ہفت زبان گلوکارہ ،ملکہ ترنم نور
جہاں کا اصل نام اﷲ وسائی تھا۔ 21 ستمبر1928ء کوقصور میں پیدا ہوئیں ۔
استاد بابا غلام محمد سے موسیقی کی تربیت حاصل کی ،ٹھمری، دھروپد، خیال اور
دیگر اصناف موسیقی پر چھوٹی عمر میں ہی عبور حاصل ہوچکاتھا۔نورجہاں اپنی
بہنوں کے ساتھ کلکتہ چلی گئیں اور فلم ’’پنجاب میل‘‘ میں اداکاری اور
گلوکاری کی۔ گیت کے بول تھے ، "سوہنا دیساں وچوں دیس پنجاب"۔ یہ فلم 1935
میں بنی۔ آغا حشر کاشمیری کی بیوی گلوکارہ مختار بیگم کو اﷲ وسائی بہت پسند
آئی، انہوں نے اﷲ وسائی کا نام بے بی نورجہاں تجویز کیا۔ نورجہاں نے کافی
فلموں میں بچپنے کے کرداروں کیلئے اداکاری بھی کی۔ جیسا کہ 1935 میں’’ پنڈ
دی کڑی ‘‘ ۔ 1937میں فلم ’’ہیر سیال ‘‘میں ہیر کے بچپن کا کرداروغیر ہ ،نو
رجہاں نے 1942میں پران کے مدمقابل فلم ’’خاندان ‘‘میں مرکزی کردار
اداکیا۔فلم کامیاب ہوئی نوجہاں بمبئی چلی گئیں ۔وہاں سید شوکت حسین رضوی (
اداکار اور ہدایت کار)سے ملاقات ہوئی ۔ عشق سر چڑھ کر بولا ۔گھر والوں کی
مخالفت کے باوجودشادی کر لی ۔سید شوکت حسین رضوی کے دوست سعادت حسن منٹو
بھی اس شادی کے مخالف تھے۔
نورجہاں نے 1945ء میں بننے والی فلم ’’بڑی ماں‘‘ میں مرکزی کردار
اداکیا۔اسی سال نورجہاں اور زہرابائی نے مل کر قوالی گائی یہ جنوبی ایشیا
میں پہلی قوالی تھی جو خواتین نے گائی تھی ۔ نورجہاں نے 1932سے 1947تک
127گانے گائے جبکہ 69فلموں میں اداکاری کی۔تقسیم ہند کے بعد پاکستان معرض
وجودمیں آیاتو دونوں میاں بیوی پاکستان کے شہر کراچی ہجرت کرآئے ۔
تین سال بعد’’چن وے ‘‘پنجابی فلم بنائی یہ نورجہاں کی پہلی پنجابی فلم تھی
۔ 1952میں فلم دوپٹہ نمائش کیلئے پیش کی گئی۔ اس فلم نے کامیابی کے ریکارڈ
قائم کئے ۔نورجہاں کے اس فلم میں گائے ہوئے گانے کواب تک پسندیدگی کی
سندحاصل ہے ۔بول ہیں
’’سب جگ سوئے ہم جاگیں۔تاروں سے کریں باتیں۔چاندنی راتیں‘‘
اسی دور میں میاں بیوی میں اختلافات پیدا ہوئے ۔بڑھے ۔ ان اختلافات کی بہت
سی وجوہات تھیں۔رضوی کا یہ الزام تھا کہ نورجہاں کے دیگر مرد اداکاروں،
موسیقاروں اور گلوکاروں سے ناجائز تعلقات ہیں۔ ان سب میں اہم الزام پاکستان
کے کرکٹر نذر محمد کا تھا ۔شوکت حسین رضوی نے اپنی کتاب "نورجہاں کی کہانی
میری زبانی" میں نہایت تفصیل سے بیان کیاہے ۔
جبکہ نورجہاں رضوی پر الزام عائد کرتی تھی کہ اس کے دیگر لڑکیوں کے ساتھ
ناجائز تعلقات ہیں۔آخر نوبت طلاق تک پہنچ گئی ۔سید شوکت حسین رضوی سے
نورجہاں کی ایک بیٹی اور دو بیٹے تھے ۔ بیٹوں کانام اکبر رضوی اور اصغر
رضوی جبکہ بیٹی کانام ظل ہما ہے ۔رضوی سے طلاق کے بعد نورجہاں نے پاکستانی
فلموں کے ادکار اعجاز درانی سے شادی کرلی۔ اعجاز درانی نے نورجہاں پر دباؤ
بڑھاتے ہوئے اداکاری چھوڑنے پر مجبور کر دیا ،نور جہاں گلوکاری کرتی رہیں ۔
ان دونوں کی زندگی اس وقت اختلافات کی زد میں آگئی، جب فردوس نامی اداکارہ
سے اعجاز کے تعلقات کی خبر عام ہوئی۔نورجہاں نے ہر ممکن کوشش کی کہ کسی طرح
اعجاز اورفردوس کا تعلق ختم ہوجائے۔
فردوس پر دباؤ بھی ڈالا۔فردوس واحد اداکارہ تھی ،جس نے نورجہاں کی آوازکے
بغیر پنجابی اور اردوفلموں میں کامیابی حاصل کی ۔ملکہ ترنم نور جہاں محب
وطن خاتون تھیں۔ 1965 کی جنگ میں وہ اپنی بیمار بچی کو گھر چھوڑ کر فوجی
بھائیوں کے لئے نغمہ ریکارڈ کروانے ریڈیوسٹیشن جاتی رہیں۔جنگ میں انھوں نے
ملی نغمے گا کر قوم اور فوج کے جوش و ولولہ میں اضافہ کیا۔جن میں سے چند یہ
ہیں۔
میرے ڈھول سپاہیا ۔اے وطن کے سجیلے جوانوں ۔ ایہہ پتر ہٹاں تے نیئی وکدے ۔او
ماہی چھیل چھبیلا۔یہ ہواؤں کے مسافر ۔رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو۔ 1957 میں
انھیں شاندار پرفارمنس کے باعث صدارتی ایوارڈ تمغہ امتیاز اور بعد ازاں
پرائیڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا گیا ۔آخری عمر میں وہ بیمار ہوئیں تو ان
کی علالت کا سلسلہ طویل ہوتا چلا گیا۔ صدر جنرل پرویز مشرف نے ان کے گھر جا
کر ا ن کی عیادت کی ۔ 23دسمبر 2000ء کو دل کا دورہ پڑنے سے میڈم نور جہاں
انتقال کر گئی تھیں، ان کی عمر 74برس تھی۔
نور جہاں نے زیادہ تر گانے انفرادی طور پر گائے اور کئی مرد گلوکاروں کے
ساتھ بھی دو گانے گائے ،جن میں مہدی حسن، پرویز مہدی، احمد رشدی،مسعود رانا،
عنائت حسین بھٹی، ندیم ، بشیر احمداور اے نئر شامل ہیں،اسکے علاوہ نورجہاں
نے زنانہ گلوکاروں کے ساتھ بھی گانے گائے ہیں ،جن میں رونا لیلی، ناہید
اختر، فریدہ خانم، مہناز اور مالا قابل ذکر ہیں۔انہوں نے پچاس سال تک اپنی
خوبصورت آواز کا جادو جگائے رکھا۔ انھوں نے مجموعی طور پر 10ہزار سے زائد
غزلیں و گیت گائے ۔ ان کے چند مشہور گانے یہ ہیں ۔
گائے گی دنیا گیت میرے ۔
جس دن سے پیا دل لے گئے ۔
مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ۔
آواز دے کہاں ہے ،دنیا میری جواں ہے۔
سلسلے توڑ گیا وہ سب ہی جاتے جاتے ۔
کلّی کلّی جان۔ دکھ لکھ تے کروڑ وے ۔
سانوں نہر والے پل تے بلا کے ۔
نورجہاں نے جن فلمو ں میں کام کیا، ان کے نام درج ذیل ہیں ،گل بکاؤلی ،ایماندار
،پیام حق ،سجنی ،یملا جٹ ،چوہدری ،ریڈ سگنل ،امیدسسرال ،دھیرج ،فریاد ،خاندان
،چاندنی ،نادان ،دہائی ،نوکر،لال حویلی ،دوست،زینت ،گاؤں کی گوری ،بڑی
ماں،بھائی جان ،انمول گھڑی ،دل ،ہمجولی ،صوفیہ ،جادوگر،مہاراجا پرتاب ،مرزا
صاحباں،جگنو،عابدہ ،میرا بھائی ،چن وے ،دوپٹہ ،گلنار،پاٹے خان ،لخت
جگر،انتظار،نوراں،چھومنتر،انارکلی ،نیند،پردیسن ،کوئل ،مرزا غالب وغیرہ |