ان دنوں گھریلو صارفین کو بڑے پیمانے
پرگیس کی بندش اور لو پریشر کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ سی این جی سٹیشن تو
پہلے ہی غیر معینہ مدت کیلئے بند کر دیئے گئے ہیں۔ اور اب موجودہ جمہوری
حکومت کی جانب سے عوام پاکستان کونئے سال 2016 ء کا یہ تحفہ دیا گیا ہے کہ
آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا )نے یکم جنوری 2016ء سے گیس کی
قیمتوں میں 38 فیصد تک اضافہ کرنے کی منظوری دیدی ہے۔ اڑھائی سال قبل مسلم
لیگ ن کی قیادت نے انتخابی مہم میں کہا تھا کہ اس کے پاس بہترین ٹیم ہے،
انرجی کرائسز سمیت تمام بحرانوں پر جلد قابو پا لیں گے،عوام نے اس بھروسہ
پر مسلم لیگ ن کو بڑے مینڈیٹ سے نوازا، مگر عوام پاکستان کو مایوسی کا
سامنا کرنا پڑا اور اس مایوس کن کیفیت میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ گیس کی
لوڈشیڈنگ بڑھنے پر صارفین پہلے ہی حکومت کو کوس رہے تھے اب اس کی قیمت میں
اضافے سے بھی مشتعل ہوں گے۔ 2013ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعد مسلم لیگ
ن اقتدار میں آئی تو اس نے معیشت کی مضبوطی کو اپنی ترجیحات میں سرفہرست
رکھا، کشکول توڑنے کا دعویٰ تو مسلم لیگ کی انتخابی مہم کا طرہ امتیاز رہا
ہے۔ لیکن آمریت کی چھتری تلے نیم جمہوری حکومت کے دوران شوکت عزیز نے آئی
ایم ایف کے تمام قرضے ادا کر کے واقعتا کشکول توڑ دیا تھا، پھر پیپلز پارٹی
کی جمہوری حکومت کے دوران عالمی مالیاتی اداروں سے پھر قرضے لینے کا سلسلہ
شروع ہوا، جبکہ موجودہ حکومت نے ریکارڈ بیرونی قرضے حاصل کئے ہیں۔ اور
کشکول توڑنے کے دعویدار حکمرانوں نے اپنے دور اقتدار میں قرض کی پہلی قسط
وصول ہونے پر قوم کو باقاعدہ مبارک باد دے ڈالی۔آئی ایم ایف قرض کی قسط کی
ادائیگی سے قبل اپنی کڑی شرائط منواتا ہے، جن میں مروجہ ٹیکسوں میں اضافہ
اور نئے ٹیکسوں کے نفاذ اس کی اولین شرط ہوتی ہے، ہر حکومت بالعموم اور
موجودہ وزیر خزانہ اسحق ڈار تو بالخصوص بلا چوں و چراں آئی ایم ایف کی ہر
شرط تسلیم کرتے آئے ہیں۔ حکومت رواں مالی سال کے دوران حالیہ 40 ارب سمیت
دو منی بجٹ لا چکی ہے اور مالی سال کے خاتمے میں ابھی چھ ماہ سے زائد کا
عرصہ باقی ہے۔ عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں گزشتہ آٹھ سال
کی کم ترین سطح پر آچکی ہے، حکومت عالمی سطح کے مطابق ملک میں پٹرولیم
مصنوعات کے نرخوں میں کمی کر کے مہنگائی کے جن کو آسانی سے بوتل میں بند کر
سکتی ہے ، لیکن ابھی تک ملک میں پٹرول کے نرخوں میں خاطر خواہ کمی نہ کی
گئی ہے۔ جبکہ بجلی کی لوڈشیڈنگ کا 6 ماہ میں خاتمے کا دعویٰ، وعدہ اور
اعلان حکومتی پارٹی کے رہنما انتخابی مہم میں گھن گرج کے ساتھ کرتے رہے ہیں،
آج اڑھائی سال بعد بھی وہ پرجوش اعلانات سراب نظر آتے ہیں۔ بجلی کے
پیداواری منصوبوں کے افتتاح در افتتاح ہو رہے ہیں مگر سردیوں میں بجلی کی
کھپت کم ترین سطح پر ہونے کے باوجود 8 سے 12 گھنٹے لوڈشیڈنگ جاری ہے ۔
پنجاب میں سی این جی سیکٹر تو تباہ ہو کر رہ ہی گیا ہے ، اس سے وابستہ
لاکھوں افراد بے روزگار ہوگئے ہیں۔ گھریلو اور صنعتی صارفین بھی گیس کی
لوڈشیڈنگ کے باعث پریشان حال نظر آتے ہیں، ان حالات میں سوئی گیس کی قیمت
میں 38 فیصد اضافہ مفلسی میں ڈوبی عوام کو مارنے کے مترادف ہے۔ سوئی گیس
ملکی پیداوار ہے اس کی قیمت میں اضافہ بلا جواز ہے۔ اوگرا نے سوئی نادرن
گیس کمپنی ایل این جی گیس پائپ لائن کی تعمیر کیلئے 75 ارب گیس صارفین سے
وصول کرنے کی درخواست مسترد کر کے صارفین پر اپنا احسان جتلانے کی کوشش کی
جبکہ گیس کی قیمت 38 فیصد اضافے کا ستم روا رکھا ہے، اس میں حکومت کو 30
ارب روپے وصول ہونگے جو مبینہ طور پر گیس پائپ لائن کی تعمیر پر خرچ ہونگے۔
کراچی تک گیس پائپ لائن روس اور تاپی گیس پائپ لائن ترکمانستان نے تعمیر
کرنی ہے، یہ 30 ارب نہ جانے کس کھاتے ہیں جائیں گے۔ پاکستان میں لاکھوں
صنعتیں اور کاروبار محض بجلی و گیس کی قلت کے باعث بند ہوچکے ہیں، لاکھوں
لوگ بے روزگار ہیں، ملکی ترقی و خوشحالی کیلئے وافر مقدار میں توانائی کی
دستیابی ناگزیر ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ عالمی مالیاتی اداروں کے چنگل سے
جلد از جلد جان چھڑائے، کیونکہ طرح طرح کے مسائل سے دوچار مفلوک الحال
پاکستانی مذید مہنگائی کو برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے ، اور ملک میں
انرجی کی کمی کو پورا کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات بروئے کار لائے جائیں تاکہ
عوام پاکستان سکھ کا سانس لے سکیں۔ |