم ‘‘ افراد کی نشاندہی بھی
کردی تھی، اس کے علاوہ پول بینرز کو منظم طریقے سے ہٹایا جاتا رہا، یعنی
ایک ساتھ سارے بینرز پھاڑنے کے بجائے نامعلوم افراد روز انہ رات کو پانچ
چھے بینرز اتار دیتے تھے، اسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ الیکشن والے دن تک دوسو
بینرز میں سے صرف کوئی پچیس تیس بینرز ہی باقی رہ پائے، جو ابھی تک موجود
ہیں۔جیسا کہ میں نے بتایا کہ ہم نے حلقے کے 80سے 85فیصد ایریا میں گھر گھر
رابطے کیے تھے۔ بچ جانے والے تقریباً15سے 20فیصد ایریا میں سے ایک ایریا
میں ہم وقت کی کمی کے باعث رابطہ نہ کرسکے، جب کہ ایک ایریا میں ہمیں
مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، وہاں جب ہم پہنچے تو ہینڈبلز کی تقسیم کے دوران
ہی ایم کیو ایم کے کارکنان وہاں جمع ہوگئے، پہلے تو صرف طنزیہ جملے کسے
جاتے رہے لیکن پھر آہستہ آہستہ ان کا رویہ جارحانہ ہوتا چلا گیا ، اس وجہ
سے ایریا میں ہم کوشش کے باجود رابطہ نہ کرسکے۔
الیکشن سے ایک دن پہلے جب انتخابی عملہ پولنگ اسٹیشنز پر پہنچا تو متحدہ کے
کارکنان و امیدواران رات ہی سے ان سے رابطے میں تھے، بلکہ ایک رات سے ہی ان
لوگوں کی پولنگ اسٹیشنز پر آمد و رفت جاری تھی۔میڈیا پر یہ خبر بھی سنی کہ
رینجرز کو مجسٹریٹ کے اختیارات دیئے ہیں، رینجرز پولنگ اسٹیشنز پر بھی
تعینات ہونگی لیکن عملی طور پر ایسا نہیں تھا۔عملی طور پر رینجرز نے صرف
امن و مان برقرار رکھنے کی ذمہ داری پوری کی ، ہاں عزیز آباد کے پولنگ
اسٹیشنز پر رینجرز کی نگرانی زیادہ رہی اور وہاں رینجرز کا گشت بھی زیادہ
تھا لیکن دیگر علاقوں میں ایسا کچھ نہیں تھا۔پولنگ والے دن کے آغاز میں
رینجرز نے پولنگ اسٹیشنز پر ایک چکر لگایا اور اس کے بعد صرف باہر ہی گشت
لگاتے رہے۔
پولنگ والے دن صبح 10بجے کے بعد سے ہی متحدہ کے کارکنان نے اپنی کارروائیاں
شروع کردی تھیں۔مہر لگانے کے لیے مخصوص جگہ پر جانے کے بجائے پولنگ افسر کے
سامنے ہی بیلٹ پیپر پر ٹھپے لگائے جاتے رہے۔ پولنگ اسٹیشن کے دروازوں پر
متعین پولیس کا عملہ صرف یہ دیکھتا رہا کہ اندر جانے والوں کے شناختی کارڈ
موجود ہے یا نہیں ، اس سے انہیں کوئی سروکار نہیں تھا کہ فر دکے پاس موجود
شناختی کارڈ اس کا اپنا ہے یا کسی اور کا؟ یا شناختی کارڈ اصل ہے یا رنگین
کاپی؟ ان تمام چیزوں کو چیک نہیں کیا گیا۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہوتا رہا
کہ پولنگ کا عملہ صرف ان لوگوں کے شناختی کارڈ چیک کرکے کو بیلیٹ پیپر جاری
کرتا جس پر ایم کیو ایم کے لوگ اعتراض کرتے، ورنہ بغیر شناختی کارڈ چیک کیے
بیلیٹ پیپر جاری کیے جاتے رہے۔ مجھے لوگوں نے نے بتایا کہ16سال کے لڑکوں کو
چار چار پانچ پانچ ووٹ کی چار پرچیاں دی گئیں اور انہوں نے جاکر ووٹ ڈالے۔
میں جب پوچھا کہ کیا ان سے شناختی کارڈ چیک نہیں کیا گیا، تو ان کا جواب
تھا کہ ایسا تو کچھ بھی نہیں تھا۔
پولنگ بوتھ میں ایک پولنگ ایجنٹ کے بجائے دو دو تین تین لوگ موجود تھے، اور
یہ لوگ ووٹرز کو ہراساں کرتے رہے، بیلیٹ پیپر پر خفیہ طور پر مہر لگانے کے
بجائے اپنے سامنے مہریں لگوائی جاتی رہیں۔ا س طرح ہمارے متعد ووٹرز کو
خوفزدہ کرکے پتنگ پر مہریں لگوائی گئیں۔بالخصوص خواتین کے پولنگ بوتھ پر تو
یہ کام زیادہ ہورہا تھا۔ مردوں کے پولنگ بوتھ پر کچھ ووٹرز نے مزاحمت کی
اور دباؤ کے باجود اپنی مرضی سے ووٹ دیا لیکن اکثریت کو خوفزدہ کیا گیا۔جن
ایریاز کے بارے میں شبہ تھا کہ یہاں سے مخالف ووٹ پڑ سکتا ہے، وہاں کے
ووٹرز کو ایک پولنگ اسٹیشن سے دوسرے پولنگ اسٹیشن پر بھیجا جاتا رہا تاکہ
وہ ووٹ نہ ڈال سکے۔ہم وو ٹنگ لسٹ کے مطابق پرچیاں بنا کر لوگوں کو بھیجتے
لیکن کئی لوگوں کو گمراہ کرکے ایک سے دوسرے پولنگ اسٹیشن بھیج دیا ۔ ایک
صاحب کو تین دفعہ واپس بھیجا گیا، آخر میں جب کوئی جواز نہ بچا تو کہا گیا
کہ پرچی پر خاندان نمبر نہیں لکھا ہوا، حالانکہ نادرا کی ایس ایم ایس سروس
اور ووٹنگ لسٹ کے مطابق ووٹ ڈالنے کے لیے خاندان نمبر ضروری نہیں ہے بلکہ
صرف کتاب نمبر اور سلسلہ نمبر ضروری ہوتا ہے۔
حلقے کے ایک علاقے سے ہمارے کارکنان پولنگ کیمپ سے پرچی بنا کر لوگو ں کو
روانہ کرتے اور پولنگ اسٹیشن کے قریب ان کو زبر دستی روک کر کہا جاتا کہ
پتنگ پر ہی مہر لگانی ہے۔ اس ایریا کے کچھ نوجوانوں کو پولنگ اسٹیشن پر بھی
تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ پورا دن ایم کیو ایم کے کارکنان کے جتھے پولنگ
اسٹیشنز پر دندناتے رہے، رینجرز کو اس حوالے سے مطلع کیا گیا بلکہ میں نے
اور ہمارے ناظم انتخاب نے گشت پر معمور رینجرز کی موبائل میں موجود کیپٹن
کی اس جانب توجہ مبذول کرائی ، لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔میں ایک پولنگ
اسٹیشن پر اپنے پولنگ ایجنٹ کو بٹھانے کے لیے گیا تو وہاں پولنگ افسر اپنے
سامنے ووٹ پر مہر لگوا رہا تھا، میں نے خود اس کو ٹوکا اور کہا کہ مہر
لگانے کے لیے مختص جگہ پر ہی مہر لگوائی جائے ، لیکن ہمارے جانے کے بعد
دوبارہ یہی سلسلہ شروع ہوگیا، اسی وجہ سے ہمارے پولنگ ایجنٹ اور ایم کیو
ایم کے کارکنان کی تو تو میں میں بھی ہوئی اور ہمارے پولنگ ایجنٹ کو سنگین
نتائج کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ پولنگ کا وقت ختم ہونے کے بعد بھی پولنگ
اسٹیشنز پر لوگ ووٹ ڈالنے کے لیے جاتے رہے، جب کہ کچھ پولنگ اسٹیشنز پر چھے
بجے تک باقاعدہ ٹھپے لگائے جاتے رہے۔
ان سارے عوامل کی موجودگی میں بھاری مینڈیٹ کا دعویٰ کرنا یا میڈیا پر ان
کی جیت کو پورے کراچی کے عوام کا فیصلہ کہنا درست نہیں ہے۔ میں ایک بار پھر
یہ بات واضح کردوں کہ میں یہ ساری باتیں محض مخالفت میں نہیں کررہا اور نہ
ہی محض ٹی وی اور اخبارات میں کیے گئے تبصروں کی بنیاد پر کررہا ہوں بلکہ
یہ ساری باتیں وہ ہیں جن کا میں عینی شاہد ہوں اور ان چیزوں کی شکایات بھی
ہم نے متعلقہ حکام تک پہنچائیں۔ اس کے علاوہ گھر گھر جاکر رابطہ عوام مہم
سے بھی ہمیں عوام کے موڈ کا اندازہ ہوگیا تھا۔عوام نے جس طرح ہمیں خوش
آمدید کہا، ہماری پذیرائی کی، اس سے ہمیں یہ یقین تھا کہ فتح ہماری ہوگی ،
بصورت دیگر شکست بھی ہوگی تو سخت مقابلے کے بعد ہوگی ، لیکن ہم سے زیادہ
ایم کیوایم نے عوام کے موڈ کا اندازہ لگایا اور یہ سارے ہتھکنڈے استعمال
کیے۔ بہر حال جیت کے سینکڑوں وارث ہوتے اور شکست لاوارث ہوتی ہے۔ اوپر بیان
کی گئی تمام بے ضابطگیوں اور دھاندلیوں کے باوجود میں ایم کیوایم کو ان کی
جیت پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ہاں آخری بات کہ کاش میں بھی گھر بیٹھے ٹی
وی دیکھ دیکھ کے تجزیے اور تبصرے کرلیتا، کاش میں بھی یہ کہہ سکتاکہ ایم
کیو ایم کی جیت سارے کراچی کے عوام کا فیصلہ ہے۔ کاش میں بھی کہہ سکتا کہ
ایم کیو ایم کو بھاری مینڈیٹ ملا ہے، لیکن میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں فیلیڈ
میں موجود تھا اور جو کچھ دیکھا ہے اس کے بعد یہ نہیں کہہ سکتا۔دیکھا تو
انھوں نے بھی ہوگا جو اس فیصلے کو پورے کرچی کافیصلہ کہہ رہے ہیں۔ |
|