جلد از جلد اختیارات کی منتقلی
(Raja Tahir Mehmood, Rawat)
اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کا
انعقاد بڑی کامیابی سے ممکن ہو چکا ہے ملک کی دونوں بڑی جماعتوں ن لیگ اور
پی ٹی آئی نے تقریبا برابر، برابر نمائندگی حاصل کر کے وفاقی دارلحکومت ایک
دلچسپ صورتحال پیدا کر دی ہے پچاس یونین کونسلز میں چئیرمینوں کے انتخاب
مکمل ہو چکے ہیں ایسے میں وفاقی ترقیاتی ادارہ CDAکافی ناراض نظر آ رہا ہے
جسکے بہت سے ذیلی ادارے اب انھیں لوکل نمائندوں کو منتقل ہو نے ہیں ایسے
میں CDA میں رہنے والے افسران اور ملازمین کافی بے چین ہیں یہ لوگ جو CDAکو
ماضی میں سونے کی چڑیا سمجھتے تھے اب سفید ہاتھی سمجھ رہے ہیں یہی حال
ڈپیٹیشن پر آئے ہوئے افسران کا ہے اور وہ ان لوکل نمائندوں کو کسی بھی قسم
کے اختیارات یا انتظامی محکمہ جات دینے کے حق میں نہیں ہیں اور آئے دن
اسلام آباد کے سرد موسم میں گرما گرم اختجاج کر رہے ہیں جس کی وجہ سے اسلام
آباد کا موسم دسمبر ہونے کے باوجود کافی گرم ہے اور اس اختجاج میں حکومتی
خاموشی کچھ نئے خدشات کو جنم دے رہی ہے۔ حالانکہ الیکشنوں کے فوری بعد
حکومتی نمائندوں نے مئیر شپ کے لئے سب سے پہلے آزاد جیتنے والوں کو اپنے
ساتھ شامل کرنے کی کوششیں کی اور مئیر شپ کے لئے ممکنہ اکثیرت حاصل کی اور
ناصرف حاصل کی بلکہ میڈیا پر ان سب حضرات کو جنھوں نے ان کے ساتھ الحاق کا
اعلان کیا تھا ان کو بھی ساتھ بٹھایا اور بڑے وعدے اور وعیدوں کے ساتھ ساتھ
بڑے ترقیاتی کام بھی کرنے کے اعلانات کیے گئے۔
اب خبر یہ ہے کہ CDA کی بیوروکریسی کو رام کرنے کے لئے لوکل نمائدوں کو ٹرک
کی بتی کے پیچھے لگانے کے مترادف تقریبا دو سال تک لٹکایا جائے گا تاکہ جب
تک دو سال پورے ہوتے ہیں تب تک حکومت کا وقت بھی تقریبا پورا ہو جائے گا
اور جو کوئی بھی نیا آئے گا یہ اس کا مسئلہ ہو گا کہ وہ ان لوکل نمائدنوں
کو کتنے اختیارات دیتا ہے دوسرے لفضوں میں آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ حکومت
جو شروع سے ہی ان انتخابات کو منعقد کروانے کے حق میں ہی نہیں تھی سپریم
کورٹ کے حکم پر انھوں نے یہ کڑوا گھونٹ تو پی لیا مگر اب لوکل نمائندوں کو
کوئی ا ختیارات نہ دے کر وہ ثابت کرنا چاہیے گی کہ جب تک وہ نہ چاہیے کوئی
کچھ بھی نہیں کر سکتا ۔بلاشبہ جو آزاد امیدوار حکومتی جماعت کے ساتھ شامل
ہوئے ہیں ان کا ایک ہی ویژن تھا کہ اس طرح حکومتی جماعت میں شامل ہونے سے
وہ اپنے اپنے علاقوں میں زیادہ سے زیادہ ترقیاتی کام کروا سکتے ہیں جس کی
اب ان علاقوں میں ضرورت بھی بہت ہے دوسری طرف د یہی علاقوں میں جس طرح
ووٹرز نے مسلم لیگ ن کو ووٹ نہ دے کر حکومت کو یہ باور کرا دیا ہے کہ اب
بغیر کسی تعمیر ترقی کے کوئی بھی امیدوار کچھ بھی نہیں ہوتا ساتھ ساتھ ماضی
میں اپنی جماعت کے لئے قربانیاں دینے والوں کو پس پشت ڈال کر چاچے ، مامے
والوں کو اگر پارٹی ٹکٹ جاری کیے جائیں گے تو حکومتی جماعت کی سیاست کا
جنازہ اسی دھوم سے نکلے گا جس طرح حالیہ بلدیاتی انتخابات میں نکلا ہے گو
کہ مسلم لیگ ن کو حکومتی جماعت ہونے کا فائدہ ہوا ہے کہ آزاد لوگ اس میں
شامل ہوئے ہیں مگر اس میں اکثیرت ان لوگوں کی ہے جن کے نظریات مسلم لیگ ن
سے میچ نہیں کرتے ۔ایسے لوگ صرف عوامی خدمت کے جذبے سے اور علاقے کے ترقی
کے لئے مسلم لیگ ن کے ساتھ شامل ہوئے ہیں ۔حلقہ این اے 49کے جتنے بھی پڑوسی
حلقے ہیں ان کی پوزیشن ترقیاتی کاموں کے حوالے سے زمین آسمان کا فرق ہے اور
یہ فرق ہمارے ان عوا می نمائندوں کی وجہ ہے جنھیں حلقہ این اے 49کے عوام نے
شاید مسلم لیگ ن کے نام پر ووٹ دیکر کامیاب کیا تھا جنھوں نے کامیابی کے
بعد تقریبا ساڑھے سات سالوں پانچ سال پہلے اور اڑھائی سال اب اس عرصے میں
صرف اور صرف دو سے تین چکر اپنے دیہی علاقوں کے لگائے ہوں گے اور ترقیاتی
کاموں کو اگر دیکھا جائے تو ان علاقوں کی ترقی سے بہتر ترقی بلوچستان کے
دور درازعلاقوں کی ہے۔ آج بھی اسلام آباد کے مضافاتی علاقوں میں بہت سے
ایسے علاقے ہیں جہاں ،بجلی اور سڑک جیسی بنیادی سہولت میسر نہیں اور یہ صرف
باتوں کی حد تک نہیں ہے بلکہ یہ آن دی ریکارڈ ہے اور ایم این اے صاحب جو اب
خیر سے وزیر کیڈ بھی بن چکے ہیں اس طرف کوئی توجہ نہیں دے رہے اور اگر
انھوں نے اس طرف کوئی توجہ نہ دی تو جو ٹریلر عوام نے ان حالیہ بلدیاتی
انتخابات میں انکو دیکھایا ہے اس کا ڈراپ سین آنے والے جنرل الیکشن میں ہو
جائیگا اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت لوکل نمائندوں کوجلد از جلد
اختیارات تفویض کرئے اور CDA یا دیگر کسی بھی ادارے کو اگر کوئی مسئلہ ہے
تو اس کا فوری طور پر ازالہ کیا جائے اور جلد از جلد قانون سازی کی جائے
اور اس بابت بننے والی کمیٹی کو چھ ماہ کا عرصہ دینے کے بجائے ایک دو ماہ
کا وقت دیا جائے تاکہ وہ جلد سے جلد اپنے کام کو نمٹا سکے اور جو باتیں
میڈیا میں ہو رہی ہیں کہ ان نمائندوں کو اختیارات دو سال تک مل سکیں گے اس
بارے میں حکومت اپنی پوزیشن واضح کرئے تاکہ جو ابہام موجود ہے وہ ختم ہو
تاکہ وہ لوگ جو علاقے کی تعمیر ترقی کا ویژن لئے منتظر ہیں ان کو علاقے کی
تعمیر و ترقی کے موقع میسر آ سکیں ۔ |
|