میر کارواں کے ساتھ
(Dr shaikh wali khan almuzaffar, Karachi)
یہ ہیں وہ میرِ کارواں ،شیخ الکل فی الکل ،سماحۃ الإمام ، شیخ الحدیث حضرت مولاناسلیم اللہ خان صاحب فاضل دارالعلوم دیوبند ، صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان ،صدر اتحاد تنظیماتِ مدارس دینیہ پاکستان ، شیخ الحدیث،بانی ورئیس جامعہ فاروقیہ کراچی،جوصحیح معنوں میں اِن سب صفات وکارناموں کے ساتھ ساتھ اپنی ذات وشخصیت میں بھی ایک بہت بڑا ادارہ وانجمن ہیں۔ شاید ان ہی کے متعلق علامہ اقبال مرحوم نے کہاتھا:
نگہ بلند، سخن دل نواز، جانِ پر سوز ۔۔۔۔۔ یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے
|
|
|
سماحہ الامام کے ساتھ |
|
ان کی شخصیت پوری دنیا بالخصوص برصغیر پاک
وہند اور عالمِ اسلام کے علمی،ادبی،فکری اورنظریاتی حلقوں میں کسی تعارف کی
محتاج نہیں، حضرت کے آبأ و اجداد پاکستان کے جس علاقے سے ہندوستان منتقل
ہوئے ،آج وہ علاقہ خیبر ایجنسی میں تیراہ کے قریب چورا کہلاتا ہے۔ آپ 25
دسمبر 1926ء کو ہندوستان کے ضلع مظفر نگر کے مشہور قصبہ حسن پور کے ایک
معزز خاندان میں پیدا ہوئے، آپ کا تعلق آفریدی پٹھانوں کے ایک خاندان ملک
دین خیل سے ہے۔ حسن پور ہمیشہ اکابرین کا مسکن ومرجع رہا ہے۔ حاجی
امدادالله مہاجرمکی کے شیخ میاں جی نور محمد صاحب ساری زندگی اسی گاؤں میں
سکونت پذیر رہے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی
تھانوی کے مشہور خلیفہ مولانا مسیح الله خان کے مدرسہ مفتاح العلوم جلال
آباد میں حاصل کی۔ 1942ء میں آپ اپنے تعلیمی سلسلے کی تکمیل کے لیے ازہر
الہند، جامعہ دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوئے، جہاں آپ نے فقہ، حدیث ،تفسیر،عربی
ادب و دیگر علوم وفنون کی تکمیل کی اور1947ء میں آپ نے امتیازی نمبرات کے
ساتھ سند فراغت حاصل کی۔
دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد آپ نے اپنے علاقے میں موجود اپنے استاد و
مربی مولانا مسیح الله خان کی زیر نگرانی مدرسہ مفتاح العلوم جلال آباد میں
تدریسی وتنظیمی امور انجام دینے شروع کیے۔ آٹھ سال تک شب وروز کی انتہائی
مخلصانہ محنت کا یہ نتیجہ سامنے آیا کہ ادارہ حیرت انگیز طور پر ترقی کی
راہ پر گامزن ہو گیا اور طلبا کا تربیتی،تعلیمی اور اخلاقی معیار اس قدر
بلندا ہوا کہ دارالعلوم دیوبند اور دیگر بڑے تعلیمی اداروں میں یہاں کے
طلبا کی خاص پذیرائی بھی ہونے لگی اور بڑے اداروں کے اساتذہ ومشائخ ٹھیٹھ
تعلیم وتربیت کے لئے یہیں پر اپنے فرزندان ومتعلقین بھیجنے لگے۔
مدرسہ مفتاح العلوم میں آٹھ سال کی شبانہ روز محنتوں کے بعد شیخ الاسلام
مولانا شبیر احمد عثمانی کی قائم کردہ پاکستان کی مرکزی دینی درس گاہ
دارالعلوم ٹنڈوالہ یار سندھ میں تدریسی خدمات انجام دینے کے لیے آپ
پاکستان تشریف لے آئے۔ تقدیر کا فیصلہ دیکھیئے ،صرف تین سال یہاں پر کام
کرنے کے بعد آپ ملک کے معروف دینی ادارے جامعہ دارالعلوم کراچی میں تشریف
فرما ہوئے اور پھر مسلسل دس سال دارالعلوم کراچی میں حدیث ، تفسیر، فقہ،
تاریخ ، ریاضی ، فلسفہ اور ادب عربی کی تدریس میں مشغول رہے ، اسی دوران آپ
ایک سال حضرت علامہ بنوری کے اصرار پر جامعہ بنوری ٹاؤن میں دارالعلوم کی
تدریس کے ساتھ ساتھ مختلف اسباق پڑھانے کے لیے تشریف لاتے رہے۔
قدرت نے آپ کی فطرت میں عجیب دینی جذبہ ودیعت فرمایا تھا،جس کے باعث آپ شب
وروز کی مسلسل اور کامیاب خدمات کے باوجود مطمئن نہیں تھے اور علمی میدان
میں ایک نئی دینی درس گاہ ( جو موجودہ عصری تقاضوں کو بھی پورا کرتی ہو) کی
تاسیس کو ضروری خیال فرماتے تھے۔
چناں چہ23 جنوری1967ء مطابق شوال1387ھ میں آپ نے جامعہ فاروقیہ کراچی کی
بنیاد رکھی۔ آپ کی یہ مخلصانہ کوشش اتنی قبول ہوئی کہ تاسیس جامعہ کے بعد
سے لے کر اب تک جامعہ نے تعلیمی وتعمیری میدان میں جو ترقی کی ہے وہ ہر خاص
وعام کے لیے قابل رشک وباعث حیرت ہے،یہاں دارالعلوم دیوبند کی تربیت اور
ندوۃ العلما کی ادبیت کاسنگم وملتقیٰ ہے ۔
آج یہ ادارہ ایک عظیم دینی،علمی اور ادبی مرکزکی حیثیت سے پاکستان اور
بیرون پاکستان ہر جگہ معروف ومشہور ہے ، الله تبارک وتعالیٰ کا یہ فضل
واحسان حضرت شیخ کی مخلصانہ جدوجہد کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔
حضرت شیخ کا وفاق المدارس سے لازوال تعلق چلا آرہاہے ،آپ کی تعلیمی خدمات
کو سراہتے ہوئے 1980ء میں شیخ کو وفاق المدارس العربیہ پاکستان کا ناظم
اعلیٰ منتخب کیا گیا، آپ نے وفاق کی افادیت اور مدارس عربیہ کی تنظیم وترقی
اور معیار تعلیم کے بلندی کے لیے جو خدمات سرانجام دی ہیں وہ وفاق کی تاریخ
میں ایک روشن باب کی حیثیت رکھتی ہیں۔ آپ نے وفاق المدارس العربیہ پاکستان
کے لیے جو گراں قدر نصابی،امتحانی اور تنظیمی وادارہ جاتی خدمات انجام دیں
،ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں:
آپ نے وفاق کے طریقہ امتحانات کو بہتر شکل دی ، بہت سی بے قاعدگیاں پہلے ان
امتحانات میں ہوا کرتی تھیں انہیں ختم کیا۔
پہلے وفاق میں صرف ایک امتحان دورہ حدیث کا ہوا کرتا تھا۔ آپ نے وفاق میں
دورہ حدیث کے علاوہ سادسہ (عالیہ) ، خامسہ ، رابعہ ، ثالثہ(ثانویہ خاصہ)
ثانیہ (ثانویہ عامہ) ، متوسطہ ، دراسات دینیہ،تجوید اور درجات تحفیظ القرآن
الکریم کے امتحانات کو لازمی قرار دیا۔
نئے درجات کے امتحانات کے علاوہ آپ نے ان تمام مذکورہ درجات کے لیے نئی
دیدہ زیب عالمی معیار کی سندیں جاری کروائیں۔
وزارت تعلیم اسلام آباد سے طویل مذاکرات کیے جس کے نتیجے میں بغیر کسی مزید
امتحان میں شرکت کیے وفاق کی اسناد کو بالترتیب ایم اے، بی اے، انٹر،
میٹرک، مڈل ، اورپرائمری کے مساوی قرار دیا گیا۔
فضلائے قدیم جو وفاق کی اسناد کے معادلے کے نتیجے میں حاصل ہونے والے فوائد
سے محروم تھے ان کے لیے خصوصی امتحانات کا اہتمام کرایا تاکہ انہیں بھی
وفاق کی سندیں فراہم کی جاسکیں۔
وفاق سے ملحق مدارس میں پہلے سے موجود قلیل تعداد کو جو چند سو پر مشتمل
تھی اور جس میں ملک کے بہت سے قابل ذکر مدارس شامل نہیں تھے ،اپنی صلاحتیوں
سے قابل تعریف تعداد تک پہنچایا۔ اب یہ تعداد اٹھارہ ہزار سے زائد مدارس
وجامعات پر مشتمل ہے۔ جس کی بنا پر اب وفاق المدارس العربیہ پاکستان کو ملک
کی سب سے بڑی نمائندہ تنظیم قرار دیا گیا ہے۔
مدارس عربیہ میں موجود نظام کو بہتر کرنے کے لیے آپ نے نصاب میں اصلاحات کی
مہم شروع کی چناں چہ اب پورے پاکستان میں یکساں نصاب پورے اہتمام سے پڑھایا
جارہا ہے ۔جبکہ پہلے صورت حال نہایت ابتر تھی اور تقریباً ہر مدرسہ کا اپنا
الگ الگ نصاب ہوا کرتا تھا۔
وفاق کے مالیاتی نظام کو بھی آپ نے بہتر کیا جب کہ پہلے کوئی مدرسہ اپنی
فیس یا دیگر واجبات ادا کرنے کا کوئی اہتمام نہیں کرتا تھا۔ اب آپ کی مسلسل
توجہ کے نتیجے میں وفاق ایک مستحکم ادارہ بن چکا ہے۔
آپ نے وفاق کی مرکزی دفاتر کی طرف بھی توجہ فرمائی اور اس کے لیے بہتر
ومستقل عمارت کا انتظام کرایا جب کہ اس معاملے میں پہلے عارضی بندوبست
اختیار کیا جاتا تھا۔
آپ کی انہی گراں قدر خدمات کو سامنے رکھتے ہوئے آپ کو1989 میں وفاق کا صدر
منتخب کر لیا گیا، جب سے لے کر آج تک آپ بحیثیت صدرِ وفاق کی خدمات انجام
دینے میں مصروف ہیں۔
اتحاد تنظیماتِ مدارس دینیہ پاکستان کے بھی پچھلے دس سالوں سے آپ بانی
وصدر نشین ہیں،اس اتحاد میں ملک بھر کے تمام مکاتبِ فکر کے مدارس و جامعات
شامل ہیں،مذکورہ اتحاد کو بھی متحد ومتفق رکھنے کا سہرا آپ ہی کے سر ہے۔
ملکِ عزیز پاکستان میں عربی زبان وادب کو عوام وخواص میں فروغ دینے کے لئے
شیخ کی خدمات و افکارآبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں، معہد اللغۃ العربیۃ کی
تأسیس آپ نے اس وقت کی جب پاکستان میں معہد کے لفظ سے بھی لوگ واقف نہیں
تھے،آپ کی سرپرستی میں گذشتہ تیس سال سے ماہنامہ الفاروق عربی پابندی
سےشائع ہورہا ہے، دورات اللغہ العربیۃ اورتخصص فی الادب العربی کی ابتدا
آپ ہی نے کروائی،آج ملک کے چپے چپے میں یہ دورات و تخصصات آب وتاب کے
ساتھ چل رہے ہیں اور جامعہ فاروقیہ کراچی فیز۲ تو ایک مکمل عربی یونیورسٹی
ہے۔ پاکستان عربک لینگویج بورڈ اور عربک لینگویج اوپن یونیورسٹی بھی آپ ہی
کی خدمات وافکار کا تسلسل ہیں۔
الله تبارک وتعالیٰ نے حضرت کو تدریسی میدان میں جو کمال عطا فرمایا ہے، وہ
قدرت کی عنایات کا خاص حصہ ہے آپ کی تدریسی تاریخ نصف صدی سے بڑھ کر ہے، بے
شمار لوگ آپ کے چشمہٴ فیض سے سیراب ہوئے ہیں، قدرت نے آپ کو فصاحت وبلاغت
کا وافر حصہ عطا فرمایا ہے، مشکل مباحث کو عربی اور اردو دونوں میں
آسان،جامع، مختصر اور واضح پیرائے میں بیان کرنا آپ ہی کی خصوصیت ہے۔
گزشتہ کئی سالوں سے آپ کے تقریری ودرسی ذخیرے کو مرتب کرنے کا سلسلہ جاری
ہے اور آپ کے صحیح البخاری کے دروس کشف الباری اور مشکوٰة المصابیح کے لیے
آپ کی تقاریر نفحات التنقیح کے نام سے شائع ہو کر علماء وطلبا اور اہل علم
ودانش میں مقبولیت حاصل کر چکی ہیں، اب تک کشف الباری کی 22جلدیں اور نفحات
التنقیح کی تین جلدیں منصۂ شہود پر آچکی ہیں جب کہ بقیہ جلدوں پر کام تیزی
سے جاری ہے۔جامع ترمذی پر بھی آپ کی دس جلدوں پر مشتمل شرح تیار ہے،نیز دس
جلدوں میں آپ کی تفسیر بھی آیا ہی چاہتی ہے، ان کے تلامذہ بالاتفاق انہیں
تدریس کا بادشاہ پکارتے ہیں۔
مفتی نظام الدین شامزئی شہید،مولانا عنایت اللہ خان شہید،مولانا سید حمید
الرحمن شہید،مفتی احمد الرحمن مرحوم،ڈاکٹر حبیب اللہ مختار شہید،مولانا
جمشید علی خان(رائےونڈ والے)مرحوم، مولانا محمد رابع ندوی ،جسٹس مفتی تقی
عثمانی،مفتی رفیع عثمانی آپ کے مشہور ومعروف تلامذہ میں سے ہیں۔
یہ ہیں وہ میرِ کارواں ،شیخ الکل فی الکل ،سماحۃ الإمام ، شیخ الحدیث حضرت
مولاناسلیم اللہ خان صاحب فاضل دارالعلوم دیوبند ، صدر وفاق المدارس
العربیہ پاکستان ،صدر اتحاد تنظیماتِ مدارس دینیہ پاکستان ، شیخ
الحدیث،بانی ورئیس جامعہ فاروقیہ کراچی،جوصحیح معنوں میں اِن سب صفات
وکارناموں کے ساتھ ساتھ اپنی ذات وشخصیت میں بھی ایک بہت بڑا ادارہ وانجمن
ہیں۔ شاید ان ہی کے متعلق علامہ اقبال مرحوم نے کہاتھا:
نگہ بلند، سخن دل نواز، جانِ پر سوز ۔۔۔۔۔ یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے
لیے
اس میرِ کارواں کی کامیابی کا راز کیا ہے؟آیئے اس پر ذرہ سرسری نگاہ ڈالتے
ہیں ،وہ تبحّرِعلمی کے باوجود تشدد اور تجدد نیز تشذذاورتفرد میں میانہ روی
واعتدال کے قائل ہیں،افکار ونظریات میں غلو وانتہاپسندی سے وہ اجتناب برتنے
کا کہتے ہیں،تصلب فی الدین اورامہ کے سوادِ اعظم کو ساتھ لے کر چلنے میں وہ
خیر وبرکت سمجھتے ہیں،جمہور کے فریم ورک کو نصب العین گردانتے ہیں،عقائد
ومسائل میں قرآن وسنت ان کے یہاں سب سے پہلے ہیں،روز کئی پاروں کی تلاوت
ان کا معمول ہے،صرف26 دن میں انہوں نے پورا قرآن کریم حفظ کیا،بد
عقیدگی،بدعات و خرافات اور واہیات کا تعاقب وبیخ کنی ان کی فطرت کا حصہ بن
چکی ہے، مجھے بطورِشاگرد،خادم،سیکرٹری اورملازم ان کے ساتھ 23سال سفر وحضر
میں گذارنے کے مواقع ملے ہیں،شاید میں نے جتنا قریب سے ان کی شخصیت
کامطالعہ کیا اتنا کسی نے انہیں نہیں دیکھا،کیونکہ مجھے ان کی طویل ترین
صحبت میسر رہی،اب اسی مہینے10 سے 16دسمبر تک کراچی سے اسلام
آباد،پشاور،منگورہ ، مانسہرہ اور پنڈی میں قرآن کمپلیکس اور وفاق المدارس
العربیہ پاکستان کے مختلف ومتعدد اجتماعات میں کہیں بطورِ خادم اور کہیں
بطور میزبان ایک مرتبہ پھران کی خدمت ورفاقت کا موقع ملا،ان کے بیانات
وارشادات سنے، ان کے معمولات کو قریب سے مشاہدہ کیا،ایمان وعمل میں تازگی
اورولولہ محسوس ہوا،ضعف ونقاہت اور پیرانہ سالی کی وجہ سے انہیں وضو کرانا
پڑتاہے،وہیل چیئر کے پہیے ان کے قدموں کا کام کرتے ہیں،سہارا نہیں گود تک
میں اٹھانا ہوتاہےمگر دخول اوقات کے ساتھ نمازوں کا اہتمام،ذکر واذکار میں
پابندیٗ وقت اور فکری ونظری معاملات میں ان کا ہرلفظ وہر ادا پتھر کی لکیر
ہے،یہ نظارہ بھی دیکھنے کو ملتاہے کہ جب ان کے ہاتھوں کے تراشے ہوئے پتھر
کے صنم انکے سامنے ہی بھگوان بن بیٹھنے کی لا حاصل کوشش کرتے ہیں،تو وہ
انہیں دو لفظوں یا معمولی اشاروں میں پاش پاش کردیتے ہیں،قوتِ عملیہ بوجۂ
علالت اگرچہ متأثر ہے پر قوتِ نظریہ کے لحاظ سےوہ عُنفوانِ شباب میں ہیں،وہ
اسلامی ممالک اور دینی مسالک میں ہم آہنگی و اتحاد کے داعی ہیں،دلیل سے
بات کرتے ہیں اور دلیل ہی کی بات سنتے ہیں،ان کی زندگی عمل بالسنہ کا عملی
نمونہ ہے،وہ کلیات ومبادئ میں نصوص کے پیروکار ہیں،لیکن حکمتِ عملی اور
ٹیکنیک میں نئے اندازواسالیب اپنانے کو استحسان کی نظر سے دیکھتے ہیں،ان کی
ذات رجال سازی اور چیلنجز کو چانسز میں بدلنے کا کارخانہ ہے،مردم شناسی کا
فن تو کوئی ان سے سیکھے،عزم وحوصلہ سے جتنی پُرانی ان کی یاری ہے،اُتنی ہی
قدیم ترین عداوت ہے انہیں تصنع،تکلف اور ملمع سازی سے۔
وہ ایک متأثر کن اور ہمہ گیر شخصیت کے مالک ہیں، اسی لئے ہم لاکھوں ان کے
فین ہیں،آپ کو تعجب ہوگا وہ اپنی ذاتی آمدنی سے لاکھوں روپیہ سالانہ
تعمیر مساجد جیسے کاموں پر خرچ کرتے ہیں،ابھی گذشتہ ماہ ایک مسجد کے لئے
تیس لاکھ کی خطیر رقم اپنی جیبِ خاص سے ادا کی،بے شمار جلسوں میں ان کے
ساتھ جانے کا اتفق ہوا،انہوں نے کبھی بھی کسی بیان پر ایک پائی لینا گوارا
نہیں کیا،ان کی طبیعت میں ہمیشہ کے لئے بلا کی متانت اور سنجیدگی ہوتی ہے،
ان کی خلوت اور جلوت میں یکسانیت ہے،وہ افریدی ہیں مگر ان کی نظر میں
افریدی اور افریقی برابر ہیں،تولد تلمذ ،تعلق اور استرشاد ان کے یہاں حقوقِ
واجبہ کے علاوہ میں وجوہِ ترجیح نہیں،غصہ انہیں آتاہے،ناراضگی ہوجاتی
ہے،پر کینہ پروری کرکےایسی چیزوں کو وہ ہمیشہ کے لئے پالتے نہیں ہیں،بلکہ
چشم پوشی،عفو وصفح اور در گذر سے کام لیتے ہیں،ان کے تلامذہ ومسترشدین
ومتعلقین ان سے بے پناہ پیار ومحبت کرتے ہیں۔ افسوس ! ہم پاکستانی اموات
ومزارات کو پوجتے ہیں،مرثیہ خوانی ہماری عادت ہے،تبرکات کو سینوں سے لگائے
بیٹھتے ہیں،کوئی ہو جو زندگی ہی میں اپنے بڑوں،ملک وملت کے زعمأ وقائدین
اوراکابرومشائخ کی قدر کریں،ان کی فکر ونظر کو اپنانے کی سعی میں جُت
جائے،انسانیت کو سیکھنے کے لئے اپنےزمانے میں انسانیت کے معماروں سے
استفادہ کرے،کوئی ہے جو قافلۂ انسانی کے میرکاروانوں کو پہچانے؟ کوئی ہے؟ |
|