سب کا ساتھ اپنا وکاس
(Rameez Ahmad Taquee, Karachi)
2014کے پارلیمانی انتخاب کے بعد سے لے کر
اب تک اس ملک کے وزیر آعظم برابر اپنی کسی نہ کسی کارکردگی کی بنا پر قومی،
عالمی، پرنٹ اور الکٹرانک میڈیا میں ضرور زیرِ بحث رہے ہیں، کبھی سوٹ بوٹ،
تو کبھی سیلفی کو لے کر اسکرین پر نظر آتے رہے، تو کبھی میک انڈیا ہیپی کا
نعرہ لگاکر میڈیا میں اپنی موجودگی درج کرائی۔ 2014 کی انتخابی ریلیوں میں
’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ کا جھوٹا نعرہ لگاکرلوگوں کو سبز باغ دکھائے اور
خود سبز لباس زیب تن کرکے اس کی ہریالی میں روپوش ہوگئے۔ لوگوں نے تو ان کے
پندرہ لاکھ کا وہ وعدہ بھی بھلا دیا، مگر مودی جی ہنوز اپنا حصہ سود در سود
چکتا کرنے کے فراق میں ہیں۔ انتخاب جیتنے کے بعد توگویا ان کی لاٹری نکل
آئی ہو، ان کے وارے نیارے ہوگئے، حکومتی پیسوں پر سیروسیاحت کا سنہرہ موقع
ان ہاتھ آگیا اور پھر گویا ان کے پر نکل آئے ہوں،انہوں نے اپنی حکومت کے
صرف ڈیڑھ سال کی انتہائی کم مدت میں ہی دوردراز ملکوں کے جو اسفار کیے
ہیں،اس نے سیاحوں کی فہرست میں ان کو پہلے مقام پر لاکر کھڑا کردیا ہے۔مودی
جی کی سیرو سیاحت کی جو رپورٹ ٹائمس آف انڈیا نے پیش کی ہے، وہ انتہائی
حیران کن ہے،کہ ایک ذمہ دارشہری اورعالمِ جمہویت کے عظیم جمہوی ملک کے
سربراہ کے لیے بیرونِ ملک اسفار کے لیے اس قدر وقت فارغ کرلینا اتنا آسان
ہے؟تو ناممکن کو ممکن بنانے والے ہندوستانی وزیرآعظم نے 26مئی 2014 سے 31
دسمبر 2014 کے درمیان نو ممالک کا سفر صرف 24دنوں میں طے کرکے یہ ثابت
کردیا کہ وہ سیروسیاحت میں ابن بطوطہ سے بھی فزوں تر ہیں۔ 2014میں ان کی کل
مدتِ حکومت 220 دن تھی ،جن میں 24 دن وہ ملک سے باہر رہے، یعنی ہر نو یں دن
وہ کسی نہ کسی ملک کی طرف محوے پرواز رہے۔ 2015میں ان کے کل اسفار کی
تعداد26 ہیں اور دونوں سالوں کے اسفار کی مجموعی تعداد 85ہوتی ہیں، جبکہ کل
ایام حکومت یعنی 26مئی 2014سے 31 دسمبر 2015تک576 دن کی ہوئی ، تو اس
اعتبار سے وہ ہر ساتویں دن ملک سے باہر اڑتے نظر آئے ۔وزیر آعظم بننے کے
بعد سے اب تک انہوں نے کل 35ممالک کا سفر کیا ہے،جن میں بیس ملکوں کاسفر
انہوں نے صرف ایک سال میں طے کیا، ان اسفار میں سے ان کا سفر کہیں طویل رہا
، تو کہیں مختصر، بلکہ بعض دفعہ تو انہوں نے ایک ہی دن میں دودو ملکو کا
سفر طے کیا، چنانچہ جن ممالک کا دورہ زیادہ طویل رہا ان میں دورۂ فرانس
،جرمنی ،کنیڈا،چین،برازیل، جاپان،آسٹریلیا،برطانیہ اورامریکہ سرِ فہرست
ہیں، جہاں آپ نے دو دن اور اس سے زاید قیام کیا،اس کے علاوہ نیپال ،سری
لنکا ،بنگلہ دیش،بھوٹان،عرب امارات، روس،قزاقستان،ازبکستان،سنگا
پور،ملیشیا،میانمار اورفجی وغیرہ میں آپ کوصرف ایک ہی دن پر اکتفا کرنا
پڑا۔
ان تمام ملکوں کے اسفارکے اخراجات یقیناًہندوستانی حکومت کو ہی برداشت کرنا
پڑی ، ان اسفارکے اخراجات کی مکمل تفصیل،تو صرف مودی جی اور ان کے خاص
چمچوں ہی کو معلوم ہے ، کیونکہ حکومت نے آرٹی آئی حکام کو اس تعلق سے کسی
کو کوئی بھی تفصیل دینے سے منع کر دیا ہے، نیز ہر ملک کے تمام ہندوستانی
سفارت خانہ اور دیگر سرکاری حکام کو بھی مودی جی کے اسفار کے متعلق کسی بھی
قسم کی جان کاری دینے سے منع کردیا ہے، تاہم سابق ہندوستانی بحری آرمی
آفیسر لوکیش بترا نے آرٹی آئی قانون کے تحت PMO سے مودی جی کے اسفار اور ان
پر ہوئے اخراجات کی جو تفاصیل حاصل کی ہیں، وہ کافی حیران کن ہیں، ان کے
اسفارمیں سب سے زیادہ مہنگاسفر آسٹریلیا، امریکہ، جرمنی، فجی اور چین کا
رہا ،جبکہ سب سے سستا سفر بھوٹان کارہا ، جس میں حکومتِ ہند کو 41.33 لاکھ
روپیے خرچ کرنا پڑی۔ اور آسٹریلیاکے سفر میں 5.6 کروڑ روپیے حکومت نے تو
صرف ہوٹل کا بل جمع کرنے میں صرف کیا،جبکہ آسٹریلیا میں دیگر مقامات کی
زیارت پر 2.4کروڑروپیے خرچ ہوئے۔ نیویارک کے سفر میں ایس پی(Special
Protection Group) خاص حفاظتی دستہ اور قافلہ کے لیے جو ہوٹل بک کیا گیا
،اس کا کرایہ 9.16 لاکھ روپیے تھا اور آنجہانی وزیراعظم اور وزارات خارجہ
کے حکام کے لیے جو روم اور آفیس بک کیے گئے ان کا بل 11.51 لاکھ روپیے کا
آیا، اس کے علاوہ 39لاکھ روپیے وفد کے کار کرایہ پر خرچ ہوئے ، نیزوزیر
آعظم کے پل پل کی خبر کو ہندوستانی ٹی وی پرنشرکرنے کے لیے پرسار بھارتی پر
مودی جی نے تین لاکھ روپیے نچھاور کی ۔ ہندوستانی سفارت خانہ نے وزیر آعظم
کے جرمنی دورہ پر ان کے قافلہ کے لیے جو ہوٹل کرایہ پرلیا ، اس کا بل 3.80
لاکھ رپیے آیا، دیگرروزمرہ کی ضروتوں پر 1.31 لاکھ روپیے خرچ کیا ، نیز
علاقائی زیارتوں پر 19.405 صرف کیا۔چین کے دورہ میں حکومت نے 1.06 کروڑ
روپیے صرف ہوٹل کے بل کا برداشت کیا، گاڑیوں کے کرایہ پر 60.88 لاکھ روپیے،
ہوائی جہاز سے متعلق دیگر اخراجات پر 5.90 لاکھ روپیے ، نیز حکام اور وفد
کی روزانہ کی ضرورتوں پر 9.80 لاکھ خرچ کیا۔ بنگلہ دیش کے دورے میں
ہندوستانی خزانہ سے 1.35 کروڑ روپیے کا نقصان ہوا ، جس میں سے 19.35 لاکھ
ہوٹل کا بل ہوا اور ترجمانی کے لیے جن ڈیوائس کا استعمال ہوا، ان پر 28.55
لاکھ روپیے کی لاگت ہوئی، جبکہ انٹرنیٹ استعمال کرنے کا بل 13.83 لاکھ
روپیے کا آیا۔القصہ ان کے تمام اسفار کے اخراجات کی مکمل تفصیل تو ممکن
نہیں ، البتہ گذشتہ ایک سال میں مودی جی نے اپنے بیس ملکی دوروں میں37.22
کروڑ روپیے حکومت کا خرچ کیا اور 35ملکوں کے سفر کا بجٹ، تو کسی کو معلوم
نہیں۔ یہ مودی جی کے خاص اسفارکی ایک جھلک تھی، جبکہ ان کے اسفار کے علاوہ
مودی حکومت کے 2014-2015 کا سفارتی بل317 کروڑ روپیے کا تھا،جو یوپی اے
سرکارکے 2013-2014 سفارتی بجٹ 258 کروڑ روپیے سے 59کروڑ زیادہ ہے۔
مودی جی نے اپنے ان اسفار میں کون ہرن کا شکار کرلیا اور کتنے معاملات
دستخط کیے ، یہ تو خود انہیں بھی معلوم نہیں، البتہ جہاں جہاں گئے وہاں
آٹوگراف ضرور دیے۔ اب آپ ہی بتایئے کہ اگر حکومت اور اس کے حکام ، حکومت کے
پیسوں پر اس قدر دریا دلی اور فیاضی کا مظاہرہ کریں گے، تو ملک کا وکاس
کیونکرممکن ہوسکتا ہے؟اس کی عوام کوکہاں سے پندرہ لاکھ روپیے ملیں گے؟مودی
جی نے اپنے بیرونی اسفار میں جس قدر دل چسپی دکھائی ہے، وہ کم از کم ان کے
ہم عصروں میں نظر نہیں آتی۔ پی ایم بننے سے پہلے ، بیرونِ ملک کا سفر ان کے
لیے ایک خواب معلوم ہوتا تھا، مگر پی ایم بننے کے بعد جب ان کے وہ سارے
خواب شرمندۂ تعبیر ہوتے ہوئے نظر آئے، تو انہوں نے اس میں کوئی کوتاہی نہیں
برتی ، یہاں تک کہ اب وہ ملک کے مہمان وزریر آعظم ہیں ۔
سب کا ساتھ سب کا وکاس کا ان کا نعرہ کوئی غلط نہیں تھا، بلکہ اس کے پیچھے
سب کا ساتھ اپنا وکاس کا معنی چھپا ہوا تھا، سو وہ تو پورا ہوگیا،بلکہ ان
کا وکاس تو آکاش تک پہنچ گیا اور رہی بات عوام کے وکاس کی، تو اپنا کام
بنتا بھاڑ میں جائے جنتا۔ طرفہ کی بات تو یہ ہے کہ مودی جی وزیر آعظم بننے
کے بعد ملک کے 29 صوبوں میں سے شاید ہی پندرہ صوبوں کا دورہ کیا ہوگا، جبکہ
بیرون ممالک ان کے اسفار کی تیزی اس قدر یادہ ہے، گویا وہ اپنے پانچ سالہ
دورِ حکومت میں پوی دنیاکی سیر کرلینے کی ٹھان رکھی ہو،پوی تایخِ جمہوریت
میں اس قدر غیرذمہ دار سربراہ کسی ملک نے نہیں پایا ہوگا، حق تو یہ تھا کہ
بیرونی اسفار کے بجائے ملک کے صوبوں کا دورہ کرتے، وہاں کی عوام کی ضرورتوں
کو سنتے ،ان کے مشکلات کا حل تلاش کرتے، تو شاید سب کا وکاس ممکن ہوسکتا
تھا، مگر’’ حلوائی کی دکان پر نانا جی کا فاتحہ‘‘ مودی جی نے حکومت کے
پیسوں پراپنے پرانے خواب ہی سجانے کو اولین ترجیح دیا، جس کے باوصف حکام
کرپٹ ہوگئے اور پورا معاشرہ کرپشن کا شکار ہوگیا،پورے ملک میں عدمِ روداری
اور مذہبی عدمِ برداشت کی فضا قائم ہوگئی، حکومت کا پیسہ بے دردی سے ضائع
کیا گیا تو ،مہنگائی بڑھتی چلی گئی، دال روٹی کے بھی لالہ پڑگئے، کسان خود
کشی کرنے پر مجبور ہوئے ، مگر مودی جی نے ہنوزاپنے اسفارمیں کسی بھی قسم کا
کوئی سمجھوتہ نہیں کیا ، بلکہ پہلے سے بھی زیادہ ان کے اسفار میں تیزی آگئی
ہے، ایک ایک دن میں دو دوملکوں کا دورہ کرنا بھی ان کے لیے آسان ہوگیا۔ اگر
مودی جی کے اسفار کا یہی سلسلہ جاری رہا، تو ایک دن اس ملک کی معیشت تھپ ہو
جائے گی اور تاریخ کے صفحات پر ہمارے ملک کاشماربھی غیر ترقی یافتہ ممالک
کی فہرست میں ہوگا!!! |
|