اﷲ تعالیٰ نے تخلیق انسان کے وقت اپنے فرشتوں سے فرمایا
کہ میں زمین پر اپنا نائب (انسان) کو بنانا چاہتا ہوں تو ملائکہ نے عرض کیا
کہ اے ہمارے رب کیا تو اسے بنانے جا رہا ہے جو زمین پر فساد برپا کرے گا
اور خون ریزی کرے گا تو اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو میں جانتا ہوں وہ تم
نہیں جانتے۔ پھر حضرت آدم کی تخلیق کے بعد اﷲ تعالیٰ نے انسان کی عظمت اور
رفعت کو کچھ یوں عیاں کیا کہ ملائکہ کو حکم دیا کہ حضرت آدم علیہ السلام کو
سجدہ کریں۔ ابلیس کے سوا سب نے اﷲ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے حضرت آدم کی
عظمت کو تسلیم کیا اور انہیں سجدہ تعظیمی کیا۔ ابلیس کو اﷲ کی بارگاہ سے
نکال دیا گیا اوروہ انسان کا پہلا دشمن بن گیا۔ یہی ابلیس شیطان کی صورت
میں حضرت آدم علیہ السلام کے جنت سے نکالے جانے کا سبب بنا۔
حضرت آدم علیہ السلام سے جب انسانیت کی نسل چلی تو شیطان نے انسان سے بدلہ
لینے کے لیے طرح طرح کے حیلے بہانے کیے اور انسان کو بھٹکانے لگا اﷲ تعالیٰ
نے انسان کی رشد وہدایت کے لیے تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام
علیہ السلام کو مبعوث فرمایا ۔ نبوت کا یہ سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے
لیکر نبی آخر الزماں صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم تک مکمل ہوا۔ حضور ختمی مرتبت
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پر سلسلۂ نبوت تو ختم ہوگیا لیکن آپ کی تبعیت میں
ظاہری وباطنی تعلیم وتبلیغ کے لیے فیضان نبوت وولایت قیامت تک جاری وساری
ہے۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد سے تاصبح قیامت کوئی بھی وقت
علماءِ راسخین اور اولیاء کاملین سے خالی نہیں رہے گا۔
انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد علماء حق نے بڑے احسن انداز سے اس ذمہ
داری کو نبھایااور انشاء اﷲ تاصبح قیامت نبھاتے رہیں گے۔ ان علماء کرام میں
سے وہ عظیم عالم جو اﷲ تعالیٰ کی ذات وصفات کا عارف ہو اس کی اطاعت وعبادت
کے پابند ہو گناہوں سے بچتا ہو تواﷲ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے اسے اپنا قرب
خاص عطا فرماتا ہے ۔ ایسی صفات کے حامل انسان کوولی اﷲ کہتے ہیں اور ایسے
خوش نصیب انسانوں کے لیے اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ’’سنو! بے شک اﷲ کے
اولیاء پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ غمگین ہوں گے‘‘ اور ایسے عظیم انسان جب
مقام ولایت پر فائز ہوتے ہیں تو ان سے عجیب وغریب کرامتیں ظاہر ہوتی ہیں
مثلاً پانی پر چلنا، بلائیں دفع کرنا، دور دراز کے حالات ان پر منکشف ہونا،
جمادات وحیوانات سے کلام کرنا وغیرہ ۔ اﷲ پاک کے مقبول بندوں کی کرامتیں
درحقیقت ان انبیاء کرام علیہم السلام کے معجزات ہیں جن کے وہ امتی ہیں۔
ولی، اﷲ تعالیٰ کے مقبول بندوں کو کہتے ہیں جن کو نہ دنیا میں اور نہ آخرت
میں کسی قسم کا خوف اور غم ہے۔ مالک الملک کی محبت و اطاعت اور خشیت نے
انہیں ہرقسم کے خوف اور غم سے آزاد کردیا ہوتا ہے۔ اولیاء کرام کی محبت
درحقیقت دارین کی سعادت اور رضائے الٰہی کا سبب ہے۔ ان کی برکت سے اﷲ
تعالیٰ مخلوق کی حاجتیں پوری کرتا ہے۔ ان کی دعاؤں سے خلق خدا فائدہ اٹھاتی
ہے۔
اہل لغت نے ولی کے چند معانی بیان فرمائے ہیں ولی کے معنی وارث، قریبی اور
مددگار کے ہیں۔ ولیوں کی جماعت وہ مقدس جماعت ہے جنہیں اﷲ سبحانہ وتعالیٰ
نے دنیاوآخرت کی نعمتوں کا وارث بنایا ہے۔حتی کہ اولیاء کی جماعت کو اﷲ نے
اپنی جماعت قرار دیا ہے۔ ولیوں کو یہ مرتبہ اور مقام صرف اور صرف نبی کریم
ﷺکی غلامی، محبت اور اطاعت کرنے کی وجہ سے ملاہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ
سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے جو میرے کسی
ولی سے دشمنی رکھے میں اس سے اعلان جنگ کرتاہوں اور میرا بندہ ایسی کسی چیز
کے ذریعے میرا قرب نہیں پاتا جو مجھے فرائض سے زیادہ محبوب ہو اور میرا
بندہ نفلی عبادات کے ذریعے برابر میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ
میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں‘‘ ۔
حضرت علی کرم اﷲ وجہہ الکریم سے ولایت کا ایک سلسلہ شروع ہوا جو آپ کے بعد
حسنین کریمین سے جاری ہوا۔ حضرت حسنین کریمین رضی اﷲ عنہما کی نسل پاک سے
غوث صمدانی، محبوب سبحانی سید عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمہ پیدا ہوئے۔
حضرت مولانا جامی اپنی کتاب ’’نفحات الانس من حضرات القدس‘‘ میں تحریر
فرماتے ہیں کہ سیدنا شیخ عبدالقادر علیہ الرحمہ ثابت النسب سید ہیں۔ جامع
حسب ونسب ہیں۔ والد بزرگوار کی طرف سے حسنی اور والدہ کی نسبت سے حسینی
ہیں‘‘
سیدنا عبدالقادرجیلانی علیہ الرحمہ کے بچپن کا تذکرہ کرتے ہوئے پیر مہر علی
شاہ علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ حضرت غوث پاک کا حال اور معاملہ بھی عجیب
وغریب ہوا ہے۔ حضرت کی شب ولادت باسعادت میں دو سو بیس مولود تولد ہوئے اور
حضور کی برکت سے سب کے سب اولیاء ہوئے۔ آپ کی عمر جب چند برس ہی تھی تو آپ
نے علم حاصل کرنے کے لیے سفر کا ارادہ فرمایا۔ حضرت کی والدہ ماجدہ نے چند
دینار آپ کی گودڑی میں ٹانک دیے کہ سفر میں کام آویں گے۔ اور بوقت رخصت
نصیحت فرمائی کہ اے فرزند! ہرگز جھوٹ نہ بولنا۔ دوران سفر ڈاکوؤں کے بھاری
گروہ نے قافلہ کو گھیر لیا ان کے سردار نے حضرت سے دریافت کیا کہ آپ کے پاس
کوئی قیمتی چیز ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں میری اس گودڑی میں چند دینار ہیں۔
سردار کو یقین نہ ہوا اس نے خیال کیا کہ شاید بطور خوش طبعی فرمارہے ہیں
کیونکہ کوئی شخص اپنے درہم بھی ظاہر نہیں کرتا چہ جائیکہ دینار۔ اسی طرح
اور ڈاکوؤں نے بھی یکے بعد دیگرے آپ سے پوچھا تو آپ نے سب کویہی جواب دیا۔
آخر الامر انہوں نے کہا کہ اگر آپ کے پاس دینار ہیں تو ظاہر کرو۔ آپ نے فی
الفور دینار گودڑی سے نکال کر سامنے کردئیے سب ڈاکو حضرت کی صداقت وراست
بازی سے متعجب وحیران ہوکر سچائی کی وجہ پوچھنے لگے حضرت نے فرمایا کہ میری
والدہ نے بوقت رخصت نصیحت فرمائی تھی کہ جھوٹ نہ بولنا اس واسطے میں سچ
ظاہر کیا۔ اس سے وہ سب اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے آپ کے دست حق پر توبہ
کی اور بداعمالی سے تائب ہوگئے۔
آپ بچپن سے ہی اﷲ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے احکامات کے مطابق زندگی
گزارتے کھیل کود میں مشغول نہ رہتے۔ اپنا زیادہ تر وقت حصول علم اور فروغ
علم کے لیے گزارا۔ حضرت شیخ عقیل سنجی سے پوچھا گیا کہ اس زمانے کے قطب کون
ہیں؟ فرمایا اس زمانے کا قطب مدینہ منورہ میں پوشیدہ ہے۔ سوائے اولیاء اﷲ
کے اسے کوئی نہیں جانتا۔ پھر عراق کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ اس طرف سے
ایک عجمی نوجوان ظاہر ہوگا۔ وہ بغداد میں وعظ کرے گا۔ اس کی کرامتوں کو
ہرخاص وعام جان لے گا ۔ اور وہ فرمائے گا کہ ’’قدمی ھذا علی رقبۃ کل ولی
اﷲ‘‘ یعنی میرا قدم تمام اولیاء اﷲ کی گردن پرہے۔ سالک السالکین میں ہے کہ
جب عبدالقادر جیلانی کو مرتبۂ غوثیت ومقام محبوبیت سے نوازا گیا تو ایک دن
جمعہ کی نماز میں خطبہ دیتے وقت اچانک آپ پر استغراقی کیفیت طاری ہوگئی اور
اسی وقت آپ کی زبان سے یہ کلمات جاری ہوئے کہ ’’قدمی ھذا علی رقبۃ کل ولی
اﷲ‘‘ یعنی میرا قدم تمام اولیاء اﷲ کی گردن پرہے۔
حضرت عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمہ پیرکامل اور مادرزاد ولی تھے۔ اور ساری
زندگی قیل وقال کی صدا بلند کرتے ہوئے گزاری۔ تمام اولیائے عظام اور پیران
طریقت آپ کی کرامات وکمالات اور علمی خدمات کا اعتراف کرتے ہیں اور تمام
عالم اسلام آج بھی آپ سے محبت وعقیدت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے نام کے ساتھ
آپ کی نسبت سے قادری لگاتے ہیں۔
|