ریحان صاحب کراچی کے ایک پوش علاقے میں
اپنے ذاتی بنگلے میں ریہا ئیش پزیر تھے اچھا کاروبار تھا اور بچوں کی تعلیم
و تربیت پر والدین نے اچھی محنت کی تھی ، انکی منجھلی بیٹی شاہین ذہنی طور
پر معذور تھی وہ اسکو سپیشل بچوں کے اسکول بجھواتے تاکہ بچی کو اپنی معذوری
کا احساس بھی کم ہو اور اللہ تعالی کے حضور بھی وہ اپنے حقوق کی بجا آوری
پر سرخرو ہو سکیں -
دن گزرتے گئے اور ریحان صاحب کی بڑی بیٹی سمیرا تعلیم سے فارغ ہوگئی شاہین
اب گھر میں والدہ کا ہاتھ بٹاتی اور چھوٹا بھائی زبیر اپنی تعلیم کے علاوہ
اپنے والد کے ساتھ کاروبار میں شریک رہتا . تعلیم کے مکمل ہونے کے ساتھ ہی
سمیرا کی شادی کے بارے میں اس کے والدین کو اسی طرح فکر لگ گئی جیسا کہ
ہمارے معا شرے میں رواج ہے مگر خدا کی رضا یہی تھی کہ پہلے پہل کچھ ڈھنگ کے
لوگ نہ آ ئے اور جو آ ئے وہ شاہین کی ذہنی حالت سے کسی انجانے وہموں میں پڑ
کر بات ختم کر دیتے تھے -
سمیرا ان حالات سے پریشان نہ ہوئی بلکہ اس نے وقت کا بہترین استعمال کیا
اور کچھ کورسز اور ایک اسکول میں جاب شر و ع کر دی اس دوران بھی جو رشتے
آتے رہے وہ شاہین کی معذوری کو وجہ بتاتے اور یہی سوچتے کہ کہیں اولاد میں
یہ مرض نہ ہوجاۓ . سمیرا 30 سال کی ہوگئی تھی ریحان صاحب اور انکی بیگم نے
جو پہلے صاف ستھری بات کرنے اور سچائی کے ساتھ رشتے بنانے اور نبھانے پر
یقین رکھتے تھے اپنے انداز بدل لیے تھے اب وہ اپنی بیٹی کی تعلیم و تربیت
اور نیکی سے زیادہ اپنی دولت کو رشتے کرنے کا ذر یعہ بنانے لگے تھے
انکی اسی دولت سے مرعوب ہو کر کسی دور پار کے جاننے والے نے ایک رشتہ
بھجوایا جو ایک کاروباری شخص کا تھا جسکی بیوی شادی کے دو سال بعد وفات
پاچکی تھی اس شخص کے گھر والوں نے اسکی عمر 38 سال بتائی ادھر چونکہ سمیرا
کے 30 سال بھی ہر دوسرے آنے والے رشتے کی آنکھوں میں کھٹک رہے تھے لحاظہ
سمیرا کے والدین نے فیصلہ کیا اور سمیرا کی عمر 26 سال بتائی اس بار شاہین
کا معاملہ جہیز ، گاڑی ، بنگلے میں دب گیا مگر سادہ سی بات ہے کہ نہ تو یہ
کوئی ایک دن کی پارٹی میں سلام د عا کی بات تھی اور نہ ہی فیس بک پر ہونے
والی دوستی کہ جھوٹ چل جاتا بلکہ یہ تو زندگی بھر کا معآملہ تھا آج نہیں تو
کل یہ راز کھل جانا تھا -
ولیمہ کی خوشیاں بھی نہیں منائی گئیں تھیں کہ عمرچھپانے کا یہ قصہ تمام
ہوگیا اور باوجود اسکے کہ مرد نہ
صرف ایک بار شادی شدہ تھا اور اسکی عمر بھی 44 کی بجاۓ 38 بتائی گئی تھی
مگر الزامات ، بہتان اور دھمکیوں کا سلسلہ لڑکی کے نصیب میں آیا -
سسرال والے اگرجہیز یا تعلیم پر کوئی مسلہ اٹھاتے تو شاید کچھ دیر کے لیے
مخالفت کے خلاف بند باندھ لیتی مگر مسلہ جھوٹ کا تھا اور وہ بھی ذاتی جھوٹ
اور وہ بھی والدین کی زبان سے نکلا ہوا یعنی یہاں تو صفائی والا کوئی
معاملہ ہی نہ تھا
سسرال کی ایک ہی ضد کے آج ہی واپس جاؤ اور سمیرا کے والدین کی معافیاں کہ
اب تو سب کچھ ہو چکا اب اتنی سی بات پر اتنا بڑا فیصلہ کیوں ؟
بہت بحث و مباحثہ کے بعد ان کاروباری ذہن کے لوگوں نے یہ طے کیا کہ اگر
ریحان صاحب سمیرا کے شوہر کو کینڈا میں سیٹل کروا دیں گے تو یہ شادی چل
سکتی ہے .... یعنی انکے خیال میں کینڈا پہنچ کر 30 سالہ سمیرا 26 سال کی
ہوجاۓ گی اور اسطرح " یہ دونوں بقیہ عمر ہنسی خوشی زندگی گزاردیں گے-
ریحان صاحب نے اپنا جھوٹ نبھانے کے لیے سمیرا کے شوہر کو کینڈا میں سیٹل
کروایا جس میں انکا اثر ورسوخ اور پیسہ کام آیا اسی دوران وہ خود بھی جان
گئے کہ سمیرا کے سسرال نے انسے کئی ایک جھوٹ بولے جسمیں اس شخص کی عمر ،
تعلیمی قابلیت اور کاروباری حیثیت کے بارے میں جھوٹ کاغذات کی جانچ پڑتال
کے دوران ثابت بھی ہوگئے -
تکلیف دہ امر یہ کہ سمیرا کے بارے میں ایک جھوٹ اسکے شوہر کے بتاۓ گئے
دسیوں قسم کے جھوٹ کے مقابلے میں بھی بھا ری نکلا -
وہ شخص کینڈا میں سیٹل ہوگیا اور آج بھی سمیرا کا شوہر اور ایک بچی کا باپ
ہے مگر اسکی بانجھ ذہنیت آج بھی اسی طرح "سوالی " رہتی ہے آج بھی سمیرا کے
والدین اپنی بیمار بیٹی کا علاج، اپنے بیٹے کی تعلیم و شادی پر خرچہ کرنے
کے باوجود سمیرا کے شوہر کی نت نئی فرمائشیں پوری کرتے ہیں -
میں آج بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ سمیرا کے والدین نے جھوٹ کیوں بولا ؟
وہ کیوں یہ سمجھتے تھے کہ اس قسم کا جھوٹ اس نمائشی معاشرے میں زیادہ دیر
چل سکے گا ؟ انہوں نےاپنی باصلاحیت ،تعلیم یافتہ اور ہمت والی بیٹی پربھرو
سہ کیوں نہ کیا کہ وہ اکیلے بھی سچائی کے ساتھ زندگی گزار سکتی ہے نہ کہ
جھوٹ کھلنے پر شرمندہ ہوکر ؟
اور کیا یہ بہتر نہ تھا کہ اگر جھوٹ بولا ہی تھا اور شادی کے ساتھ ہی انکے
جھوٹ کا بھانڈا پھوٹ گیا تھا تو سسرال کی چیخ و پکار پر عزت سے اپنی بیٹی
کو گھر لے آتے نہ کہ اس ٹارچر سیل میں مزید طعنے سننے اور بلیک میل ہونے کے
لیے چھوڑ آتے ؟
اگر وہ ایک غیر مرد کو جو اپنے کردار میں بالکل بانجھ ثابت ہوا ، کینڈا
سیٹل کروا سکتے تھے تو کیا وجہ تھی کہ انہوں نے "ڈبے کے باہر آکر نہ سوچا "
! کیا ہی اچھا ہوتا اگر سمیرا کے شوہر کی بجاۓ اپنی سمیرا کو ہی کینڈا میں
سیٹل کروا دیتے ؟ ہوسکتا ہےآج وہ کسی کی بیوی نہ ہوتی مگر یقینن کسی ٹارچر
کیمپ میں بیٹھی اپنے والدین سے نت نئی فرمائشیں بھی نہ کر رہی ہوتی نہ ہی
کسی "خاوند " کہلانے والے بیکار مرد کے ہاتھوں بلیک میل ہورہی ہوتی -
اب آئیں اس منافق معآ شرے کی طرف جو دکھاوے کی نمازیں بھی پڑھتا ہے اور
ہاتھوں میں ذکر کرنے کی تسبیح بھی رکھتا ہے مگر اسکو خدا پر اتنا توکل بھی
نہیں کہ شاہین تو ریحان صاحب کا مقدر تھی ضروری نہیں کہ انکے بیٹے یا بھائی
کا مقدر بھی شاہین ہو اور اگر فرض کریں ایسا ہو بھی جاتا ہے تو کیا یہ خدا
کی مرضی سے باہر ہوگا ؟
پھر اس معاشرے کا مزید مجرمانہ امتیاز یہ کہ سمیرا کے والدین کا جھوٹ انکی
بیٹی کی طلاق کا با عث بن گیا مگر اس نام نہاد شوہر کا جھوٹ اسکے لیے نہ
طلاق کی خبر لا یا نہ کسی طعنے تشنے کی ! بلکہ جھوٹ اپنے ثبوتوں سمیت بھی
اسکی را ہ میں رکاوٹ نہ ڈال سکا اور اسکو اپنی من چاہی مراد یعنی " کینڈا "
مل گیا
ایسے معاشرے میں زندگی گزا رنا یقینن کسی عزاب سے کم نہیں جہاں سچائی کی
بھی سزا عورت ہی بھگتے اور جھوٹ بول کر بھی عورت ہی رسوا ہو اس کہانی کا
بہت سی دوسری سچی کہانیوں کی طرح ا بھی تک انجام نہیں ہوا یہ قارئین پر ہے
کہ اس سچی مگر معاشرےکی تلخ اور بد نما تصویر سے وہ کیا سبق حاصل کرتے ہیں
“ |