اسلام میں مختلف نظام ہائے حکومت کی گنجائش (آخری حصہ)


لیکن کیا کیجئے گا داعیانِ خلافت کا، کہ ایک امت، ایک ریاست. یعنی ایک عالمگیر خلافت کے سوا کسی بھی اور نظام پر اسلام کے در مقفل کیے بیٹھے ہیں۔ گویا کہ اسلام ذاتی جاگیر ہو جیسے۔ جب کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے لے کر فقہائے امت تک کسی نے بھی اس در پر قفل چڑھائے نہ انہیں غیر اسلامی جانا، کہ خلافت راشدہ سے خلافت عثمانیہ تک کی تقریباََ چودہ صدیو ں میں ماسوائے 116سال کے مختلف امارتوں، سلطنتوں اور ایک سے زائد خلافتوں کے نظام رائج رہے۔

ان سلطنتوں کا نظام مختلف ہونے کے باوجود چونکہ اسی نظریہ پر استوار رہا جو شریعت کی بالا دستی کا قائل ہے۔

اور فرمانروا جو خلیفہ، سلطان، ملک اور امیر وغیرہ خواہ کسی بھی نام سے ہو، کو پابند کرتا ہے کہ وہ حاکم اعلیٰ کے خلیفہ ہونے کے ناتے اسی کی نیابت کرتے ہوئے اسی کے تفویض کردہ اختیارات کو اسی کے اوامر و نواہی (احکامات ) کی روشنی میں. یا شارع علیہ الصلوٰۃ و السلام کے خلیفہ ہونے کی بنا پر احکام شریعہ کو نافذ کرے۔

وگرنہ شاہی کو اسلام سے کیا نسبت؟ اسلام کے نظم حکمرانی کی اساس شورائیت (اجتماعیت) پر ہے نا کہ مطلق العنانیت (شخصیت) پر۔ جیسا کہ حضرت عمرؓ فرمایا کرتے تھے، لا خلافۃ الا عن مشورہ (کنز العمال ج 3ص139)۔ لیکن فقہائے امت متفق ہیں، کہ ہئیت ہو یا کہ عرفیت، بدل جانے پر احکامات بدل جاتے ہیں. اور چونکہ یہاں بھی شورائیت کسی نا کسی شکل و صورت میں موجود رہی۔ جبھی فقہاء کی بیعت اطاعت نے سندِ جواز بخشی اور یہ نظم ہائے حکومت نہ صرف جائز ٹھہرے، بلکہ خلافت سے الگ ہونے کے باوجود ان تمام ریاستوں کے اسلامی ہونے پر اجماع امت ہے.

خلافت عباسیہ کے دور میں اسلامی دنیا کی صورتحال کچھ یوں رہی.
1= خلافت کی عمل داری اور اس کی سرحدات میں باقاعدہ شامل علاقے.

2= وہ ریاستیں جن کا خلافت کے ساتھ رسمی تعلق وفاداری تھا اور وہاں خلیفہ وقت کے نام کا خطبہ پڑھا جاتا تھا. لیکن انکی باقاعدہ علیحدہ سرحدات تھیں اور وہ اپنے معاملات میں کلی طور پر خود مختار تھیں. جیسے سلطنت سلجوقیہ، سلطنت طاہریہ خراسان. سلطنت سامانیہ ماوراء النہر.وغیرہ .......

3= وہ ریاستیں جو کلی طور پر خود مختار. اور ہر لحاظ سے خلافت سے الگ تھیں.
یہاں تک کہ وہاں خلیفہ وقت کا خطبہ بھی نہیں پڑھا جاتا تھا. اگرچہ وہ مدعی خلافت نہ تھیں. جیسے سلطنتِ خوارزم. سلطنت مرابطین (یوسف بن تاشفین کی ریاست). سلطنت موحدین. وغیرہ...

4= وہ ریاستیں جو باقاعدہ مدعی خلافت تھیں. جیسے اندلس میں خلافت بنو امیہ

اگر ’’ون امہ ون اسٹیٹ ‘‘ والے تصور خلافت کے برعکس یہ امارتیں، سلطنتیں، مملکتیں اور ایک سے زائد خلافتیں، خلافِ اسلام تھیں تو کیا فقہاء و مجتہدین امت انہیں حالاتِ اضطراری کے تحت قائم ہونے والے عبوری دورانیے کے نظام ہائے حکومت گردانتے تھے؟ ہرگز نہیں۔

بلکہ علامہ قرطبی تفسیر قرطبی سورۃ البقرہ آیت 30کی تفسیر میں امام الحرمین علامہ جوینی ؒ کا قول نقل کرتے ہیں، کہ میرے نزدیک دو آدمیوں کو امام بنانا اگر ایک ہی ملک میں ہو، جس کے علاقے مختصر ہوں، تو یہ ناجائز ہے۔ اور اس پر اجماع منعقد ہو چکا۔ البتہ اگر فاصلے دور کے ہوں اور دونوں اماموں کے درمیان مسافت بعید ہو تواس کا تحمل کرنے کی گنجائش ہے اور یہ مسئلہ قطعیات میں داخل نہیں۔ علامہ عبدالعزیز فرہاری ؒ نے النبراس علی شرح العقائد ص 513میں اسی کو راجح قرار دیا ہے۔

علامہ عبدالقادر بغدادی ؒ فرماتے ہیں، کہ ایک ہی وقت میں دو واجب الاطاعت اماموں کا ہونا جائز نہیں، البتہ اگر دو شہروں کے درمیان ایسا سمندر حائل ہو جو ایک کی مدد دوسرے کو پہنچنے میں مانع ہو تو یہ جائز ہے کہ ہر علاقہ کے لئے الگ الگ امام مقرر کر لیے جائیں۔ (اصول الدین ص274)
رائے محمد حسین کھرل
About the Author: رائے محمد حسین کھرل Read More Articles by رائے محمد حسین کھرل : 19 Articles with 16754 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.