ہندوستان کا غیور غازی اور شہید ، فتح علی ٹیپو

اٹھارہویں صدی عیسوی کے ابتدائی سالوں میں ہی ہندوستان میں انتشار و ابتری کا آغاز ہو گیا تھا ۔ مرکزی حکومت بالکل کمزور اور برائے نام ہو کر رہ گئی تھی۔ اِس صورتِ حال سے ایسٹ انڈیا کمپنی نے بجا طور پر فائدہ اُٹھایا اور اس نے اپنے علاقوں اور صوبوں سے اپنے دشمن اور مخالفوں کو نکالنا شروع کر دیا تھا۔ اُس نے فرانسیسی لوگوں پر سختی کا آغاز کر دیا تھا اور پھر لارڈ کلائیو نے فرانسیسیوں کو نکال باہر کیا تھا۔ اِس طرح جب انگریزوں کا کوئی اور غیر ملکی مدِمقابل نہ رہا تو اُنھوں نے اب سیاسی طور پر بھی ایک مقام حاصل کرنا شروع کیا۔ اُنھوں نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ یہاں کے حکمرانوں کو آپس میں لڑایا اور اِس کے ساتھ ساتھ اُنھوں نے خود بھی بعض کمزور حکمرانوں کے خلاف جدید ہتھیاروں سے جنگیں لڑیں۔ اِس طرح ہندوستانی حکمران اُن کی ریشہ دوانیوں کا شکار ہوتے رہے۔ اس طرح ایک عہد میں نوبت یہاں تک پہنچی کہ یا تو وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا تسلط مان لیں اور یا پھر وہ اپنا وجود کھو دیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی اِن پالیسیوں سے برعظیم پاک و ہند میں ایک کے بعد ایک حکومتیں بنتی رہیں اور جلد جلد زوال آشنا ہوتی رہیں۔ بالآخر انگریزوں نے مغلیہ حکومت کو اس کے انجام تک پہنچا دیا۔ انگریزوں نے اپنا تسلط برقرار رکھنے اور بڑھانے کے لیے ہر طرح کا ظلم و ستم روا رکھا۔ مسلمانوں کے خلاف اُنھوں نے سکھوں اور ہندوؤں کو بھی اپنے ساتھ ملائے رکھااور بالآخر انگریزوں نے بر عظیم پاک و ہند میں اپنی حکومت قائم کر لی۔

کچھ اِس طرح کے حالات تھے جب ریاست میسور کے فرمانروا حیدر علی کے ہاں ۲۱ نومبر ۱۷۵۰ء کو ایک بچے نے جنم لیا جو اپنے عہدِ جوانی میں حریت و آزادی کا آئی کون (I.con) اور انگریز دشمنی کی علامت بن گیا۔ حیدر علی کی تربیت سے یہ بچہ نو جوانی میں ہی فنِ حرب میں مہارت حاصل کر گیا اور عربی ، فارسی اور اُردو روانی سے بولنے لگا۔

شہزادے کی عمر ابھی ۱۷ برس بھی نہیں ہوئی تھی کہ ۱۹ جون ۱۷۶۷ء کو اُس کے والد نے اُسے میدانِ حرب میں کود پڑنے کا حکم دیا۔ اُس کا والد اُس وقت پیچیدہ حربی صورتِ حال سے دوچار تھا۔فتح علی نے میدانِ جنگ میں ایسی چال چلی کہ انگریز جرنیل مُنہ تکتے رہ گئے اور فتح علی نے اُن کے دو قلعوں پر قبضہ کر لیا ۔ اُ ن دِنوں اُسے حکم دیا گیا کہ وہ انگریزوں کے خلاف برسرِ پیکار لطف علی بیگ کی مدد کے لیے ساحل مالا بار پر پہنچ جائے ۔ شہزادے نے آگے بڑھ کر قلعہ منگلور پر قبضہ کر لیا اور انگریزوں کو شکست خوردگی کے عالم میں مدراس کی طرف بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ جولائی ۱۷۸۰ء میں جب حیدر علی اپنی اسّی ہزار فوج کے ساتھ کرناٹک میں انگریزوں کے خلاف برسرِ پیکار تھا تو شہزادے کو کرنل بیلی کی کمان میں آنے والی انگریزی کمک کو روکنے کی ہدایت کی گئی ۔ شہزادے نے نہ صرف انگریزی فوج کو ناکوں چنے چبوائے بلکہ کرنل بیلی اور اُس کے ۱۵۰ سپاہیوں کو گرفتار بھی کر لیا۔سر تھامس منرو نے اس معرکے کی بابت لکھا تھا ـ’’ The severest blow that the English ever sustained in India. ‘‘ (یہ معرکہ ہندوستان میں انگریز کو پڑنے والا شدید ترین گھونسہ تھا)۔

سچ بھی یہی ہے کہ اگر اُس وقت حیدر علی اپنی فتوحات کا رُخ مدراس کی طرف موڑ دیتا تو پچھلی دو صدیوں کی ہندوستان کی تاریخ اور جغرافیہ یکسر مختلف ہوتے ۔

۱۷۸۲ء میں جب شہزادہ فتح علی پونانی کے محاصرہ کے معرکہ میں دادِ شجاعت دے رہا تھا ، اُسے اپنے والد حیدر علی کی شہادت کی خبر ملی۔ یوں صرف ۳۲ برس کی عمر میں ریاست میسور کی تمام تر انتظامی ذمہ داریاں شہزادے کے کاندھوں پر آن پڑیں۔ اُس وقت اُس نے وطنِ عزیز کو غیر ملکی آقاؤں سے
بچانے کے لیے سفارتی کوششوں کو تیز تر کردیااور مرہٹوں اور نظام حیدر آباد کو مشترکہ خوفناک دشمن سے نمٹنے کے لیے اجتماعی جدو جہد کا کہا۔ اُس نے خارجی سطح پر تُرکی اور فرانس سے بھی مدد طلب کی ۔ لیکن نہ صرف اُسے وہاں سے کوئی مدد نہ ملی بلکہ مسلمانانِ ہند بھی یہ نہ جان سکے کہ اُن کے ساتھ کیا ہونے والا ہے ۔

فتح علی ایک مدبر حکمران ، سچا محبِ وطن ، ماہر جنگجو اور قابل ترین جرنیل ثابت ہوا۔ اُس نے اپنی پوری زندگی آزادی کے متوالے کی حیثیت سے گزاری۔افسوس کی بات ہے کہ کم ظرف ہندوستانی حکمران دور اندیش ثابت نہ ہوئے اور اُنہوں نے شہزادے کی مدد کی بجائے غیر ملکی آقاؤں کی خوشنودی کو اپنی منزل ٹھہرایا۔یہاں تک کہ اس کے اپنے افسروں اور معتمد ساتھیوں نے بھی عزت کی موت کی بجائے ذلت کی زندگی کوترجیح دی۔ مئی ۱۷۸۲ء میں مرہٹوں نے میثاقِ سالبائی کے تحت انگریزوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ۔ میسور کے گورنر ایاز نے بھی دغا بازی کی اور ۲۸ جنوری ۱۷۸۳ء کو بجنور انگریزوں کے حوالے کر دیا اور انگریزی فوج نے بے رحمانہ طریقے سے عورتوں ، بچوں اور بوڑھوں تک کو تہ تیغ کیا۔ فتح علی کو اس ظلم و بربریت کا پتہ چلا تو اُس نے خود بجنور کی طرف پیش قدمی کی اور جنرل میتھیو ز کی فوج کو شکست دی جو بالآخر قلعہ بند ہونے پر مجبور ہو گیا۔ فتح علی کی فوج نے قلعہ کا محاصرہ کر لیا اور انگریز جنرل اور اُس کے سپاہی گرفتار ہو گئے۔ ۲۰ مئی ۱۷۸۳ء کو سلطان منگلور پہنچ گیا اور انگریزی فوج پر وہ ضرب لگائی کہ وہ قلعہ بند ہو گئی ۔ ۲۹ جنوری ۱۷۸۴ء تک کمانڈر کیمبل کے اعصاب جواب دے چکے تھے۔یوں اُس نے شکست تسلیم کرلی اور ایک معاہدے کے تحت قلعہ سلطان کے حوالے کر دیا۔

دوسری طرف برطانوی گورنر جنرل لارڈ کارن ویلس نے سازشوں کا جال بُننا شروع کر رکھا تھا۔ اُس نے مرہٹوں اور نظام کو لالچ دیا کہ اگر سلطان سے سلطنتِ میسور چھین لی جائے تو مفتوحہ علاقے اُن کے حوالے کر دیے جائیں گے۔ یوں اِس سہ فریقی اتحاد نے ہندوستان کے واحد غیور حکمران کے خلاف تیسری جنگ کا آغاز کر دیا۔ سلطان نے ستیا منگلام کے محاذ پر اتحادی فوجوں کوشکست دی ۔ وہ ایک فیصلہ کُن چوٹ لگانے کی تیاری کر رہا تھاکہ اُس کے ایک معتمد ساتھی کرشنا راؤ نے غداری کی اور منگلور کو لارڈ کارنویلٹوکے حوالے کر دیا۔ اتحادی افواج کے سامنے اب میسور کا دار الحکومت سرنگا پٹم تھا۔ سرنگا پٹم پر حملہ کے وقت انگریزوں اور غداروں کی زبردست پٹائی ہوئی جس کے نتیجے میں اتحادی فوج پس قدمی پر مجبور ہو گئی۔جنوری ۱۷۹۹ء میں برطانوی ہندوستان کا نیا گورنر جنرل لارڈ ویلسلے مدراس پہنچا جہاں اُس نے مرہٹوں اور نظام کے علاوہ ریاستِ میسور کے افسران کو بھی غداری کی سازش میں شامل کرنے کی منصوبہ بندی کی۔ اِس پلاننگ کے نتیجے میں اُنہوں نے ۱۷ اپریل ۱۷۹۹ء میں سرنگا پٹم کے باہر ڈیرے ڈال لیے۔ سلطنت میسور کے وزیرِ اعظم میر صادق کے علاوہ میر غلام علی اور دیوان پورنیاجیسی اہم شخصیات سلطان سے غداری پر آمادہ ہو چکی تھیں۔ اُنہی کی مشاورت سے یہ طے پا چکا تھا کہ ۴ مئی کو جب سپاہیوں میں تنخواہوں کی ادائیگی کا آغاز ہو گا تو دار الحکومت پر ایک فیصلہ کن اور خوفناک حملہ کیا جائے گااور پھر یہی ہوا۔ جوں ہی سپاہیوں نے اپنی چوکیوں کو چھوڑا تو شہر کے اندر سے غداروں نے حملے کی دعوت دی اور اتحادی فوج سید عبد الغفار کی کمان میں موجود حفاظتی دستے کو شہید کرتے ہوئے سرنگا پٹم پر ٹوٹ پڑی ۔سلطان اُس وقت دوپہر کے کھانے میں مصروف تھا۔ اُس نے کھانا چھوڑا اور تلوار تھام لی ۔ وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ غیر ملکی طالع آزماؤں اور اُن کے وطن فروش اور عاقبت نا اندیش حواریوں پر چیتے کی طرح ٹوٹ پڑا ۔ اُس نے ان گنت اتحادیوں کو تہ تیغ کیا اور پھر شمع آزادی کا آخری پروانہ ۴ مئی ۱۷۹۹ء کی شام کو ہی شہید ہو گیا۔

قارئین ! یہ تھا ٹیپو سلطان جو صرف ۴۸ برس کی عمر میں دنیا کو غیرت اور وقار کے ساتھ جینے کے ڈھنگ سکھا گیا۔ شہادت سے کچھ دیر قبل اُس کے کچھ مشیران نے اُسے مشورہ دیا کہ دیگر ہندوستانی حکمرانوں کی طرح انگریزوں سے معاہدہ کر کے اگر میسور اُن کے حوالے کردیا جائے تو کشت و خون سے بچا جا سکتا ہے۔ اِس مشورے اور انگریزی پیش کش کے جواب میں اﷲ کے اِس شیر دل مجاہد کا جواب تھا کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔خواجہ جمیل احمد Hundred Great Muslims میں اِس بطلِ حریت کے بارے میں لکھتے ہیں :
" English mothers used to silence their naughty children by terrorising them: Tipu has come. Be silent". ( انگریز مائیں اپنے شرارتی بچوں کو خاموش کرانے کے لیے اُنھیں یہ کہہ کر ڈرایا کرتی تھیں : دیکھو ٹیپو آ گیا ہے ، خاموش ہو جاؤ) ۔

ہندوستان کے اس آخری فرمانروا پر ہندوستان کی حربی تاریخ ہمیشہ ناز کرتی رہے گی جبکہ وطن فروش غداروں کو اقبال کی طرح یوں یاد کرے گی :

جعفر از بنگال و صادق ازدکن
ننگِ آدم ، ننگِ دیں ، ننگِ وطن

 
Asghar Ali Javed
About the Author: Asghar Ali Javed Read More Articles by Asghar Ali Javed: 19 Articles with 24887 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.