اندھا اس کو کہتے ہیں جو اپنی آنکھوں سے
دیکھ نہیں سکتا ۔ جو سن نہیں سکتا وہ بہرہ کہلاتا ہے بولنے سے معذورانسان
کو گونگا کہتے ہیں ۔ لولا اپنے ہاتھوں سے کوئی شئے اٹھا نہیں سکتا اور نہ
لنگڑااپنے پیروں پر چل سکتا ہے مگر ایک نابالغ عصمت دری کرسکتا ہے!اگر آپ
کو اس پر حیرت نہیں ہے تو جان لیجئے کہ مجنون اپنے دماغ سے سوچ نہیں سکتا ۔
نربھیا عصمت دری کے معاملے میں نام نہاد نابالغ مجرم کی رہائی ہم سے سوال
کررہی ہے کہ کیا عدلیہ عقل وفہم سے عاری ہے ؟ لیکن عدالت کا موقف یہ ہے کہ
ہم قانون بنا نہیں سکتے ہم تو صرف اس پر عملدرآمد کے پابند ہیں ۔ تو پھر
کیا مقننہ یعنی ہمارے سیاستداں پاگل ہیں ؟انہوں نے قانون وضع کیوں نہیں کیا
؟
ایسا لگتا ہے کہ ہمارے معزز حکمراں نہیں چاہتے کہ شہر دہلی نے دنیا بھرکی
عصمت دری کے دارالخلافہ ہونے کا جو اعجاز حاصل کیا اس سے وہ محروم ہو جائے۔
وہ یہ بھی نہیں چاہتے کہ ہر ۲۰ منٹ میں ملک کے اندرجوایک عصمت دری کی
واردات کا اندراج ہوتا ہے اس شرح میں کمی آئے۔ ایک تحقیق کے مطابق جنسی
زیادتی کے ۶۹ میں سے صرف ایک کی پولس میں شکایت درج ہوتی ہے۔ اگر انتظامیہ
کو موصول ہونے والی کل شکایتوں کو ۶۹ سے ضرب کردیا جائے تو اندازہ لگایا
جاسکتا ہے وطن عزیز میں صنف نازک کس ظلم و ستم کا شکار ہیں ۔ اس کی ایک وجہ
مناسب قانون کی عدم موجودگی ہے اور دوسرے اس پر عمل بجا آوری میں کوتاہی
ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دہلی خواتین کمیشن کی سربراہ سواتی ماليوال نے دہلی ہائی
کورٹ کے حالیہ فیصلے پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ انتہائی دکھ کی
بات ہے کہ نربھیا کا مجرم ۲۰ دسمبر کو رہا ہو جائے گا۔نربھیا کے مجرم کی
رہائی کا دن تاریخ کا سیاہ ترین دن ہوگا۔
نربھیا کی آبروریزی اورقتل کے بعد اس کی آنتیں باہر نکال کر سڑک پر
پھینکنے والا سنگین مجرم تین سال ایک اصلاح کے مرکز میں عیش کرنے کے بعد
باعزت بری کردیاگیا۔ یہ ظلم عظیم کیوں ہوا اس کی لاکھ توجیہ کی جائے لیکن
اس کا بنیادی سبب یہی ہے کہ اس ملک میں اسلامی شریعت نافذ نہیں ہے ۔معروف
ماہر قانون ڈاکٹر طاہر محمود کے مطابق شریعت اسلامی کی ابتدائی کتب میں ۹
سے ۱۲ سال کے درمیان بچے کےسن بلوغ کو پہنچ جانامذکور ہے۔آیت اللہ صادقی
تہرانی نے بھی سن بلوغ کی مختلف قسمیں بیان کرتے ہوئے اسے۱۰ تا ۱۳ سال لکھا
ہے۔ شریعت کسی غیر فطری حدبندی کے بجائے جسمانی وطبعی تبدیلیوں کی بناء
بالغ ہونے کا فیصلہ کرتی ہے ۔ نربھیا کے مجرم نے اپنے عمل سے یہ ثابت کردیا
کہ وہ سنِ بو غ کو پہنچ چکا ہے اس لئے وہ اسی سزاکا مستحق جو بالغوں کیلئے
ہے۔ شریعتِ اسلامی ایوانِ پارلیمان کے توثیق کی محتاج نہیں ہے اور نہ وہ
انسانوں کو یہ حق دیتی ہے کہ وہ شریعت میں خرد برد کرے ۔ جو لوگ ایسا کرتے
ہیں وہ اپنے اقتدار کا بیجا استعمال کرتے ہیں جس کے سبب معاشرے میں سفاک
مجرم بلا خوف و خطر دندناتے پھرتے ہیں اور مظلوم و مقہور عوام بے بس و
لاچار ہوجاتے ہیں ۔ پولس رہائی کے خلاف مظاہرہ کرنے وا لوں کو نربھیا کے
والدین سمیتگرفتار کرلیتی ہے۔
بنی نوع انسان کی سمجھداری اس میں ہے کہ وہ اپنی خداداد صلاحیتیوں کا مکمل
ادراک کرکے ان کا بھرپوراستعمال کرے اور اپنی محدودیت کو بھی ملحوظِ خاطر
رکھے۔ دنیا کا ماہر ترین بس ڈرائیور بھی اگر ہوائی جہازچلانے کی کوشش کرے
تو وہ نہ صرف خود حادثے کا شکار ہوکر بے موت مارا جائیگا بلکہ اپنےجہاز میں
سوار مسافروں کی ہلاکت کا سبب بھی بنے گا۔ آج کل یہی ہو رہا ہے۔ نربھیا کے
واقعہ سے بعد یوپی اے حکومت خواتین کو دست درازی سے بچانے کیلئے قانون
بنایا تو اس ۱۸ سال سے کم عمر والوں کوکمسن قرار دے دیا لیکن یہ نہیں سوچا
کہ اس فائدہ اٹھا کر کتنے مجرم اپنے آپ کو قرار واقعی سزا سے محفوظ کرلیں
گے۔ اس سال مئی کے اندر نئی حکومت نےدستور ہند میں ایک ترمیم کرکے اس عمر
کو ۱۶ سال کرنے کی کوشش کی گئی ۔ وہ دستوری ترمیم ایوان زیریں میں تو
کامیاب ہوگئی لیکن ایوانِ بالا میں حزب اختلاف نے اسے نظر ثانی کیلئے منتخب
پارلیمانی کمیٹی کے حوالے کردیا ۔
ایوان پارلیمان میں مئی کے گرمائی اجلاس کے بعد بارانی اجلاس اور اب سرمائی
اجلاس تک حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں نے اس سنگین مسئلہ پر مجرمانہ
غفلت کا مظاہرہ کیا ۔ اگر یہ قانون بن جاتا تو عدالت کیلئے اس مجرم کو سزا
دینا کوئی مشکل کام نہیں تھا لیکن ہمارے سیاستدانوں کو اگر انتخابی مہمات ،
بیرونی دوروں اور ایک دوسرے کے خلاف بہتان طرازی سے فرصت ملے تو وہ عوام کی
فلاح و بہبود کی جانب توجہ دیں ۔ وہ تو دن رات سیاسی جوڑ توڑ اور بدعنوانی
کے ذریعہ لوٹ کھسوٹ میں لگے رہتے ہیں ۔ وزیراعظم اور وزیرخزانہ کو سرمایہ
داروں کو خوش کرنے والے جی ایس ٹی بل کا غم کھائے جاتا ہے بلکہ اب تووہ
سرمایہ کاروں کا نجات دہندہ دیوالیہ قانون بھی پاس کرانے فراق میں ہیں ۔
حزب اختلاف کا نگریس کا یہ حال ہے کہ کبھی وہ سوٹ بوٹ پر ہنگامہ کرتی ہے تو
کبھی اپنی بدعنوانی پر پردہ ڈالنے کیلئے عدالت کے چکر کاٹتی ہے۔مجاہدِ
کرپشن کیجریوال ایک بدعنوان افسر کو بچانے کیلئے سردھڑ کی بازی لگا دیتے
ہیں اور سابق وزیرقانون ان پر ہتک عزت کا دعویٰ کرنے کیلئے عدالت کے دروازے
پر دستک دیتے ہیں لیکن کوئی نربھیا کے قاتل کو سزا دینے کیلئے عدلیہ کا رخ
نہیں اختیار کرتا۔
ہمارے ملک میں وزیراعظم اور وزیرخزانہ کے علاوہ ایک وزیر قانون سداآنند
گوڑا بھی ہیں جن کے نام سے بہت کم لوگ واقف ہیں ۔ سدا آنند کے معنیٰ دائمی
خوش باش کے ہوتے ہیں اسی لئے ہر تصویر میں ان کی بتیسیّ دکھائی دیتی ہے۔ یہ
ان کی ذمہ داری تھی کہ وہ ۶ ماہ کے اندر اندراس دستوری ترمیم پر منتخب
کمیٹی کی رپورٹ ایوان میں پیش کرتے اور ۲۰ دسمبر سے قبل اسے پاس کروا کر اس
مجرم کو رہا ہونے سے روکتے لیکن سداآنند خود اپنے ذاتی مسائل میں ایسے غرق
ہیں کہ انہیں قوم کیلئے فرصت ہی نہیں ۔ نئی حکومت کے قیام کے بعد سداآنند
گوڑا کو وزیر ریلوے بنایا گیا ۔ اس کے چند ماہ بعد ہی ان کے لڑکے کارتک کو
ایک فلمی اداکارہ کو فریب دے کر عصمت دری کرنےکے الزام گرفتار کرلیا گیا ۔
اس کے بعدانہیں وزارت سے ہٹانے کیلئے دباؤ بننے لگا ۔
وزیراعظم نے جب پہلی مرتبہ اپنی وزراء کے عہدوں میں پھیر بدل کیا تو
سداآنند گوڑا کو ریلوے کی ذمہ داری سے سبکدوش کردیا لیکن مجلسِ وزراء سے
نکال باہر کرنے کے بجائے وزیرقانون بنا دیا ۔ اس طرح گویا سداآنند گوڑا کو
اپنے بیٹے کو سزا سے بچانے کیلئے سہولت فراہم کردی گئی اس لئے کہ ایسے جج
تو ملک میں کم ہی ہوں گے جو اپنے وزیر کے فرزند ارجمند کو جیل بھیجنے کی
جرأت رندانہ کا مظاہرہ کریں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پولس نے ملزم کو سزا
دلوانے کے بجائےیہ ثابت کر نے پر اپنا زور صرف کیا کہ کارتک سے ملاقات
کیلئے وہ اداکاری ازخود آئی تھی اس لئے پر زورزبردستی کا مقدمہ نہیں بنتا
ہاں دھوکہ دہی یعنی دفع ۴۲۰ ضرور لگتی ہے۔
وزیرقانون کے سامنے اب نیا مسئلہ اپنے ۴۲۰ بیٹے کی شادی کرانے کا تھا ۔ وہ
اس کام میں جٹ گئے اور اس سال اکتوبر میں اس فرض منصبی سے بھی فارغ ہوگئے
جبکہ اس فلمی اداکارہ کے مطابق کارتک نے ۵ جون ۲۰۱۴ کو اس کے گلے میں منگل
سوتر ڈالا تھا اور اپنے دوستوں سے اس کا تعارف بیوی کے طور پر کرایا تھا ۔
اداکارہ کے مطابق یہ کارتک کی یہ دوسری شادی ہے۔ اس دوران سداآنند پرزمین
گھوٹالے کا ایک نیا الزام بھی لوک آیوکت کی عدالت میں لگ گیا۔ اب ایسے میں
بیچارہ وزیر قانون اپنے آپ کو قانونی شکنجوں سے بچائےیا کارتک کو نظرانداز
کرکے نربھیا کی آبروریزی کرنے والے کو سزا دلوائے ؟
عوام کے دباو میں ممکن ہے ۲۲ دسمبر کو دستوری ترمیم عمل میں آجائے گیلیکن
اس کے باوجود جو مجرم رہا ہو چکا ہے اس کو سزا دینا ناممکن ہے ۔ فی الحال
اشتراکیوں کے علاوہ سارا حزب اختلاف اور سرکار اس قانون کو پاس کرنے کے حق
میں ہے کہ وہ ۔سیتارام یچوری اب بھی اسے مزید غوروخوض کیلئےسیلیکٹ کمیٹی کے
حوالے کرنا چاہتے ہیں لیکن اندیشہ یہ ہے کہیں پھر سے ٹھنڈے بستے میں نہ چلا
جائے۔ ویسے اس قانون کے پاس ہوجانے کے باوجود مسئلہ حل نہیں ہوگا ۔ جس روز
ایوان بالا میں اس پر بحث ہورہی اسی دن روہتک کی عدالت نے ایک نیپالی لڑکی
کی نہایت بہیمانہ عصمت دری اور قتل پر ۷ لوگوں کو موت کی سزا سنائی ۔ اس
جرم کے آٹھویں ملزم نے خودکشی کرلی لیکن نواں ۱۵ سال کا ہے ۔ نئے قانون کے
باوجود وہ مجرم زیادہ سے زیادہ ۳ سال اصلاحی مرکز میں قیام کے بعد رہا
ہوجائیگا۔ اس طرح گویا پھر ایک بار ثابت ہوجائیگا کہ الہامی ہدایت سے بے
نیاز ہوکر وضع کردہ انسانی قوانین ناقص ہوتےہیں ۔ ضرورت قانون بدلنے کی
نہیں تبدیلیٔ نظام کی ہے بقول مظفر وارثی؎
فولاد سے فولاد تو كٹ سكتا ہے ليكن
قانون سے قانون كو بدلا نہیں جاتا
انسانوں کے فلاح و بہبود کا حقیقی ضامن تو ان کے خالق و مالک کے سوا کوئی
اور کا بنا یا ہوا قانون کیوں کر ہوسکتا ہے؟شارحین اسلام کا دورِ اول ہی
میں سن بلوغ کی عمر کا تعین طبعی بنیاد پر۹تا۱۲ سال کردیاک( اگرچہ کہ
علامات کے ظاہر نہ ہونے کی صورت میں ۱۵ سال تک کااستثناء بھی موجودہے) اس
بات کا بین ّ ثبوت ہے کہ وہ اسلامی شریعت اور انسانی فطرت سے خوب واقف تھے۔
برطانیہ میں بھی ۱۰ تا ۱۷ سال کے نوجوانوں کو کمسن شمار کیا جاتا ہے لیکن
اگر وہ قتل یا آبروریزی جیسے گھناونے جرائم کا ارتکاب کریں تو نوجوانوں کی
عدالت سے ان کا مقدمہ ملکہ کی عدالت (کراون کورٹ) میں منتقل کر دیا جاتا
ہے۔
امریکہ کی مختلف ریاستوں میں قانون مختلف ہے لیکن کم از کم ۱۴ سال کے لڑکے
کو بڑوں کی سزا مل سکتی ہے۔ ونکوسن کے ۱۶ سالہ نوجوان بروگن رافرٹی کو
۲۰۱۱قتل کے الزام میں جیل بھیجا گیا ۔ اسی سال کولاریڈو کےایک ۱۲ سال کے
لڑکے نے اپنے والدین کو ہلاک کرنے کے بعد اپنے چھوٹے بھائیوں پر حملہ کیا۔
اعتراف جرم کے بعد اسے کمسنوں کی عدالت نے ۷ سال کی سزا سنائی۔ آبروریزی
کے واقعات امریکہ کے ترقی یافتہ معاشرے میں بھی سامنے آئے ہیں مثلاً
اسٹیوبن ولا میں دو ۱۶ سالہ فٹ بال کھلاڑیوں نے ایک نشے میں دھت نوجوان
لڑکی کی عزت لوٹ لی۔ سندر لینڈ میں ایک ۱۲ سال طالب علم نے اپنی استانی کی
عصمت تار تار کردیا ۔ بولٹن کے ۱۲ سالہ لڑکے نے دو لڑکیوں کی عزت لوٹ لی جن
عمر ۱۰ اور ۱۱ سال تھی۔ امریکہ میں ۲۰ فیصد جرائم کا ارتکاب یہ نام نہاد
کمسن نوجوان کرتے ہیں۔
ہندوستان میں بھی کم عمر نوجوانوں میں جرائم کے رحجان میں زبردست اضافہ ہوا
ہے۔گوہاٹی کے اندر گزشتہ دنوں پانچ لڑکے ایک ۱۲ سالہ لڑکی کو ورغلا کر اپنے
جھوپڑے میں لے گئے اور اس کی عصمت تار تار کرتے رہے ۔ پکڑے جانے پر ان سب
نے اپنے کم سن ہونے کا دعویٰ کردیا بعد میں ان کو اصلاحِ اطفالکے مرکز
روانہ کردیا گیا ۔ اگر قانون میں تبدیلی ہو بھی جائے تب بھی ان میں سے کچھ
اپنے آپ کو ۱۶ سال سے کم کا ثابت کرکے ۳ سال کے اندر چھوٹ جائیں گے۔ جرائم
کا اعدادو شمار رکھنے والے قومی ادارے( این سی آر بی) کے مطابق ۲۰۱۲ میں
۳۵ ہزارسے زیادہ کم سن لوگ جرائم میں ملوث پائے گئے جن میں سے ایک تہائی
یعنی دس ہزار سے زیادہ ۱۶ سال سے کم عمر کےتھے ۔ ان جرائم کے اندر چوری
چکاری تو صرف دوگنا بڑھی لیکن خواتین کے اغواء میں ۶ء۶ گنا اضافہ ہوا۔
۲۰۰۲ سے لے کر ۲۰۱۲ کی دہائی میں ان نام نہاد کم سنوں کے ذریعہ عصمت دری
کے واقعات میں ۵ء۱ فیصد کا اضافہ ہوا۔ اس عرصے میں خواتین اور بچیوں کے
اغواء کی وارداتیں ۵ گنا بڑھ گئیں ۔
اس بھیانک صورتحال کی اولین ذمہ داری ہمارے سیاستدانوں پر جاتی ہے جن کے
ناعاقبت اندیش رویہ نے مجرمین کے حوصلے بلند کردئیے ہیں۔ مثال کے طور دو
ماہ قبل دہلی میں دو معصوم بچیوں کی اجتماعی عصمت دری کے بعد وزیر اعلی
اروند کیجریوال نے دہلی پولیس پر نشانہ سادھتے ہوئے وزیراعظم اور لیفٹننٹ
گورنر پر حملہ بول دیا ہے۔ کیجریوال نے دہلی میں بڑھتے جرائم کے لئے دہلی
پولیس کو ذمہ دارٹھہرایا ہے(اس لئے کہ وہ مرکزی حکومت کے تحت ہے)۔ کیجریوال
نے دہلی میں مسلسل ہو نے والی عصمت دری کے وارداتوں کو شرمناک اورباعث
تشویش قراردیتے ہوئے سوال کیا کہ پی ایم اور ایل جی کیا کر رہے ہیں؟اس کے
جواب میں دہلی خواتین کمیشن کی سابق صدر برکھا سنگھ نے کیجریوال حکومت پر
الزام لگایا کہ کیجریوال حکومت صرف اپنی تشہیرمیں لگی ہوئی ہے جبکہ دہلی
میں خواتین کے خلاف جرائم بڑھتے جا رہے ہیں۔
ماضی میں اس طرح کی سیاسی بیان بازی کا مظاہرہ وزیر خزانہ ارون جیٹلی بھی
کرچکے ہیں ۔ انہوں نےوزارت سیاحت کے ایک اجلاس میں آبروریزی کے واقعات کی
جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ دہلی میں ایک معمولی واقعہ کے مشتہر
ہوجانے کےسبب ملک کو سیاحت کے شعبے میں کھربوں روپئے کا خسارہ اٹھانا پڑے
۔ان کے خیال میں عصمت دری کے واقعات کے وقوع پذیر ہونے سے زیادہ نقصان دہ
ان کی ترہی ہے اور وہ اس خسارے کو دولت ترازو میں تولتے ہیں۔ ایوان میں بحث
کے اندر حصہ لیتے ہوئے ٹی ایم سی کے ٹی ایم سی کے ڈیرک اوبرائن نے کمال
خودغرضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا اگر وہ خدا نخواستہ میری بیٹی ہوتی تو میں
دنیا کا بہترین وکیل کرتا یا بندوق اٹھا کر اس مجرم کو قتل کردیتا ۔ اس کے
برعکس جیوتی سنگھ عرف نربھیا کی والدہ آشا دیوی نے کہتی ہیں کہہندوستان کی
ہر لڑکی کے تحفظ کی خاطر وہ اپنی جنگ جاری رکھیں گے۔انہوں نے یہ سوال بھی
کیا کہ ہمیں عدالت عالیہ سے کسی موافق فیصلے کی توقع نہیں تھی لیکن میں
پوچھنا چاہتی ہوں کہ آخر قانون کی تبدیلی کیلئے کتنی نربھیا درکار ہیں؟
اس موقع پر سب سے اہم بات سواتی مالیوال نے کہی کہ اب وقت آگیا ہے کہ
خواتین موم بتی کہ بجائے مشعل اٹھا کر میدان عمل میں اتریں۔ خواتین ہی کیوں
مردوں کو بھی ظلم و جبر کے خلاف اس جنگ میں شانہ بشانہ شامل ہونا پڑے
گاتبھی اس کا سدّباب ہو سکے گا۔نربھیا کے والد بدری سنگھ پانڈےنے یہاں تک
کہہ دیا کہ ہم مجبور نہیں ہیں مگر نظام عاجز ہے ۔ وہ اپنی اہلیہ آشا دیوی
کے ساتھ اس تاریخی اجلاس کا مشاہدہ کرنے کیلئے ناظرین کی صف میں آکر بیٹھے
جس میں دستور کی ترمیم پر بحث ہو رہی تھی ۔ اس سے قبل بدری سنگھ نے ایوان
میں پارلیمانی امور کے وزیر مملکت مختار عباس نقوی سے ملاقات کے بعد کہا
باتیں بہت ہوچکی اب مزید کسی تاخیر کے عملدرآمد ہونا چاہئے ۔ نربھیا کے
والدین کی ایوان پارلیمان میں موجودگی پر مظفر وارثی ہی کایہ شعر صادق آتا
ہے کہ ؎
دريا كے كنارے تو پہنچ جاتے ہیں پياسے
پياسوں کے گھروں تك كوئى دريا نہیں جاتا ! |