شیخ الحدیث مولاناسلیم اﷲ خان صاحب حفظہ اﷲ کا نام علمی
حلقوں میں محتاج تعارف نہیں۔ ۱۹۲۶ء میں ہندوستان کے مشہور شہر جلال آباد
میں پیدا ہوئے۔۱۹۲۶ء میں برصغیر کی معروف دینی درس گاہ دارالعلوم دیوبند سے
سند فراغت حاصل کی۔ جلال آباد میں آٹھ سال تک تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔
۱۹۵۴ء میں پاکستان ہجرت کی، یہاں دارالعلوم اسلامیہ ٹنڈوالٰہ یار ، جامعہ
دارالعلوم کراچی اور جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوریؒ ٹاؤن
کی مسانید ِحدیث پر فائز رہے۔ ۱۹۷۶ء میں شاہ فیصل کالونی میں مشہور دینی
درس گاہ جامعہ فاروقیہ کراچی کی بنیاد رکھی،جس کے تاحال مہتمم اور شیخ
الحدیث ہیں۔ جامعہ فاروقیہ سے ہر سال سینکڑوں طلبہ فارغ التحصیل ہوتے ہیں۔
یہ پاکستان کا واحدادارہ ہے جس سے اردو،سندھی، عربی اور انگریزی چارزبانوں
میں ’’الفاروق‘‘ کے نام سے معیاری مجلّات شایع ہوتے ہیں۔ان کی تدریسی زندگی
نصف صدی سے زیادہ پر محیط ہے۔ ان کے وسیع حلقۂ تلامذہ میں ملک وبیرون ملک
کے ممتاز علماء داخل ہیں۔ مفتی رفیع عثمانی، مفتی تقی عثمانی، مولانا احمد
الرحمن شہیدؒ، مولانا ڈاکٹر حبیب اﷲ مختار شہیدؒ، مفتی نظام الدین شامزئیؒ،
مولانا محمد جمشید ؒ(تبلیغی جماعت والے)، مولانا محمد رابع ندوی(مہتمم
دارالعلوم ندوۃالعلماء لکھنؤ) ، مشہور مترجم وشارح مولانا حنیف گنگوہی،
مولانا ڈاکٹر منظور احمد مینگل اور مولانا ولی خان المظفرجیسے ممتاز اہل
علم ان کے شاگردوں میں شامل ہیں۔ بر صغیرپاک وہند کے علاوہ دنیا کے مختلف
ملکوں ناروے، جرمنی، ساؤتھ افریقہ، انگلینڈ، امریکا،کینیڈا، آسٹریلیا،
کوریا، فرانس، ملائشیا، سعودی عرب، کویت، قطر، عمان اور ایران میں بھی آپ
کے شاگردوں کا حلقہ موجود ہے۔ ان کی صحیح بخاری کی اردو میں ایک معرکۃ
الآرا شرح ’’کشف الباری عما فی صحیح البخاری‘‘ کے نام سے زیر تدوین ہے۔اس
کی بیس جلدیں منصہ شہود میں آکر علمی حلقوں سے خراج تحسین وصول کرچکی ہیں۔
شیخ الحدیث مولانا سلیم اﷲ خان صاحب اسلامی دنیا کے سب سے بڑے بورڈ وفاق
المدارس کے صدر ہیں، جس سے ملحق مدارس کی تعداد سات ہزار سے متجاوز ہے اور
اب تک اس تعلیمی بورڈ کے تحت فارغ ہونے والے علماء کی تعداد ایک لاکھ انیس
ہزار آٹھ سو ہے، جب کہ عالمات کی تعداد ایک لاکھ پچاس ہزار اٹھائیس ہے۔
’’حضرت والا نے ۱۴۲۶ھ۱۴۲۷ھ ا میں اپنی سوانح زندگی املاء کرانی شروع کی
تھی، جسے جامعہ فاروقیہ کے فاضل اور تخصص فی الفقہ کے طالب علم مولانا شمس
الحق کشمیری صاحب ضبط کر رہے تھے، یوں خود ان کی زبان سے ان کی زندگی کی
کافی سرگزشت مرتب ہوکر سامنے آئی۔ اس سرگزشت کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ
اس میں انہوں نے بغیر تصنع وتکلف کے زندگی کے واقعات ہوبہو بیان کردیے ہیں۔
بڑے لوگوں کی سوانح پر لکھی جانے والی کتابوں میں عموماً ایک کمی یہ پائی
جاتی ہے کہ وہ بچپن ہی سے طبعی زندگی سے ماوراء منفرد دکھائی دیتے ہیں۔
سوانح نگار غالباً عقیدت کی بنیاد پر ایسا کرتے ہیں لیکن اس کا نقصان یہ
ہوتا ہے کہ پڑھنے والا ان کو فطری تقاضوں، طبعی زندگی کی الجھنوں اور گردش
لیل ونہار کی ہمہ گیر جکڑبندیوں سے آزاد دیکھ کر یہ تاثر لے لیتا ہے کہ جو
جھمیلے والی زندگی میں گزار رہا ہوں،اس میں ان بزرگوں کے نقش قدم پر چلنا
ممکن نہیں۔ وہ ان کی سوانح کو قابل رشک تو سمجھ لیتا ہے، قابل تقلید
نہیں…………لیکن شیخ صاحب نے اپنی اس آپ بیتی میں طبعی زندگی کے واقعات کو
بغیر کسی آمیزش کے ذکر کردیا ہے،جو ابتدائی تعلیم وتربیت کی تفصیلات کے
ساتھ بچپن کی شوخیوں اور دل چسپیوں پر مشتمل ہیں۔‘‘ ہم نے بعض واقعات
وحالات کو یہاں سوالاً جوا باًذکر کیا ہے اور کچھ کو واقعات کے ذیل میں آگے
ذکر کیا جائے گا۔
سوالـ:بچپن میں آپ کی تربیت میں کس کا زیادہ ہاتھ تھا؟
جواب:ہم جب چھوٹے سے تھے تو ہماری تربیت پر خاص توجہ دی گئی، کیوں کہ بچوں
کی تربیت میں گھر کے ماحول کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے اور اس میں والدین کا
کردار سب سے بڑا عامل ہے۔ اگر اولاد کی تربیت میں والدین کے ذہن میں
یکسانیت ہوتی ہے تو اولاد پر اس کا اثر نمایاں ہوتاہے۔ہماری تربیت میں
ہمارے والدین کی ذہنی یکسانیت کو بڑا دخل رہاہے۔ اس یکسانیت کے باوجود
صورتحال یہ تھی کہ والد صاحب نے عملاً یہ کام والدہ کے حوالے کر
رکھاتھا۔والد صاحب براہِ راست دخل نہیں دیتے تھے اور والدہ کے دارو گیر
کرنے پر ناراض نہیں ہوتے تھے۔ ہماری والدہ اور والد دونوں نمازی تھے، جفاکش
تھے اور اپنے کاموں کو پوری ذمہ داری کے ساتھ بروقت انجام دیتے تھے۔
سوال:ابتدائی تعلیم کہاں سے حاصل کی؟
جواب:بچپن میں پڑھنے کے لیے ہمیں ’’مسلم‘‘ اسکول میں بٹھایا گیا جو ایک
سرکاری اسکول تھا۔مسلم اس کے ساتھ اس لیے لگتا تھاکہ وہاں اساتذہ مسلمان
ہوتے تھے اور طلبہ بھی تقریباً تمام کے تمام مسلمان ہی ہوتے تھے۔اتفاق سے
کبھی کوئی غیر مسلم آجاتا تھا۔ مسلم اسکول کی ایک شناخت یہ بھی تھی کہ وہاں
چھٹی جمعہ کو ہوتی تھی۔ اس کے مقابلے میں جو دوسرے اسکول تھے وہاں ہندو
اساتذہ ہوتے تھے اور طلبہ بھی ہندوہی ہوتے اور وہاں چھٹی اتوار کو ہوتی
تھی۔ مسلم اسکول پرائمری اسکول تھا، جہاں چار کلاسیں تھیں، ان کی ترتیب اس
طرح تھی کہ پہلی جماعت (الف) کی تھی ، دوسری (ب) کی، اس کے بعد پھر پہلی
جماعت شروع ہوتی تھی پھر دوسری، تیسری پھر چوتھی۔ سال تو چھ لگتے تھے، لیکن
مشہور یہ تھاکہ پرائمری چار سال میں ہوتا ہے۔ (الف) اور (ب) کے درجوں کو
شمار نہیں کیا جاتا تھا، یہ تو اب یاد نہیں کہ وہ الف اور ب کے درجے ہم نے
کیسے گزارے ؟ بہرحال ہم نے وہاں پرائمری پاس کیا۔
سوال: آپ کے چلنے میں ذرا لڑکھڑاہٹ ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟
جواب:ہمارے بچپن کے مسلم اسکول جس کا تذکرہ ابھی ہوا، اس کے پاس دربار نامی
عمارت تھی، اسی دربار کے دائیں جانب ایک بہت بڑا میدان تھا، جس میں وہاں کے
مقامی جولاہے، آرائیں مرچوں کے کھیت خرید کر مرچیں تڑواتڑواکر جمع کرتے
تھے، ان کی ڈنٹھلیں کاٹنے کے لیے بچے اور عورتیں جمع ہوجاتیں اور یوں ایک
میلہ لگ جاتا تھا۔ ہمارے گھر میں ایک لڑکا رشید رہتا تھا، ہماری والدہ نے
یتیم ہونے کے ناطے اسے سونے اور کھانے کی رعایت دے رکھی تھی۔ وہ دن بھر ایک
جولاہے ’’ ابتو‘‘ کے ہاں کام کرتا، رات کو سونے کے لیے ہمارے گھر آجاتا۔ وہ
کبھی کبھی ابتو کی طرح ڈنٹھلیں کاٹنے کے لیے بھی جایا کرتا تھا۔ ہماری اس
سے دوستی تھی۔ جمعہ کے دن اماں ہمیں مَل مَل کر نہلاتی تھی اور ہمیں اس سے
بڑی تکلیف اور اذیت ہوتی تھی۔اس لیے بھاگنے کے چکر میں ہوتے تھے۔ ہمیں
معلوم ہواکہ رشید ڈنٹھلیں کاٹنے گیا ہواہے تو ہم نہانے کے خوف سے اور وقت
گزارنے کے لیے اس کے پاس پہنچ گئے۔ وہاں دیکھا کہ ’’سعدو‘‘ بھی آیا ہواہے
(اس کا اصل نام مجھے یاد نہیں، البتہ اس کے بڑے بھائی کانام اسمٰعیل ہے،
انہوں نے ہی ہمارے بھائی عبد القیوم خان صاحب کے آنے کے بعد ہمارا مکان
خریدا تھا) اس سعدو کی نئی نئی شادی ہوئی تھی، ان کے ہاں کم عمری میں شادی
کرنے کا رواج تھا۔ اس نے شادی کا صافہ باندھ رکھا تھا، سردی کا زمانہ تھا۔
میں نے بھی صافہ باندھ رکھا تھا، وہ ہمارے اسکول کا بھی ساتھی تھا، میں نے
اس سے کہا بھائی یہ صافہ دکھا، اسے باندھ کے دیکھتا ہوں اور اپنا صافہ اسے
دے دیاکہ تو اسے باندھ کے دیکھ، یوں تبادلہ ہوگیا، میرا صافہ تو پرانا
تھااس کا شادی کا تھا، اس نے میرا صافہ اٹھا کر پھینک دیا تو خراب ہوگیا،
میں نے بھی اس کا صافہ پھینک دیا، نتیجہ یہ ہواکہ وہ مجھے مارنے کے لیے
دوڑا۔میں بھاگ کر مرچوں کے مالکان کے پاس جانے لگاجو قریب ہی بیٹھے ہوئے
تھے، راستہ میں درانتیاں وغیرہ پڑی ہوئی تھیں ، ایک درانتی سے میرا پاؤں
ٹکرایا اور وہ یہاں سے کٹ گیا۔ خون بے تحاشہ بہہ رہاتھا، شور مچ گیاکہ پاؤں
کٹ گیا، پاؤں کٹ گیا ، لیکن زخم گرم ہونے کی وجہ سے مجھے محسوس نہیں
ہوا۔ہمارے والد صاحب اسی روز اپنی دکان مطب کی دوائیں خریدنے کے لیے دلی
جانے والے تھے۔ ان کو معلوم ہواتو وہ بھی آگئے اور قصبہ کے ڈاکٹر کشن لال
کے پاس لے گئے۔ اس نے ہمارے پاؤں میں ٹانکے لگائے، سن کرنے کا انجکشن بھی
نہیں لگایا، لیکن ہم روئے نہیں اور پوری برداشت سے کام لیا۔ اس کے بعد ایک
مہینے تک بستر پر پڑے رہے اور جب چلنا شروع کیاتو یہ نقص ہمارے پاؤں میں
ہوگیا۔
اس پاؤں زخمی ہونے کی بھی شاید عجیب وجہ یہ تھی کہ جب ہم اسکول میں پڑھتے
تھے تو وہاں اسکول کے ساتھ مغلوں کے دور کی بنی ہوئی شاندار مسجد تھی، اس
میں شہتوت کا درخت تھا، بچے پیشاب وغیرہ کے بہانے آتے اور شہتوت توڑتے۔ ایک
خان صاحب اس مسجد کے نگران تھے، ان کا نام یحییٰ خان عرف ’’بھائیوں
خان‘‘تھا، وہ اس طرح چلتے تھے جس طرح آج میں چلتا ہوں تو وہ لڑکوں کو ڈانٹا
کرتے تھے، مارتے تو نہیں تھے لیکن ان کے پیچھے دوڑتے تھے۔ اس لیے اسکول کے
تمام لڑکے ان سے ناراض تھے کہ شہتوت نہیں توڑنے دیتے ۔ ہم وہاں استاذ کی
حیثیت سے بھی کام کرتے تھے اور فارسی پڑھنے کا زمانہ تھا، ویسے بھی ہم
نمایاں تھے۔ سارے لڑکے ہمارے کہنے میں ہوتے، شام کو جب چھٹی ہوجاتی اور
ماسٹر چلے جاتے تو ہم لڑکوں سے کہتے کہ سب لائن میں کھڑے ہوکر ’’بھائیوں
خان‘‘ کی نقل کرو۔ ہم ایک جگہ کھڑے ہوجاتے اور سارے لڑکے بھائیوں خان کی
نقل اتار رہے ہوتے، یہ حرکت ہماری طرف سے ہوتی تھی، لیکن یہ اﷲ کو پسند
نہیں آئی اور ہمارے ساتھ یہ واقعہ پیش آگیا اور ہم بھی بھائیوں خان ہی بن
گئے اسی طرح چلنے لگے ، حالانکہ ہم نابالغ غیر مکلف تھے۔
سوال: بچپن کا کوئی ایسا شوق جو اَب بھی یاد آتا ہو؟
جواب:لوہاری میں ہمیں کبوتر پالنے کا بہت شوق تھا، ہمارے گھر کے قریب عبد
الحمید جولاہا رہتا تھا، اس نے کبوتر پال رکھے تھے ، ہم اس کے گھر جاکر
کبوتروں سے کھیلتے تھے اور ان کو اڑایا کرتے لیکن چوں کہ گھر بالکل ساتھ
تھے اور کبوتر بھی دوسرے کے تھے، اس لیے گھر والوں کی طرف سے اعتراض ہوتا
تھا اور ادھر عبد الحمید بھی ہماری دخل اندازی کو پسند نہیں کرتا تھا،چناں
چہ ہم نے اپنے گھر سے دور اپنے ایک اسکول کے ساتھی ’’مقصود‘‘ کے گھر کبوتر
پالے، وہاں ہمیں پوری آزادی تھی۔
لوہاری میں بہت لوگوں نے کبوتر پال رکھے تھے، سردار علی خان، صدیق لوہار
اور ہماری دکان کے ایک ملازم ’’فقیرا‘‘ نے بھی کبوتر پال رکھے تھے،
’’ربّو‘‘ بنیے کے ہاں بھی کبوتر تھے۔ بڑے بڑے کبوتر باز آپس میں کبوتر بازی
کی شرطیں بھی لگایا کرتے تھے۔ وہاں مقابلے کاعام رواج تھاکہ دو آدمیوں کے
درمیان شرط لگتی تھی اور فجر کی نماز سے پہلے دونوں اپنا اپنا کبوتر اڑاتے،
جس کا کبوتر بعد میں اترتا وہ جیت جاتا، ہارنے والے کا کبوتر جیتنے والے کو
مل جاتا۔ ہم نے بھی شرط کے ساتھ کبوتر اڑانے کا سلسلہ اختیار کیا۔عجیب بات
یہ ہے کہ سردار علی خان، فردوس خان اور صدیق لوہار سے بھی ہمارا مقابلہ
ہوا۔باقی ربّویا فقیرا سے مقابلہ ہوا یا نہیں؟ یہ یاد نہیں۔ صدیق لوہار (جو
عمر میں ہمارے والد صاحب سے بھی بڑا تھا)سے جیتنے کا قصہ یہ ہواکہ عصر کے
بعد دونوں کے کبوتربعد اترے مگر صرف دو تین چکر وں کے فرق سے ہمارا کبوتر
جیت گیااور صدیق والا کبوتر ہمیں مل گیا۔ اس جیت سے کبوتر بازوں میں بڑا
شور ہواکہ صاحب! ان کے کبوتر نے صدیق کے کبوتر کو ہرادیا، اس کا علم ہمارے
والد صاحب کو بھی ہوا۔
سوال: والد صاحب کا کیا ردعمل تھا؟
جواب: جب والد صاحب کو اس کا علم ہواتو ان کو بڑا غصہ آیااور خود مقصود کے
گھر جاکر ہمارے جس کبوتر نے شرط جیتی تھی، لے آئے اور جو کبوتر صدیق لوہارے
سے جیتا تھاوہ بھی لے آئے۔ مغرب کے بعد ہمیں کرسی پر بٹھایااور دونوں کبوتر
ہمارے سامنے ذبح کردیے۔یہ اتنی سخت سزا تھی جس کی کوئی انتہا نہیں، ہمیں
اور کچھ نہیں کہا لیکن ہم اپنی حرکت سے باز نہیں آئے اور ایک اورشرط فردوس
خان کے مقابلے میں جیت لی۔ وہاں بھی مقابلے کا طریقہ یہ تھاصبح کا اڑایا
ہوا کبوتر مغرب کے قریب اترا، ہمارا کبوتر دوتین چکر بعد اترا۔مقابلہ بہت
سخت ہوا لیکن ہم جیت گئے، پھر شور ہوا تو والد صاحب نے ہمارے دونوں کبوتر
ہمارے سامنے پکڑ کر ذبح کردیے ، پھر تیسری شرط سردار علی خان کے مقابلے میں
سخت مقابلے کے بعد جیتی۔ یہ کبوتر ہم تھانہ بھون سے چودہ روپے کا خرید کر
لائے تھے، جو بہت عمدہ تھا، اسے گھی پلاتے اور بادام کھلاتے تھے، اس طرح
ہمارا شوق عروج پر پہنچا ہوا تھا، اس مرتبہ بھی والد صاحب ہمارے کبوتر لائے
اور ذبح کردیے ۔
جب یہ واقعات مسلسل ہوئے تو ہم نے مقصود والا مرکز تبدیل کرکے
’’بھیسانی‘‘میں اپنے ایک اسکول کے ساتھی ذِکر محمد جس کو سب ذکرو ذکرو کہتے
تھے کے گھر کبوتر پالے۔ بھیسانی ہمارے گھر (لوہاری) سے دو تین میل کے فاصلے
پر تھا، اب ہمارا معمول تھا کہ اسکول سے جیسے ہی چھٹی ہوتی، کھانا کھاکر
بھیسانی کے لیے دوڑ لگاتے۔ ایک ہی دوڑ میں بھیسانی پہنچ جاتے، ہمارے والد
اپنی دکان سے بہت دیر سے آتے تھے اس لیے ہم بھیسانی میں جاکر خوب کبوتر
اڑاتے ۔اس محلے کی ساری عورتیں ہمیں اچھی طرح جانتی تھیں، اس لیے کہ کبھی
ہمارا کبوتر کسی کے گھر جاکر بیٹھ گیا ،اس کو لینے جاتے۔تبلیغی جماعت کے
مشہور بزرگ مولانا جمشیدصاحبؒ(جن کا تین نومبر 2014ء کو انتقال ہوا) کا گھر
بھی ذکرو کے گھر کے قریب تھا، ان کے گھر بھی کبوتروں کی وجہ سے ہمارا بہت
زیادہ آنا جانا ہوتا تھا۔ یہاں کبوتروں کے اڑانے کا شوق پورا کرکے ایک دوڑ
لگاتے تو ظہر سے پہلے لوہاری پہنچ جاتے۔ نہ اسکول میں کسی کو پتا چلتا کہ
ہم نے دوپہر کو کیا کیا اور نہ گھر والوں کو پتا چلتا۔ بچے جیسے دوپہر کو
کھیلتے ہیں وہ سمجھتے ہوں گے ایسے ہی محلے میں کھیل رہے ہوں گے لیکن ہم
بھیسانی جایا کرتے تھے۔بھیسانی میں ایک عجیب عادت دیکھی کہ عورتیں گھروں
میں چارپائی پر بیٹھی ہوتیں، اگر اس حالت میں شوہر گھر میں داخل ہوتا تو
بیوی فوراً چارپائی سے اٹھ کر نیچے زمین پر بیٹھ جاتیں، یہ دیکھ کر ہمیں
بہت تعجب ہوتا تھا۔
اس کے علاوہ ہمیں مرغیاں اور بطخیں پالنے کا شوق بھی تھا۔ کبوتر کی طرح اسے
بھی اچھی طرح پورا کیا، تیراکی کا شوق بھی خوب پروان چڑھا۔ گھر میں والدہ
نے بھینسیں پالی ہوتی تھیں، کبھی ایک بھینس، کبھی دو بھینسیں اور کبھی تین
بھی ہوجاتی تھیں اور کبھی ایک رہ جاتی۔ وہ چرنے کے لیے جنگل میں جایا کرتی
تھیں اور دوپہر کو تالاب میں آکر آرام کرتی تھیں۔ یہ تالاب ہمارے گھر کے
مشرق اور جنوب کے کنارے پر تھا، اس کو ’’گُلی‘‘ کہتے تھے۔ ہم ان بھینسوں کی
دُم پکڑ کر تالاب میں چلے جایا کرتے۔ تالاب بعض جگہوں میں کم گہرا اور بعض
جگہوں میں بہت زیادہ گہرا تھا، بھینس کی دم پکڑ پکڑ کر ہم نے تیرنے کی مشق
کی اور یوں ہمیں کئی طرح کا تیرنا آگیا۔چت لیٹ کر بھی تیرتے، کھڑے ہوکر بھی
تیرتے اور پٹ لیٹ کر بھی تیرتے، یہ ساری قسمیں ہم نے سیکھ لیں۔ ہمارے محلے
میں ایک آدمی تھا’’کلو‘‘ وہ ہمارے والد صاحب سے کبھی کبھی شکایت کردیا
کرتاتھا، تو وہ ناراض ہوا کرتے، ہم نگاہ رکھتے تھے کہ کلوادھر تو نہیں
آرہا، اگر کبھی دیکھا کہ وہ آرہاہے تو ہم ڈبکی لگالیا کرتے تھے اور اس سے
بہت بچتے تھے۔
سوال: دارالعلوم دیوبند میں کب داخلہ لیا؟
جواب:جب ہمارے مدرسہ مفتاح العلوم کے استاذمولانا مسیح اﷲ خانؒ بیمار
ہوگئے۔ اسباق کافی متاثر ہوئے، چودہ پندرہ طالب علم تھے، ان میں سے اکثر
سہارنپور اور دیوبند جاکر داخل ہوگئے۔ چار پانچ طلبہ رہ گئے تھے، ان
کاارادہ مفتاح العلوم ہی میں پڑھنے کا تھا، مگر رمضان کے متصل بعد حضرت
استاذ بیمار ہوگئے اور انہوں نے فرمایا کہ معلوم نہیں اس بیماری کی وجہ سے
کب تک اسباق شروع نہیں ہوسکیں گے اور فیصلہ کردیا کہ آپ لوگ دارالعلوم
دیوبند جاکر داخلہ لیں۔ مولانا سید عابد حسین صاحب جو ’’چھوٹے مولوی
صاحب‘‘کے لقب سے معروف تھے، ان کو داخلے کی کارروائی کے لیے ساتھ روانہ
کیا، یہ وہ زمانہ تھاجب انگریز حکومت کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک چل رہی
تھی، بینک جلائے جارہے تھے، ریل کی پٹریاں اکھاڑی جارہی تھیں اور دارالعلوم
میں سیاست کا دور تھا۔ اس لیے حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے
بعض متعلقین مظاہر علوم سہارنپور کو ترجیح دیا کرتے تھے اور حضرت تھانویؒ
کے متعلقین میں سے جو دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیتے تھے، ان کی تعداد
نسبتاً کم ہوتی تھی۔ ہم لوگوں کو جب دارالعلوم دیوبندمیں داخل کرایا گیاتو
بعض لوگوں نے بڑا شور مچایا کہ مولانا مسیح اﷲ خانؒ نے اپنے شاگردوں کو
دیوبند داخل کرایا ہے۔ مولانا تک جب یہ بات پہنچی تو فرمایا کہ جب تک حضرت
مولانا حسین احمد مدنیؒ دارالعلوم دیوبندمیں موجود ہیں، میں اپنے شاگردوں
کو دارالعلوم دیوبند کے علاوہ کسی دوسری جگہ کا مشورہ نہیں دوں گااور یہ اس
وقت کا واقعہ ہے جب کہ دو میل کے فاصلے پر حضرت تھانویؒ بقید حیات تھے اور
مولانا اپنے شیخ سے فنافی الشیخ ہونے کا تعلق رکھتے تھے۔
اس سے واضح ہواکہ دارالعلوم دیوبندمیں حضرت مدنیؒ سے پڑھنے کو جیسے حضرت
الاستاذاہمیت دیتے تھے، اسی طرح حضرت حکیم الامت کے نزدیک بھی یہ بات اہم
تھی اور جو لوگ دارالعلوم دیوبندکے داخلے کو ترجیح نہیں دیتے تھے، یہ ان کا
اپنا موقف تھا۔ یہ بات اس طرح بھی ثابت ہوتی ہے کہ مولانا مفتی محمد حسن
امرتسری کے صاحب زادے مولانا عبیداﷲ صاحب اور مولانا محمد شریف صاحب کو
دورۂ حدیث کے لیے داخل کرنے کے سلسلے میں ان دونوں بزرگوں نے حکیم الامت
مولانا اشرف علی تھانویؒ سے مشورہ کیا اور وہی سن 42کا سول نافرمانی کی
تحریک کا زمانہ تھا۔یہ دونوں بزرگ ، حضرت حکیم الامت کے ممتاز خلفاء میں سے
تھے، تو حضرت تھانویؒ نے دونوں کو یہی مشورہ دیاکہ ان کو دورہ حدیث کے لیے
دارالعلوم دیوبندمیں داخل کیا جائے، یہ دارالعلوم میں داخلے کی بات تھی۔
سوالـ: دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیتے وقت آپ کی عمر کتنی تھی؟
جواب:ہماری صغر سنی کا یہ حال تھا کہ جب ہم دارالعلوم دیوبند میں داخل ہونے
کے لیے گئے تو اس وقت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ صدر مہتمم تھے۔ ہمارے خالو
جان (بعد میں ہمارے خسر بنے) کے مولانا عثمانیؒ سے اچھے تعلقات تھے۔ ہم نے
خالو جان سے کہا کہ ہمیں علیحدہ کمرہ دلوادیں تو انہوں نے مولانا عثمانیؒ
سے کہا کہ یہ ہمارا عزیز ہے، اس کی خواہش ہے کہ اس کو علیحدہ ایک آدمی والا
کمرہ دیا جائے۔ مولانا نے یہ خیال کرتے ہوئے کہ یہ فارسی پڑھنے آیا ہوگا،
فرمایا کہ ان کو تو یہاں پڑھنا ہی نہیں چاہیے، کسی چھوٹے مدرسے میں پڑھیں۔
خالو جان نے کہا کہ یہ تو ہدایہ اوّلین پڑھتے ہیں تو مولانا عثمانیؒ سوچنے
لگے اور تعجب سے پوچھا کہ ارے یہ ہدایہ اولین پڑھتے ہیں؟ پھر فرمایا کہ اب
چھوٹے مدرسے کا مشورہ تو نہیں دیا جاسکتا ، لیکن علیحدہ کمرہ ان کے لیے
مناسب نہیں اس لیے کہ یہ بہت چھوٹے ہیں، چناں چہ دارِ جدید کے عقب میں جو
چھ سات معمولی قسم کے کمرے تھے ان میں سے پہلے نمبر کا کمرہ ہمیں ملا تو ہم
سب ساتھی جو جلال آباد سے گئے تھے، اس میں رہنے لگے۔
سوال:دارالعلوم دیوبند کی کن نابغہ شخصیات سے آپ زیادہ متاثر ہوئے؟
جواب: دارالعلوم کے وہ اساتذہ جن سے ہم بہت متاثر ہوئے اور استفادہ بھی
اپنی صلاحیت کے مطابق کیا ان میں :
(۱)حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ کا نام گرامی سر فہرست ہے، جن
کے ساتھ عقیدت تو پہلے سے تھی، مگر جب ہم نے ان سے پڑھا تو اس عقیدت میں
اور بہت اضافہ ہوا۔
(۲) حضرت مولانااعزاز علیؒ جو دارالعلوم کے اس وقت شیخ الادب والفقہ تھے۔
(۳) حضرت مولاناادریس کاندھلویؒ۔
(۴)حضرت مولاناعبد الخالق ملتانیؒ۔
ان کے علاوہ دوسرے حضرات اساتذہ سے بھی استفادہ کیا اور ان کی عظمت کا بھی
ہمیشہ احساس رہا، لیکن مذکورہ بالا چار حضرات سے استفادہ اور تاثر کی نوعیت
مختلف تھی۔
(۱)حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ نوراﷲ مرقدہ کے درس ترمذی سے
خاص طور پر بہت فائدہ ہوا۔ ہم نے مشکوٰۃ شریف نہیں پڑھی تھی، اس لیے عام
طلبہ کی طرح علم حدیث کے متنوع مباحث کے اخذ اور قبول میں استعداد کم تھی۔
حضرت کے درس سے اس کمی کی تلافی ہوئی، اسی طرح حضرت والا کے معمولاتِ درس
وغیرہ کا بھی بہت اثر ہوا۔
طریقہ یہ تھاکہ حضرت کی تشریف آوری سے پہلے مولوی عبدالنور سلہٹی جو حضرت
کے دائیں جانب بیٹھتے تھے اور بائیں جانب مولوی عبد العزیز میانوالی بیٹھا
کرتے تھے، طلبہ پرچیوں پر سوالات لکھ کر ان دونوں کے پاس جمع کردیا کرتے
تھے۔ حضرت کے تشریف لانے پر یہ پرچیاں پیش کی جاتی تھیں اور آپ ایک ایک
پرچی کو پڑھتے، نہایت خندہ پیشانی سے اس کا جواب دیاکرتے تھے۔ سوالات علمی
بھی ہوتے تھے، سیاست سے بھی متعلق ہوتے تھے، حضرت کی ذات سے بھی، بلکہ بعض
اوقات حضرت کے خانگی امور سے بھی تعلق رکھتے تھے۔ کبھی کبھی ان جوابات میں
ایک گھنٹہ لگ جاتا تھا، لیکن حضرت کے انبساط اور نشاط میں فرق نہیں آتاتھا۔
میرے خیال میں عبدیت اور تواضع کا نتیجہ تھا۔ اگر سوال نامناسب اور بے ہودہ
ہوتا تب بھی ناراضی کا اظہار نہیں ہوتا تھا۔ مولوی عبد النور سلہٹی جو حضرت
کے دائیں جانب بیٹھتے تھے، وہ صحاح ستہ کا سیٹ بھی اپنے پاس رکھتے تھے۔
حوالے کے لیے جب دورانِ درس آپ کوئی کتاب طلب فرماتے تو عبد النور پیش کرتے
تھے۔ دورانِ درس پان کا بیڑا بھی وہ حضرت کو پیش کیا کرتے تھے۔ یہ عبد
النور سلہٹی سالانہ امتحان میں نقل کرتے ہوئے پکڑے گئے اور حضرت کے صاحب
زادے بھی اس جرم میں ماخوذ ہوئے تو حضراتِ اساتذہ نے صاحب زادے کی سفارش کی
کہ ان کو معاف کردیا جائے، جب کہ مولوی عبد النور کی کوئی سفارش نہیں تھی۔
حضرت نے یہ دیکھتے ہوئے عبد النور کو معافی دی اور صاحب زادے کے لیے آیندہ
سال اسی درجے کا اعادہ کروایا۔
(۲)حضرت مولانااعزاز علیؒ اپنی سادگی، نظم ونسق کی پابندی اور فنا فی العلم
ہونے کی وجہ سے ہمارے بہترین استاد تھے۔ مولانا کی ایک خصوصیت یہ بھی سامنے
آئی کہ ان کا درس چاہے دو تین گھنٹوں پر محیط ہو، لیکن اس میں کبھی ایک
جملہ بھی حضرت کی زبان مبارک سے سبق سے غیر متعلق سننے میں نہیں آیا۔ اسی
طرح ایک خاص عادت حضرت کی یہ تھی کہ حد سے زیادہ سادگی اور تواضع کے باوجود
کسی کے ساتھ بھی ضرورت سے زیادہ بات نہیں کرتے تھے۔ مجلس آرائی کا وہاں
کوئی تصور موجود نہیں تھااور ’’من حسن اسلام المرأ ترکہ مالایعنیہ‘‘ کا وہ
بہترین نمونہ تھے۔
(۳) حضرت مولاناادریس کاندھلویؒ: د ارالعلوم میں پہلے سال انہیں ہدایہ
اولین اور میبذی وغیرہ کے اسباق پڑھانے کو ملے۔ مولانا نے دارالعلوم میں
پہلے سال نماز فجر کے بعد نودرے میں ترجمہ قرآن شریف شروع کروایا اور سال
بھر دس پاروں کا ترجمہ مکمل ہوا۔ مولانا کا درس بہت تحقیقی اور دل چسپ ہوتا
تھا اور پورا نودرا طلبہ سے بھرا ہوتا تھا۔ درس میں ایک دن مولانا نے ارشاد
فرمایاکہ د ارالعلوم کے اساتذہ نے ایک مرتبہ تنخواہوں کے اضافے کی درخواست
دی۔مجھے بھی درخواست پر دستخط کے لیے کہاگیا تو میں نے انکار کردیا، جب کہ
ضرورت مجھے بھی تھی۔ میں نے اسی نودرے میں درسگاہ میں بیٹھ کر خطابت کا فن
سیکھا اور اس کے ذریعے سے اپنی ضرورت پوری کی۔ تنخواہ میں اضافے کی درخواست
کو پسند نہیں کیا۔
مولانا نے ایک مرتبہ دورۂ حدیث مظاہر علوم سہارنپور میں پڑھا اور اس کے بعد
دوبارہ د ارالعلوم دیوبند میں حضرت مولانا انورشاہ کشمیریؒ سے پڑھا۔ مظاہر
علوم میں سنن ابوداؤد کے پرچے میں ان کو نمبر کم ملے، جب کہ ان کے خیال کے
مطابق پرچہ بہت عمدہ حل کیا گیا تھا اور د ارالعلوم دیوبند میں امتحان کے
موقع پر ابوداؤد میں اسی طرح کے سوالات آئے تو مولانا کے جوابات کو بہت
سراہا گیااور اعلیٰ نمبرات سے نوازاگیا۔ مولانا فنافی العلم عالم تھے۔ ان
کی چال ڈھال، رفتار گفتاراور نشست وبرخاست سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ اس شخص
کو دنیا ومافیہا سے کوئی سرو کار نہیں ہے اور یہ بزرگ دین اور علم دین کے
لیے وقف ہیں۔
(۴)حضرت مولاناعبد الخالق ملتانیؒاحقر کے ان اساتذہ میں شامل ہیں جس سے د
ارالعلوم دیوبند میں طالب علمی کے زمانے میں زیادہ مستفید ہونے کا موقع
ملا۔ ان کا طرز استدلال اپنی مثال آپ تھا، وہ جب سبق پڑھاتے تو قاضی مبارک،
خیالی، توضیح تلویح ان کے سامنے نہیں ہوتی تھیں لیکن طالب علم ان کی تقریر
کو کتاب کے ایک ایک حرف پر منطبق کرتا چلا جاتا تھا۔ وہ پہلے سبق کے مضمون
کو تقطیع کرکے بتلاتے تھے کہ فلاں جگہ سے فلاں جگہ تک یہ مضمون ہے اور اس
کے بعد فلاں جگہ تک یہ مضمون ہے، پھر اسی اجمال کے بعد شروع سے ہر مضمون کی
تفصیل فرماتے تھے۔ اندازِ بیاں میں ٹھہراؤ اور متانت نمایاں ہوتی تھی،
باوجودیکہ اردو میں کمزوری تھی لیکن ان کا القاء اتنا حسین تھا کہ وہ
کمزوری بھی لطف آمیز ہوجاتی تھی۔ ان کے سبق میں طالب علم اس قدر ہمہ تن گوش
بن جاتے تھے کہ ذہن میں درس کے علاوہ کوئی دوسرا خیال آہی نہیں سکتا تھا۔
وقت کی پابندی کا یہ عالم تھاکہ پہلے گھنٹے میں جب وہ قاضی مبارک کے سبق کے
لیے آتے تھے تو دایاں پاؤں درسگاہ میں اور بایاں پاؤں باہر ہوتا تھا تو سبق
کی گھنٹی بجتی تھی، جب کہ مولانا کی قیام گاہ درسگاہ سے د ارالعلوم ہی میں
کافی فاصلے پر تھی۔ مولانا مرحوم کی دارالعلوم میں تشریف آوری ایک نعمت
عظمیٰ اور غنیمت کبریٰ سے کم نہ تھی۔د ارالعلوم دیوبند میں 1361ھ میں ایک
انقلاب آیا تھا۔ صدر مہتمم علامہ شبیر احمد عثمانیؒ، علامہ بلیاویؒ اور کئی
اساتذہ د ارالعلوم چھوڑ کر ڈھابیل چلے گئے تھے۔ حضرت شیخ الاسلام مولانا
سید حسین احمد مدنیؒ ان دنوں جیل میں تھے تو جانے والے اساتذہ کی جگہ کئی
علماء پنجاب اور سرحد سے بلوائے گئے، لیکن حضرت مولانا عبد الحقؒ اکوڑہ خٹک
کے علاوہ کسی کوپذیرائی حاصل نہ ہوئی، چناں چہ بعد میں مولانا عبد الخالق
صاحب اور مولانا محمد کشمیری صاحب تشریف لائے تو طلبہ نے سکھ کا سانس لیا
اور جانے والوں کا نعم البدل میسر آیا۔علامی بلیاوی کی شان بلاشبہ انفرادی
تھی لیکن ان کے درس سے ہر شخص کماحقہ استفادہ کرنے کا اہل نہیں ہوتاتھا، جب
کہ ان کی جگہ نئے آنے والوں کے خوان یغما سے ہر شخص مستفید ہوتا تھا۔
ہمارے مولانا خوش پوشاک بھی تھے۔ اﷲ نے حسنِ صورت، قدآور شخصیت کے ساتھ
ساتھ حسنِ سیرت سے بھی نوازا تھا۔ ان تمام محاسن کے ساتھ مولانا لباس کے
حسن میں بھی یکتا نظر آتے تھے۔ سخت سردی میں بھی باریک ململ کا کشادہ
آستینوں والا کرتا اور سبز رنگ لال پٹی والا ملتانی تہبند زیب تن فرماتے
تھے۔ خوش خوراک بھی ایسے کہ باقاعدہ سہارنپور سے پھلوں کی پیٹیاں منگواتے
تھے۔ طرح طرح کے حلوے بناتے تھے، حلوے بنانے کی خدمت تو میرے برادر مولانا
عبد القیوم خان مرحوم نے بھی کافی عرصے تک انجام دی۔
نماز باجماعت کا بھی بہت اہتمام تھا۔ بعد نماز فجر مراقبہ بھی فرمایا کرتے
تھے۔ احقر نے قاضی مبارک، ہدایہ آخرین، تقریر دل پذیراور مؤطا کے اسباق میں
حضرت کے سامنے زانوئے تلمذطے کیاہے۔ احقر جب دارالعلوم کراچی میں مدرّس تھا
تو حضرت مولانا نے مولانا عبد المجید صاحب شیخ الحدیث باب العلوم کہروڑ پکا
کو بھیجا تھا اور احقر کو دارلعلوم کبیر والا آنے کی دعوت دی تھی، جو بوجوہ
قبول نہیں کی جاسکی تھی۔ ایک مرتبہ دورانِ سفر مختصر وقت کے لیے کبیر ولا
حاضری ہوئی۔حضرت نے قیام کے لیے فرمایا۔ احقر ملتان پہنچنے کی اطلاع پہلے
سے کرچکاتھا، اس لیے معذرت کی تو حضرت نے بصورتِ نقد دعوت کی رقم عنایت
فرماکر سرفراز فرمائی۔ رحمہ اﷲ تعالیٰ رحمۃًواسعۃ۔
سوال: دارالعلوم دیوبند میں ختم بخاری شریف کی تقریب کس طرح ہوا کرتی تھی؟
جواب: بخاری شریف کے ختم کو مخفی رکھا جاتاتھا۔ ختم کے وقت کا اعلان نہیں
ہوتا تھا۔لوگ از خود اندازے لگایا کرتے تھے۔ اخفاء کے باوجود بہت بڑا مجمع
قریب اور بعید سے علماء وطلبہ کے متعلقین کا ہوجایا کرتا تھا۔ ختم سے پہلے
حضرت مدنیؒ نے طلبہ کو نصیحتیں کیں اور اس کے بعد دعا کرائی، جو نہ بہت
مختصر تھی نہ طویل۔ ختم کے بعد حضرت سلہٹ کے لیے روانہ ہوگئے اور بہت سے
طلبہ نے اجازت حدیث جو مطبوعہ تھی، حاصل کی۔
سوال: فراغت کے بعد تدریس کا آغاز کس مدرسہ سے کیا؟
جواب: دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد ہم اور مولانا رفیق احمد صاحب جلال
آباد تدریس کے لیے مقرر ہوگئے جو پہلے ہی سے متعین تھا۔ جلال آباد کے مدرسہ
مفتاح العلوم میں کتب خانے کا معقول انتظام نہیں تھا، اس لیے ہم دونوں نے
فیصلہ کیا کہ ہم رمضان میں چندہ کریں گے۔ اس غرض سے ہم گنگوہ اور اس کے
مضافات کی طرف روانہ ہوئے۔رات دن کی محنت سے ہم نے تقریباً ساڑھے سات ہزار
روپے جمع کیے اور رمضان کے بالکل اخیر میں واپس ہوئے۔ واپسی میں تیتروں سے
جلال آباد تک پانچ کوس کا فاصلہ تھا۔ یہ فاصلہ ہم نے اس حالت میں طے کیا کہ
پورے راستے میں بارش ہوتی رہی اور اولے پڑتے رہے۔
سوال: آپ کا خاندان کاروباری ہے، خصوصاً والد صاحب دکان چلاتے تھے، تو کیا
آپ کے تدریسی میدان منتخب کرنے پہ وہ خوش تھے؟
جواب: مفتاح العلوم میں تدریس کا عمل والد صاحب کو کسی طور منظور نہیں تھا۔
ان کا اصرار تھاکہ لکھنؤ جاکر طب کی تعلیم حاصل کریں۔ ان کے اسی نقطۂ نظر
کی بنیاد پر میں نے دارالعلوم دیوبند میں طب کی بعض کتابیں پڑھی تھیں۔ میری
درخواست یہ تھی کہ آپ مجھے تدریس کرنے دیں۔ اﷲ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو بہت
کچھ دیاہے، لہٰذا آپ مجھے دین کی خدمت کے لیے وقف کردیں۔ اگر آپ غریب اور
مفلس ہوتے تو مزدوری کرکے بھی آپ کی خدمت کرتا۔ والد صاحب کا جواب یہ ہوتا
تھاکہ طب کی تعلیم کی رائے میں تمہارے فائدے کی غرض سے دے رہا ہوں۔ اس میں
میرا اپنا مفاد نہیں ہے، جمعرات کے دن ہم جلال آباد سے گھر آیا کرتے تھے
اور مغرب کے بعد والد صاحب کے ساتھ کھانے میں شریک ہوجایا کرتے تھے تو اس
وقت ہماری یہ گفتگو ہوا کرتی تھی۔ والد صاحب ایک تو ہم سے محبت بے حد کیا
کرتے تھے اور اس لیے مہربان بہت تھے۔ ان سے ادب کے ساتھ دل کی بات کرنے میں
تکلف نہیں تھا۔ کھانا کھاتے ہوئے والدہ صاحبہ بھی موجود ہوتی تھیں، وہ
فرماتی تھیں کہ اگر تم طب پڑھنے کے لیے تیار نہیں ہو تو انگریزی پڑھ لو۔ ان
کے بھائی انگریزی ہی پڑھے ہوئے تھے۔ ایک نے ان میں سے درس نظامی کی مکمل
تعلیم اپنے والد صاحب سے حاصل کرنے کے بعد انگریزی پڑھی تھی اور ایک نے
جامعہ ازہر مصر میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد انگریزی پڑھی تھی۔میں نے بھی
فارسی کے زمانہ میں منشی اﷲ بندے صاحب کے پاس بعد مغرب ایک دو کتابیں
انگریزی کی پڑھی تھیں مگر اس وقت میں نہ طب کے لیے تیار تھا اور نہ ہی
انگریزی کے لیے۔ والد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ تم دیکھتے نہیں ہو، یہاں
دودھ اور شہد کی نہریں جاری ہیں، اگر تم ملا بنوگے تو تمہارا گزارہ کیسے
ہوگا اور اس صورت میں تو تمہاری شادی بھی نہیں ہوگی۔ میرا جواب ہوتا تھاکہ
آپ ان چیزوں کی فکر نہ کریں ،اﷲ تعالیٰ سب انتظام کردیں گے۔وہ فرمایاکرتے
تھے کہ اگر تم مدرسے میں پڑھاؤگے تو تمہاری کتنی تنخواہ ہوگی؟ تو محض ان کو
قائل کرنے کے لیے کہتا تھاکہ دو سو روپے میری تنخواہ ہوسکتی ہے۔ اس زمانے
میں یہ بڑی تنخواہ تھی جس کی کوئی مثال میرے علم میں نہ تھی، مگر والد صاحب
فرماتے دو سو روپے میں کیا ہوگا؟ جب وہ دوائیں لینے کے لیے دلّی جایا کرتے
تھے تو ایک بڑا بکس جوتوں سے بھراہوا لایا کرتے تھے۔ کبھی گھر میں کسی کے
پاؤں میں ایک فٹ نہیں آتا تھا اور کبھی دو تین کسی ایک پاؤں میں فٹ ہوتے
تھے، اسی پر دوسرے اخراجات کو قیاس کرلیا جائے۔ میں کہتا کہ آپ کایہ طریقہ
صحیح نہیں ، یہاں بازار میں دو روپے کا اچھا خاصا جوتا مل جاتا ہے اور آرام
سے چھ مہینے تک چلتا ہے، اسی طرح دو جوڑے کپڑے چھ مہینے کے لیے کفایت
کرجاتے ہیں، زیادہ فضول خرچی کی ضرورت ہی کیا ہے؟آدمی خرچ سوچ سمجھ کر کرے
تو دو سو روپے بہت ہیں۔مگر وہ کسی بات کو ماننے کے لیے تیارنہیں تھے، نتیجہ
یہ نکلا کہ انہوں نے فرمایا: ٹھیک ہے آپ کی جو مرضی ہو کریں،ہمارا جتنا
سامان آپ کے پاس ہے، وہ واپس کر دیں۔چناں چہ بستر اور کچھ دوسری چیزیں جو
میرے پاس تھیں، وہ میں نے واپس کردیں ۔یہ سمجھتے ہوئے کہ میرے گھر کے حالات
فراخی اور خوش حالی کے ہیں، میں نے مولانا سے بغیر تنخواہ کے تدریس کا عمل
کرنے کے لیے کہا تھا، مگر جب گھر والوں کا یہ رویہ سامنے آیا تو تنگی پیش
آئی۔کھانا تو میں مدرسہ سے لے لیا کرتا تھا لیکن دوسری چھوٹی موٹی ضروریات
کے لیے میرے پاس کچھ نہیں ہوتا تھا۔ میرے ہم سبق مولانا فضل ہادی پشاوری،
بنارس شیخ الحدیث بن کر گئے تھے۔ ان کا پتا میرے پاس موجود تھا اور ان سے
بے تکلفی اور دوستی تھی۔ میں نے ان کو خط لکھا کہ آپ تیس روپے بھیج
دیں۔مجھے تشویش یہ تھی کہ منی آرڈر آئے گا اور وہ پہلے مولانا کے پاس جائے
گا تو مولانا مجھ سے پوچھیں گے کہ یہ پیسے کیسے ہیں؟ میرا اور گھر والوں کا
قضیہ اس تنگی کا سبب بنا تھا،وہ میں نے مولانا کو نہیں بتایا تھا۔ مولانا
فضل ہادی کو اﷲ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائیں، انہوں نے منی آرڈر کی رسید
پر یہ لکھا کہ ’’آپ کے تیس روپے بھیج رہا ہوں، وصول فرماکر شکریہ کا موقع
دیں۔‘‘ اس رسید کو پڑھ کر میری تشویش دور ہوئی۔
سوال: رشتۂ ازدواج سے کب منسلک ہوئے؟
جواب: مفتاح العلوم میں ایک سال پورا ہوگیا تھا۔ سال کے اختتام پر ہمارے
خالو مولوی حکیم محبوب خان جو دیوبند میں رہتے تھے، ہماری خالہ کا تو
انتقال ہوچکا تھا، انہوں نے دوسری شادی کی تھی۔ زمانۂ قیام دارالعلوم میں،
میں کبھی کبھی ان کی ملاقات کے لیے جایا کرتا تھا۔ وہ میری طالب علمانہ
زندگی سے مطمئن تھے، ان کی طرف سے اشارہ ملاکہ وہ اپنی صاحب زادی سے میرا
رشتہ کرنے لیے تیار ہیں۔ گھر والے مجھے ہمیشہ یہ طعنہ دیا کرتے تھے تو
مدرسہ پڑھے گا تو تیری شادی نہیں ہوگی۔چناں چہ ایک روز جمعرات کو جب میں
گھر آیا تو کھانا کھاتے ہوئے میں نے کہاکہ میری شادی ہورہی ہے۔ اس پر والد
صاحب اور والدہ صاحبہ دونوں نے حیرت سے پوچھا کہ کہاں اور کس سے ہورہی ہے؟
تو میں نے ان کو بتایا کہ دیوبند والے خالوجان کے ہاں سلسلہ قائم ہواہے۔
ہمارے والد صاحب نے اپنے ذہن میں ایک دو رشتے میرے لیے تجویز کر رکھے تھے،
جب میں نے دیوبند کا ذکر کیا تو ان دونوں نے کہا کہ ہم نے تو اس لڑکی کو
دیکھا نہیں ہے۔ میں نے کہا آپ جائیں دیکھیں، اگر آپ کی رائے میں وہ مناسب
ہو تو اس کو ترجیح ہونی چاہیے اور اگر آپ دیکھنے کے بعد نامناسب ہونے کا
فیصلہ کریں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ہمارے والد اور والدہ دونوں
دیوبند گئے اور انہوں نے اس رشتے کو پسند کر لیا۔ چناں چہ ہماری شادی
دیوبند میں ہوئی، لوہاری سے بارات نو آدمیوں کے ساتھ بیل گاڑی میں دیوبند
روانہ ہوئی۔ہماری والدہ نے بڑی دعوت کا اہتمام کیاجس میں بلا تخصیص ہر آنے
والے کو کھانا کھلایا گیا۔ اس موقع سے وہ کشیدگی جو میرے اور والدین کے
درمیان موجود تھی ختم ہوگئی۔ شادی کے بعد حضرت استاد نے میری تنخواہ سو
روپے ماہوار مقرر کردی، جب کہ اس سے پہلے میں تنخواہ نہیں لیا کرتا تھا۔ اس
زمانے میں سو روپے بہت بڑی تنخواہ تھی۔ خود مولانا اور دوسرے اساتذہ کی
تنخواہیں چالیس روپے سے زیادہ نہیں تھیں۔ میں اپنی اس تنخواہ سے نوے روپے
والدہ صاحبہ کو دیا کرتا تھا۔میرے اس عمل سے میری والدہ مرحومہ بہت خوش
ہوتی تھیں اور ڈھیروں دعائیں دیا کرتی تھیں، جب کہ دس روپے اہلیہ کو، حالات
چوں کہ صحیح ہو گئے تھے اس لیے مجھے پیسوں کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔
سوال: ماشاء اﷲ!کتنے بچے ہیں آپ کے ؟
جواب: شادی کے بعد آٹھویں مہینے میں بچے کی ولادت ہوئی۔مولانا مسیح اﷲ خان
صاحب نے ان کا نام مقیت اﷲ خان رکھا، لیکن ڈھائی مہینے کے بعد اس کا انتقال
ہوگیا۔ جلال آباد مدرسے میں عصر کے بعد ہم لوگ کھیل رہے تھے۔طلبہ واساتذہ
سب موجودتھے۔ لوہاری سے بچے کے انتقال کی خبر آئی تو سب جمع ہوگئے۔میں نے
قاصد سے کہا جاکر کہہ دو تجہیز وتکفین کردیں۔ مولانا نے فرمایا تم عجیب
آدمی ہو، لوہاری جانا چاہیے۔ چناں چہ مولانا کے حکم پر میں لوہاری آیا اور
اس کی تدفین میں شرکت کی۔ اس کے تین سال بعد پھر بیٹی کی ولادت ہوئی اور
بعد میں تمام اولاد تین تین سال کے وقفے سے پیدا ہوئی، جن میں تین بیٹے اور
تین بیٹیاں ہیں اور وہ سب الحمدﷲ بقید حیات ہیں۔بچوں والے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ
کا بے پایہ کرم ہے۔ بیٹے اور ان کی اولاد علم وفضل سے آراستہ عالم، فاضل،
حافظ، قاری، مفتی اور جامعہ فاروقیہ میں خدمات انجام دے رہے ہیں اور احقر
کے دست وبازو اور خدمت گزار ہیں۔
بیٹیوں کی اولاد میں بھی کئی بچے حافظ ہوچکے اور بعض ان میں سے جامعہ ہی
میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ بیٹیاں اپنے اپنے گھر خوش وخرم ہیں۔ ہم نے اپنے
بچوں کو دینی تعلیم کے ساتھ گھر ہی پر عصری تعلیم بھی دلائی ہے۔ مولوی محمد
عادل سلّمہ نے خود پی ایچ ڈی کیا ہے اور ان کے دو بیٹے انس عادل اور عمیر
عادل بی اے کرنے کے بعد پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ ایک بیٹا پیدائشی طور پر
ذہنی پسماندگی کا مریض تھا۔ وہ غیر شادی شدہ ہے، اس کے علاج تو بہت کرائے،
لیکن وہ پڑھنے لکھنے کے قابل نہ ہوسکا اور اب بھی اس کی زندگی غیر متوازن
ہے، لیکن وہ کسی کو تکلیف نہیں پہنچاتا۔
سوال: لڑکیوں کی تعلیم سے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب: مفتاح العلوم کی تدریس کے زمانے میں ہمارا جمعرات کے دن گھر جانا
ہوتا تھااور ہفتے کی صبح واپس مدرسہ آیا کرتے تھے۔اسی زمانے میں ہم نے اپنی
بہنوں کو فارسی اور عربی کی تعلیم دینا شروع کی۔دو بڑی تھیں اور دو چھوٹی
تھیں اور یہ سب کی سب اردو اور قرآن مجید پڑھی ہوئی تھیں۔جمعرات کی رات میں
اور جمعے کے دن ہم ان کو ایک ہفتے کا سبق پڑھایا کرتے تھے اور یہ ماشاء اﷲ
سبق اچھی طرح یاد کرلیا کرتی تھیں۔ فارسی میں تیسیر المبتدی، آمدن نامہ اور
گلزار دبستان اور دوسری بعض کتابیں ان کو پڑھائیں اور عربی میں قصص النبیین
کے تین حصے اور نحووصرف کے قواعد اور ان کا اجراء کرایا۔دو بڑی بہنوں میں
سے ایک نے فارسی کی اچھی خاصی تعلیم حاصل کی اور اسی کی بنیاد پر بعد میں
کافی عرصے کے بعد پاکستان آکر منشی فاضل کا امتحان بھی دیا۔ ان کی تعلیم کا
سلسلہ جاری تھا کہ ہمارے ماموں جان جو حیدر آباد دکن میں رہتے تھے اور وہاں
سرکاری ملازم تھے اور باقاعدہ درس نظامی کے فاضل بھی تھے، وہ ریٹائر ہوکر
لوہاری آگئے اور انہوں نے دونوں چھوٹی بہنوں کو کچھ دن تک فارسی اور عربی
پڑھائی اور بعد میں اس کے بجائے انگریزی پڑھانا شروع کی۔
میں پاکستان آگیا تھا اور دونوں بڑی بہنیں بھی پاکستان آگئیں تھیں۔ چھوٹی
بہنوں کو انہوں نے پہلے تو میٹرک کرایا اور اس کے بعد علی گڑھ یونیورسٹی
میں داخل کرادیا۔ وہاں انہوں نے بی ایس سی کیا اور پھر وہ بھی پاکستان
آگئیں۔یہاں دونوں نے ایم ایس سی کیااور ایک نے سرکاری ملازمت اختیار کی اور
اب وہ ریٹائر ہوچکی ہیں۔ دوسری نے کراچی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کیا اور
کراچی یونیورسٹی میں بیالوجی کی پروفیسر مقرر ہوئیں، اب وہ بھی ریٹائر
ہوچکی ہیں۔
سوال: آپ کا تبلیغی جماعت کے ساتھ خاص تعلق ہے، اس ضعف اور پیرانہ سالی میں
بھی شبِ جمعہ اور اجتماعات میں تشریف لے جاتے ہیں، اس کی کوئی خاص وجہ ہے؟
جواب: دارالعلوم دیوبند کے احاطۂ دفتر میں کمرہ نمبر ۱۹ میں مولوی ارشاد
احمد فیض آبادی، مولوی عتیق الرحمن سنبھلی، مولوی وارث حسن فیض آبادی اور
میرا قیام تھا۔مولوی ارشاد احمد دارالعلوم میں تبلیغی جماعت کے امیر تھے۔
سرخ وسفید گھٹا ہوا بدن اور پستہ قد آدمی تھے۔ بہت زیادہ لیے دیے ریتے تھے۔
اختلاف سے گریزاں تھے۔ عبادت کے شوقین تھے۔کتابی استعداد کوئی خاص نہیں
تھی، نہ وہ اس کے لیے کوشش کرتے تھے۔ مقرر اچھے تھے، ان ہی کی وجہ سے حضرت
مولانا الیاس صاحب ؒ کی زیارت ہوئی۔ حضرت دارالعلوم دیوبند تشریف لائے تو
مولوی ارشاد صاحب ان کو کمرے میں لے آئے، وہاں ان کی زیارت ہوئی۔ مولوی
ارشاد احمد صاحب بعد میں دارالعلوم دیوبند کے شعبہ تبلیغ سے منسلک ہوگئے
اور اس حوالے سے انہوں نے بہت قیمتی اور عمدہ خدمات انجام دیں۔
مولوی ارشاد احمد صاحب کے ساتھ کبھی کبھی عصر کے بعد تبلیغی جماعت گشت میں
جانا ہواتو گشت کے دوران بعض ایسے افراد بھی ملے جن کو کلمہ یاد نہیں تھا،
یا پھر وہ کلمے کا صحیح تلفظ نہیں کرسکتے تھے۔ اس کا مجھ پر بہت اثر ہوا
اور تبلیغ کی اہمیت اور ضرورت واضح ہوئی۔ میرا خیال ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ
تبلیغ کا نفع ناقابل انکار ہے اور اس کی وجہ سے بے شمار انسان جن کا رشتہ
اسلامی تعلیمات سے بالکل منقطع تھا، یا پھر وہ اسلامی تعلیمات کے برعکس فسق
وفجور میں بدمست تھے، تبلیغ کے ذریعے ان کو ہدایت ملی اور وہ راہِ راست پر
آگئے، اس لیے غلو سے بچتے ہوئے یہ کام کرنا چاہیے۔
سوال: آپ درس وتدیس سے جڑے رہے ہیں، کبھی تجارت کی طرف بھی میلان ہوا ؟
جواب: ہمیں بچپن سے تجارت کا شوق تھا۔ ہمارے والد صاحب دکان کیا کرتے تھے
اور والدہ صاحبہ بھی تجارت کیا کرتی تھیں۔ جلال آباد میں ایک طالب علم
ہارون الرشید نے ہمیں مشورہ دیا کہ آم کے کچھ درخت خریدے جائیں، جن کو باغ
کا مالک پرانا ہونے کی وجہ سے بیچ دیا کرتا ہے۔ ان درختوں کو کٹوائیں گے
اور ان سے پھر تختے اور لکڑیاں نکلواکر فروخت کریں گے اور باقی لکڑی سوختے
میں بیچیں گے۔ اس کے لیے انہوں نے ہم سے اچھی خاصی رقم لی اور کچھ درخت
خریدے اور وہ تختے اور لکڑیاں نکالنے میں لگ گئے۔ بعد میں انہوں نے بتایا
کہ نقصان ہوگیا ہے اور غائب ہوگئے۔اﷲ بہتر جانتے ہیں کہ نقصان ہوا تھا یا
انہوں نے غلط بیانی کی تھی۔ اگر نقصان ہواتھا تو کاروباری نقصان ہوجایا
کرتا ہے، یہ کوئی نئی بات نہیں تھی، ان کو حساب دینا چاہیے تھا، لیکن وہ
حساب کے بغیر ہی کہیں چلے گئے، میں نے بھی ان کا پیچھا نہیں کیا۔ |