کسی بھی ملک کی ترقی اس ملک کی نوجوان نسل
کے کردار اور ذمہ داری سے وابستہ ہوتی ہے ۔ کیونکہ ملک کا مستقبل نوجوان
نسل کے ہاتھ میں ہوتا ہے ۔ اسی طرح نوجوان اپنے ملک کا سرمایہ ہوتے ہیں ۔
آج کے اس دور میں ہر ملک میں بے شمار باصلاحیت نوجوان ترقی کی راہ پر گامزن
ہیں اور اپنے اپنے ملک کی نمائندگی کر تے ہوئے ۔ملک کا مستقبل سنوار رہے
ہیں ۔ ہمارے ملک پاکستان میں نوجوانوں بے شمار ترقی کی منازل طے کی ہیں ۔
مگر ہمارے ملک کا آج کا نوجوان پریشان حال ہے ۔ اس کی پریشانی کا سبب آخر
کیا ہے ۔ میں اکثر نوجوانوں کو کو ملک کی ترقی میں کام کرتے دیکھتا ہوں تو
دل خوش ہوتا ہے ۔ اور سوچتا ہوں آج کے یہ بچے کل کے پاکستان کے معمار ہوں
گے ۔
میں آج یہ بات آپ سب کے سامنے ضرور رکھوں گا ۔ کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ
ہمارے ملک میں اس وقت نوجوانوں کی کتنی تعداد ہے ۔ جو اس وقت بے روزگاری ،بے
راہ پروری کا شکار ہو چکی ہے ۔ اس کا سب سے بڑا فقدان بے روزگاری اور صحیح
معنوں میں رہنمائی نہ ہونا ہے ۔ ایسے بھی والدین ہیں جو اپنے بچوں کو زیور
تعلیم کے لئے اپنا سب کچھ بیچ دیتے ہیں تاکہ اس کا بچہ پڑھ کر مستقبل میں
ان کا سہار ا بن سکے ۔ اور کچھ بھی والدین ہیں جن کے پاس اپنے بچوں کو
تعلیم دلوانے کے لئے کچھ بھی نہیں مگر پھر بھی وہ اپنے بچوں کو تعلیم
دلوانے کے لئے ۔ محنت مزدوری کر کے ان کو تعلیم دلوانے کے لئے کوشش کرتے
ہیں ۔ اپنے آپ کو بھوکا پیاسہ رکھ کر اپنے بچوں کا پیٹ پالنا ۔اور ان کو
تعلیم دلوانہ کتنا مشکل کام ہے ۔ مگر اس کو ایک باب ،ایک ماں ،بہن ،اور
بھائی سمجھ کر کیا جائے تو اس میں کوئی مشکل نہیں ۔
والدین تو یہ سب پریشانیاں اٹھا لیتے ہیں تاکہ ان کے بچوں کا بہتر مسقبل
سنور سکے ۔ مگر میرا سوال ایوانوں میں بیٹھے ان حکمرانوں سے ہے ۔ جو ملک
وقوم کی تقدیر ایوانوں کے اندر بیٹھ کر لکھ دیتے ہیں ۔ کیا کبھی انہوں یہ
سوچا ہے کہ جس قوم کی ہم تقدیر یہاں بیٹھے لکھ رہے ہیں ۔ وہ کس حال میں ہیں
۔ کیا ان کو تمام وسائل مل رہے ہیں جو ہم ان کو دینے کے وعدے کرتے ہیں کیا
ان کے بچوں کو کھانا مل رہا ہے ۔ کیا ان کے بچوں کو اچھی اور میعاری تعلیم
میسر ہے ۔ کیا ان کے پاس تعلیم حاصل کے لئے وسائل موجودہ ہیں کیا ان کے پاس
رہنے کے لئے گھر موجودہ ہے کیا ان کے پاس کھانے کے کھانا ہے ۔ کیا ان کے
پاس پہننے کے لئے کپڑے ہیں ۔ کیا ان کے پاس سردی سے بچنے کانتظام ہے ۔ کیا
وہ جس سکو ل میں پڑھنے کے لئے جاتے ہیں وہاں پر معیاری تعلیم میسر ہے ۔
مگر آج وہ والدین ایوانوں میں بیٹھے حکمرانوں سے اپیل کرتے ہے ۔ کہ ذرا
سوچو ہمارے ملک کے بہتر مستقبل کو ۔سوچوان نوجوانوں کے بارے میں جو کل کو
اس ملک کے معمار ہوں گے ۔ سوچوان کے کل کو اور سوچو ان کے بارے میں کہ کس
پروری کا شکار ہو رہے ہیں ۔ اگر ان نوجواں کے بہتر مستقبل میں سوچا گیا ۔
تو ہمارے ملک میں ہر تاریکیاں ہی تاریکیاں پھیل جائیں گی ۔ ہمارے ملک کے
نوجوانوں کا مستقبل داؤ پر لگ چکا ہے اس کی ایک بڑی مثال یہ ہے کہ ہمارے
ملک کے نوجوانوں کے پاس وسائل ہونے کی وجہ سے وہ غلط کامیوں اور غلط
سوسائٹی کی طرف جا رہے ہیں ۔ ان نوجوانوں کے لئے ایسے وسائل پیدا کیے جائیں
جس کے ذریعے وہ اپنا مستقبل روشن کر سکیں ۔
آج ہمار ے ملک میں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں ایسے قابل اور اچھے نوجوان
موجود ہیں جو بے روزگاری کا شکار ہو رہے ہیں ۔ جن کے پاس بہت سی ڈگریاں تو
موجود ہیں مگر کھانے کے کھانا اور رہنے کے لئے گھر نہیں سونے کیلئے رات تو
ہے مگر بستر موجود نہیں بوڑھے والدین تو ہیں مگر ان کے علاج کے لئے روپے
نہیں ۔ تعلیم اور ہنر تو ہے مگر کاروبار کے لئے سرمایہ نہیں ۔ بوڑھے والدین
نے تو اپنا سب کچھ بیچ کر اپنے بچوں کو تعلیم تو دلوا دی مگر ٓآج غریب
لوگوں کے لئے پریشانیاں تو ہیں مگر ان کے بچوں کے مستقبل کے لئے وسائل کی
بہت کمی ہے ۔ ان کے بچوں کے پاس ڈگریوں کے ڈھیر تو ہیں مگر نوکریاں صرف بڑے
اور سیاستدانوں کے بچوں کے لئے ہیں ۔ بہت افسوس خدارایہ کون سا انصاف ہے کہ
صرف امیروں کو نوازو اور غریبوں کو بھوکا اور پیاس مرنے کے چھوڑ دو۔ خدارا
کچھ ہوش کروں میرے کے سرداروں ۔مرے ملک کے حکمرانوں ۔اگر آپ کچھ دے نہیں
سکتے تو ان والدین سے ان کے بچے تو نہ چھینوں ۔آج یہ بچے اپنا مستقبل
سنوارنے کی بجائے بگاڑ رہے ہیں ۔ اچھے جگہ پر جاب کرنے اور ملک کا نام روشن
کرنے کی بجائے آج یہ بچے اپنے اور اپنے بوڑھے والدین کا پیٹ پالنے کے لئے
چور ڈاکواور دہشت گرد بن کر سامنے آرہے ہیں کیا پاکستان کے بچوں کا یہ
مستقبل ہے ۔
میری ایک بار پھر پاکستان کے حکمرانوں سے گزارش ہے کہ براہ کرم کچھ سوچو
اپنے ہی ملک کے بچوں کے مستقبل کے بارے میں ۔کیونکہ آج کے یہ بچے کل ملک کے
معمار ہوں گے ۔ اور اگر ان کے مستقبل کے بارے میں نہ سوچا گیا اور ان کو
وسائل نہ مل سکے۔تو آپ کل کسی معافی کے قابل نہیں ہوں گے ۔اور ان کے تاریک
مستقبل کا ذمہ دار کون ہو گا۔ |