بطخ میاں کی قربانی اور ان کا انعام؟
(Shamim Iqbal Khan, India)
اسلام کا ایک نظریہ ہے کہ ’اگر کسی بے گناہ
کا قتل کیاگیا تو وہ قتل پوری نسل کا مانا جائے گا، اور اگر کسی کی جان بچا
لی گئی توسمجھو پوری قوم کی زندگی بچا لی گئی‘۔پوری قوم کی زندگی کا بچانا
ایک علامتی بات ہوئی۔یہاں میں جو بات کرنے جا رہا ہوں وہ حقیقت ہے کہ ایک
شخص کی زندگی بچا کر پوری قوم کو بچا لیا۔میری مراد ہے موہن داس کرم چند
گاندھی، بابائے قوم سے۔۱۹۱۷ءمیں ان کو قتل کرنے کی سازش رچی گئی تھی جب وہ
اپنی پہلی تحریک کے سلسلہ میں بہارآئے ہوئے تھے۔ اگر دشمن اپنے مقصد میں
کامیاب ہو گیا ہوتا توگاندھی جی کی ابتدا ہی انتہا ہو جاتی اور یہ خبر چھپ
کر خاموش ہو چکی ہوتی کہ بطخ میاں نام کا ایک مسلمان جو انگریزوں کاخانصامہ
اور ان کا پٹّھو تھا دولت اور خطاب کی لالچ میں ایک موہن داس کرم چند
گاندھی نام کے ایک وکیل کو دودھ میں زہر دے کر مار ڈالا۔حلانکہ یہی کام تیس(۳۰)
سال کے بعد ناتھو رام گوڈسے نے کیا اور تین گولیاں باپو کے سینے اُتار
دیں۔ناتھو رام گوڈسے اور اس کی پارٹی کا مقصد بھی یہی تھا کہ ’مہاتماگاندھی
مریں بھی اور قتل کا الزام کسی مسلمان کے سر جائے اور ا سی لیے اُس نے اپنا
ختنا بھی کرا رکھا تھا لیکن وہ ناتھو رام گوڈسے نام سے ہی پکڑا گیااور اس
پر مقدمہ چلا اور پھانسی کی سزا ہوئی۔
بات ۱۹۱۷ء کی ہے اس وقت گاندھی جی جنوبی افریقہ سے وکالت کی اچھی شہرت
لیکر بھارت لوٹے تھے اسی لیے مجاہد آزادی راج کمار شکلا کی دعوت پرڈاکٹر
راجندر پرساد اور کئی لوگوں کے ساتھ چمپارن بہارمیں’نیل ‘ کے کاشتکاروں کے
استحصال کا جائزہ لینے آئے تھے۔بہار کے شمال مغرب کونے پر چمپارن ضلع واقع
ہے۔اس علاقہ سے ہو کر گنڈک ندی بہتی ہے جس کی وجہ سے یہاں زمینی تبدیلیاں
ہوتی رہتی ہیں اور جھیلیں بن جاتی ہیں۔انہیں جھیلوں کے کنارے ’نیل‘ کی کاشت
کی فیکٹریاں قائم تھیں۔
چمپارن میں دو قصبے اور تقریباً تین ہزار گاؤں بستے ہیں جن مین دو صدیوں سے
نیل کی کاشت کی جاتی تھی۔ابتدا میں زمین مقامی لوگو ں کی ملکیت میں تھی اور
لوگ گنّے کی کاشت کیا کرتے تھے لیکن انگریزوں کے سفید قدموں کی آمد کے بعد
زمین کی ملکیت اُن کے قبضے میں چلی گئی اور انھوں نے گنّے کی کاشت کو بند
کرا کر ’نیل‘ کی کاشت کرنے پر مجبور کیا۔یہ کاشت انگریزوں کے لیے بہت منافہ
بخش تھی لیکن مقامی کاشت کاروں کو اس کا کوئی فایدہ نہیں ملتا تھا۔انگریزوں
کے خلاف گاندھی جی کی پہلی تحریک یہیں سے شروع ہوئی۔
اس وقت نیل کی کاشت کاانگریز مینیجر’اِروِن‘ تھا اس نے ان لوگوں کو بات چیت
کرنے کی غرض سے رات کو کھانے پر بلایا۔اس نے اپنے باورچی بطخ میاں کو کہا
کہ رات کو دودھ میں زہر ملا کر دے دینا۔بطخ میاں نے اپنے مالک سے حامی تو
بھر لی لیکن گاندھی جی کو انھوں نے دودھ کی سچائی بتا دی۔بابوراجند پرشاد
جو بعد میں آزاد بھارت کے پہلے صدر جمہوریہ بنے، اس سانح کے گواہ تھے۔
گاندھی جی کی زندگی تو بچ گئی لیکن بطخ میاں کوبہت کچھ بھگنتا پڑا۔ان کو
بہت ہی عزیتیں دی گئیں،ان کو جیل میں ڈالا گیا، ان کا گھر مسمار کر دیا
گیااور گھر والوں کو گاؤں سے نکال دیاگیا۔۱۹۵۰ء میں جب ڈاکٹر راجندر
پرشادجی نے موتی ہاری کا دورہ کیا تو ان کوبطخ میاں کی قوم پرستی
اوروفاداری یاد آگئی اور انھوں نے بطخ میاں کو ۲۴؍ایکڑ زمین دیے جانے کاحکم
دیا۔بطخ میاں سات سال زمین کو پانے کے لیے ایک دفتر سے دوسرے دفتر بھاگتے
رہے اور آخیر میں ان کو 6x3فٹ کی ہی زمین مل سکی جس میں وہ دفن کر دیے
گئے۔حالانکہ اتنی زمین ہر مسلمان کے مرنے کے بعد اس کا حق ہوتا ہے بطخ میاں
کو بھی اسی حق کے تحت مرنے کے بعد زمین ملی، اس میں حکومت کی کسی طرح کی
مہربانی شامل نہیں تھی۔
یہ ہمارے ملک کا نظام ہے جوشروع سے ہی کرپشن آلود ہے۔مغل شہنشاہ اورنگزیب
کے جاری کردہ
فرمان اور جائداد آج بھی مندروں کے مہنتوں کے پاس موجود ہیں اور جائداد کا
فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔لیکن جمہوری شہنشاہ ڈاکٹر راجند پرشاد جی کا حکم آج
بھی نا قابلِ عمل ہے۔
بطخ میاں کے انتقال کے پچاس سال بعدان کی کہانی ایک اخبار میں شائع ہوئی
اور اس وقت کی صدرجمہوریہ محترمہ پرتبھا پاٹل حالات سے آگاہ ہوئیں تو انھوں
نے بطخ میاں کے وارثان جن میں پانچ پوتے ہیں کو انصاف دینے کی سوچی اور اسی
سلسلہ میں انھوں نے اپنے OSD کو یہ ہدایت دی کی مقامی ضلع مجسٹریٹ اور بہار
حکومت کو کہیں کہ بطخ میاں کے وارثو ں کو تلاش کریں اور ان کو جلد سے
جلدزمین الاٹ کی جائے۔
بطخ میاں کے پوتوں کی حالت ابھی جوں کی توں بنی ہوئی ہے۔وزیر اعلی بہار
نتیش کمار جی نے بھی علاقائی کمشنر ، ترہُت، کو حکم جاری کر دیا ہے کہ ان
کے خاندان کی مدد کی جائے اور جلد از جلد مدد کیے جانے کے سلسلہ میں پرپوزل
پیش کیا جائے۔بہر حال ان احکامات سے یہی پتہ چلتا ہے کہ حکومت کی توجہ تو
حاملہ ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ حمل وضع ہوتا ہے یا ضائع ہوتا ہے۔
یہ بڑے ہی تعجب کی بات ہے کہ بطخ میاں کی ہمت اور وفاداری کی وجہ سے گاندھی
جی کی جان بچی اورگاندھی جی نے انگریزوں کے ساتھ امن کی جنگ لڑ کرغلام
بھارتیوں کوآزادکرایا اور ان کو آزاد بھارت کا تحفہ دیا اور عوام نے ان کو
بابائے قوم مانا۔ لیکن یہ خاکی کچھا بنیائن والے بھارت کی تاریخ میں گھپلا
کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور باپو کے قاتل کو ہیرو بنا کر پیش کررہے ہیں اور
اس کے علاوہ ان کو بھگوان کا درجہ دے کر مندر بھی بنا دیا گیا۔اس طرح کی
نیچ سوچ والوں کو کیا کہا جائے گا؟یہ وہی لوگ ہیں جواپنے کو ’راشٹروادی‘
بتلائیں گے لیکن اپنے دفتر پر قومی پرچم نہیں پھہرائیں گے۔
'ذرا یاد کرو قربانی! |
|