ایک زمانہ تھا کہ جب زندگی کی مختلف صورتوں
میں تبدیلی کا مطلب ان صورتوں میں اضافہ یا ان کا ارتقا ء تھا یہی وجہ ہے
کہ صدیوں تک ان الفاظ کا تعین ایک ہی سمت میں رہا ہے لیکن اب دنیا نے جانے
کیسی کروٹ لی ہے کہ اب زندگی کی مختلف صورتوں میں اس کے مطالب بھی مختلف
ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے اس کے معنی و مفہوم صبح و شام بدل رہے ہیں ۔ انسان
کے اندر پائے جانے والی کیفیات یا جذبات کا تعلق اس کی سرگرمیوں پر منحصر
ہوتا ہے جو اس کی خواہشات کا آئینہ دار ہوتا ہے ۔ انسان کی سب سے بڑی خواہش
ہوتی ہے کہ وہ دنیا میں اپنی ایک منفرد پہچان بناکر خود کو روشناس کروائے ،
لوگ اس کا احترام کریں ، اس کی بات کو سنیں اور اس کے کام کو سراہیں ۔ وہ
جانتاہے کہ وہ دنیا میں اکیلا نہیں رہ سکتا اور کسی کے ساتھ مل کر رہنے میں
جہاں اس کا تحفظ ہے وہیں اس کی خواہشات کی تکمیل بھی ممکن ہے ۔ بین
الاقوامی تعلقات قوانین کے مطابق موجودہ زمانہ میں بہتر تعلقات کی بنیاد پر
ہی ترقی ممکن ہے لہٰذا کسی بھی طرح سے جنگی جنون کی بدولت نہ تو لوگوں کے
دلوں پر راج کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اپنی بات منوائی جاسکتی ہے ۔ البتہ
موجودہ دور میں جس قدر تعلقات کے فن کو عروج حاصل ہورہا ہے تعلق کا زوال
اتنا ہی شدید اور گہرا ہوتا جارہا ہے لیکن اس بات کو مد نظر رکھنا چاہئے کہ
ہم تعلق کے بغیر تو شاید زندہ رہ سکتے ہیں مگر تعلقات کے بغیر موجودہ دور
میں زندگی کا تصور نہیں کیا جاسکتا کیونکہ معاشرتی کامیابی کا پھل تعلق کی
بجائے تعلقات کے پیڑ پر لگتا ہے اسی لئے ہمیں معاشرتی تعلقات کے پھل سے زیا
دہ کسی اور شے کو اہمیت نہیں دینی چاہئے ۔ تعلق میں ایک انسان دوسرے انسان
سیرابطے میں رہتا ہے جبکہ تعلقات کی بدولت انسانوں کے بجائے انسانوں کی
خواہشات ان کی ضروریات اور مجبوریاں ایک دوسرے کے رابطے میں رہتی ہیں ۔ جب
ہم تعلق اور تعلقات کا نفسیاتی جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ
تعلق کے بطن سے آرزو یا خواہش جنم لیتی ہے گویا ہم اس بات کو کہنے میں حق
بجانب ہیں کہ تعلقات کے قیام سے خواہشات کی تکمیل ممکن ہے ۔ یہ ایک ایسا
لطیف ذائقہ ہے کہ بعض اوقات ہم اپنی بھی نہیں سنتے یعنی اپنی انا کے خلاف
اپنی خودی کا قتل بھی کردینے کو تیا ر ہوجاتے ہیں چاہے اس کے بعدازاں اثرات
کچھ بھی برآمد ہوں ہم اپنی خواہش کی تکمیل میں سر تن کی بازی لگانے کو تیار
ہوجاتے ہیں ۔ یہ ایک ایسی کیفیت ہے کہ اس میں گرفتار ہر فرد اپنی خواہشات
کے مدار کے گرد گردش کرتا ہوا نظر آتا ہے جس طرح نظام شمسی کے گرد مختلف
سیارے ایک دوسرے کے قریب گردش کررہے ہوتے ہیں ۔
بھارت کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی بھی اپنی خواہشات کے مدار کے گرد
گردش کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔ انہوں نے اپنی خواہشات کی تکمیل کیلئے
کیا کچھ نہیں کیا ۔ایک عام چائے فروش سے بھارت کی ایک اہم ریاست کے
وزیراعلیٰ بنے، اپنی مذہبی لحاظ سے خواہش کی تکمیل کیلئے انہوں نے مسلمانوں
کا قتل عام کیا جس کی کسی بھی لحاظ سے کوئی بھی مہذب معاشرہ اجازت نہیں
دیتا لیکن کیونکہ ان کی انا پرستی ہر بات اور عمل کے سامنے بڑی رکاوٹ بنی
رہی ہے لہٰذا انہوں نے جو کیا ان کیلئے باعث اطمینان اور سکون قلب تھا۔
وزیراعلیٰ بننا ان کی خود نمائی کا پہلا مرحلہ تھا جس نے ان کی خواہشات کو
اور دوام بخشا اور بالآخر وہ گزشتہ برس سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار ملک
کے وزیراعظم بن گئے ۔ ان کا وزیراعظم بننا جہاں خود ان کیلئے بہت اہم اور
خوش کن تھا بلکہ ان تمام ہندو انتہا پسندوں کیلئے خوشی کا باعث تھا جن کی
درینہ خواہش تھی کہ ملک میں ہندو ازم کو تقویت ملے اور جہاں کہیں بھی
مسلمان موجود ہیں ان کیلئے عرصہ دراز تنگ کیا جائے اور ہوا بھی اس کے عین
مطابق،مودی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی ایک جانب تو بھارت بھر میں مسلمانوں
کے خلاف محاذ کھول دیا گیا، مسلم کشی کو فروغ ملا، کئی علاقوں میں یہ بھی
ہوا کہ وہاں موجود مسلم افراد کو مسلسل تشدد کا نشانہ بنا یا گیا بلکہ ان
کا حقہ پانی بھی بند کردیا اور تمام بنیادی مسائل کا حل ہندو مذہب اپنانے
سے مشروط بھی کردیا گیا ۔ دوسری جانب مودی کی حلف برداری کی تقریب میں میاں
محمد نواز شریف کی شرکت سے امیدین وابستہ کی گئی تھیں کہ وہ اس اہم موقع پر
وہ پاکستان کے ساتھ برادرانہ تعلقات کی جانب بڑی پیش قدمی کریں گے لیکن
صورت حال اس کے برعکس رہی اور انہوں نے انہیں نہ صرف چارج شیڈ تھما دی بلکہ
ان کے دور کے آغاز کے ساتھ ہی لائن آف کنٹرول کی کھلم کھلا خلاف ورزی
انتہائی حد تک بڑھی اور ساتھ ساتھ بھارت کی نومنتخب حکومت کی جانب سے اس کی
مکمل حمایت بھی کی گئی ۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان ڈیڈ لاک کی بنیادی
مسئلہ کشمیر کا ہے جس پر کسی قسم کی پیش رفت کی بجائے اقوام متحدہ کی جانب
سے منظور شدہ قرار دادوں سے روگردانی کرتے ہوئے اسے اندرونی معاملہ قرار
دیا گیا جو عالمی بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے ۔ پاکستان کی جانب سے
ہر بار کوشش کی گئی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات قائم ہوں اور
ماضی کی تمام تلخیوں کو بھلا کر ایک نئے دور کا آغا ز کیا جائے جس سے دونوں
ممالک غربت ، مہنگائی ، صحت سمیت دیگر مسائل کا باہم حل کرسکیں جو یہاں کی
تعمیرو ترقی کی راہ میں بڑ ی رکاوٹ ہے ۔ بھارت کا خطہ میں اپنا اثرورسوخ
بڑھانے کا عزم کم نہ ہوا اوراس نے افغانستان کے راستے پاکستان میں دہشتگردی
کی فضا قائم کی اور ملک میں موجود علیحدگی پسندوں کو پاکستان مخالفت پر بھر
پور اکسایا تاکہ ملکی سلامتی کو خطرات لاحق ہوں ، بھارت کے پاکستان مخالف
کارروئیوں کے شواہد موجود ہیں اور مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی جانب سے یہ
تمام تر شواہد اقوام متحدہ کو پیش بھی کئے گئے لیکن ان پر کوئی ردعمل نہیں
آیا ۔ دونوں ممالک کے تعلقات کی عدم بہتری کے باعث ایک جانب دونوں ممالک کے
عوام میں پریشانی بڑھ رہی ہے تو دوسری جانب خطہ میں پائیدار امن کے قیام کا
خطرہ بھی بڑھ رہا ہے ایسے میں ضرورت اس امر کی تھی کہ خارجہ سیکٹریز کی سطح
پر مزاکرات کا آغاز ہو اور ترقی راہ میں حائل رکاوٹوں کا خاتمہ کیا جاسکے ۔
بین الاقوامی تعلقات کے لحاظ سے یہ بات نہایت اہمیت کی حامل ہے کہ جنوبی
ایشیا میں حالات بڑی تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں ، عالمی طاقتوں کو اس امر کا
بخوبی ادراک ہے کہ جب تک بھارت اپنی ہٹ دھرمی نہیں چھوڑتا اور جب تک
افغانستان میں امن قائم نہیں ہوتا جنوبی ایشیا سے وابستہ ان کے تجارتی اور
دیگر مفادات کی راہ میں رکاوٹ حائل رہے گی ۔
پیرس میں ہونے والی عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں مودی کی وزیراعظم پاکستان
سے ملاقات سے یہ تاثر ملتا ہے کہ شاید وہ اس صورتحال سے باخبر تھے اور قیرن
قیاس یہی تھا کہ اس ملاقات کے بعد مزید پیش رفت ہوگی اور ہوا بھی کچھ اسی
طرح جب بھارت کی وزیرخارجہ ہارٹ ایشیا کانفرنس میں شرکت کیلئے اسلام آباد
آئیں اور انہوں نے باور کروایا کہ وہ خیر سگالی کے جذبے کے تحت پاکستان آئی
ہیں تاکہ پاک بھارت تعلقات کی بہتری کی جانب قدم بڑھایا جائے ۔ اس کانفرنس
کی بدولت دونوں ممالک کو حقیقی طور پر عرصہ دراز کے بعد موقع ملا کہ وہ بات
چیت کے ذریعے اپنے اختلافات کو طے کرلیں ۔ 25دسمبر 2015کو نریندر مود ی کی
روس سے واپسی پر اچانک پاکستان آمد نے باہمی تعلقات کی بہتری کی جانب ایک
اور موثر اقدام ثابت ہوا۔ بھارت کی جانب سے یکسر پاکستان کی جانب نیک جذبات
کے ساتھ پیش قدمی کرنا کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے کہ یہ سب کیسے ممکن
ہواجبکہ مودی جس دن سے بھارت کے وزرات عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے ہیں تب
سے مسلمانوں بالخصوص پاکستان کے خلاف زہر اگلتے نہیں تھکتے ہیں ۔ انہوں نے
کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا جس سے پاکستان کی جگ ہنسائی نہ ہو۔ ان کی
گردن میں سریا فٹ ہے ، وہ کسی بھی موڑ پر جھکنے کے قائل نہیں ہیں ، ہمیشہ
مخالف کو جھکنے پر مجبور کرنا ان کا خاصہ رہا ہے ۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ
ان تمام اقدامات کے پس پشت امریکہ کا ہاتھ ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ چونکہ اس
وقت پاکستان میں سول مارشلا ء نافذ ہے اور اس وقت میں ملرٹی قیادت اہم
کردار ادا کررہی ہے لہٰذا امریکہ نے جنرل راحیل شریف اور مودی کو مزاکرات
پر قائل کیا ہے ۔ روس سے واپسی پر مودی کے اچانک دورے سے امریکی حکام آگاہ
تھے یعنی یہ تاثر زائل ہوجاتا ہے کہ مودی کا لاہور کا دورہ اچانک تھا
حالانکہ امریکہ نہ صرف اس سے آگاہ تھا بلکہ اس کا حامی بھی تھا کہ بھارتی
وزیراعظم پاکستان سے ہوتے ہوئے اپنے ملک جائیں جبکہ کانگریس کے اہم رکن کا
دعویٰ ہے کہ یہ مودی کی بین الاقوامی سطح پر مقبولیت کے حوالے سے ایک چال
ہے ۔ مودی کو خبروں میں رہنے کا ہنر آتا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ وہ بین
الاقوامی سطح پر زیر بحث رہیں ۔ ان دنوں ان کے ذہن میں نوبل پرائز کا حصول
ہے اور وہ چاہتے ہیں لوگ انہیں اچھے القابات سے یاد کریں۔ ان کا آئیڈیل ان
دنوں امریکی صدر بارک اوبامہ ہیں جنہیں نوبل انعام برائے قیام امن مل چکا
ہے ۔ ان کا مقصد ہے کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت والے ملک کے نوبل
انعام یافتہ وزیراعظم کے طور پر تاریخ میں پہچانے جائیں ۔
ہم سمجھتے ہیں کہ خطہ میں قیام امن واقعی کسی نوبل کا م سے کم نہیں لیکن طے
یہ ہے کہ اس کے قیام میں نیک نیتی اور خلوص کو مدنظر رکھا جائے اور جب بھی
امن قائم ہوگا یقینی طور پر ہر اس فرد کو یاد رکھا جائے گا جس نے اس کیلئے
کام کیا ہوگا فقط نوبل انعام کا حصول ہی کافی نہیں کہ امن کا قیام اس کی
خاطر کیا جائے ۔ |