حسین احمد مدنی کے پیروکار اور پاکستان سے محبت

پاکستان کے معرضِ وجود میں آتے ہی جمعیت علماء کی دو طرفہ قیادت (پاک و ہند) نے نا صرف پاکستان کو تسلیم کیا، بلکہ اس کے تقدس،حفاظت، اور سالمیت کو مسجد کی مانند قرار دیا۔

اب چاہیے تو یہ تھا کہ حمایت و عدم حمایت کی یہ بحث ختم ہو جاتی، لیکن نجانے کیوں دائیں بازو کے بزعمِ خود دانشور آئے دن جمعیت علمائے اسلام اور پاکستان میں مولانا سید حسین احمد مدنی علیہ الرحمہ کی فکر سے وابستہ لوگوں کو کٹہرے میں کھڑا کر کے ان سے حُب الوطنی کا سرٹیفکیٹ طلب کرتے دکھائی دیتے ہیں.
حالانکہ ان "دانشوروں" کو بخوبی معلوم ہے کہ مولانا سید حسین احمد اور ان کے وابستگانِ فکر کے نزدیک تو "قومیت" کی بنیاد بھی وطنیت پر ہے. پھر بھلا ایسی فکر کے حاملین کی حُب الوطنی کیونکر مشکوک ھوسکتی ہے؟

ہاں البتہ حضرت مدنی کی فکر کا حامل کوئی بھی پیدائشی پاکستانی آپ سے یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہوگا کہ پہلے آپ اپنی پوزیشن واضح کریں کہ حُب الوطنی میں آپ کہاں کھڑے ہیں؟ کیونکہ کوئی بھی فضل اللہ یا بغدادی آپ کو مذہب کے نام پر گمراہ کر سکتا ہے کہ آپ کے نزدیک قومیت کی بنیاد مذہب پر ہے اور 'اُمۃ' کا بھی ایک مخصوص تصور، جس کے باعث ملکوں کی سرحدات آپ کے ہاں کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتیں.

حالانکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم معاہدہ حدیبیہ کے بعد مکہ سے آنے والے مسلمانوں کو واپس اور بنو خزاعہ کے مشرکین کا انتقام لینے کیلئے مکہ والوں کے خلاف لشکر کشی فرما کر ناصرف معاہدات کے نتیجے میں ہونے والی حد بندیوں کا احترام سکھلاتے ہیں، بلکہ ایک طرح وطنیت کی بنیاد پر وجود میں آنے والی قومیت کی صحت پر بھی مہر تصدیق ثبت فرماتے ہیں کہ مدینہ کی ریاست کا مکہ والوں سے معاہدہ تھا، جس میں بنو خزاعہ باوجود مشرک ہونے کے ریاستِ مدینہ کے حلیف تھے، مگر مکی مسلمانوں کو باوجود مسلمان ہونے کے ازروئے معاہدہ واپس مکہ لوٹایا جانا طے تھا۔ اسی لئے معاہدہ حدیبیہ کے بعد مکی مسلمان مکہ والوں کے چنگل سے نکل کر ساحل سمندر پر جمع ہوئے اور وہاں اپنی الگ عملداری قائم کی. جہاں انہوں نے نہ تو خود معاہدہ حدیبیہ کی پابندی لازم سمجھی، نہ ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس کی پابندی کرنے کو فرمایا اور نہ ہی اہل مکہ نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام سے یہ مطالبہ کیا، کہ ساحل والوں کو واپس مکہ بھیجیے.
آخر کیوں؟ صرف اس لئے کہ یہ تیسرا فریق مکہ و مدینہ کے باہمی معاہدات کا پابند نہ تھا۔ جیسا کہ درج ذیل واقعہ بھی اہل مکہ کی طرف سے ان کی الگ عملداری کو تسلیم کرنے پر دلالت کرتا ہے. سہیل بن عمرو نے حضرت ابوبصیر رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں قتل ہونے والے قبیلہ سہیل کے شخص کی دیت کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تقاضا کرنا چاہا تو ابو سفیان نے کہا کہ چونکہ ابو بصیر (رضی اللہ تعالٰی عنہ) کو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے مدینہ سے واپس کر دیا تھا، اس لئے ان پر دیت نہیں بنتی.

ٹھہریے اپنا "فتوی" سنبھال رکھیے کہ مفتی کفایت اللہ دہلوی جسے مفتی اعظم ہند اور دارالعلوم دیوبند کی مسند حدیث پر بیٹھ کر درس حدیث دینے والا حسین احمد مدنی جسے شیخ العرب والعجم کہا گیا، کا وطنیت کو بِنائے قومیت قرار دینا اگر گمراہی ہے تو ایسے لوگوں کا فہمِ دین کیا ہوا؟ کیا وطنیت کو قومیت کی بنیاد جاننے کی پاداش میں ایسے لوگ بھی آپ کے ہاں گمراہ قرار پائیں گے جن کے شب و روز قرآن و حدیث کے درس و تدریس میں میں گزرے؟

خداوندِ عالم کی آخری کتاب کہتی ہے کہ اللہ تبارک و تعالٰی کے وہ منتخب بندے (انبیاء کرام علیہم السلام ) جن کو رب العالمین نے انسانیت کو پیغامِ ہدایت پہنچانے کی ذمہ داری بخشی، وہ جب قوم کو مخاطب کرتے تو 'اے میری قوم' کہہ کر کرتے. حالانکہ وہ لوگ اس وقت تک ایمان بھی نہ لائے ہوتے. اس پر کیا کہیئے گا اے میری قوم کے "روشن فکر" دانشورو! کہ خدا کے ان برگزیدہ بندوں (انبیاء کرام علیہم السلام) کے ساتھ کفار کا 'علاقہءقومیت' کیا ہوا، ماسوائے 'وطنیت' کے؟
میں یوں ہی دست وگریباں نہیں زمانے سے
میں جس جگہ پہ کھڑا ہوں کسی دلیل سے ہوں

 
محمد حسین کھرل
About the Author: محمد حسین کھرل Read More Articles by محمد حسین کھرل: 19 Articles with 16748 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.