ڈاکٹر عاصم تو اک بہانہ ہے …… سندھ میں طوفان برپا ہے

 ڈاکٹر عاصم حسین جب برسراقتدار تھے تو انکی سرگرمیوں سے کون واقف نہ تھا؟ کس کو خبر نہیں تھی کہ انہیں کن مقاصد کے لیے اقتدار کا حصہ بنایا گیا ہے؟ لیکن کرپشن اور بدعنوانی کی روک تھام کرنے پر مامور ادارے میٹھی نیند سوتے رہے ……ایک دو دن نہیں پورے پانچ سال تک کسی کو خیال تک نہ آیا کہ ان کے اعمال کے آگے سپیڈ بریکر تعمیر کیے جائیں ، بے شک ان کے آفس جا کر ہی جیسے ہم امریکی اور برطانوی سفیروں کو دفتر خارجہ طلب کرکے ان سے باز پرس کا ڈرامہ رچاتے ہیں بالکل ایسے ہی ڈاکٹر عاصم سے بھی جواب طلبی یا سوالنامہ ان کے ہاتھوں میں تھما کر جوابات لے لیے جاتے لیکن ایسا کرنے کی کسی کو ہمت نہیں ہوئی……آج ایف آئی اے اور نیب سب شیر بنے ہوئے ہیں۔رینجرز اسے چھوڑتی ہے تو پولیس اپنی تحویل میں لے لیتی ہے اور پولیس چھوڑے تو نیب ریمانڈ پر ساتھ لے جانے میں فخر کرتی ہے۔یہی طرز عمل اور اداروں کا اپنے فرائض ماحول ،حالات اور وقت کو مدنظر رکھ کر ادا کرنے کا عمل ہماری تباہی اور اخلاقی تنزلی کا باعث بن رہا ہے۔
سندھ حکومت اور وفاقی حکومت کے ٹکراؤ کی کیفیت کا سماء ہے،سندھ حکومت نے رینجرز کو کپتان کے تابع کرنے کی کوشش کی تو مفاد پرستوں نے اسے رینجرز کو بے اختیار کرنے کی کوششوں سے تعبیر کیا، حالانکہ کراچی آپریشن کے تمام اسٹیک ہولدرز نے مشترکہ اور متفقہ طور پر سندھ کے چیف منسٹرکو اس آپریشن کا کپتان قراربنایا تھا۔ اس وقت تو شائد بہت سوں کا خیال ہوگا کہ قائم علی شاہ انکے اشارہ ابرو پر ناچتے رہیں گے لیکن جب نحیف اور ضعیف کپتان نے انہیں آپریشن سے بے خبر اور لاعلم رکھنے پر آواز بلند کی تو اسے توجہ کے لائق نہ سمجھا گیا ۔ اور سندھ اسمبلی سے قرارداد منظور کروائی گئی وجہ یہ بتائی گئی کہ سندھ میں رینجرز کی موجودگی کی منظوری ضابطے کی کارروائی ہے۔ لہذا سندھ اسمبلی نے چندھ شرائط کا پابند بنانے کے ساتھ رینجرز کو آپریشن جاری رکھنے کی منظوری دیدی مگر اس ملک میں فوجی اور سیاسی قیادت کے اتفاق کو برداشت نہ کرنے والے عناصر میدان میں اترے اور وہ وہ کہانیاں اور تبسرے قوم کے سامنے لائے گئے کہ جنہیں سن اور پڑھ کر عقل دنگ رہ گئی۔

سندھ حکومت نے جو شرائط لگائیں وہ رینجرز کو سندھ میں کلارروائی کرنے کے اختیارات دینے والے آئین کے آرٹیکل 147 کے عین مطابق تھیں اور ہیں لیکن ہم خواہ سیاستدان ہوں ،بیوروکریٹس یا پھر عسکری حلقے کسی قانون اور قاعدے کے اندر رہ کر کام کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے چنانچہ کام بگڑجاتے ہیں جن معاشروں میں ادارے قانون و دستور کی متعین کردہ حدود میں رہ کر اپنے فرائض ادا کرتے ہیں وہاں کبھی بحران جنم نہیں لیتے…… اگر ہم بحرانوں سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی آئین و قانون کی حدود میں رہنا ہوگا،وفاقی اور سندھ حکومتوں کو اس بات کو مدنظر رکھنا ہوگا -

ملک کے اندر آباد تما م طبقات جن میں تاجر ، ،سیاستدان ،وکلاء تنظیمیں،دینی جماعتیں اور سماجی و فلاحی تنظیمیں شامل ہیں سب اس بات پرمتفق ہیں کہ کراچی میں رینجرز کے متحرک ہونے کے نتیجہ میں عروس البلاد کی رونقیں لوٹ آئی ہیں، اور سب ہی اسکا اعتراف کرتے ہیں کہ رینجرز کے آپریشن سے کراچی میں بسنے والے سندھی ،پٹھان، بلوچی اورپنجابی خاص کر اردو بولنے والے عوام نے سکھ کا سانس لیا ہے۔امن و امان کی صورتحال میں بہتری آئی ہے،بھتہ خوری ،ٹارگٹ کلنگ اور دہشتگردی کی بنیادیں ہل کر دھڑام سے نیچے گررہی ہیں۔اس سب کے باوجود رینجرز اور سندھ حکومت کے تعلقات کے بارے میں میڈیا میں بحث جاری ہے اختلافات کی خبریں عام گردش کر رہی ہیں جن سے تاثر پیدا کیا جا رہا ہے کہ سندھ حکومت رینجرز کے قیام میں توسیع کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہر کر رہی تھی اور اس نے عوامی دباؤ کے آگے گھٹنے تو ٹیک دئیے مگر بقول میڈیا کے جوشیلے اور ملک میں غیر جمہوری حکومت آنے کے لیے بے چین اینکرز نے یہ تاثر پیدا کردیا ہے کہ خدا نا کواستہ رینجرز اور سندھ حکومت آمنے سامنے آ گئے ہیں۔ پہلے تو ایسا ماحول بنایا گیا کہ سندھ حکومت آئندہ مدت کے لیے رینجرز کے اختیارات کو محدود کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ لیکن جب سندھ حکومت نے رینجرز کے قیام میں توسیع کردی اور ایک قرارداد کے تحت سندھ میں رینجرز کو ڈسپلن کا پابند کرنے کے لیے چند شرائط لگائی گئیں تو پھر کہا جانے لگا کہ رینجرز کے اختیارات مین کمی کردی گئی ہے اور اس طرح رینجرز کو بے اختیار کیا گیا ہے اور یہ سمجھ کچھ حکومت سندھ آسف علی زرداری کو گرفت میں لانے سے روکنے کے لیے کیا جا رہا ہے اور بار بار میڈیا میں کہا جا رہا ہے کہ سندھ حکومت محض ایک شخص کو بچانے کے لیے ایسا کر رہی ہے۔

سندھ کے وزیر اعلی سید قائم علی شاہ جنہیں اب طنزیہ طور پر ’’وڈاسائیں‘‘ کہا جاتا ہے کا کہنا ہے کہ رینجرز سمیت وفاق کی ایجنسیوں نے سندھ پر حملہ کر رکھا ہے،قائم علی شاہ کا اشارہ ایف آئی اے ، نیب اور دیگر کی طرف ہے۔ انکا اسدلال یہ ہے کہ رینجرز کو جو میڈیٹ دیا گیا تھا وہ اس سے تجاوز کر رہے ہیں، اور ایسی کارروائیوں میں مصروف ہو گئے ہیں جنکا انہیں اختیار ہی نہیں دیا گیا ،قائم علی شاہ اس کے لیے دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ رینجرز کو کرپشن کے خلاف کارروائی کرنے کا میڈیٹ دیا ہی نہیں گیا لیکن وہ اس میں ’’گھس‘‘گئے ہیں سید قائم علی شاہ کا کہنا یہ بھی ہے کہ اگر وفاق بدعنوانی سے پاک ہے تو پھر وفاقی ایجنسیوں کا سندھ پر حملہ سمجھ میں آتا ہے، اور اگر وفاق کو بدعنوانی سے پاک قرار نہیں دیا جاتا تو وفاقی ایجنسیاں پہلے وگاقی کو درست کریں پھر سندھ کا سوچیں-

مجھے میڈیا میں ابھارے جانے والے اس تاثر سے اتفاق نہیں ہے کیونکہ ڈاکٹر عاصم حسین تو رینجرز اور پولیس کی حراست میں جس عذاب سے گذر آئے ہیں نیب کی حراست میں انہیں اسکا سامنا نہیں ہے رینجرز حکام عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹا رہی ہے اور سندھ ہائی کورٹ نے ان کی درخواست سماعت کے لیے منظور بھی کر لی ہے اب اس معاملے پر رائے زنی سے گریز کرنا ہی مناسب ہوگا عدالت جو بھی فیصلہ دے اسے سب کو من و عن قبول کرلینا چاہئیے کیونکہ ہمارا ماضی اداروں کے آپس میں تکراؤ کا عذاب کئی برس تک بھگت چکا ہے اور سچ یہ ہے کہ اب پاکستان کے وجود میں اتنی ہمت اور طاقت نہیں ہے کہ وہ کسی فوجی ایڈوایچر کو برداشت کر سکے۔

ابھی آج کے اخبارات میں شہ سرخیوں کے ساتھ اور چند دن پیشتر بھی چیف جسٹس آف پاکستان کے بیانات شائع ہوئے ہیں کہ ہر ادارے کو اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے اگر ادارے آئین کی متعین کردہ حدود سے تجاوز کریں گے تو پھر آئین عضو معطل بنکر رہ جائے گا،چیف الیکشن کمیشن کا یہ بیان بھی ابھی تک لوگوں کے ذہن میں موجود ہے کہ ہائی کورٹس اور دیگر عدالتیں اس کے کام میں مداخلت کرنے سے اجتناب برتیں ہمیں معلوم ہے کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا……غالبا چیف الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ عدالتیں انہیں آئین نہ پڑھائیں ہم اپنی ذمہ داریوں سے ؓکوبی آگاہ ہیں۔ اسی طرح دیگر ادارے میں یہ رائے رکھتے ہیں اور سیاستدان بھی یہی سوچتے اور بیانات داغتے رہتے ہیں کہ ہر اداہ اپنی حدود میں رہے تو ملک میں غیر جمہوری حکومتوں کی آمد کا سلسلہ بند کیا جا سکتا ہے۔

سندھ میں سندھ حکومت یعنی پیپلز پارٹی کے خلاف نوجماعتی اتحاد کی تشکیل کا کام تیزی سے جاری ہے اسکے خدوخال تیار کرلیے گئے ہیں اس اتھاد کے سرگرم راہنما سابق نگران وزیر اعظم غلام مصطفی جتوئی کے فرزند غلام مرتضی جتوئی ہیں جنہوں نے اپنے والد کا چھوڑا ہوا ترکہ نیشنل پیپلز پارٹی دوہزار تیرہ کے انتخابات کے بعد وفاق میں وزارت مواصلات کا حصول یقنی بنانے کے لیے مسلم لیگ نواز مین ضم کردی تھی بالکل ویسے ہی جیسے ریٹائرڈ ائیر مارشل اصغر خان نے اپنی تحریک استقلال عمران خاں کی تحریک انصاف میں غرق کردی تھی۔اب ذرا ممتاز علی بھٹو کو دیکھیں چند ماہ پہلے تک یہ نواز شریف پر عہد شکنی اور معاہدوں کی خلاف ورزی کرنے کے الزامات لگا رہے تھے لیکن شہباز شریف سے ملاقات کررہے ہیں اور سندھ میں پیپلز پارٹی سے تکراجانے کے مشورے دے رہے ہیں۔مرتضی جتوئی کو اپنی پارٹی دوبارہ زندہ کرنے کی صلاح کس نے دی ہے؟ اور ممتاز بھٹو کو شہباز شریف کی دہلیز پر کون لیکر آیا ہے؟ سندھ میں قائم علی شاہ کے خلاف اتحاد قائم کرنے کے پس پردہ کون ہاتھ ہیں؟ یہ سب پوشیدہ نہیں آنے والے چند دنوں میں یہ راز سب پر عیاں ہو جائیگا ۔

کہا جا رہا ہے کہ سابق صدر زرداری سعودی عرب سے وطن واپسی کے لیے تعاون لینے گئے تھے حالانکہ اس سے پہلے یہ خبریں میڈیا پر چل اور چھپ چکی ہیں کہ زرداری سعودی عرب کی دعوت پر عمرہ کرنے گئے ہیں ایسا تاثر کیوں دیا جا رہا ہے کہ زرداری وطن واپسی کے لیے متحدہ امارات کی تحریک پر سعودی عرب گئے لیکن انہیں خاطر خواہ کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ ایسی خبریں اصل حقائق سے پردہ ڈالنے کے لیے پھیلائی جا رہی ہیں ، وہ اصل خبر کیا ہے؟ وہ یہ ہے کہ سعودی عرب کی سربراہی میں قائم کیا جانے والا چونتیس ملکی فوجی اتحاد جس میں پاکستان کو زبردستی شریک کیا گیا ہے اور اسلام آباد سعودی عرب کی محبت میں جرآت انکار نہ کرسکا، سعودی عرب نے زرداری صاحب کو اس اتحاد میں پاکستان کی شمولیت پر نواز حکومت کو سپورٹ کرنے کے لیے عمرہ کے لیے مدعو کیا تھا۔

اب اصل موجوع کو سمیٹنے کی جانب آتا ہوں رینجرز سندھ مین کھلے عام دندناتے پھریں تو وہ آئینی اور قانونی ہے اگر وہ کسی کو شبے میں گرفتار کرنے سے قبل کراچی آپریشن کے کپتان کو اعتماد میں لے لیں گے تو کونسی قیامت برپا ہوجائیگی ……ایک دوست کہ رہا تھا کہ آپریشن کے ذریعے سندھ حکومت کو عملا مفلوج کرکے رکھ دیا گیا تھا۔ سندھ کے افسر اعلی چیف سکریٹری صدیق میمن بھی ضمانت پر ہیں اور بہت سارے دیگر افسر بھی قانون کا سامنا کر رہے ہیں……جیسا کہ مشیر اطلاعات سندھ حکومت مولا بخش چانڈیو کہہ رہے ہیں کہ سندھ میں رینجرز کو کیوں نہیں لایا جاتا؟ ایسا ہی ایک سوال میں نے کہنہ مشق صحافی ،دانور اور تجزیہ نگار حیدر جاوید سید سے دریافت کیا تھا کہ قومی ایکشن پلان کے تحت قائم وفاق اور چاروں صوبوں مین قائم ایپکس کمیٹیاں ایک جیسا ورک کیوں نہیں کرتیں؟ سندھ میں بیوروکریٹس کی پوسٹنگ اور ٹرانسفر تک ایپکس کمیٹی کررہی ہے لیکن وفاق اور پنجاب میں ایپکس کمیٹی کہیں دور دور تک دکھائی نہیں دیتی اس کی وجہ کیا ہے تو حیدر جاوید سید کا کہنا تھا کہ’’ جس دون پنجاب میں ایپکس کمیتی فعال ہوگئی تو سیدھی جاتی عمرہ پہنچ جائے گی اس لیے اسے مصلحتا غیر فعال رکھا گیا ہے‘‘ ایسے روئیے ہی پاکستان کو دو لخت کرنے کا باعث بنے تھے اس لیے ہمیں اس قسم کے کام سے اجتناب کرنا چاہیے۔ رہی بات بھتہ خوری،ٹارگٹ کلنگ،اغوا برائے تاوان اور کراچی میں امن و امان کے قیام کے لیے رینجرز کے آپریشن کی تو بقول ممتاز سنئیر تجزیہ نگار و کالم نگار ہارون الرشید ’’ اس پر تو کوئی خاص قد غن نہیں لگائی گئی ‘‘اور نہ ہی رینجرز کو کہیں آنے جانے سے روکا گیا ہے…… خدارا اداروں کو آپس میں لڑانے کی سازش کرنے والوں سے ہشیار رہا جائے میرے خیال میں رینجرز کے کمانڈر وزیر اعلی سندھ جو اس آپریشن کے کپتان بھی ہیں کو اعتماد مین لینے کے لیے رینجرز ہیڈکوارٹر بھی مدعو کیا جا سکتا ہے جہاں سے وہ کسی کو خبردار کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہونگے۔اگر ایسا کیا جائے تو سندھ حکومت کی پابندیوں کو غیر موثر بنایا جا سکتا ہے
Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 144517 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.