برصغیر میں جب پاکستان بن کر دنیا کے نقشے پر ابھرا
تو اس وقت سبھی انسان حیران تھے کہ چند برس قبل دوسری جنگ عظیم اپنے اختتام
کو بھاری جانی و مالی نقصانات پہنچا کر ختم ہوئی ہے اور اب یہ پاکستان
قائداعظم کی قیادت میں ایک ایسا ملک بنا ہے جس کے بننے کیلئے کوئی جنگ نہیں
ہوئی اور یہ ملک بنا بھی تو دین اسلام کیلئے ۔ تاریخ میں یہ دوسرا ملک ہے
کہ جو مخص اسلام کے نام پر قائم ہوا ۔ برصغیر کے مختلف حصوں میں رہنے والے
مسلمان اپنے مالوں اور جائدادوں کو چھوڑ کر پاکستان میں آبسے اور اپنی مرضی
سے زندگی کے شب وروز گذارنے لگے ۔ ان گذرتے لمحوں میں اس انتظار کی کیفیت
برقرار رہی کہ نظام اسلام کا نافذہوگا جس کے لئے جناح نے اس ملک کی بنیاد
رکھی اور اس نظام کے مطابق زندگیوں کو گذاریں گے۔ 1947 کے بعد برسوں تک
ہندوستان سے پاکستان آنے والوں کا سلسلہ جاری رہا۔ شہر قائد کراچی پاکستان
کا پہلا دارلخلافہ بنا اور اس دارلخلافے میں ہندوستان سے آنے والوں سمیت اب
تک پاکستان کے مختلف حصوں سے آنے اور بسنے والوں کی تعداد بڑھتی رہی ، اور
تاحال بڑھتی جاررہی ہے ۔اب یہ شہر قائد دنیا کے بڑے شہروں میں شمار ہونے لگ
گیا ہے اور اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔ افرادی قوت کے علاوہ شہر
قائد ملک کو 70فیصد سے زائد ریونیو دیتا ہے ، ملک کی واحد بندرگاہ اسی شہر
قائد میں موجود ہے۔ اس کے علادہ تعلیمی ادارے ، نشرو اشاعت ، ذرائع ابلاغ
سمیت ہر شعبہ زندگی میں اس شہر قائد نے پاکستان کیلئے خدمات سرانجام دیں
اور ان خدمات کا یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔
شعبہ ذرائع ابلاغ، میں اخبار و ٹی وی چینل کا کردار اہمیت کا حامل ہے ۔ اس
شعبے میں متعدد شخصیات نے اپنی خدمات کے ذریعے اپنے نام کے ساتھ ملک و قوم
کا نام دنیا میں روشن کیا۔ انہیں شخصیات میں ایک نام 1930میں ہندوستان کے
بہار میں پیداہونے والے کمال احمد رضوی کا بھی ہے جو کہ 85سال کی عمر میں
مرحوم ہوگئے۔ کمال احمد صاحب 1958 میں اسلام کے نام پر بنے والے ملک
پاکستان میں منتقل ہوکر شہر قائد کراچی میں رہائش اختیار کیا۔ کچھ ماہ سال
شہر قائد میں گذارنے کے بعد وہ لاہور منتقل ہوگئے جہاں وہ طویل عرصے تک
محیط رہے۔
کمال احمد رضوی نے 1958میں تھیٹر سے اپنے عملی شعبہ زندگی کا آغاز کیا ۔ آپ
پاکستان کے ایک نامور ڈرامہ نگار ، اداکار ، تحریرکار ہونے کے ساتھ نقاد
تھے۔ لاہور کے تھیٹر سے اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور آپ کے ایک ڈرامے بالاکی
بد ذات کو ان وقتو ں میں مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس کے بعد آپ نے تھیٹر کیلئے
اپنی خدمات کا سلسلہ جاری رکھا ۔ بعدازاں جب لاہور میں ٹی وی کا آغاز ہوا
تو آپ نے اپنی خدمات کا رخ ٹی وی کی جانب کیا اور اس پیلٹ فارم سے خدمات
سرانجام دیں ۔اس شعبے کیلئے الف نون، چور مچائے شور ، میرا ہمدم دوست اور
آرٹ گیلری جیسے ڈرامے تحریر کئے جن میں سے بعض میں ازخود بھی اداکاری کے
جوہر دکھائے۔ 1965میں آپ کا لکھا اور اس میں آپ کے اپنے کردار الن نے آپ کو
شہرت کی بلندیوں تک پہنچایا۔ اس ڈرامے میں آپ کے ساتھی کا کردار رفیع خاور
نے انجام دیا تھا جس کے بعد ان کو ننھا کے نام سے نہ صرف اس وقت پہچاناجانے
لگا بلکہ ابھی تک ان کو اسی نام سے یاد رکھا گیا ہے اور رکھا جائیگا۔ آپ کی
خدمات کو پاکستان کا ٹی وی چینل کبھی نہیں بھلا سکتا آپ کے کئی ڈرامے اور
تحریریں ٹی وی چینل نے متعدد بار اپنے ناظریں کو دکھائے اور انہی کی بدولت
بھرپور داد حاصل کی۔ اس کے ساتھ 1989میں حکومت وقت نے بھی آپ کی خدمات کے
عیوض آپ کو تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا۔ اس ایک اعزاز کے علاوہ بھی آپ کو
کئی اعزازات اور تمغات سے نوازاگیا۔ انہی خدمات کے پیش نظر آپ کو ذرائع
ابلاغ و دیگر عوام کبھی فراموش نہیں کر سکے گی۔
قیام پاکستان کے بعد سے آج تک ملک کے اندر اور باہر سے تنقید نگاروں کے روش
جاری ہے اور یہ روش آگے بھی جاری رہے گی۔ کمال احمد رضوی نے بھی اپنی
تحریروں کے ذریعے اور بعض اوقات اپنے ڈراموں کے ذریعے ملک میں موجود مسائل
کی جانب نشاندہی کی اور اس کے ساتھ ان مسائل کا حل بھی پیش کیا۔ تنقید کا
بے جا سلسلہ بہتر اندازمیں اسی وقت اور اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ جب مسائل
کی نشاندہی کے ساتھ ان کے حل کی جانب بھی اشارہ کیا جائے۔ کمال احمد رضوی
نے ملک کی خدمت اس اندازمیں بھی پیش کیں کہ جن سامنے آنے بعد مسائل نہ صرف
توجہ کا باعث بنے بلکہ ان کو حل کرنے کی کوشش ہوئیں اور انہیں حل بھی گیا۔
کمال احمد رضوی ، ہندوستان سے شہر قائد آکر بسے تھے اور پھر لاہو ر چلے گئے
تھے ، جہاں طویل عرصہ رہنے کے بعد دوبارہ کراچی آئے ۔ یہاں دوران رہائش
بیمار ہوئے اور طویل عرصے تک اس بیماری سے مقابلہ کرتے رہے ۔ بیوی ، بیٹے
اور اپنی ماں سمیت 18کڑور پاکستانیوں کو سوگوار چھوڑ کر کمال احمد رضوی
مرحوم ہوگئے۔ وہ اس دنیا سے اس دنیا میں چلے گئے جہاں پر سب کو جانا ہے اور
اس دنیا کا پھر کوئی اختتام نہیں ہونا ہے۔ کمال احمد رضوی کا ہی ایک دوست
ننھا ان سے پہلے اس دنیا میں چلا گیا تھا کمال بھی ان کے پیچھے ذرا منفرد
انداز میں وہاں چلے گئے۔ چلے تو دونوں گئے تاہم ان دونوں کی خدمات کو ہمیشہ
یاد رکھا جائیگا۔ کما ل احمد رضوی کے جانے پر اس شعبے کے سبھی افراد ،
گورنر سندھ اور وزیر اعظم سب نے ہی دکھ کا اظہار کیا ہے ۔ |