تاریخِ بھوپال میں یہاں کی خواتین کے
کارنامے تاریخ کے زریں باب میں شمار کیے جاتے ہیں۔ بھوپال کی ارتقائی تاریخ
میں عورتوں کی کوششوں کا حصّہ ہمیشہ غالب رہا ۔یہ خواتین اپنے تدبر وسیاست
کے جوہر سے نظامِ حکومت چلانے کی اعلیٰ صلاحیتیں رکھتی تھیں۔بھوپال کی فتح
بی بی، ماجی ممولا، صالحہ بیگم،عصمت بیگم،زینت بیگم،موتی بیگم،نواب قدسیہ
بیگم،نواب سکندر بیگم،نواب شاہجہاں بیگم اورنواب سلطان جہاں بیگم کے نام
تاریخ کے صفحات پرہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
ہرہائینس نواب سلطان جہاں بیگم ۹جولائی ۱۸۵۸ء کو ریاست بھوپال کے ایوان
موتی محل میں پیدا ہوئیں۔ان کی تعلیم وتربیت کی سرکارخلدنشین نے خودنگرانی
کی۔ سرکارخلدنشین بیدارمغزی، استقلال و حمیت، تدبیرودین داری اور اعلیٰ
قابلیتوں کے مالک تھے۔انھوں نے اپنی خاص نگرانی میں نواب سلطان جہاں بیگم
کی غذا، سواری، مقاماتِ ہوا خوری وغیرہ کے لیے ایک دستورالعمل بنایا اور جب
تعلیم کا وقت آیا تو تعلیم کے ہر جزوو کُل کو خود ہی قائم کیا۔ حتی کہ
تعلیم کا ضابطہ بھی خودہی ترتیب دیا۔
اردو، فارسی، عربی، انگریزی کے مستنداستادوں کو مقرر کیا۔ دست کاری کی
تعلیم کے لیے ہوشیارمغلانیاں مقرر کیں۔شہ سواری اور نشانہ بازی کے لیے بھی
استاد مقرر ہوئے۔ غرض تعلیم کا جہاں یہ مقصد تھا کہ ایک حکمران کے لیے جن
اوصاف کی ضرورت ہوتی ہے اُن کی تکمیل کی جائے وہاں اس مقصد کو بھی ملحوظ
رکھا گیا کہ جنس نسواں ہونے کی وہ تمام خوبیاں بھی مجتمع رہیں جو واجبات
وفرائضِ منزلی میں ہر درجے کی عورت کی حیثیت کے لیے ضروری ہیں۔ابھی نواب
سلطان جہاں بیگم پانچ ہی برس کی تھیں کہ سرکارخلدنشین کا انتقال ہوگیا اور
نواب سلطان جہان بیگم کی تعلیم کا سلسلہ قائم نہ رہ سکا وہ خود فرماتی ہیں:
’’تعلیم کا جو نظام معین تھا اس میں درہمی و برہمی ہوگئی۔ خوشخطی کی مشق
بالکل جاتی رہی۔ اگرچہ قرآن مجیدگیارہ سال کی عمر میں ختم ہوچکا تھا مگر
دَورکرتی تھی اور مولوی جمال الدین خاں صاحب بہادر مدارالمہام ایک گھنٹا
ترجمہ اور تفسیر پڑھاتے تھے۔ مولوی محمد ایوب صاحب بھی ایک گھنٹا تعلیم
فارسی دیتے تھے۔ دو گھنٹے تعلیم انگریزی ہوتی تھی۔‘‘
نواب سلطان جہاں بیگم نے جس طرح ملک کا انتظام و انصرام سنبھالا،وہ تاریخ
کاایک انمول باب ہے۔انھوں نے اپنی صدرنشینی کے تیسرے سال پانچ سالہ اور پھر
انیس سالہ بندوبست کیا۔ یہ بندوبست ایسے اعلیٰ اصولوں پر قائم کیا گیا کہ
رعایامیں اُسے پذیرائی حاصل ہوئی۔ ترقّیٔ زراعت، کاشتکاروں کے سرمایۂ محنت
اور تاجروں کی حالت اور ریاست کے لیے نہایت مفید اقدامات کیے۔
نواب سلطان جہاں بیگم عورتوں کی تعلیم کے لیے ہمیشہ کوشاں رہیں۔انھوں نے
صنفی بہبود میں اپنے اثر کا استعمال کیا ، ان کی تحریکات مسائلِ نسواں کی
تاریخ میں ایک مستقل باب کی حیثیت رکھتی ہیں۔انھوں نے اپنے دورِحکومت میں
خواتین کے لیے کئی مدارس قائم کیے، جن میں بعض کا احوال یہ ہے:
مدرسۂ وکٹوریا:اس مدرسے میں قرآن مجید، انگریزی(مڈل تک)، اردو، حساب، خانہ
داری، دست کاری کی تعلیم دی جاتی تھی اور علی گڑھ نصابی کمیٹی نے جو نصاب
کی کتابیں تیار کی تھیں ، انھیں بیگم صاحبہ نے ریاستِ بھوپال کے نظامِ
تعلیم میں رائج کیا۔
مدرسۂ بلقیسی: اس مدرسے کے تحت غریب و نادار لڑکیوں کو قرآن مجید، اردو،
حساب کی تعلیم دی جاتی تھی اور عملی طور پر چیزوں کی ترتیب اور صفائی،
ترکاری، پھول اور پھل دار درختوں کے بیج بونے اور پودوں کی نگرانی وغیرہ کے
کام سکھلائے جاتے تھے۔ مدرسے میں ایک باغ تھا جس میں لڑکیاں اپنے فن سے
متعلق عملی کام سیکھتی تھیں۔
مدرسۂ سلطانیہ: اس مدرسے میں انگریزی و اردو مڈل تک پڑھائی جاتی تھی اور اس
کا الحاق الہ آبادکے نظامِ تعلیم سے تھااوراس کے منظور شدہ نصاب کے علاوہ
قرآن مجید باترجمہ کی تعلیم، قرأت کے التزام کے ساتھ لازمی تھی۔ دست کاری
کی تعلیم کو ضروری سمجھا جاتا تھا۔ فوری امداد کی تعلیم اور زخمیوں کی
تیمارداری کے لیے ایک درجہ ۱۹۱۵ء میں قائم کیا۔اس مدرسے میں معمولی پڑھنے
لکھنے والی خواتین کے لیے مکتبوں اور مدرسوں کی تعلیم اہلیت کے مطابق بنائے
جانے اور مکتبی تعلیم حاصل کرنے کے لیے معقول تعداد میں عملہ موجود تھا۔
برجیسیہ کنیاپاٹھ شالا: ہندو لڑکیوں کے لیے ایک مدرسہ قائم کیا جس میں ہندی
،انگریزی اورحساب کی تعلیم دی جاتی تھی۔اس مدرسے کے قیام سے متعلق نواب
سلطان جہاں بیگم کہتی ہیں کہ’’ ہندولڑکیوں کے لیے جداگانہ مدرسہ قائم کرنے
کی مجھے ایک عرصے سے فکر تھی کیوں کہ میں اپنی رعایا کو بلاامتیازِ مذہب
عزیز رکھتی ہوں اور فی الواقع کسی فرماں روا کو زیبا نہیں ہے کہ وہ اپنی
رعایاکے مابین مذہبی رواداری یا امتیاز کو جہاں تک ترقّی واصلاح اور انصاف
و امن کا واسطہ ہے، جائز رکھے، بلکہ ہر صورت میں مساوات قائم رکھنا چاہیے۔
اس لیے جس طرح مسلمان لڑکیوں کی تعلیم میں مجھے شغف ہے اسی طرح ہندو لڑکیوں
کی تعلیم بھی میرا نصب العین ہے اور اگر میں خاص مذہبی ضرورتوں سے مجبور نہ
ہوتی تو کبھی جداگانہ مدرسے قائم نہ کرتی۔اگرچہ عام تعلیم دونوں کے لیے ایک
ہی پیمانے اور طریقے پر ہے، مگر چوں کہ ابتدائی درجوں میں مذہبی تعلیم کا
حصہ زیادہ ہے پس لامحالہ دونوں کو ملاکر تعلیم نہیں دی جاسکتی، لہٰذا میں
نے اس سال برجیس جہاں بیگم کے عزیز نام سے موسوم کرکے ہندو لڑکیوں کے لیے
ایک پاٹھ شالا قائم کیا۔
مدرسۂ سکندری: نواب سکندر بیگم صاحبہ خلدنشین کے نام سے منسوب کیا۔اس مدرسے
میں صرف خاندان کی لڑکیاں یا خال خال کسی مخصوص متوسّل ریاست کی لڑکیاں
قرآنِ مجید، اردو، انگریزی اور دست کاری کی تعلیم حاصل کرتی تھیں اور مدرسے
کے بورڈنگ ہاؤس میں ان کے لیے رہنا لازمی تھا۔ اس مدرسے میں یورپی اور
ہندوستانی معلّمات تعینات تھیں۔اردو خوش نویسی خاص طور پر سکھائی جاتی تھی۔
صنعت وحرفتِ اُناث: ان مدارس کے علاوہ عورتوں کے لیے ایک صنعتی مدرسہ بھی
قائم کیا جس کے اغراض ومقاصد یہ تھے کہ وہ جاہل عورتیں جو والی وارث نہ
ہونے کی وجہ سے اپنے اوراپنے بچوں کے لیے گزر اوقات نہیں کرسکتی تھیں اور
انتہائی مشکلات سے دوچار رہتی تھیں۔ان کے لیے ریاست بھوپال نے ایک ایسا
مدرسہ قائم کیا جہاں ایسی خواتین صنعت وحرفت سیکھ کر اپنی گزر اوقات کا
بندوبست کرسکتی تھیں۔
ایک کارنامہ نواب سلطان جہاں بیگم کا یہ بھی تھا کہ انھوں نے انجمنِ ترقّیٔ
اردو کونہ صرف یک مشت چار ہزار کی امداد دی بلکہ ماہانہ امداد بھی جاری
فرمائی اور مولوی عبدالحق کی درخواست پر انجمن کی مجوّزہ کتاب ’’ہمارا
ملک‘‘ میں ایک باب تعلیمِ نسواں سے متعلق تحریر فرمانے کا وعدہ بھی کیا۔
ریاست میں انتظامِ لگان و مال گزاری قوانین وقواعد کے تحت لائے گئے۔ بیگم
صاحبہ نے ٹیکسوں کی مد میں بقایاکابہت بڑا حصّہ اپنی رعایا کے لیے معاف
کردیا۔ قوانین کی عمل داری کے لیے انسدادِجرائم کے قوانین، عدالت، پولیس
اور جیل کے وجود اہم ترین ضرورت ہوتے ہیں، اُنھوں نے جس قدر ممکن ہوسکا
،قوانین کی عمل داری کے لیے بہترین نظام قائم کیا۔
نواب سلطان جہان بیگم نے تعلیم کی عمل داری کے لیے عطیات وانعامات اور عطاے
اخراجات کے ایسے ذرائع اختیار کیے جن سے ایک حد تک حصولِ تعلیم کے لیے
بھوپال کے مدرسوں میں ہر طبقے کے طالبِ علم نظر آنے لگے اور وہاں کے
باشندوں میں تعلیمی ضرورت کا احساس پیدا ہوچلا۔ وظائف اور امدادِ تعلیم کے
ذریعے اُنھوں نے غریب اور نادار طالبِ علموں کے لیے وظائف اور امداد کااجرا
کیا تاکہ ابتدائی تعلیم بہ آسانی حاصل کی جاسکے۔
مذہبی تعلیم کے لیے بھی ایک مدرسہ قائم کیا، جس میں قرآنِ مجید کی ناظرہ
تعلیم کے انتظام کے ساتھ ساتھ حفظ کا بندوبست بھی تھا اور صحت وترتیل کے
ساتھ تجوید و قرأت بھی سکھائی جاتی تھی۔ اس مدرسے کے طلبہ کو وظائف عطا کیے
جاتے تھے اور اس کے فارغ التحصیل طلبہ کی دستاربندی کے لیے باقاعدہ جلسہ
منعقد کیا جاتاتھا۔
نواب سلطان جہاں بیگم طبِّ یونانی کی بہت بڑی حامی تھیں۔ آپ نے تمام ریاست
میں یونانی شفاخانے قائم کیا۔ اس کے ساتھ ہی ایک مدرسہ ’’طبیّہ آصفیہ‘‘ کے
نام سے قائم کیا۔ جس کی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں طبِّ یونانی کے ساتھ سرجری
کی بھی تعلیم دی جاتی تھی۔
نواب سلطان جہاں بیگم تعلیم پر خصوصی توجہ دیتی تھیں اسی وجہ سے انھوں نے
اپنی ریاست میں ’’کتب خانۂ حمیدیہ‘‘ کے نام سے ایک کتب خانہ قائم کیا۔
ابتداءً یہ کتب خانہ ایک مدرسے کی شاخ تھا اور اس میں انتہائی نادر کتب
تھیں، لیکن سرکارِخلد نشیں کے آخری زمانے میں کتابوں کی بڑی تعداد تباہ
ہوگئی تھی اور کتب خانہ صرف چند معمولی کتابوں پرمشتمل رہ گیاتھا۔ نواب
سلطان جہاں بیگم نے اُسے دوبارہ مرتّب کرکے ایک مستقل عملہ اور بجٹ متعیّن
کیا۔ اس طرح ہر سال اس کتب خانے میں مفید اور کارآمد کتابوں کا اضافہ ہوتا
رہا۔اُنھوں نے اس کتب خانے کے لیے ایک شان دار اور وسیع عمارت بھی قائم کی۔
یہ کتب خانہ نواب زادہ میجرحاجی محمدحمیداﷲخاں صاحب بہادر کے نام سے موسوم
ہے اور ۱۹۱۲ء میں لارڈہارڈنگ وائسراے ہند نے اس کا افتتاح کیا۔
نواب سلطان جہاں بیگم نے نومبر ۱۹۰۹ء میں ایک میوزیم قائم کیااور شہرِ
بھوپال کو میونسپلٹی کے حقوق عطا کیے تاکہ اس کے قواعدوضوابط مکمل ہوسکیں
اور اس کے زیرِانتظام صیغۂ حفظانِ صحت، روشنی، آب رسانی وغیرہ رہے۔ عمومًا
اس کے اخراجات کا ایک بہت بڑا حصّہ شاہی خزانے سے دیا جاتا تھا۔
۱۹۰۹ء سے برقی روشنی کا بھی انتظام کیا گیا اور خاص خاص سڑکوں اور سرکاری
عمارات اور محلاّت میں برقی روشنی ہونے لگی۔تعمیرات سے نواب سلطان جہاں
بیگم کو خصوصی دلچسپی تھی۔ وہ ایک اچھےّ انجینیرکی طرح بڑی بڑی عمارتوں کے
نقشوں کو تنقیدی نظر سے ملاحظہ کرتی تھیں، اُن کے حسن وقبح کو محسوس کرکے
غلطیوں کی اصلاح کرتی تھیں اور بعض اوقات عمارتوں کے خاکے خود ہی بنالیتی
تھیں۔
نواب سلطان جہاں بیگم تاریخِ ہند کی ایسی زبردست خاتون ہیں جو تمام اوصافِ
حمیدہ سے متّصف ہیں۔ بیگماتِ بھوپال کی تاریخ فتح بی بی کی سادہ زندگی کے
واقعات سے شروع ہوکر نواب سلطان جہاں بیگم کے زرّیں کارناموں پر ختم ہوتی
ہے۔نواب سلطان جہاں بیگم کے زمانے میں وہ تمام سامان مہیّا ہوگئے تھے جو
ایک مکمل نظامِ حکومت کے لیے لازمی ہیں۔نواب سلطان جہاں بیگم نے اپنی اعلیٰ
صلاحیتوں اور انتظامی اُمور کو بہ خوبی نبھا کر تاریخِ بھوپال میں خواتین
کی عمل داری کے لیے واضح راہ متعیّن کردی۔
|