دہشت گردی کے خلاف سعودی عرب کا عزم مصمم

اکیسویں صدی میں دہشت گردی کو اسلام کا مترادف لفظ بنادیا گیا ہے ، یورپ اور امریکہ میں یہ اصطلاح سب سے زیادہ پائی جاتی ہے ، اسلام پر دہشت گردی کو فروغ دینے کا الزام اور مسلمانوں کو بے گناہوں کا قاتل سمجھاجانا ہر کسی کے ذہن میں رچ بس گیا ہے ،اسلام اور مسلمان کے نام سے انہیں نفرت اور وحشت ہوتی ہے ، اسلام اور مسلمانوں کے تئیں یہ تصور صرف یورپ ،امریکہ اور مغربی ممالک تک محدود نہیں رہ گیا ہے بلکہ ہندوستان اور پاکستان جیسے ملک میں بھی یہ تصور عام ہوگیا ہے ، یہی وجہ ہے ہندوستان میں ایک ٹی وی شو کے دوران ایک لڑکی نے ممبر پارلیمنٹ اسددالدین اویسی سے یہ سوال کردیا کہ ہرد ہشت گرد مسلمان ہی کیوں ہوتے ہیں ۔کچھ سیاسی رہنما اور شدت پسند ہندو لیڈروں کااس طرح کی باتیں کرنا یہاں کا محبوب مشغلہ ہے، پاکستان میں مدرسوں پر دہشت گردی کا الزام لگانا انہیں بند کرنے کا مطالبہ کرنا ، بالخصوص دیوبندی مکتبہ فکر کے مدارس پر دہشت گردی کی تعلیم دینے کا الزام عائدکرنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔

دہشت گردی کا مسئلہ ختم ہونے کے بجائے آئے دن بڑھتا جارہا ہے ، مختلف شکلوں میں دہشت گردی دنیا کے سامنے آرہی ہے ، دنیا کے تمام ممالک خود کو دہشت گردی سے متاثر بتارہے ہیں ، کمزور ممالک سے لیکر سپرو پاور امریکہ تک دہشت گردی سے لرزہ براندام ہیں اور اس کے خلاف جنگ لڑنے میں ناکام ہیں ۔لیکن سچائی یہ ہے کہ دہشت گردی کے شکار صرف اور صرف مسلمان ہیں اور ان کارائیوں کو انجام دینے کا الزام بھی مسلمانوں کے ہی سر ہے ، عراق ، افغانستان ، شام ، فلسطین لیبیا ،پاکستان اور دیگر مسلم ملکوں میں گذشتہ پندرسالوں کے دوارن کم وبیش چالیس لاکھ بے گناہ مسلمانوں کاقتل ہوچکا ہے اور اس کے لئے بہ ظاہر ذمہ داربھی مسلمان ہی ہیں کوئی اور نہیں،ایک دہشت گرد گروپ ختم نہیں ہوپاتا ہے کہ فورا دوسرا گروپ وجود پذیر ہوکر مسلمانوں کا قتل عام شروع کردیتا ہے ۔ القاعدہ ، لشکر طیبہ ، حوثی ملیشیا ، اور نہ جانے کتنی تنظمیں ہیں جو دہشت گرد جماعت کی فہرست میں شامل ہے، ان سب کے درمیان تین سال قبل دنیا کے نقشے پر داعش نام کی ایک نئی تنظیم وجود پاچکی ہے جو گذشتہ تمام گروپوں میں سب سے زیادہ طاقتور اور منظم ہے، اسلام کے نام پر سب سے زیادہ اسلام کی بدنامی یہی تنظیم کررہی ہے ، عراق و شام کے ساٹھ فیصد علاقے پر قابض ہوکر اسلام کی شبیہ بگاڑ نے میں مصروف عمل ہے۔

داعش پورے عالم اسلام کے لئے ایک مستقل خطرہ ہے ، اس کا مقصد مسلم دنیا میں انتشار پیداکرنا ، مشرق وسطی کو مزید حصوں میں تقسیم کرنا اور تیل کی دولت پر قابض ہونا ہے ،ساتھ ہی ایک اہم مقصد اسلام کو بدنام کرنا بھی ہے، داعش کی فنڈنگ کہاں سے ہور ہی ہے کون اس کے پس پردہ ہے یہ ساری چیزیں اب منظر عام پر آچکی ہے ، میں خود اپنے اس کالم میں کئی مرتبہ لکھ چکا ہوں ۔ داعش کے اس خطرناک ایجنڈے میں سر فہرست سعودی عرب ہے ، سعودی عرب ایک واحد مسلم ملک ہے جو انتشار و بدامنی سے پاک اور محفوظ سمجھاتا ہے ، کسی طرح کی دہشت گردی اور فرقہ پرستی وہاں نہیں ہے لیکن داعش کے منظر عام پر آنے کے بعد وہاں بھی مسلکی لڑائی کو بڑھاوا دینے کی کوشش کی گئی۔ گزشتہ سال داعش نے وہاں شیعہ مساجد کو نشانہ بناکر نہ صرف شیعہ سنی فساد برپا کرنے کی سازش کی بلکہ مملکت کے مشرقی صوبے میں بدامنی پھیلا کر سعودی تیل کی پیداوار اور سپلائی کو نقصان پہنچانے کی خوفناک منصوبہ بندی بھی کی۔ پیرس حملہ کے پس منظر میں مسلم دہشت گردی کے بجائے سلفی دہشت گردی کی اصطلاح قائم کرکے دنیا بھر میں یہ نئی افواہ پھیلاگئی کہ سب مسلمان دہشت گرد نہیں ہوتے بلکہ صرف وہ دہشت گردہوتے ہیں جو سلفی نظریہ رکھتے ہیں اور سعودی عرب کے مسلمان اس نظریہ کے ماننے والے ہیں ، یعنی اصل دہشت گردسعودی عرب ہے ، دہشت گروپوں کی فنڈنگ سعودی حکومت کرتی ہے، روس نے سعودی عرب اور ترکی پر یہ الزام بھی عائد کردیا کہ داعش کو بڑھاوادینے میں ان دونوں ملکوں کا ہاتھ ہے،یہ لوگ داعش سے تیل کی خریدو فروخت کرتے ہیں ۔ آج عراق اور شام کا بڑا علاقہ داعش کے کنٹرول میں ہے اور مغربی و عرب ممالک پر مشتمل اتحاد اس کے خلاف فضائی کارروائی میں مصروف ہے۔ حیرت انگیز بات ہے کہ داعش کے خلاف امریکہ روس اٹلی برطانیہ فرانس سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے فضائی حملوں کے باوجود داعش کی پیش قدمی رک نہیں سکی ہے۔ روس کا دعویٰ تھا کہ اس نے شام میں داعش کے خلاف ٹارگٹ کارروائی کی ہے لیکن روسی طیاروں کی بمباری کے باوجود داعش نے الیپو کی جانب پیش قدمی کی اور الیپو شہر کے نواح میں واقع انفنٹری اکیڈمی اور متعدد دیہاتوں پر قبضہ کرلیا۔ قبل ازیں رمادی اور الرقہ پر داعش کا قبضہ بین الاقوامی اتحاد کے فضائی حملوں کے بعد ہوا تھا۔

ان نازک ترین حالات میں اب سعودی عرب نے براہ راست دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ریاض کی قیادت میں 34 مسلم ممالک کی اتحاد ی فوج تشکیل دی گئی ہے جس کا مقصد دہشت گر دی کا خاتمہ ، داعش ،القاعدہ، حوثی ملیشیا اور اس طرح کی دیگر دہشت گرد جماعتوں کا قلع قمع کرنا ہے ۔ سعودی عرب کے علاوہ اردن، متحدہ عرب امارات، پاکستان، بحرین، بنگلہ دیش، لبنان، ترکی، چارڈ، توگو، تیونس، جیبوتی، سنیگال، سوڈان، سرالیون، صومالیہ، گابون، گینیا، فلسطین، قطر، کویت، دارفر، لیبیا، مالدیپ، مالی، ملائیشیا، مصر، مراکش موریتانیہ، نائیجیریا، یمن اور یوگنڈابھی اس میں شامل ہیں۔جمہوریہ انڈونیشیا سمیت 10 دوسرے ممالک نے بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے اسلامی ممالک کے اتحاد کی تائید کا اعلان کرتے ہوئے اس میں شمولیت کا عندیہ دیا ہے۔

امت مسلمہ کی رہنمائی اور مشکل وقت میں عالم اسلام کی قیادت کا فریضہ ہمیشہ سعودی عرب نے انجام دیا ہے ، 57 مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی کے قیام میں بھی سعودی حکومت پیش پیش تھی اور اب دہشت گردی کے خلاف تشکیل شدہ 34ممالک کا اتحاد بھی اس کی کوششوں کا مرہون منت ہے۔ریاض کو اس کا ہیڈ کوارٹر بنیا گیا اور وہیں کنٹرول روم بھی قائم ہوگا۔ بظاہر اس اتحاد کا مقصد داعش اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائیوں کو منظم کرنا ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اس اتحاد کے مسلمان ممالک کے دفاعی فوجی اتحاد کی مستقل صورت میں قائم رہنے کے قوی امکانات نظر آرہے ہیں۔ پاکستان ،ترکی اور مصر جیسے مضبوط فوجی صلاحیت رکھنے والے ممالک اور سعودی عرب ،قطر اور متحدہ عرب امارات جیسے مالی وسائل رکھنے والے مسلمان ممالک جب ایک ساتھ دفاعی فوج ترتیب دیں گے تو جہاں داخلی محاذ پر دہشت گرد تنظیموں کاصفایا کرنے میں آسانی رہے گی وہیں ان خطرات کا بھی یقینی طور پر سدباب ہوگا جو بین الاقوامی سازشوں کے نتیجے میں مسلمان ممالک کو درپیش رہتے ہیں۔ یہ بات باعث اطمینان ہے کہ عالمی طاقتوں نے اس اتحاد کے بارے میں اپنے مثبت خیالات کا اظہار کیا ہے۔ امریکہ جرمنی اور برطانیہ کی جانب سے ابھی تک جو ردعمل سامنے آیا ہے اس میں داعش کی سرکوبی کیلئے مسلم ممالک پر مشتمل اس اتحاد کو سراہا جارہا ہے۔

مسلم ممالک کو داعش اور دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں مغربی ممالک کے کردار پر بھی نظر رکھنی ہوگی کیوں کہ دہشت گردی انہیں مغربی ممالک کی پیداوار ہے ، ان کا مشن مسلم ممالک کے درمیان انتشار برپاکرنا اور انہیں آپس میں الجھائے رکھنا ہے ، اس لئے اس پور ی جنگ میں مغرب کو علاحدہ رکھنا بہت ضروری ہے ،وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ مسلم دنیا سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوجائے ،دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کی بدنامی کا سلسلہ بند ہوجائے۔تمام عرب اور مسلم ممالک متحد ہوجائیں ۔
Shams Tabrez Qasmi
About the Author: Shams Tabrez Qasmi Read More Articles by Shams Tabrez Qasmi: 214 Articles with 180829 views Islamic Scholar, Journalist, Author, Columnist & Analyzer
Editor at INS Urdu News Agency.
President SEA.
Voice President Peace council of India
.. View More