جوانی یا عالم شباب زندگی کا وہ حصہ ہوتا
ہے جس میں انسان کی صلاحیتیں پوری عروج پر ہوتی ہیں ۔آرزوئیں، اُمنگیں اور
کچھ کر گزرنے کا جذبہ سب کچھ اپنی انتہاوں پرہوتا ہے۔جہاں شاعروں اور
ادیبوں نے شباب کواپنا موضوع بنایاوہاں تاریخ نے اس بات کی گواہی دی کہ
تبدیلی ، انقلاب اورترقی میں نوجوانوں کا کردار نمایاں اور قابل ذکر رہاہے۔
یہی وجہ ہے کہ نوجوانوں کو کسی قوم کابہت بڑا اثاثہ اور سرمایہ سمجھا
جاتاہے۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اﷲ تعالیٰ نے پاکستان کو بڑی دولت سے
نوازا ہے۔ پاکستان کی 50فی صد آبادی 23سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے۔
یعنی اس وقت اگر ہماری آبادی اندازاً 20کروڑ ہے تو اس میں 23برس سے کم عمر
10کروڑ افرادہیں۔
بلاشبہ ہم نوجوان قوت سے مالامال ہیں۔لیکن اہم بات یہ ہے کہ ترقی فرد کی ہو
یا قوم کی صرف وسائل سے ممکن نہیں بلکہ وسائل کے درست استعمال سے ممکن ہوتی
ہے۔ ایسا کوئی بھی کام ٹھوس منصوبہ بندی ،خلوص اور محنت کے بغیر ممکن نہیں۔
’’ہم نوجوانوں کو آگے لائیں گے،میرے نوجوانو!،نوجوان میرے پاس ہیں،نوجوان
میرے شیر ہیں وغیرہ ‘‘ہمیں اس طرح کے نعرے اور دعوے تو سننے کو ملتے ہیں
لیکن زمینی حقائق ان دعووں اور نعروں کے بالکل برعکس ہیں۔
یوتھونومیکس گلوبل انڈکس نے 2015ء کے لیے دنیا بھر میں 64ممالک کے نوجوانوں
کاجائزہ لیاہے۔ اس مقصد کے لیے یوتھونومیکس کی ٹیم نے ورلڈبنک، یونیسکو اور
اوایس ای ڈی کے اعداد وشمار(data)استعمال کیے ہیں۔ صحت، تعلیم، روزگار،
تحفظ اور تفریح جیسے 59انڈی کیٹر کا جائزہ لے کر ان 64ممالک کی درجہ بندی
کی گئی ہے۔ اس فہرست میں پاکستان کا 56واں نمبرہے۔ناروے، سویٹزرلینڈ، سویڈن،
ڈنمارک اور نیدرلینڈ نوجوانوں کے لیے موزوں ترین ممالک قراردیے گئے ہیں۔صرف
روس، کینیا، مصر، برازیل، مالی اور جنوبی افریقا جیسے 8ممالک کی حالت
پاکستان سے زیادہ خراب ہے۔ افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ بنگلا دیش، سری
لنکا اور بھارت جیسے پس ماندہ ممالک بھی اس فہرست میں پاکستان سے اوپر ہیں۔
ہماری منصوبہ بندی کا عالم یہ ہے کہ پچھلے 17سال سے مردم شماری نہیں ہوئی۔
پاکستان کو بنے ہوئے 68سال ہوگئے اب تک چار مردم شماریاں ہوئی ہیں۔
1951ء،1972ء،1981ء،1998ء۔ حالانکہ دنیا بھرکے تقریباًتمام ممالک میں ہر دس
سال بعد مردم شماری ہوتی ہے ۔
غربت، مہنگائی، بے روزگاری او ر عدم تحفظ جیسے گھمبیرمسائل نے پوری قوم کا
بالعموم نوجوانوں کا بالخصوص جینا دوبھرکردیاہے۔نوجوانوں کے بہت سارے مسائل
کی بنیاد تعلیم وتربیت کی کمی ہے۔ تعلیمی اداروں تک رسائی نہیں ڈھائی کروڑ
بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ جو بچے سکولوں میں داخل ہوجاتے ہیں اُن میں سے
23فی صد سیکنڈری سکول میں داخلہ پاتے ہیں۔ بڑی مشکل سے 5فی صد یونی ورسٹی
پہنچ پاتے ہیں۔ پھر پست تعلیمی معیار ایک اور بڑا مسئلہ ہے۔ سٹوڈنٹس یونین
پر پابندی نے قومی سیاست کو بالکل بانجھ بناکررکھ دیاہے۔20 فی صد تعلیم
یافتہ نوجوان بے روزگارہیں۔ کھیلوں میں پاکستان پیچھے کی طرف جارہاہے۔نشے
کی لت،جرائم میں اضافے اور دہشت گردی نے پوری قوم کو تاریک غار میں دھکیل
دیا ہے۔
حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ 2008ء میں بنائے گئے یوتھ پالیسی سے لگایا
جاسکتاہے۔ اس پالیسی میں نوجوانوں کو باشعوربنانے، حب الوطنی کاجذبہ پیدا
کرنے، اچھا اورہنرمندشہری بنانے، ذہنی ترقی جیسے خوش نما عزائم کا اظہار
کیاگیا ہے۔ لیکن ان عزائم کو روبہ عمل لانے اور عملی جامہ پہنانے کا کوئی
طریقہ کار اس پالیسی میں موجودنہیں۔ اس پالیسی پر کسی نے بڑا جامع اور دل
چسپ تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جس نے ناقص ترین پالیسی کو دیکھنا ہو وہ
پاکستان کی مذکورہ یوتھ پالیسی ملاحظہ کرے۔
عملاصورت حال یہ ہے کہ وزیر اعظم بزنس لون سکیم کے لیے پچھلے ایک سال میں
صرف 8ہزارلوگوں نے درخواستیں دی ہیں جن میں سے 6126لوگ اس پالیسی کے شرائط
کے مطابق قرض لینے پر آمادہ ہوئے۔ یکم اگست 2015ء کونیشنل بنک آف پاکستان
کے صدر احمد اقبال اشرف نے سینیٹ کے سٹینڈنگ کمیٹی برائے فنانس اور
ریونیوکو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ’’لوگ اس سکیم میں دل چسپی نہیں لے رہے۔‘‘
ا س زبوں حالی کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے اقتدار پر ہمیشہ
جاگیرداریاآمرمسلط رہے ہیں۔ ان دونوں نے اپنی آمریت اور اقتدار کو دوام
دینے کے سوا کوئی اور کام نہیں کیا۔ آمریت کی توبات ہی الگ ہے۔ سیاسی
پارٹیاں بھی، چندایک کے استثنا کے ساتھ جاگیرداروں، نوابوں، وڈیروں اور
چودھریوں کی پراپرٹی ہیں۔ جاگیرداراور وڈیرہ کبھی بھی کسی عام آدمی کو اپنی
جاگیرمیں حصہ دارنہیں بناتا۔
اس وقت تبدیلی کے نام پرنوجوانوں میں ہیجان برپا کردیاگیاہے۔ لیڈر جس طرح
ٹی وی مذاکروں میں سنجیدگی اور تہذیب کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں اور کارکن
جس طرح سوشل میڈیاپر اپنی قیادت اور پارٹی کے خلاف تنقید کے جواب میں
بدتمیزی بلکہ ننگی گالیوں پر اتر آتے ہیں،یہ ایک اور خطرناک رجحان ہے۔اس کی
وجہ یہ ہے کہ اکثر سیاسی جماعتیں نوجوانوں کو نعروں، جلسوں ا ور جلوسوں کے
لیے تو استعمال کرتی ہیں لیکن نوجوانوں کی تعلیم و تربیت اور ان کے مستقبل
سے انھیں کوئی سروکار نہیں۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ کروڑوں نوجوانوں کے گوناگوں مسائل حل کرنا کسی
ایک جماعت کے بس میں نہیں۔ ایک جامع یوتھ پالیسی بنانے کی ضرورت ہے جس میں
نوجوانوں کے متعلق مرکزی وصوبائی اور بلدیاتی حکومتوں، سیاسی جماعتوں،
سماجی تنظیموں، میڈیا، سول سوسائٹی، تمام اداروں بالخصوص تعلیمی اداروں کا
کردارواضح کیاجائے۔
اس پالیسی کے تحت سیاسی تعلیم (پولیٹیکل سائنس) کو ساتویں جماعت کے بعد
نصاب کا حصہ بنایاجائے۔ یونین پر نہ صرف پابندی ہٹا دی جائے۔ بلکہ بامقصد
سیاسی سرگرمیوں کے لیے اس کو استعمال کیاجائے۔ طلبہ تنظیموں کو صرف طلبہ
سیاست تک محدود رکھنے اور مناسب سیاسی تربیت کاپابند بنایاجائے۔ یوتھ
اسمبلی قسم کی مختلف تنظیموں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ کھیلوں کے فروغ کے
لیے باقاعدہ انتظام کیاجائے۔نوجوانوں کو ہنرمندبنانے پھر روزگارکی فراہمی
جیسے منصوبے اس پالیسی کا اہم حصہ ہونا چاہیے۔ اس میں میڈیا کا کردار بھی
بہت اہم ہے۔ میڈیا تفریح کے نام پر جس بے ہودگی کو پروان چڑھا رہاہے۔یہ
نوجوانوں کی کوئی خدمت نہیں۔ میڈیا کو تعلیم و تربیت اور مثبت تفریحی
پروگرامات کا پابندبنایاجائے۔
یادرہے کہ اگر ہم نے صورت حال کی نزاکت کا بروقت ادراک نہ کیا توپھر
صلاحیتیں ضائع ہوں گی ،مایوسی مزیدبڑھے گی۔ سیاسی سسٹم پر موجودہ عدم
اعتماد میں اضافہ ہوگاجو جرائم میں اضافے کا سبب بنے گا اوردہشت گردی کے آگ
کو ایندھن فراہم کرے گا۔ پھر کسی وقت یہ ملک اﷲ نہ کرے لیبیا اور عراق کا
منظر پیش کرسکتا ہے۔
فاعتبرویااولوالابصار |