جنرل راحیل کی مدت ملازمت میں اضافہ

آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں اضافہ (ایکسٹنشن) میڈیا میں ایک موضوع بحث بنا ہوا ہے اور وقت سے پہلے ہی اس معاملے پر بہت زیادہ دیرینہ خیالات اور تفکرات کی طبع آزمائی کی جا رہی ہے یہاں تک کے ٹی وی پروگراموں میں ایسٹرولوجسٹس سے بھی پوچھا جا رہا ہے کہ جنرل راحیل شریف کو ایکسٹشن ملے گی یا نہیں۔ ظاہر ہے کہ میڈیا کے لئے اس دلچسپ سوال کے جواب میں اور زیادہ دلچسپ جوابات سامنے آ رہے ہیں جو بڑی حد تک وزیراعظم نواز شریف یہاں تک کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے لئے بھی تسلی و تشفع کا باعث بن رہے ہیں۔کہا جا رہا ہے کہ جنرل راحیل شریف ایک پروفیشنل اور کمیٹڈ سولجر ہیں وہ اپنی مدت ملازمت میں اضافہ نہیں چاہتے اور وہ اپنے وقت پر ریٹائرمنٹ لے لیں گے جبکہ دوسری طرف وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی طرف سے یہ گمان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہ جنرل راحیل کی کارکردگی اور آپریشن ضرب عضب کی کامیابی کی وجہ سے انھیں مدت ملازمت میں توسیع کی پیشکش (ایکسٹنشن آفر) کریں گے اسے قبول کرنا یا اس پیشکش کو مسترد کرنا جنرل راحیل کا اختیار ہو گا۔مزید برآں اس سلسلے میں مختلف سروے بھی کروا کر یہ ثابت کیا جا رہا ہے کہ جنرل راحیل شریف عوام میں بہت زیادہ مقبو ل ہیں لہذا انھیں اپنی مدت ملازمت میں توسیع قبو ل کر لینی چاہیے۔ اس حوالے سے راقم الحروف چند گزارشات قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہے ۔ سب سے پہلے تو ہمیں یہ طے کرنا ہو گا کہ پاکستان ایک جمہوری سوسائٹی ہے یا نہیں؟ کیا پاکستان میں قانون و آئین نامی کوئی چڑیا بستی ہے یا نہیں؟کیا پاکستان میں حکومت ایک منتخب اور جمہوری سیاسی حکومت ہے یا نہیں؟کیا پاکستان آرمی ایک ایسا ریاستی ادارہ ہے کہ نہیں کہ جس کا نظم ضبط دنیا میں مثالی ہے یا نہیں؟ کوئی بھی بات لکھنے سے پہلے یہ تمام سوالات کئے جانے نہایت ضروری تھے تاکہ یہ واضح ہو سکے کے ہم کس تناظر میں بات کو آگے بڑھا رہے ہیں۔اگر پاکستان یہ جمہوری ریاست ہے اور یہاں تمام اقدامات آئین قانون کے تحت اٹھائے جاتے ہیں تو میڈیا میں اس قسم کی بحث کو آنا ہی نہیں چاہیے کہ آرمی چیف کو ایکسٹنشن ملے کی یا نہیں ، کیونکہ دنیا کہ کسی بھی جمہوری ملک میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ جہاں آرمی چیف کی ایکسٹنشن کا فیصلہ میڈیا پر ہو رہا ہو ۔ ہمیں پاکستان آرمی پر ایک ادارے کی حیثیت سے بھروسہ کرنا چاہیے لیکن بد قسمتی سے ہم یہاں بھی شخصیت آگے لانے کی کوشش کر تے ہیں اور اداراہ کہیں پیچھے رہ جاتا ہے۔ یہ کام ہم میڈیا والے اس لئے بھی کر رہے ہوتے ہیں کہ ہمارے یہاں ہر میڈیا گروپ کے اپنے اپنے ایجنڈے اورپسند نا پسند ہوتی ہے لہذا وہ ٹی وی پروگراموں میں اور اپنے اپنے اخباروں اور رسائل کے ذریعے سروے کروا کے آرمی چیف کی مقبولیت کو ثابت کر رہے ہوتے ہیں او ر اس طرح وہ آرمی چیف سے اپنی وفا داری بھی کہیں نہ کہیں ثابت کر رہے ہوتے ہیں۔ مگر ہمیں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ پاکستان سمیت دنیا کی کسی بھی جمہوری ملک میں کسی بھی شخصیت کی سیاسی یا حکمرانی کی حیثیت کی جانچنے کا پیمانہ صرف اور صرف الیکشن ہے۔ سروے کے ذریعے کسی بھی شخض کی سیاسی مقبولیت کا اندازہ لگانا ملک میں غیر جمہوری طاقتوں کو اقتدار میں لانے کے مترادف ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جنرل راحیل شریف ایک پروفیشنل سولجر ہیں اور اب تک کے ان کے رویے سے یہ بات بڑی حد تک ثابت ہوتی ہے کہ انھیں سیاست یا اقتدار سے کوئی دلچسپی نہیں۔ لیکن اس کے با وجود ہمارے کچھ صحافی بھائی اور کچھ میڈیا گروپ جنرل راحیل کی سیاست اور اقتدار میں دلچسپیاں بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہماری پارلیمنٹ کو اب اس معاملے پر بھی توجہ دینی ہو گی کہ وہ وزیراعظم کے اس صوابدیدی اختیار کا خاتمہ کرے کہ جس کے تحت ان کے پاس کسی بھی سینئر افسر کی موجودگی میں کسی جونیئر افسر کو آرمی چیف بنانے کا اختیار ہے۔پاکستان کے جمہوری نظام میں وزیراعظم کا اپنی مرضی سے سینئر کے مقابلے میں جونیئر افسر کو آرمی چیف بنانے کا آئینی اختیار بہت سی خرابیوں اور مسائل کو جنم دیتا ہے اور وہ اپنی ذاتی پسند و نا پسند کے حوالے سے پاکستان کے سب سے نمایاں اور اہم ترین ادارے کے سربراہ کا انتخاب کرتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ وزیراعظم کے اس صوابدیدی اختیار کے استعمال کے بعد بہتری آنے کے بجائے مسائل ہی پیدا ہوئے ہیں۔دوسری طرف یہ بات بھی اہم ہے کہ سینئر افسرکی موجودگی میں جونیئر افسرکو فوج کا سربراہ بنایا جانا سینئر افسر کی تضحیک اور نا انصافی کے مترادف ہے لہذا ایک جونیئر افسر کو آرمی چیف مقرر کئے جانے کے بعد زیادہ تر سینئر افسر احتجاجاً ریٹائرمنٹ پر چلے جاتے ہیں کیونکہ وہ اپنے سے جونیر افسر کو اپنا چیف تسلیم نہیں کر پاتے۔ اگر ہم انصاف کے تقاضوں کو پیش نظر رکھیں تب بھی یہ بات سمجھنا کوئی راکٹ سائنس نہیں کہ انصاف کے تضاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے جونیئر کو سینئر پر ترجیح نہیں دی جا سکتی اور کسی افسر کے ترقی پانے کے حق کو بغیر کسی معقول وجہ کے غضب نہیں کیا جا سکتا۔ جیسا کہ سینئر ترین جج کو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بنانے کا طریقہ اپنایا جاتا ہے اسی طرح پاک فوج میں بھی سینئر ترین افسر کو بغیر کسی بحث اور پسند اور نا پسند کے فارمولے کے ترقی دے دینی چاہیے تاکہ ملک کے اہم ترین ادارے میں بھی افسران کی ترقی کے حوالے سے عدل انصاف ایک نظام طے پا جائے۔رہی بات مدت ملازمت میں توسیع کی تو اس عمل سے بھی سینئر اور ترقی کے منتظر افسر کے خوابوں کا خون ہوتا ہے جو انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے۔ ہمیں اپنی فوج پر ایک شخصیت کو سامنے رکھ کربھروسہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ ہمیں پورے ادارے اور تمام افسروں پر بھروسہ کرنے کی عادت ڈالنا چاہیے ۔ آپریشن ضرب عضب حکومت پاکستان کا فیصلہ ہے اس فیصلے پر عملدرآمد صرف جنرل راحیل شریف کی نہیں پوری فوج کی ذمہ داری ہے۔ جنرل راحیل کی جگہ کوئی دوسرا افسر آئے ہمیں اس سے بھی اتنی ہی توقعات رکھنی چاہئیں جتنی کہ ہم جنرل راحیل سے وابستہ کئے ہوئے ہیں۔جنرل راحیل اپنی ذمہ داریاں نہایت احسن طریقے سے ادا کر رہے ہیں اور انہیں اپنا مدت ملازمت کے خاتمہ پر تمام تر پیشکشوں کے باوجود نہایت آبرومندانہ اور جرات مندانہ طریقے سے ریٹائرمنٹ لے لینی چاہیے تاکہ ملک میں نا صرف ان کا وقار اور بلند ہو، ان کی عزت تکریم میں اضافہ ہو بلکہ یہ ثابت بھی ہو سکے کہ پاکستان میں پاک فوج سمیت تمام ادارے آئین و قانون کے مطابق چل رہے ہیں ، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کی طرح پاک فوج میں بھی کسی افسر کے ساتھ نا انصافی نہیں ہوتی اور پاکستان مضبوط قدموں کے ساتھ ایک مستحکم جمہوری معاشرہ بننے کی طرف سفر کر رہا ہے۔

Riaz Aajiz
About the Author: Riaz Aajiz Read More Articles by Riaz Aajiz: 95 Articles with 61556 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.