اے روحِ قائد۔۔ہم شرمندہ ہیں

25 دسمبر2015کوقائداعظم محمد علی جناح کا 139 واں یوم ولادت ملی جذبے اور جوش و خروش سے منایا جا ئے گا قائد کے مزار اور ملک بھر کی مساجد میں قرآن خوانی کا اہتمام کیا جائیگا اور ان کے درجات کی بلندی کے لئے خصوصی دعائیں بھی کی جائیں گی۔سرکاری و غیرسرکاری طور پران کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے تقاریب منعقد ہوں گی اور ملک بھر میں عام تعطیل بھی ہو گی۔

25 دسمبر 1876 کا سورج قائداعظم محمد علی جناح کے خاندان کے لئے تو خوشیوں کا پیغام لے کر آیا لیکن وہ دن برصغیر کے مسلمانوں کے لئے بھی خوش بختی اور مسرت و شادمانی کی نوید لایا کیو نکہ اس دن اس عظیم رہنما نے دنیا میں آنکھ کھولی جو کہ بعد میں برصغیر کے مسلمانوں کا نجات دھندہ ٹھہرا۔ جس نے غلامی کی زنجیروں میں جکڑی قوم کو آزادی کی صبح پر نور سے روشناس کرایا۔پہلے پہل وہ ہندؤوں اور مسلمانوں کے مشترکہ حقوق کے لئے جدوجہد کرتے رہے۔اس بنا ء پر انہیں ہندو مسلم اتحاد کا سفیر بھی کہا جانے لگالیکن جلد ہی انہیں انگریزوں کی جانبداری اور ہندؤوں کی عیاری کا ادراک ہو گیا۔نہرو رپورٹ کی اشاعت نے ان پر اصل حقیقت آشکار کر دی اور پھر انہوں نے مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن کے قیام کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا۔1936 میں مسلم لیگ کی قیادت سنبھالنے کے بعد انہوں نے ہندوستان کے طول و عرض کے طوفانی دورے کیے۔ اتحاد، ایمان اور تنظیم پر یقین رکھنے والے قائداعظم محمدعلی جناح تھوڑے ہی عرصہ میں برصغیر کے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ـ "لے کے رہیں گے پاکستان۔ بن کے رہے گا پاکستان"ـ کے نعرے چہار طرف گونجنے لگے ان کی شخصیت و کردار کو داغدار کرنے کی لیے طرح طرح کے الزامات لگائے گئے اور کئی قسم کی سازشیں کی گئیں -

لیکن وہ ان سب سے بے نیاز اپنے مقصد کے حصول کے لئے کوشاں رہے اور بالآخر14 اگست 1947 کو قائداعظم کی ولولہ انگیز قیادت اور ان کے جانثار ساتھیوں کی انتھک کاوشوں سے مسلمانوں کے لئے پاکستان کی صورت میں ایک علیحدہ مملکت معرض وجود میں آ گئی۔

یہ اﷲ تعالیٰ کا فضل وکرم اور ہمارے اسلاف کی بے پناہ قربانیوں کانتیجہ ہے کہ آج ہم ایک آزاد وطن میں سانس لے رہے ہیں۔ قائداعظم پوری دنیا پر حکمرانی کرنے والے انگریز سامراج سے وطن کی آزادی کی جنگ جیت گئے لیکن قیام پاکستان کے ایک سال بعد ہی زندگی کی بازی ہار گئے اور یوں انہیں اس نوزائیدہ مملکت کی پرداخت کرنے کا موقع نہ مل سکا۔ وزیراعظم لیاقت علی خان نے ملک کی صورت حال کو سنبھالا دینے کی کوشش کی لیکن 1951 میں انہیں شہید کر دیا گیا۔ پہلے ہی بہت سی قوتیں پاکستان کے قیام سے ناخوش تھیں اوراب انہیں دیگر مفاد پرست عناصر سے مل کر کھل کھیلنے کا موقع مل گیا اور پھر اقتدار پرقبضہ جما کر وہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے کوشاں ہو گئے۔ زرعی اصلاحات نافذ ہو سکیں اور نہ ہی معیشت کی سمت درست ہوسکی۔ تعلیمی پالیسی کے نام پرنت نئے تجربات شروع ہوگئے اعلٰی عہدوں پر من پسند افرادکو تعینات کیا گیا اور قومی خزانے کو ریوڑیوں کی طرح بانٹا گیا۔ ہر با اثر شخص حصہ بقدر جثہ وصول کرنے لگا اور یوں ملک کوآئی-ایم-ایف جیسے ساہوکار اداروں کے ہاتھوں گروی رکھ دیا گیا یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان کا بچہ بچہ قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے قائد بابا۔۔ آپ نے ہمیں کیسی آزادی دلوائی کہ آج68 سال گزرنے کے بعد بھی ہم فکری طور پر آزاد نہیں۔ ہم آزاد خارجہ پالیسی بناسکتے ہیں اور نہ ہی دفاعی حکمت عملی۔ تعلیم و صحت تو درکنار پٹرول، گیس اور بجلی بھی ہمارے قابو سے باہر ہیں۔ زراعت کا بھٹہ پہلے ہی گول ہو چکا ہے اب سیاحت و معدنیات بھی ہمارے ہاتھوں سے نکلتی جارہی ہیں۔ ہماری معیشت عالمی مالیاتی اداروں کی مرہون منت اور دولت چند ہاتھوں میں مرکوز ہے۔ دہشت گردی و انتہا پسندی کا عفریت ملکی سالمیت کو نگل رہا ہے۔ لسانیت، صوبائیت اور فرقہ واریت کا زہر پورے ملک میں پھیل رہا ہے۔ سیاست پر چند خاندانوں کا قبضہ ہے اور وہی ملک کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔

بابا ۔۔آپ نے پاکستان اس لیے بنایا تھا کہ یہاں تمام لوگ ایک دوسرے کے مذہبی جذبات کا احترام کریں گے اور ملکی تعمیر وترقی اور خوشحالی کے لیے ایک دوسرے کا دست و بازو بنیں گے۔ لیکن یہاں تو صورت حال بالکل الٹ ہے۔ مذہب کے نام پر گلے کاٹنا، مزار ، مساجد، مندر اور چرچوں پر حملے کرنا غیرت ایمانی کاتقاضا سمجھا جاتا ہے۔ آئے روز بم دھماکوں ، خود کش حملوں، فائرنگ اور قتل و غارت گری نے عوام کو نفسیاتی مریض بنا کر رکھ دیا ہے۔ غربت کی ستائی مائیں لخت جگر اٹھائے نہروں میں کود رہی ہیں۔ فیس نہ ہونے کے باعث باپ بچوں کو گولیاں مارنے کے بعداپنی زندگی کا خاتمہ کر رہے ہیں۔ تعلیم یافتہ نوجوان نوکریاں نہ ملنے کے باعث ڈگریوں کو آگ لگا رہے ہیں جبکہ چند سر پھرے کلاشنکوف اٹھا کر چوری و ڈکیتی کی راہ اپنا چکے ہیں قائد بابا ۔۔آپ کے رفیق علامہ اقبال نے فرمایا تھا۔"ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا۔ دردمندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا"شاید اسی وجہ سے آپ نے برصغیر کے مظلوم و مجبور مسلمانوں کو آزادی دلائی۔لیکن یہاں تو نظام ہی بدل گیا ہے۔لٹیروں ، ڈاکوؤں، اور رسہ گیروں کی حمایت کی جاتی ہے جبکہ دردمندوں ، ضعیفوں اور غریبوں کی مدد تو درکنار ان پہ عرصہ حیات تنگ کرنا ہر بالادست کا وطیرہ بن چکاہے۔

بابا۔۔۔آپ نے پاکستان کی ترقی و خوشحالی اور مضبوط دفاع کا خواب دیکھا تھا ہم اس خواب کو صحیح معنوں میں شرمندہ تعبیر تو نہ کر سکے البتہ میزائل ٹیکنالوجی اور ایٹم بم بنا کر پاکستان کو ملت اسلامیہ کی پہلی اور دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت ضرو ر بنا دیا ہے ۔ یہ کیسے اور کیوں کر ہوا اس سب سے قطع نظر یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ تمام تر رکاوٹوں اور سازشوں کے باوجود ہم یہ سنگ میل عبور کر چکے ہیں۔ آہوں ،سسکیوں ،درد و الم اور محرومیوں کے اس سفر میں یہی ایک قابل ذکر پیش رفت ہے جو کہ ہمارا سرمایہ ہے ۔ قائد بابا۔۔آپ نے ہمیں پاکستان کا تحفہ تو دے دیا لیکن ہم اس کی حفا ظت نہیں کر سکے۔ 1971 میں نا عاقبت اندیش پالیسیوں کی بدولت ہم اپنا ایک بازو گنوا بیٹھے چونکہ یہاں سب اپنی خواہشات اور مفادات کے اسیر ہیں اس لیے آپکی جانشینی کا حق بھی ادا نہیں ہو سکا۔وہ ولولہ اور جوش و جذبہ جو کہ قیامِ پاکستان کے موقع پر موجود تھا آج ناپید ہو چکا ہے آزاد اور خوشحال پاکستان کا خواب بس خواب ہی رہ گیا ہے یہ مخصوص استحقا قی سٹیٹس کا ہی نتیجہ ہے کہ ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود ہم کشکول اْٹھائے عالمی ساہو کار اداروں کی گلیوں کے طواف کرنے پر مجبور ہیں۔

اے روحِ قائد۔۔ ہم شرمندہ ہیں نا تو ہم آپکی جانشینی کا حق ادا کر سکے اور نہ ہی آزاد اور خوشحال پاکستان کے خواب کو عملی جامہ پہنا سکے ۔ ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے کوئی نہیں جو قائد اعظم ثانی بنے اور ہچکولے کھاتی اس ناؤ کو پار لگائے۔ شاید کبھی تو رب ذوالجلال کو اس بے بس قوم کی حالت پر رحم آئے گا اور اس کے سدھار کے لیے کوئی مسیحا بھیجے گا۔ بس حسرت ویاس کے ان اندھیروں میں امید کی یہی اک کرن ہے جو سات دہائیوں سے اگلی نسل کو منتقل ہوتی چلی آرہی ہے۔
Mukhtar Ajmal Bhatti
About the Author: Mukhtar Ajmal Bhatti Read More Articles by Mukhtar Ajmal Bhatti: 21 Articles with 18560 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.