صحافیوں کیلئے غیرمحفوظ ممالک کی رپورٹ:لمحہ فکریہ

صحافت ایک مقدس پیشہ ہے جس سے وابستہ افراد ملک و ملت کے ترجمان سمجھے جاتے ہیں۔ عوام تک صحیح خبر پہونچانا اورانہیں بروقت سرکار کی پالیسیوں سے آگاہ کرنا یہ صحافیوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ایک صحافی اپنے قلم کا صحیح استعمال کرکے قوم میں جذبہ تفکر پیدا کرسکتا ہے اور قوم کے دھارے کو صحیح رخ پر ڈال سکتا ہے، قلم کی طاقت سے ظالموں کے ظلم اور غیر منصف حکمران طبقہ کی سفاکیت اور انانیت کو طشت از بام کیا جاسکتا ہے اور یہی نہیں صحافت آج کے زمانے میں ہر آدمی کی ضرورت بن گئی ہے۔ رفتار زمانہ اور انٹر نیٹ کی سہولت نے دنیا کو ایک گاؤں کی شکل میں تبدیل کردیا ہے۔وہیں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک کی خبرپل بھر میں پہونچ جاتی ہے۔ہر آن ہر لمحہ کی خبر سوشل سائٹس پر گھوم جاتی ہے، اس سہولت نے دنیاکوقابل قدر تبصرہ نگار بھی عطا کیے ہیں۔ اس دور میں جب کہ صحافت کی اتنی ضرورت ہے تو اس سے وابستہ افراد بھی معاشرہ کیلئے اتنے ہی اہم تصور کئے جاتے ہیں لیکن 2015 کی RSF کی جانب سے شائع شدہ رپورٹ کے مطابق اس سال پوری دنیا میں110 صحافیوں کا قتل ہوا ہے۔جن میں سب سے بڑی تعداد عراق و شام میں ہے، دنیا کے یہ جنگ زدہ علاقے ایک زمانے سے صحافیوں کیلئے قبرستان سمجھے جاتے رہے ہیں۔ ایک وقت میں افغانستان بھی صحافیوں کیلئے کسی قبرستان سے کم نہیں تھا لیکن اس سال کی رپورٹ کے مطابق افغانستان اور پاکستان اب قدرے محفوظ مقام تصور کئے جارہے ہیں،گزشتہ سال قتل کئے گئے 110 صحافیوں میں سے 67 کا قتل اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے ہوا ہے۔
صحافت ایک مقدس پیشہ ہے جس سے وابستہ افراد ملک و ملت کے ترجمان سمجھے جاتے ہیں۔ عوام تک صحیح خبر پہونچانا اورانہیں بروقت سرکار کی پالیسیوں سے آگاہ کرنا یہ صحافیوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ایک صحافی اپنے قلم کا صحیح استعمال کرکے قوم میں جذبہ تفکر پیدا کرسکتا ہے اور قوم کے دھارے کو صحیح رخ پر ڈال سکتا ہے، قلم کی طاقت سے ظالموں کے ظلم اور غیر منصف حکمران طبقہ کی سفاکیت اور انانیت کو طشت از بام کیا جاسکتا ہے اور یہی نہیں صحافت آج کے زمانے میں ہر آدمی کی ضرورت بن گئی ہے۔ رفتار زمانہ اور انٹر نیٹ کی سہولت نے دنیا کو ایک گاؤں کی شکل میں تبدیل کردیا ہے۔وہیں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک کی خبرپل بھر میں پہونچ جاتی ہے۔ہر آن ہر لمحہ کی خبر سوشل سائٹس پر گھوم جاتی ہے، اس سہولت نے دنیاکوقابل قدر تبصرہ نگار بھی عطا کیے ہیں۔ اس دور میں جب کہ صحافت کی اتنی ضرورت ہے تو اس سے وابستہ افراد بھی معاشرہ کیلئے اتنے ہی اہم تصور کئے جاتے ہیں لیکن 2015 کی RSF کی جانب سے شائع شدہ رپورٹ کے مطابق اس سال پوری دنیا میں110 صحافیوں کا قتل ہوا ہے۔جن میں سب سے بڑی تعداد عراق و شام میں ہے، دنیا کے یہ جنگ زدہ علاقے ایک زمانے سے صحافیوں کیلئے قبرستان سمجھے جاتے رہے ہیں۔ ایک وقت میں افغانستان بھی صحافیوں کیلئے کسی قبرستان سے کم نہیں تھا لیکن اس سال کی رپورٹ کے مطابق افغانستان اور پاکستان اب قدرے محفوظ مقام تصور کئے جارہے ہیں،گزشتہ سال قتل کئے گئے 110 صحافیوں میں سے 67 کا قتل اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے ہوا ہے۔

RSF کی رپورٹ کی مانے تو 2015 میں ہندوستان صحافیوں کیلئے ایشیا ء کا سب سے غیر محفوظ مقام بن کر سامنے آیا ہے۔ ہندوستان میں 9 صحافیوں کا قتل ہوا ہے ، جن میں سے پانچ اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے قتل کئے گئے ہیں۔ ہندوستان جو کہ دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے اور یہاں ہر ایک کو مکمل تحفظ حاصل ہے… جہاں قانون سب کیلئے یکساں وضع کیا گیا ہے… عدالت کا نظام سب کیلئے برابر ہے پھر ایسے مقدس افراد کا قتل ہندوستانی جمہوریت پر ایک بدنما داغ ہے۔ اس طرح کے واقعات سے عام آدمی کا تشویش میں مبتلا ہونا فطری بات ہے۔صحافی جو کہ اپنے ملک و ملت کا ترجمان ہوتا ہے، اپنی جان جوکھم میں ڈال کر جرائم پیشہ افراد کے خلاف قلم کو استعمال کرتا ہے۔ سیاست دانوں کے کالے کرتوت کو ببانگ دہل عوام کے سامنے پیش کرتا ہے۔ اپنے اہل و عیال سے بے پرواہ عوام کو سچائی کی روشنی دکھاتا ہے اگر اسے بھی تحفظات حاصل نہ ہو تو یہ قابل فکر لمحہ ہے، RSF نے ہندوستانی حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ صحافیوں کے تحفظات کو یقینی بنائے۔ اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری بان کی مون نے کہا کہ صحافت سے متعلق افراد کا قتل ایک لمحہ فکریہ ہے اور اس کی روک تھام کیلئے اقدامات ضروری ہے۔ صحافت کی آزادی کے بغیر کوئی صحافی صحیح طریقے سے اپنے کام کو انجام نہیں دے سکتا ہے، جب تک اسے مکمل طور پر اپنے اور اپنے اہل و عیال کے تحفظ کا یقین نہیں ہوگا ۔ وہ جرائم پیشہ افراد یا پھر جنگ زدہ علاقوں کی خبریں کیوں کر دے سکتا ہے…؟ صحافیوں کے مکمل تحفظات نہ ہونے کی وجہ سے آج بیشتر نیوز ایجنسیاں اپنے صحافیوں کو غیر محفوظ مقامات پر بھیجنے سے کترارہی ہیں جس کی وجہ سے صحیح خبریں اور مبنی بر حقائق ہم تک نہیں پہنچ پارہے ہیں۔ صحافی کسی بھی علاقے یا زبان سے تعلق رکھنے والا ہو اس کی اپنی ایک مسَلم حیثیت ہوتی ہے، اس کے کچھ اصول و ضوابط ہوتے ہیں جس کے بَل بوتے وہ خبروں کو جمع کرکے اخبار و رسائل تک پہونچاتا ہے۔ صحافت کی بنا پر اس دنیا میں بڑے بڑے انقلاب رونما ہوئے ہیں، روس میں کمیونسٹ کی حکومت کی ابتدا اسی صحافت کے ذریعہ ہوئی جب کارل مارکس نے روس کی شاہی حکومت کے خلاف لکھنا شروع کیا اور عوام کو ان کے مظالم سے آگاہ کیا۔ عوام کی ضروریات کو بزور قلم ایوان حکومت تک پہنچایا اور لوگوں کو اس بات پر آمادہ کیا کہ ہم عرصہ دراز سے ظلم و ستم کی چکی میں پِس رہے ہیں اب وقت آگیا ہے کہ ہم اس طاقت کو اکھاڑ پھینکیں۔ ہمارے ملک عزیز ہندوستان میں بھی جب آزادی کی لڑائی اپنے شباب پر تھی اور مجاہدین آزادی اپنا سب کچھ لٹا کر ہند کیلئے انگریزوں کے خلاف سینہ سپر ہوگئے تھے اس دور میں بھی ہندوستان کے طول و عرض سے قلم کے جیالوں نے انگریزوں کے خلاف ایک نئی مہم چھیڑ رکھی تھی جس میں مولانا ابوالکلام آزاد کی ماتحتی میں نکلنے والا اخبار’’الہلال‘‘وغیرہ شامل ہیں۔ مجاہدین آزادی کی تحریک اور آواز کو در در پہونچانے کا کام انہیں قلم کے جیالوں نے کیا تھا۔ اب جبکہ ہمارا ملک آزاد ہے اور ہر طرح کی سہولت سے مالامال ہے۔ ایسے وقت میں یکے بعد دیگرے صحافیوں کا قتل بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر تا ہے۔

آج پوری دنیا میں آزادئی اظہار رائے کا نعرہ لگایا جارہا ہے۔ ہر کوئی اپنی بساط سے زیادہ ہی اس موضوع پر بحث کرنے کو تیار بیٹھا ہے۔ یورپی ممالک اس فہرست میں سر فہرست ہیں جو ہر قسم کی آزادئی اظہار رائے کے قائل ہیں، جہاں کسی قسم کی کوئی قید نہیں ہے ۔ ان ممالک میں بھی صحافیوں کی جانیں محفوظ نہیں ہیں اور نہ ہی ان کی سلامتی کیلئے اقوام متحدہ کی جانب سے کوئی ٹھوس قدم اٹھایا جارہا ہے۔ایسا نہیں ہے کہ یہ پہلی بار ہوا کہ 110 صحافیوں کا قتل ہوا ہے بلکہ یہ ہمیشہ سے ہوتا آرہا ہے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2005 سے اب تک 787 صحافیوں کا قتل ہوا ہے اور یہ قتل تقریبا ً دنیا کے سبھی ملکوں میں ہوا ہے، لیکن پھربھی اس سلسلہ میں کوئی پیش رفت نہیں ہے، اظہارِرائے اورخیال کی آزادی کانعرہ بلندکرنے والی اقوام عالم کو اس بات پر سنجیدگی اختیار کرنا چاہئے کہ آخر کون لوگ ہیں جو انہیں اپنے ظلم کا نشانہ بنا رہے ہیں اور پھر ان کے خلاف سخت سے سخت کارروائی ہو تاکہ ایک صحافی پوری ایمانداری کے ساتھ اپنے فرائض کو ادا کرسکے۔ اگر ان کے حقوق کے اور ان کی سیکوریٹی میں اسی طرح ڈھیل رہی تو آئندہ صحافت جو ایک معزز پیشہ ہے اس سے لوگ کترائیں گے اور ایسے مقام پر جانے سے گریز کریں گے جہاں انہیں اپنی جان ومال کا خطرہ لاحق ہو۔ اقوام عالم کو چاہئے کہ ایک ایسا قانون وضع کرے جس میں صحافیوں کو مکمل تحفظ حاصل ہو۔ جس کی وجہ سے انہیں نہ عراق نہ شام نہ کشمیرمیں اپنی جانیں تلف ہونے کا خطرہ لاحق ہو۔
NAZISH HUMA QASMI
About the Author: NAZISH HUMA QASMI Read More Articles by NAZISH HUMA QASMI : 109 Articles with 77679 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.