شہید بے نظیر بھٹو سے قائد اعظم شہید تک

 دہشت گردی کے خلاف جتنا رونا ہم آج رو رہے ہیں اگر ہم دہشت گردی کی پہلی وارادت کے ملزمان اور اس واردات کے منصوبہ سازوں کو کیفر کردار تک پہنچا دیتے تو آج ہمارا ملک تری یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہوتا…… آپ بھی سوچتے ہوں گے کہ دہشت گردی کی پہلی وارادت کونسی تھی ، چلو میں بتا دیتا ہوں…… اس ملک میں دہشت گردی کی پہلی وارادت میں بانی پاکستان قائد اعظم کو زہر کا انجیکشن لگا کر انہیں موت سے دوچار کرنا تھا…… اگر ہم اس دہشت گردی کی وارادات سے چشم پوشی نہ کرتے تو دوسری واردات کرنے کا دہشت گردوں کو جرآت وحوصلہ نہ ہوتا۔ اور نہ خان لیاقت علی خاں راولپنڈی میں سرعام قتل کر دئیے جاتے۔ اور اگر اس وارادت کے تانے بانے بننے والوں کے ارد گرد گھیرا تنگ کیا جاتا تو بھی ملک دہشت گردی کی دلدل میں نہ دھنستا جاتا……ہاں گورنر جنرل کا عہدہ دہشت گردی کے ذریعے حاصل کرنے والے غلام محمد کو بھی کسی نے لگام نہ ڈالی جو دہشت گردوں کا سرپرست بن گیا۔

اس قدر دہشت گردی کی وارداتیں کرنے پر جب دہشت گرد گروہ کی گرفت نہ ہوئی تو ان کے حوصلے بڑھتے گے تو سکندر مرزا سے شروع ہونے والی آئینی دہشت گردی فروغ پاتی گئی پھر ایوب خان ،یحیی خاں، جنرل ضیا الحق اور بات جنرل مشرف کے مارشل لاء اور ایمرجنسی پلس تک پہنچ گئی۔ ایوب خاں نے دائیں بازو کے طالب علم راہنما حسن ناصر کواپنی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھایا۔ اور کئی سیاستدانوں کو دہشت گردی کی شق ’’ایبڈو‘‘ کا شکار بنایا۔ قائد اعظم شہید کے قتل سے شروع ہونے والی دہشت گردی جنرل ضیا ء الحق کے سیاہ دور میں اپنے عروج پر تھی، اس دہشت گردی نے ذوالفقار علی بھٹو سمیت بہت سارے سیاسی کارکنوں کو موت کی نیند سلایا۔ شہر شہر قریہ قریہ ٹکٹکیوں پر اپنے مخالفین کو باندھ کر ان کی ننگی پشتوں پر جو کوڑے برسائے اور ان کوڑے کے نتیجے میں نکلنے والی چیخ و پکار کو لاؤڈ سپیکرز کے ذریعے عوام کو سنا کر دہشت زدہ کرنا عدالتوں نے جائز قرار دیکر دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کی۔ جنرل ضیا نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ باقاعدہ طور پر دہشت گردی کے سکول قائم کیے گئے۔

جب جنرل ضیا ء الحق قدرت کی پکڑ میں آئے تو اس کے جانشین اس سے بھی بڑے سازشی اور دہشت گرد ثابت ہوئے ۔ لولی لنگڑی جمہوریت پر شب خون مارے گے۔ لیکن دہشتگردوں کے تربیتی مراکز کی مدد و نصرت جاری رکھی۔ جنرل ضیاء الحق کی سرپرستی میں پروان چڑھنے والے دہشت گردوں نے امریکہ کو تو افغانستان سے نکلا باہر کیا مگر پاکستان کی اور پاکستانیوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ ہر طرف ہیروئن اور اسلحہ کی کھلے عام نمائش ،خرید وفروخت سرعام ہونے لگی۔ مدرسوں میں دین اسلام کی تعلیم کی بجائے دہشت گردی کی تربیت دی جانے لگی۔

جنرل پرویز مشرف نے دہشت گردی کے تمام سابقہ ریکارڈز کو مات دیدی دہشت گردی کرتے ہوئے منتخب وزیر اعظم کو پابند سلاسل کیا تو یہاں بھی عدالتوں نے دہشت گردی کے خلاف عوامی اور سیاسی قیادت کا ساتھ دینے کی بجائے دہشت گردی کی مدد کرنا اپنا اولین مقصد حیات جانا۔ لیکن جب اسی دہشت گرد مشرف نے اسکی پہلی دہشت گردی کو تحفظ فراہم کرنے والے ججز کو دہشت گردی کا شکار کیا تو سب کے ہوش ٹھکانے آئے اور ایک طوفان برپا ہوگیا۔

عدالتوں اور ججز کو دہشت گردی کا شکار بنانے کے بعد جنرل مشرف کی ’’ ایمرجنسی پلس‘‘ دہشت گردی کو چیلنج کرنے والی بہادر خاتون بے نظیر بھٹو کو دن دیہاڑے اسی راولپنڈی میں اسی جگہ جہاں دہشت گردی کا نشانہ ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خاں کو بنایا گیا تھا دہشت گردی میں شہید کردیا گیا۔ ہر طرف سے مذمتی بیانات آئے ۔ بے نظیر بھٹو کے وارث برسراقتدار بھی آئے یا لائے گئے مگر پیپلز پارٹی کی حکومت اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود اپنی قائد بے نظیر بھٹو شہید کے قاتلوں کو منظر عام پر نہ لا سکی۔ جس کا واضع مطلب یہ ہے کہ دہشت گردوں کے سرپرست ایسا نہیں چاہتے تھے۔

قائد اعظم شہید کی شہادت سے شروع ہونے والی دہشت گردی کی نذر اب تک ہزاروں فوجی و سول پاکستانی ہو چکے ہیں۔ لیاقت علی خاں ، حسن ناصر شہید، ذوالفقار علی بھٹو اور پیپلز پارٹی کے ہزاروں کارکن، اور سب سے بڑھ کر اس ملک کے چپے چپے پر دہشت گردی ہوئی جس میں معصوم بچے ،بوڑھے ،جوان اور خواتین لقمہ اجل بنا دئیے گئے۔قائد اعظم شہید کی شہادت سے شروع ہونے والی دہشت گردی کا تازہ شکار آرمی پبلک سکول پشاور کے وہ بچے بنے جو ہمارا مستقبل تھے۔ اس طرح دہشت گردوں نے بچوں کو قتل نہیں کیا بلکہ پاکستان کے مستقبل کو قتل کیا ہے۔

قائد اعظم شہید سے لیکر بے نظیر بھٹو شہید تک اور علامہ عارف حسین حسینی سے سید سکندر حسین شاہ کی شہادت تک۔علامی احسان الہی ظہیر سے بشیر بلور شہید تک کی شہادت کے لیے دہشت گردی کی منسوبہ سازی کرنے والے تمام دہشت گردوں کو کیفرکرادر تک پہنچائے بغیر دہشت گردی کے خلاف جنگ ادھوری رہے گی۔اس جنگ کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے کسی سے رو رعایت نہ برتی جائے۔چہرے دیکھ کر مقدمات کے فیصلے نہ کیے جائیں تو اس جنگ کی کامیابی میں کوئی ابہام اور شک و شبہ نہیں رہے گا۔ قائد اعظم شہید کا یوم ولادت اور بے نظیر بھٹو شہیدکا یوم شہادت ہم سے اپنے خون کا حساب مانگتا ہے۔
 
Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 144519 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.