ذبیحۂ گاؤ پر پابندی اِک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
(Rameez Ahmad Taquee, Karachi)
گذشتہ کئی صدیوں سے بڑے کے ذبیحہ کو لے
کرہندوستان کی جمہوری فضاء کو پلید کرنے کی ناپاک کرنے کوششیں کی جار ہی
ہیں۔ جب بھی آرایس ایس اور بی جے پی کو کہیں موقع ملا انہوں نے اس مسئلہ کو
لے کرعوام کے مابین تفرقہ پھیلانے کی ضرور کوشش کی ،مودی کی موجودہ حکومت
میں اس معاملے نے اور طول پکڑ لیا ہے، کئی صوبوں میں بڑے کے ذبیحہ کی خریدو
فروخت اور کھانے پر پابندی عائد کردی گئی ہے، اس سلسہ میں ہریانہ حکومت کا
فیصلہ بھی انتہائی چونکا دینے والا ہے کہ جو کوئی بھی اس کا مرتکب ہوگا،
اسے دس سال کی سزا ہوگی۔ مگراس میں مضمر عملی سوال یہ ہے کہ آخر اس طرح کے
بے تکا فیصلے کہ پیچھے کس قسم کی سیاست کارفرما ہے ؟ کیا گائے یا بڑے کا
ذبیحہ کسی مذہب میں ممنوع ہے ؟ یا پھر یہ ان کی اپنی مذہبی تعلیم سے بغاوت
اورجہالت کے باوصف کسی مذہب یا فرقہ کے لوگوں کو بے جا پریشان کرناہے؟ اس
لیے کہ روئے زمین پر جتنی بھی مخلوقات ہیں وہ کسی نہ کسی درجہ میں انسان کے
تابع ہیں اور انہیں صرف اور صرف ان کی نفع رسانی کے لیے پیدا کیا گیا ہے،
ان مخلوقات میں سے بعضے کو انسان اپنے کام کاج اور بعضے کو غذا کے طور پر
استعمال کرتا ہے ۔ اس کا ثبوت دنیا کے تمام مذاہب میں یکساں ملتا ہے نیز
عقلی اور طبی نقطۂ نظر سے بھی یہ بات صحیح معلوم ہوتی ہے ،چونکہ انسان کی
تخلیق دیگرتمام حیوانات سے مختلف ہے اس لیے اس کی غذا بھی ان کے مقابلہ میں
مختلف ہونی چاہیئے؛ اس لیے کہ انسان اپنی فطری مضبوط قوتِ ہاضمہ کے باوصف
گوشت اور سبزی دونوں قسم کی غذا ؤں کو ہضم کرسکتا ہے ،جبکہ دیگر حیوانات
میں یہ خوبی ودیعت نہیں کی گئی ہے۔ ان کی غذا یا تو صرف گوشت ہوتی ہے،یا
صرف نباتات ، بہت کم ہی جانور ایسے ہیں جو دونوں قسم کی غذاؤں کو برداشت
کرلیتے ہیں ؛ شیر اور دیگر اس قسم کے درندوں کی خوراک صرف گوشت ہے،ان کا
ہاضمہ سبزی وغیرہ کو کبھی بھی برداشت نہیں کرسکتا، یہی کیفیت گائے، بیل
،بھینس بکری اور اس جنس سے متعلق دیگرجانوروں کی ہے کہ ان کی غذا صرف سبزی
ہی ہے، اگر ان کے سامنے گوشت پیش کیا جائے تو اس کو کھانا تو دور کی بات اس
میں وہ منہ تک نہیں لگاتے۔نیز گوشت کے اندر اعلیٰ قسم کی پروٹین ہوتی ہے
روئے جو زمین کے کسی بھی نبات کے اندر نہیں پائی جاتی ۔اور جسمانی قُوَ یٰ
کے لیے ایک اعلیٰ قسم کی پروٹین کی کتنی زیادہ اہمیت ہے اس کا احساس توعلم
طب پڑھنے کا بعد ہی ہوسکتا ہے۔نیز اگر تمام انسان سبزی خور ہوجائیں، تو
پوری دنیا میں صرف گائے کی ہی اتنی بہتات ہوجائے گی کہ لامحالہ اس کی نسل
کشی کرنی پڑے گی۔ ’ٹائمس آف انڈیا‘ کی خبر کے مطابق سوسال پہلے ہندوستان
میں چالیس ہزار ٹائیگر تھے، جبکہ ابھی صرف بیس ہزارباقی ہیں، یعنی گذشتہ سو
سالوں میں بیس ہزار ٹائیگروں کا شکار ہوا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر سال
دوسو ٹائیگر وں کا شکار کیا جاتا تھا، اسی لیے یہ گمان کیا گیا کہ اگر
ٹائیگروں کے شکار پر روک نہیں لگائی جاتی،تو آج تک پورے ہندوستان کے جنگلات
سے کب کاٹائیگروں کا خاتمہ ہوچکا ہوتا،اس کے بر خلاف ہر سال کروڑوں کی
تعداد میں گائے ذبح اور قربان کیے جاتے ہیں ، اس کے باوجود گائے کی تعداد
میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے ۔ پورے سال میں صرف دوسو ٹائیگر کے
شکارہوجانے سے اس کی تعداد گھٹنے لگی ، لیکن آخر کیا وجہ ہے کہ ہرسال
کروڑوں کی تعداد میں گائے ذبح کرنے سے اس کی تعداد میں کوئی کمی واقع نہیں
ہوئی ؟اس سے بھی صاف ظاہر ہوتا ہے کہ قدرت نے اس کو انسانوں کے لیے حلال
قراردیا ہے ،اس لیے کہ انسان جس چیز کو کثرت سے استعمال کرتا ہے اللہ
تعالیٰ اس کی پیداوار میں فراوانی پیدا کردیتے ہیں، اب اگرصرف گائے، یا
مزید اس کے جنس سے متعلق جتنے بھی چھوٹے بڑے جانور ہیں، ان کے ذبیحہ پر
پابندی لگادی جائے تو ان کی اتنی بہتات ہوجائے گی کہ اس کو سنبھالنا خود
حکومتِ وقت کے لیے بھی دشوار ہوجائے گا۔
بعض حقیقت ناشناس لوگوں کا یہ خیال ہے کہ گوشت کھانا ہندو مذہب میں ممنوع
ہے ، یہ سراسر اس مذہب پربہتان ہے ؛ اس لیے کہ گوشت کھانا ہندو مذہب میں نہ
صرف جائز ہے بلکہ عظیم عبادت ہے۔اس مذہب کی مقدس کتا بوں کے مطالعہ سے یہ
بات ظاہر ہوتی ہے کہ بعض موقع پر گوشت کھانا فرض ہے ،یہاں تک کہ اگر کوئی
اس موقع پر گوشت کھانے سے انکار کردے تو وہ سیدھے نرک(جہنم) میں جائے گا ؛
چنانچہ’ وِشنو دھرموتر پوران‘ جلد :۱، پارہ: ۱۴۰ اور شلوکہ ۴۹ اور ۵۰ میں
مذکور ہے کہ جو شخص شرادھ میں گوشت نہیں کھائے گا وہ نرک میں جائے گا۔ بلکہ
ہندو مذہب کی دوسری کتاب ’مانو سمورتی‘ نے اسی بات کو ذراسخت انداز میں یوں
بیان کیا ہے کہ اگرکسی نے شرادھ کیا اور اس نے گوشت نہیں کھایا،تو وہ اکیس
سالوں کے پُنہ جنموں میں بَلی کا جانور بنا کر پیدا کیا جائے گا۔(مانو
سمورتی: پارہ ۵، شلوکہ ۳۵)،اسی طرح ’مہابھارت انوشاشن پَرو‘ پارہ: ۸۸ میں
یودھشتھرا اور پِتما بھشماکے مکالمے کو ذکر گیا ہے کہ شر ادھ میں کیسا
کھانا ہونا چاہیئے کہ مرنے والے کی آتما کو خوب اور لمبا سکون حاصل ہو ،
چنانچہ یودھشتھرا نے بھشما سے سوال کیا کہ گُرو جی! مجھے بتایئے کہ شَرادھ
میں کس قسم کا کھانا پیش کرنے سے ہمارے پُروجوں کی آتما کو دائمی سکون حاصل
ہوتا ہے؟ تو بھشما نے جواب دیا کہ ائے یودھشتھر میری بات سن! اگرشرادھ میں
راجمہ، چاول، جَو،دَلیا، پانی اوردیگر میوہ جات پیش کیا جائے تو اس سے اس
مہینہ تک اس کی آتما کو شانتی ملتی رہے گی، مچھلی سے دو مہینے تک ، مَٹن کی
وجہ سے تین مہینے تک، خرگوش کے گوشت سے چار مہینے تک، بکری کے گوشت سے پانچ
مہینے تک ، کم عمر خنزیر کے گوشت سے چھہ مہینے تک ، چڑیوں کے گوشت سے سات
مہینے تک ، ہرن کے گوشت سے آٹھ مہینے تک،جوان عمر ہرن کے گوشت سے نو مہینے
تک اور عمررسیدہ کے گوشت دس مہینے تک، بھینس کے گوشت سے گیارہ مہینے تک،
گائے کے گوشت سے تمام سالوں تک ، جوان عمر بیل کے گوشت سے بارہ سال تک۔ نیز
’مانوسمورتی‘ کے پارہ: ۵ اور شلوکہ ۳۰ میں ہے کہ جانوروں کا گوشت کھانے میں
کوئی بُرائی نہیں ہے ، اس لیے کہ اِشور(اللہ تعالیٰ) نے بذات خود بعض کو
آکل اور بعض کو ماکول بنایا ہے ۔گوشت کھانے کی حلت ، بلکہ اس کا حکم ویدوں
میں بھی موجود ہے، جوکہ ہندومذہب کی انتہائی مقدس کتابوں میں شمار کی جاتی
ہیں؛چناچہ’ رِگ وید‘ جلد:۱، پارہ ۲۷ اور شلوکہ ۲ میں یہ مذکور ہے کہ جب میں
اپنے پیروکاروں کو ناستکوں پر فتح عطا کروں توان کے لیے گھروں پر کڑیل
بیلوں سے ضیافت کرو۔نیز ریگ وید ۱۰،۸۵،۱۳ میں یہ مذکور ہے کہ لڑکیوں کی
شادی کے موقع پر بیل اور گائے ذبح کرنا چاہیے اور اسی رِگ وید کے جلد: ۱،
پارہ ۶ اور شلوکہ ۱۷ میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ ہندو مذہب کے اوتار شری
اندرا گائے، بچھڑا، گھوڑا اور بھینس کا گوشت کھایا کرتے تھے۔ اور
’مانوسمورتی‘کے پارہ تین، شلوکہ ۲۲۶ اور ۲۲۷ میں یہ مذکور ہے کہ
ان(پیروکاروں) کو چاہیئے کہ وہ اپنے پنڈتوں کے سامنے موسم کے پھل ،جوس،
میوہ جات، دودھ، دہی، خالص مکھن ،شہد اور مختلف اقسام کے وہ کھانے جن
کوتفکہ کے طور پرکھایا جاتا ہے، نیز پھل پھُلیری ، مزے دار گوشت اور
خوشبودار پانی پیش کریں۔ ’ مہابھارت شانتی پرو‘ پارہ: ۲۹ میں رانتی دیو
نامی ایک بادشاہ کی کہانی بیان کی گئی ہے جو بہت زیادہ مالدار اور فیاض
تھا، وہ روزانہ ہزاروں لوگوں کی دعوت کیاکرتاتھا، اس کے بارے میں لکھاہے کہ
رانتی دیو کے محل میں ہر قسم کے برتن اور پلیٹ جن میں کھانا پیش کیا جاتا
تھا، اسی طرح تمام لوٹے ، پاندان، کھانے کے پلیٹ اور پیالے سب کے سب سونے
کے بنے ہوئے تھے، ان ایام میں جب مہمان رانتی دیو کے محل میں قیام پذیر
ہوتے تھے ،تووہ ان کی ضیافت کے لیے بیس ہزار ایک سو گائے ذبح کرواتاتھا اور
یہ بھی بسا اوقات کم پڑجاتا تھا۔
ان حقائق وشوہدات اور واقعات کی روشنی میں جبکہ یہ سو فیصد صحیح بھی ہیں تو
مذہب کو بنیاد بناکر اس کی آڑ میں گوشت پر پابندی عائد کرنا کہاں کی دانش
مندی ہے؟ اورویسے بھی ہندو مذہب کی کسی بھی مذہبی کتاب میں یہ مذکور نہیں
ہے کہ گائے اس کی مذہبی جانور ہے اور اس کو ذبح کرکے کھانے والا نرک میں
جائے گا۔ یہی وجہ تھی کہ جب ہندوستان کی سابق وزیر اعظم آنجہانی اندرا
گاندھی جی سے کسی موقع پر گائے کشی کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب
دیا کہ دراصل قدیم زمانے میں ہندوستانی کسانوں کی پوری کاشت گائیوں پر
موقوف تھی؛ اس لیے بعد کے زمانے میں اس کو محترم سمجھا جانے لگا۔یہ ایسا ہی
ہے کہ اگر کسی کو لیمن بہت پسند آگیا ،وہ اسے عبادت کی جگہوں میں استعمال
کرنے لگا، اب اگر وہ یہ کہے کہ لیمن میرا مذہبی پھل ہے اس لیے کوئی اس کو
نہ کھائے ورنہ ہم اس کے خلاف اعلانِ جنگ کریں گے ، اب آپ ہی بتائیے کہ کیا
کوئی کم عقل انسان بھی اس فیصلے کو درست کہے گا،نیزہندو مذہب کے عظیم مبلغ
سوامی ویویک آنند نے لکھا ہے کہ’ ایک انسان اس وقت تک اچھا ہندو نہیں
ہوسکتا جب تک وہ بڑے کا گوشت نہ کھائے ‘(The Complete Works of Swami
Vivekanand, vol.3, p. 536)۔اس لیے ہم حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ان بے
بنیاد باتوں کی آڑ میں لوگوں کی ان کی ذاتی اور جمہوری حقوق سے محروم نہ
کرے اور جن صوبوں میں اس طرح کا غیرفطری حکم نافذ کیا گیا ہے، یا نافذکرنے
کی بات کی جارہی ہے، ان کے خلاف سخت قانونی کاروائی کرے اور عام لوگوں کو
ان کا صحیح حق دے کر ان کے لیے ہندوستان کی جمہوری فضاء کو خوشگوار بنانے
کی سبیل پیدا کرے۔ |
|