دہشت گردی کی جنگ میں پاک فوج کا کردار
(Sami Ullah Khan, Mianwali)
دنیا اگر پاکستان کو میلی آنکھ سے
نہیں دیکھ سکتی تواس کی سب سے بڑی وجہ ایک منظم وجذبہ سے سرشارپاک فوج ہے ۔جس
نے قیام پاکستان کے بعد ہمسائے کی شرانگیزیوں کے جواب سے لے کر دہشت گردی
کی جنگ تک ہرلمحہ ہرآن اپنا کرداربخوبی نبھایاہے۔پاک فوج کا جذبہ حب الوطنی
ہی ہے کہ پاکستان کوہرمقام پر نقصان پہنچانے والے بھارت کے سابق چیف as
dulatنے time lit fest کی تقریب میں یہ اعتراف کیا کہ اس وقت دنیا کی قابل
ترین خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی ہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ نے اسوقت ایک ٹرن لیا جب وزیراعظم پاکستا ن نے ٹی ٹی
پی کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا۔اس ضمن میں آل پارٹیز کانفرنسز ہوئیں
‘جہازوں پر سفرکرکے ان سے ملاقاتیں ہوئیں ‘خفیہ ملاقاتیں کی گئیں ‘حتی کے
عمران خان نے طالبان کو دفتر تک کھولنے کی اجازت دینے کا کہامگر بدقسمتی
کہیئے یا اغیار کی سازشیں طالبان نے ہرموڑ پر ریاست کی نرمی کوللکارا
اوراپنی صفوں میں موجود نااتفاقی کو ریاست کے سرتھوپنے کی ناکام سی کوشش
کی۔انتہاپسند اپنے گروہوں کو کسی ایک بات پر متفق نہ کر سکے ۔ملاقات کے
تعطل کی وجہ انتہاپسندوں کی طرف سے ہٹ دھرمی کاوہ سنگدلانہ اقدام تھاجس میں
انہوں نے23فرنٹیئرسپاہیوں کو شہیدکردیااورپھر 17اپریل 2014کو ٹی ٹی پی نے
سیز فائر کے خاتمے کا اعلان کردیا۔ 9جون کو جناح انٹرنیشنل ائیرپورٹ کراچی
پر حملہ کردیا‘جس کی ذمہ دار آئی ایم یو اورٹی ٹی پی نے قبول کرلی۔جسے
انہوں نے اپنے ایک رہنماء کی موت کا انتقام قراردیا۔
15جون 2014کو پاکستان کی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے جب ان
تمام انتہاپسند قوتوں کے خلاف پاک افواج نے ’’آپریشن ضرب ِ عضب ‘‘کو ریاستی
اداروں کی سرپرستی میں لانچ کیا۔اس آپریشن کو کم وبیش تمام مکاتیبِ فکرکے
جہاندیدہ علماء کی سپورٹ حاصل تھی اور انہوں نے اسے ’’جہاد‘‘قراردیا۔
’’العضب‘‘اس تلوار کانام ہے جو سرکارِ دوجہان ‘رحمت اللعالمین‘سرورکائنات
نے جنگِ بدراورجنگِ احد میں استعمال کی۔ ’’عضب ‘‘کامطلب کاٹناہے اورپاک
افواج نے اس آپریشن میں غیرمعمولی کارکردگی کامظاہرہ کرتے ہوئے انتہاپسندوں
کی جڑوں کو جگہ جگہ سے کاٹ ڈالاہے اوران کی ریڑھ کی ہڈی میں مختلف مقامات
پر کاری ضربیں لگائی ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں ایک اندازے کے مطابق ابتک پاک افواج نے حب
الوطنی کامظاہرہ کرتے ہوئے اپنے 6360نوجوانوں کی قربانی دی۔دہشت گردی کے
دوران ہلاکتوں کااعدادوشماررکھنے والے ’’ساؤتھ ایشیاٹیرارزم پورٹل‘‘ کے
مطابق 2003سے لے کر 29نومبر2015تک پاکستان کے کل 20805سویلین‘32342باغی
ودہشت گرد اورچھ ہزار‘تین سوساٹھ پاک آرمی کے سپاہی شہید ہوئے۔ اسی پورٹل
کے مطابق 2006کے بعد سے ابتک موجودہ دورمیں شہریوں اورسپاہیوں کی شہادتیں
کم ہوئی ہیں۔
13جون 2015کواپنی سالانہ کارکردگی کے حوالے سے پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل
عاصم باجوہ صاحب نے کہا کہ انٹیلی جینس کی بنیادپر نوہزار چھوٹے بڑے
آپریشنز میں2763عسکریت پسند مارے گئے ‘جس میں انکے 218کمانڈر بھی شامل
تھے۔اسی دوران عسکریت پسندوں کے 837ٹھکانے تباہ کیئے گئے جبکہ 253ٹن دھماکہ
خیز موادری کور کیاگیا۔اس عرصۂ میں پاک افواج نے انتہاپسندوں سے اٹھارہ
ہزار‘سینتیس ہتھیار بازیاب کرائے جن میں‘ہیوی مشین گنز‘لائٹ مشین
گنز‘سنپرزاور ‘راکٹ لانچرز شامل تھے۔آئی ایس پی آر کے مطابق اس دوران پاک
افواج کے 347آفیسرز اورسپاہی جامِ شہادت نوش کرگئے۔
پاک آرمی نے نہ صرف شوال‘دتہ خیل‘مہمند‘سوات‘شمالی وزیرستان بلکہ ملک کے
مختلف علاقوں میں امن کی کوششوں میں بھرپور کرداراداکیا۔۔’’دھرناکی
سیاست‘‘کے جانباز جب پی ٹی وی پر چڑھ دوڑے تو اسوقت پاک افواج ہی تھی جس نے
آرٹیکل 245کے زمرے میں پی ٹی وی کے سٹیشن پہنچ کر اسے ان ناہنجارلوگوں سے
آزادکروایا۔این اے 122ہو یا کراچی کا این اے 246ان میں رینجرز کے ذریعے ہی
پرامن انتخابات کا انعقاد کیاگیا‘معدودے چند خرمغزسیاستدانوں کے ننانوے
فیصدسیاستدان ہرموڑ پر پاک فوج کو ثالث تسلیم کرتے آئے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ
چند ماہ قبل ایک سینئر امریکی اہلکار کو کہناپڑاکہ کچھ معاملات میں سویلین
ادارے ڈیلیورکرنے کی طاقت نہیں رکھتے اس لیئے ا ن معاملات کو افواج پاکستان
کے چیف جنرل راحیل شریف چلارہے ہیں‘اگر اس بات کو ہمیں کہنا پڑے تو ہم کہیں
گے کہ سیاستدان چونکہ مختلف سیاسی مجبوریوں کی بناء پر سامنے نہیں آسکتے اس
لیئے انھوں نے فرنٹ لائن آرمی کو کردیاہے جس کامفاد بس ملکی مفادہے۔
بلدیاتی انتخابات جنھیں جمہوریت کی نرسری کہاجاتاہے ‘ان کے تینوں مراحل میں
پرامن انعقاد کیلئے بھی رینجرہی کی خدمات حاصل کی گئیں۔اس سب کے باوجود چند
عناصر ایسے ہیں جنھیں اس ادارے کی نیک نامی سے خداواسطے کابیرہے چونکہ وہ
اغیار کی گودوں میں پل رہے ہیں اس لیئے انھیں جب بھی ریاست ِ پاکستان کے اس
واحدمنظم ادارے کی خوشہ چینی کا موقع ملتاہے تو وہ اسے غنیمت جان کے سویلین
اورریاستی اداروں کے مابین محاذ آرائی کا شوشہ کھڑاکرکے یاتو کسی جانب اپنی
قیمت لگوانا چاہ رہے ہوتے ہیں یا پھر اپنے کسی سرپرست کو خوش کرکے مفادات
کے ڈالربذریعہ پتھر حاصل کرناچاہتے ہیں کیونکہ ان کے آقاؤں کے گھر کے راستے
میں کوئی کہکشاں تو نہیں۔ہاں اتنا ضرور ہے کہ انسان کے بنائے ہوئے کسی بھی
نظام میں اصلاحات کی گنجائش موجود رہتی ہے۔
کراچی جسے ’’چھوٹاپاکستان ‘‘بھی کہاجاتاہے دوکروڑ تیس لاکھ کاشہرآسیب زدہ
تھا ‘اس کی رونقیں گزشتہ دودہائیوں سے ماند پڑچکی تھیں ‘دنیاکی مختلف
ایجنسیاں ادھر اپناکھیل کھل کے کھیل رہی تھیں‘کوئی دن ٹارگٹ کلنگ‘بھتہ خوری
یا واردات کے بغیرمکمل نہیں ہوتاتھامگر یہ پاک افواج ہی تھی جس نے نیشنل
ایکشن پلان پرعمل کرتے ہوئے کراچی کی رونقوں کو چارچاند لگائے۔ یہی وجہ ہے
کہ غیرملکی ذرائع ابلاغ نے بھی پاک افواج کی کارکردگی کو سراہا۔امریکی
اخبار ’’وال سٹریٹ جرنل‘‘نے تجزیہ نگاروں اورحکام کاحوالہ دیتے ہوئے لکھاکہ
’’جنرل راحیل شریف(پاک افواج)نے افغان امن عمل‘عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ
اوراہم سیکورٹی معاملات میں دیگرملکی قوتوں کو گرہن لگادیاہے۔‘‘شاید اسے
بھی جنگی پالیسی ہی کا عمل قراردے سکتے ہیں کہ منتخب قوتیں بوجہ حکمت پیچھے
ہیں اورعوامی حمایت اوردلوں کی دھڑکن پاک افواج ہیں۔
سینٹرفارریسرچ اینڈ سیکورٹی سٹڈیزنے اپنی تیسری سہ ماہی رپورٹ جوکہ
اکتوبر2015میں شائع ہوئی کہاکہ گزشتہ تین ماہ کے عرصہ میں فقہ وارانہ
وارداتوں میں واضح کمی دیکھنے میں آئی۔رپورٹ کے مطابق اگرحالیہ وارداتوں
کاگزشتہ دوسال سے موازنہ کیاجائے توہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کسی بھی قسم کی
عسکری کاروائیوں میں کمی آئی ہے۔ خصوصا کراچی میں گینگ وار‘باغیوں کے ساتھ
جنگ اورفقہ وارانہ دشمنیاں اپنادم توڑرہی ہیں۔اگرصوبائی سطح پر دیکھا جائے
تو کے پی کے اورسندھ میں بھی کافی حدتک امن رہا‘پنجاب میں گزشتہ سال کے
مقابل آدھاجانی نقصان ہوا اوربلوچستان میں بھی انسانی جانوں کے ضیاع میں
ایک نمایاں کمی نظرآئی۔اس رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں کل 188افراد جان سے
ہاتھ دھوبیٹھے اور56زخمی ہوئے۔فاٹا میں 497افراد جان کی بازی ہارگئے اورایک
سوبارہ زخمی ہوئے۔
کے پی کے میں 127افرادکی روحوں نے ان کے جسم کا ساتھ دینا چھوڑ دیا
اور75افرادزخمی ہوئے۔ اسی طرح پنجاب میں اموات کی تعداد118اورزخمیوں کی
116رہی جبکہ سندھ میں دہشت گردی کی لہر کے زیراثر280افراد اﷲ کو پیارے ہوئے
اوراکتالیس زخمی ہوئے۔ اسلام آباد اورگلگت بلتستان میں ایک ایک جانی نقصان
ہوا۔اگر ضلعی سطح پر موازانہ کیاجائے تو پہلا نمبر شمالی وزیرستان ایجنسی
اوردوسرے نمبر پر زیادہ جانی نقصان کراچی میں ہوامگر اس نقصان کو گزشتہ برس
کے تناظرمیں دیکھا جائے تو یہ دردآدھاکم ہوچکاہے ۔کراچی میں مختلف کاروباری
حضرات نے پاک افواج سے اپنی عقیدت ومحبت کا اعتراف کرتے ہوئے مختلف
ہوڈنگزبورڈ پر ’’شکریہ راحیل شریف ‘‘جیسے لفظ درج کررکھے ہیں۔سوشل میڈیا ہو
‘تجزیہ نگاریادیہاتوں کی مجالس ‘ٹاک شوہویاشہروں کے تھڑوں پر بیٹھنے والے
’’تجزیہ نگار‘‘سب کے سب پاک افواج کے کرداراورحکومتی اداروں میں موجود ہم
آہنگی کوسراہتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ذرائع کے مطابق کراچی میں آپریشن کی
تیزی کی وجہ سے بڑے مگرمچھوں کی گرفتاری کی شنیدہے ‘جس سے کراچی کے ماحول
میں واضح تبدیلی کے امکانات کو رد نہیں کیاجاسکتاہے۔
گزشتہ دنوں جنرل راحیل شریف کے دورہ امریکہ کے دوران امریکی سینٹ میں آرمڈ
فورسزکی کمیٹی کے چیئرمین جان مکین نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان
کی آرمی کی کارکردگی کوسراہتے ہوئے انہیں خراج تحسین پیش کیا۔انہوں نے
شہدائے آرمی کو سلام پیش کیا اور دہشت گردی کی جنگ میں جنرل کی اہل قیادت
پر انکی تعریف کرتے ہوئے انکا شکریہ اداکیا۔
بعض حلقے ’’پاک چین راہداری‘‘کے منصوبے کی تکمیل کو بھی ریاستی اداروں
‘سیاست دانوں سمیت پاک افواج کی محنت کا ثمرقراردیتے ہیں کیونکہ جب تک امن
نہیں آئے گا‘روٹس کی تکمیل سے بھی وہ فائدہ نہیں اٹھایاجاسکتاجوکہ امن کی
کشش سے سرمایہ کارکیلئے پیداہوتاہے۔گزشتہ برس سانحہ پشاورنے انسانی ہمدردوں
کے دل دہلادیئے تھے اوراپنے پرائے سب ہی اس ہولناک وبہیمانہ اقدام پر ششدہ
تھے مگرپاک افواج کی قابلیت ہی تھی کہ تمام سیاسی عناصر اسکی پشت پرکھڑے
ہوگئے اوردہشت گردوں کولوہے کے چنے چبوادیئے گئے۔اس حقیقت سے تو انکارممکن
نہیں کہ دہشت گردوں کی واپسی کے امکانات ہیں مگر پاک افواج ایسی حکمتِ عملی
پر عمل پیراہیں کہ ان کے عزائم شرمندہ تعبیرنہ ہوسکیں گے۔مستقبل میں دہشت
گردی کے خلاف آپریشن کا دائرہ کاربڑھتے ہوئے ملک کے مختلف صوبوں تک پھیل
سکتاہے جس سے ہمہ قسم کے جرائم پیشہ عناصر کی کمر ٹوٹ جائے گی اورہرسوامن
کاراج ہوگا۔ |
|