کیا کبھی ایسا بھی ہوتا ہے.....؟

ملک سے غربت ختم کرنے کے لئے غریبوں کو بھی مارنا پڑتا ہے...؟
دو روزہ چھٹیاں اور ہزاروں ٹن پٹرولیم مصنوعات کی بچت.....؟

اگرچہ اہل ِ دانش بھی اِس ایک نقطے پر متفق نظر آتے ہیں کہ ہر شخص کو اپنی زندگی میں ایک بار ایسے مشاہدے اور تجربے سے بھی ضرور واسطہ پڑتا ہے کہ جب کبھی کبھار وہ اپنی موت کو زندگی پر ترجیح دے کر بہت بڑے حوصلے کا فیصلہ کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا ہے اور اِسی طرح جب یہ خودکشی کی انتہا پر پہنچ جانے والا شخص اگر خودکشی نہ کرپائے تو وہ خود کو موت کے منہ سے کھینچ نکالنے میں کامیاب ہوکر اپنی زندگی کی قدر اور اہمیت سے بھی واقف ہوجاتا ہے اور پھر وہ تاحیات اپنی موت سے بھی خوفزدہ رہنے لگتا ہے اور جب اِسے زندگی کی قدر و منزلت معلوم ہوجاتی ہے تو وہ اپنے تئیں کوئی ایسا مثبت اور تعمیری کردار ادا کرتا ہے کہ دنیا اِس کے کارنامے کو سراہے بنا نہیں رہ سکتی اور پھر وہ خود اپنی ذات کو اپنے اہلِخانہ اپنے ملک اور ملت کے لئے یوں وقف کردیتا ہے کہ بس اِس کے نزدیک مثبت اور تعمیری سمت میں کچھ کر گزرنے کا عزم ہی اِس کا زندگی کا کُل اثاثہ بن کر رہ جاتا ہے۔

اور بلکل اُس شخص کی طرح جو اپنی مسلسل ہونے والی ناکامیوں اور مایوسیوں سے تنگ آکر خودکشی کرنے کا مرتکب ہورہا ہوتا ہے اور اپنی زندگی مایوسیوں کی بھینٹ چڑھا کر اپنے تمام مسائل سے چھٹکارہ حاصل کرنے کی ٹھان چکا ہوتا ہے مگر جب خوش قسمتی سے وہ اِس عمل سے بچ نکلتا ہے تو پھر اِسے اپنی زندگی کے علاوہ دوسروں کی زندگیوں سے بھی اتنی ہی محبت ہونے لگتی ہے کہ جتنی وہ اپنی زندگی سے کرنے لگتا ہے۔

بلکل اِسی طرح سے آج ہمارے حکمران بھی اُس شخص کے مانند نظر آرہے ہیں کہ جو اپنی زندگی سے مایوس اور نااُمید ہوکر اپنی تمام تر پریشانیوں کا حل صرف ایک ہی راستہ نکالتا ہے اور وہ ہے خودکشی کا راستہ .....اور جب اِنہیں(ہمارے حکمرانوں کو) بھی ملک میں بجلی اور توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لئے بجائے ملکی وسائل کو استعمال میں لانے کے کچھ اور تدبیر نہ سُجھائی دی تو اُنہوں نے ڈنڈے کے زور پر ایک آخری حربہ یہ آزمایا کہ ملک میں بڑھتے ہوئے بجلی اور توانائی کے بحران کو کچھ قابو کرنے کے لئے ملک بھر میں ہفتہ وار دو چھٹیوں کا اعلان کردیا اور یہ سمجھے کہ اگر یہ نشانہ ٹھیک جگہ پر لگ گیا تو ہماری قسمت ورنہ کونسی ہماری حالت پہلے ہی ٹھیک ہے جو اِس سے مزید بہتر ہوجائے گی مگر پھر بھی اِس طرح ہمارے حکمرانوں نے یہ تجربہ کیا کہ ملک میں دو روزہ چھٹیوں سے ایک طرف تو توانائی کے بحران پر قابو کر کے اِسے ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی تو وہیں دوسری طرف کہ ملک میں پہلے سے دم توڑتی معیشت اور اقتصادی صورت حال کو بھی کسی نہ کسی بہانے سہارا دیا جاسکے گا۔

اور پھر اِس سے قطعاً انکار نہیں کہ دنیا کے بیشتر ممالک کے حکمرانوں کو کبھی کبھی ناں چاہتے ہوئے بھی کچھ فیصلے ایسے بھی کرنے پڑجاتے ہیں کہ جو بظاہر تو بے سود اور بے مقصد معلوم دیتے ہیں مگر درحقیقت اِن فیصلوں کے پیچھے چھپے ہوئے نتائج جب بعد میں نکل کر سامنے آتے ہیں تو دراصل وہی ملک و ملت کے لئے کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔ اور ایسا ہی ایک فیصلہ ہمارے حکمرانوں کو بھی یہ کرنا پڑ گیا ہے نہ چاہتے ہوئے بھی اُنہوں نے ملک میں ہفتہ وار دو چھٹیوں کا اعلان کردیا۔

اب قارئین حضرات آپ اِسی کو ہی دیکھ لیجئے! کہ ملک میں جاری بجلی اور توانائی کے بحران پر قابوں پانے کے لئے جب حکومت نے ملک میں ہفتہ وار دو چھٹیاں کا اعلان کیا تھا تو اِس پر اپنے پرائے سب ہی نے کھل کر تنقیدوں کے پہاڑ کھڑے کردیئے تھے اور اِن ناقدین کو بھی حکومت کی طرح شائد یہ نہیں پتہ تھا کہ وہ حکومت کے اِس اقدام پر جو اِس نے ملک میں جاری بجلی اور توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے کیا ہے اِس کے پہلے ہی مرتبہ اتنے اچھے اور اُمیدوں سے بڑھ کر نتائج سامنے آئیں گے کہ ہر شخص ششدر رہ جائے گا کہ پوری پاکستانی قوم نے دیکھا کہ حکومت کی جانب سے ہفتے میں دو چھٹیوں کے اعلان پر عملدرآمد شروع ہوتے ہی سرکاری دفاتر تعلیمی ادارے اور بینک بند ہونے سے800میگاواٹ بجلی کی بچت ہوگئی( مگر افسوس کی بات تو یہ ہے کہ پھر بھی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ کم نہ ہوا) تو وہیں دوسری طرف حکومت کی جانب سے تجرباتی طور پر توانائی بحران پر قابو پانے کے لئے جبراً ہی صحیح مگر ہفتے میں ہفتہ، اتوار دو چھٹیوں سے ہر ہفتے 88کروڑ روپے مالیت کے ڈھائی ہزار ٹن پیٹرول اور دس ہزار ٹن ڈیزل کی بچت ہونے کا ایک تخمینہ لگایا گیا ہے جس کا اظہار وزارت پیٹرولیم کے ذرائع نے اِس اُمید کے ساتھ کیا ہے کہ جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ ہفتے میں دو چھٹیوں کے حق میں ہے اِس نے بتایا ہے کہ معمول کے مطابق ایک کاروباری دن میں ساڑھے چار ہزار سے ساڑھے پانچ ہزار ٹن پیٹرول استعمال ہوتا ہے۔

جبکہ گزشتہ دونوں ہفتہ اور اتوار کو ہونے والی دو روزہ چھٹیوں کے دوران پیٹرول کی کھپت کم ہوکر دو ہزار ٹن کے لگ بھگ ہوگئی تھی اور اِس طرح ہر ہفتے 18کروڑ روپے کے پیٹرول کی بچت ہوگی اور اِس کے علاوہ یہ بھی انتہائی حوصلہ افزا امر ہے کہ جس کا تذکرہ وزارتِ پیٹرول کے ذرائع نے کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈیزل کی یومیہ کھپت16سے17ہزار ٹن ہے اور چھٹی کے دن ڈیزل کا استعمال 7سے 8ہزار ٹن رہ گیا تھا اِس کا یہ بھی کہنا تھا کہ اِس طرح موجودہ قیمت کے لحاظ اگر دیکھا جائے تویہ بات بھی مسائل کے گرد گھیرے ہوئے ملک میں ہفتے میں دو چھٹیوں سے ہر ہفتے 70کروڑ روپے مالیت کا ڈیزل بچایا جاسکے گا اور نہ صرف یہ بلکہ ایک اندازے کے مطابق ملک بھر میں ہونے والی دو روزہ چھٹیوں سے ماہانہ دس ہزار ٹن پٹرول اور چالیس ہزار ٹن ڈیزل کی کھپت میں بھی واضح کمی واقع ہونے کی بھی اُمید ہے۔

اگرچہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کے بعد دنیا کے نقشے میں اُبھرنے والی اور بہت سے ریاستیں ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں کھڑی ہوگئیں ہیں اور ایک ہمارا یہ دیس پاکستان ہے کہ اپنی آزادی کے 63سال بعد بھی ایک ترقی پزیر ملک کی حیثیت سے ابھی تک اپنی پہچان قائم رکھا ہوا ہے اور اِن دنوں پاکستان جیسے ایک ترقی پذیر ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی یومیہ کھپت29ہزار 368ٹن اور ماہانہ کھپت 8لاکھ 80ہزار 740ٹن ہے جبکہ اِس منظر اور پس منظر میں یہ خیال کیا جارہا ہے کہ اگر ملک میں ہفتہ وار دو چھٹیوں کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہا تو جہاں ملک کو دو چھٹیوں سے بجلی اور توانائی کی مد میں واضح بچت ہوگی تو وہیں پیٹرولیم مصنوعات کی مد میں درآمدی بل میں بھی بڑی حد تک کمی واقع ہونے کی پوری پوری اُمید ہے اور اِس سے قطع نظر یہ کہ حکومت نے ملک میں توانائی اور بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لئے جو ہفتہ وار دو چھٹیوں کا اعلان کیا ہے وہ اِس پر مخالفین کی لاکھ تنقیدوں کے بعد بھی اگر قائم رہی تو اِس میں کوئی شک نہیں کہ ملک میں اِس سے اچھی اور مثبت تبدیلی نہ رونما ہوں بشرطیکہ حکومت اپوزیشن اور کاروباری اشخاص کے دباؤ میں آکر اپنا ہفتہ وار دو چھٹیوں کا یہ احسن فیصلہ واپس نہیں لے لیتی ہے تو .......ورنہ اگر حکومت نے ہفتہ اتوار دو چھٹیوں کا یہ فیصلہ واپس لے لیا تو ایک طرف حکومت عوام میں اپنا بڑھا ہوا گراف کم کردے گی تو اُدھر ہی خود کو یہ بھی ثابت کرا دے گی کہ اِس حکومت میں اپنا فیصلہ خود کرنے اور اِس پر اطلاق کرانے کی کوئی ہمت نہیں ہے اور یہ حکومت محض ایک کاغذی ہوکر رہ گئی ہے۔ جو اپنے اچھے یا بُرے کسی بھی اقدام اور فیصلے پر بھی اپنی عوام سے عمل نہیں کرواسکتی ہے۔ تو پھر ایسی حکومت کا کیا فائدہ جو نہ خود سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے بھی عاری ہو اور وہ حکومت جو آئی ایم ایف کے کہنے پر عمل کرے اور بجلی کے نرخوں میں آئی ایم ایف کے صرف ایک ہی حکم پر چھ فیصد اضافہ کردے تو پھر ایسی حکومت کا کیا فائدہ جو خود کسی کی محتاج ہو اور اپنی ہی عوام کے گلوں پر آئی ایم ایف کے کہنے پر مہنگائی کی چھری پھیرا دے۔ اور یہ کہے کہ یہ حکومت ملک کی غریب عوام کی حقیقی ترجمان ہے جس نے آئی ایم ایف جیسے سود خود ادارے کے حکم اور مشوروں سے ملک میں مہنگائی کر کے ملک سے غربت کم کرنے جیسے اقدامات سمیت ملک سے غریبوں کو بھی ختم کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 951512 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.