ہمارے قائد اعظم اور انکا پاکستان

آج پچیس دسمبر ہے اور آج ہمارے قائد اعظم کا یوم ولادت ہے قائد اعظم علیہ رحمہ ایک بااصول اور انتہائی پروقار شخصیت کے مالک تھے۔انہوں نے ہندوستان میں صدیوں سے تنگ نظر ہندووں کے ہاتھوںٗ پستے مسلمانوں کو نجات دلائی اور ان کے لیے ایک علیحدہ وطن بھی لے کر دیا جس میں آج ہم مادر پدر آزادی کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ قائد اعظم نے ہمیں الگ وطن کی سوغات عطا کرنے کے ساتھ اسکی تعمیر وترقی کے لیے راہنما اصول بھی تعلیم کیے جن میں واضع بتایا گیا کہ وہ کیسا پاکستان چاہتے ہیں۔ مگر ہم نے انکے آنکھیں بند کرتے ہی ان کے نظریات و افکار کو پس پشت ڈال کر اسے مختلف نظام حکومتوں کے لیے تجربہ گاہ بنادیا اور اس کے ساتھ ساتھ ہم نے اپنے پیارے قائد کی وہ تصویر ہیش کی کہ لوگ ہم پر ہنسنے لگے اور ہمارا تمسخر اڑایا جانے لگا۔ہم نے اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے پاکستان کو نہ اسلامی بننے دیا اور نہ ہی جدید فلاحی ریاست

ہمارے قائد اعظم ایسے تو ہر گزنہ تھے ،بلکہ بالکل ہی ایسے نہ تھے جیسے آجکل ہماری درسگاہوں میں پڑھایا جا رہا ہے یا قائد اعظم کی شخصیت کا جو خدوخال ہمیں تاریخ میں بتائے جا رہے ہیں قائد اعظم کی شخصیت رتی بر بھی ایسی نہ تھی……قائد اعظم محمد علی جناح کی شخصیت کو جس طرح پیش کی جا رہا ہے اس سے تو لگتا ہے کہ محمد علی جناح لندن کے اعلی تعلیمی اداروں سے تعلیم یافتہ نہیں بلکہ کسی ملا کے مدرسہ کے فارغ التحصیل تھے……پاکستان کیسی مملکت ہوگی اس بارے قائد اعظم نے اپنے نظریات کا اظہار گیارہ اگست انیس سو سنتالیس کو خطاب کرتے ہوئے ان الفاظ میں بیان کردیا تھا’’ ریاست کا مذہب سے کوئی سروکار نہیں ہوگا-
 ‘‘
قائد اعظم نے تو فرمایا تھا کہ پاکستان میں مذہب کو انفرادی حثیت حاصل ہوگی اور یہ ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہوگا لیکن بدقسمتی سے پاکستان کی تقدیر کے فیصلے ان لوگوں کے ہاتھوں میں آگئے جنکا پاکستان بنانے میں کوئی کردار ہی نہ تھا بلکہ وہ پاکستان کے قیام کے مخالفین کی صفوں میں پیش پیش تھے-

آج ہم قائد اعظم کا یوم پیدائش منا رہے ہیں،میدیا پر چلنے والی تمام خبریں جھوٹی اور من گھڑت ہیں شائد ہی کسی شخص نے صبح سویرے بستر چھوڑکر ’’پوہ‘‘ کی یخ نستہ سردی میں مسجد جا کر قائد اعظم کے لیے دعا کی ہے پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے لیے صدق دل سے دست دعا بلند کیے ہوں،سب ٹیبل سٹوریاں ہیں میرا تو دل کڑھتا ہے جب میں سرکاری افسروں ،سیاستدانوں ، سماجی راہنما اور دیگر موثر طبقات کے نمائندہ لوگوں کی جانب سے قائد سے محبت اور انکے مشن کو اپنانے میں ہی ملک کی بھلائی اور ترقی کا راز پوشیدہ ہے کے بیانات پڑھتا ہوں……یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قائد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہی ہم پاکستان کو روشن خیال اور فلاحی ریاست بنا سکتے ہیں۔ خدا کی قسم دل کرتا ہے کہ اس ملک کو چھوڑ کر کہیں باہر جا کر نئی دنیا بسا لی جائے لیکن پھر پاکستان کی سرزمین پر مدفون اپنے بڑوں اور بچوں کی قبریں راستے کی دیوار بن جاتی ہیں۔

ھکمرانوں کے حلف وفاداری اٹھانے سے لیکر قومی تہواروں پر جاری بیانات سب عوام کو دھوکہ دینے کے مترادف ہوتے ہیں، کسی کو قائد اعظم سے محبت ہے اور نہ ہی اسکے پاکستان سے کسی کوئی الفت ہے اگر کسی کو قائد اعظم سے محبت ہے تو وہ صرف کرنسی نوٹوں پر پرنٹ قائد کی فوٹو سے مراد ہوتی ہے کیونکہ قائد کی فوٹو کے بغیر کرنسی نوٹ قسمت نہیں بدلتے……بے شک نوٹ جعلی بھی ہوں تو ان پر بھی قائد اعظم کی فوٹو ہونا شرط اولین ہے ۹اگر واقعی ہم قائد اعظم سے محبت کرتے ہیں تو ہم کام چوری ترک کیوں نہیں کرتے؟ رشوت خوری اور بدعنوانی سے ہاتھ کیوں نہیں کھینچ لیتے؟ عدالتوں سمیت تمام سرکاری دفاتر میں قائد اعظم کی تصاویر آویزاں کرنا لازم قرار دیا گیا ہے لیکن ہم اس کے تصویر کی موجودگی میں رشوت اور کمیشن لینے اور دینے کا دھندہ دھڑلے سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جبکہ ہمارا قائد اعظم آدھی عینک کے اندر سے ہمارے سیاہ کرتوت دیکھ کر زارو قطار خون کے آنسو روتے ہیں۔

قائد اعظم کو ہم نے اس وقت ہی رلا دیا تھا جب انکی شریک سفر بہن فاطمہ جناح کو صدارتی انتخاب میں دھونس اور دھاندلی سے ہروا دیا تھا……!!! رونا تو قائد کا مقدر اسی دن ٹھہر گیا تھا جب ہم نے جمہوریت کا بستر بوریا گول کرکے اسے تجربہ گاہ میں تبدیل کیا تھا۔ قائد اعظم تو ہم سے اسی دن روٹھ گئے تھے جس دن پہلے وردی والے نے اقتدار پر قبضہ کرکے پاکستان فتح کرکے شخصی حکومت قائم کی تھی …… جس دن ایک آمر مطلق نے پاکستان کے متفقہ آئین کو بارہ صفحات کا کتابچہ قرار دیکر پھاڑ ڈالا تھا…… پاکستان اور قائد اعظم اسی دن کرچی کرچی ہوگئے تھے جس دن بانی پاکستان کے معتمد خاص اور پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی کے کمپنی باغ میں دن دیاڑے قتل کرکے سول اور عسکری بیوروکریسی کے اقتدار پر قبضہ کرنے کی راہ ہموار کی تھی-

پاکستان کو ترقی اور خوشحالی کی منزل سے ہمکنار اس وقت تک نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی پاکستان کو ٹائیگر بنانے کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے جب تک ہماری نیتیں درست نہیں ہوتیں، جب تک ہم خود سے مخلص نہیں ہو جاتے اس پیارے پاکستان کو اپنا گھر نہیں تصور کرتے اور قائد اعظم کو دل اپنا بڑاتسلیم نہیں کرتے پاکستان اپنوں اور دشمنوں کی سازشوں کا مرکز و محور بنا رہے گا ، پاکستان کو اپنے قائد کے ویژن اور نظریات کے مطابق فلاحی ریاست بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم قائد اعظم کے افکار و نظریات پر کاربند ہوں اور انکے فرامین پر عمل پیرا ہوکر پاکستان کو اقوام عالم کی صفوں میں بلند مقام پر پہنچائیں ، اپنے ذاتی مقاصد و مفادات کے لیے قائد اعظم کے نظریات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا اور عوام کو گمراہ کرنے کی حکمت عملی ترک کرنا ہوگا وگرنہ اس روش پر چلتے ہوئے ہم پاکستان اور قائد اعظم سے محبت کرنے کے دعوؤں میں مخلص ثابت نہیں ہونگے۔

مجھے بہت دکھ ہوتا ہے جب میں تعلیم یافتہ لوگوں کو قائد اعظم پر بھونکتے دیکھتا ہوں، کس قدر احسان فراموشی اور ناشکری کا عالم ہے کہ لوگ قائد کا شکریہ ادا کرنے کی بجائے ان کی توہین کرنے میں اپنی بڑھائی خیال کرتے ہیں ایسے لوگوں کو اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ چاند پر تھوکنے سے چاند پر کچھ اثر نہین ہوتا بلکہ تھوکا ہوا واپس اسی انسان پر گرتا ہے۔میں نے آج تک کسی ان پڑھ کو قائد اعظم، کی توہین کرتے اور قائد کی ذات پر بھونکتے نہیں دیکھا بلکہ وہ تو اﷲ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتے ہیں…… میں نے یہ ایک نہیں بہت سارے بزرگوں سے سنا ہے کہ ہمارے قائد اعظم ایسے تو نہ تھے جیسے آج ہمارے سامنے پیش کیے جاتے ہیں، مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے والی یہی سوچ تھی جس پرہم آج بھی عمل پیرا ہیں بلوچستان ،سمیت دیگر علاقوں میں عوام کے حقوق دبائے جارہے ہیں ہمیں اپنی اصلاح کرنی ہوگی عوامی حقوق انہیں دینے ہوں گے ورنہ بغاوتیں جنم لیتی رہیں گی لوگ قائد اعظم پر انگلیاں اٹھاتے رہیں گے
 
Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 144550 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.