سعودی عرب اور ایران تنازعہ ۰۰۰ خطے کے حالات مزید ابتر ہوسکتے ہیں

مشرق وسطی کے حالات انتہائی کشیدہ صورتحال اختیار کرتے جارہے ہیں۔سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات منقطع ہوگئے ہیں اور سعودی عرب نے ایران کے سفارتکاروں کو فی الفور سعودی عرب چھوڑنے کا حکم دے دیا ہے۔ہفتہ کے روز شیعہ عالم ِشیخ نمر النمرکو سزائے موت دینے کے بعد ایران میں سعودی عرب کے خلاف سخت احتجاج کیا گیا اورایران کے دارالحکومت تہران میں موجود سعودی سفارت خانے کو شدید نقصان پہنچاتے ہوئے اسے آگ لگائی گئی۔اس کے علاوہ ایران کی جانب سے سعودی شیعہ عالم شیخ نمر النمر کی سزائے موت پر ایران کے مذہبی روحانی پیشوا آیت اﷲ خامنہ ای کی جانب سے سعودی عرب کے خلاف بیان نے بھی شیعہ عوام کو سعودی عرب کے خلاف شدید احتجاج کی ترغیب دی۔ایران کے روحانی پیشوا آیت اﷲ خامنہ ای نے شیخ نمر النمر کے بارے میں کہا کہ انہیں سعودی عرب کے سنی حکمرانوں کی مخالفت کرنے پرموت کی سزا دی گئی ہے۔ آیت اﷲ خامنہ ای نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا کہ شیعہ عالم نے نہ تو کبھی کسی مسلح مہم کے لئے لوگوں کو اکھٹا کیا اور نہ ہی کسی منصوبے کا حصہ رہے ۔ ایران کے روحانی پیشوا نے مزید کہا کہ شیخ نمرالنمر نے جو واحد کام کیا وہ تنقید تھی، یہ جو ناحق خون بہایا گیا ہے اس کا اثر جلد ہوگا اور سعودی سیاست دانوں کو انتقام الٰہی گھیرے گا۔ ایران کے روحانی پیشوا کا بیان اور ایرانی عوام کی جانب سے سعودی سفارت خانے کو نقصان پہنچانے کے بعد سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے ایک پریس کانفرنس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تمام ایرانی سفارتکارفوری سعودی عرب سے نکل جائیں۔سعوی عرب کے وزیر خارجہ نے کہا کہ ایران کو سعودی عرب کی سیکوریٹی کی خلاف ورزی کرنے اور سعودی سلامتی کو کمزور کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔انہوں کہا کہ سعودی عرب نے تہران میں موجود اپنے سفارتکاروں کو واپس بلالیا ہے۔ انہوں نے ایران پر الزام عائد کیا کہ ایران ہتھیار تقسیم کرتا ہے اور اس نے خطے میں دہشت گردوں کے اڈے بنارکھے ہیں۔ عادل الجبیر نے کہا کہ عرب معاملات میں ایران کی تاریخ مداخلت اور جارحیت سے بھری ہوئی ہے۔ شیخ نمر النمر کوسزائے موت سے قبل آخری مرتبہ 2012میں حراست میں لیا گیا تھا اور ان پر فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرنے اور مملکت کے معاملات میں بیرونی مداخلت کرنے کا الزام تھا۔ اس سے قبل بھی انہیں 2004اور 2006میں حراست میں لیا گیا تھا ۔ سعودی حکام نے شیخ نمر کے خاندان والوں کو بتادیا تھا اوراکٹوبر2014میں تصدیق کردی تھی کہ انہیں دیگر جرائم کے علاوہ مملکت کے معاملات میں بیرونی مداخلت کی کوشش کرنے کی وجہ سے سزائے موت دی جائے گی۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق شیخ نمر نے اپنے خلاف لگائے جانے والے سیاسی الزامات سے کبھی انکار نہیں کیا، تاہم ان کے حامی ہمیشہ سے کہتے چلے آئے ہیں کہ شیخ نمر نے کبھی تشدد کو فروغ نہیں دیا بلکہ ہمیشہ پرامن احتجاج کی حمایت کی ہے۔جبکہ2011میں شیخ نمر النمر نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ہتھیاروں کے بجائے حکام کے خلاف عوام کی دھاڑ کے حامی ہیں کیونکہ ’لفظ‘ کا ہتھیار گولی سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے انکا کہنا تھا کہ حکام ہتھیاروں کی لڑائی میں مالی مفاد حاصل کرتے ہیں، ان کے اس انٹرویو سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مملکت سعودی عرب میں حکومت کے خلاف احتجاج کرنے عوام کے ایک طبقہ کواکساتے رہے تھے اور یہی انکے لئے سزائے موت کا باعث بنی ہے کیونکہ ہر ملک کا اپنا قانون ہوتا ہے اور یہاں کے شہریوں کو اس ملک کے قانون کی پاسداری کرنا لازم ہوتا ہے۔شیخ نمر کو سزائے موت دیئے جانے کے بعدمختلف ممالک میں شیعہ برادری نے سعودی عرب کے خلاف احتجاجی ریالیاں منظم کیں ، عراق میں شیعہ احتجاجیوں نے دو سنی مساجدپر بموں سے حملے کئے ہیں ۔

سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی کا ماحول 1980ء کی دہائی میں بھی ہوا تھا جس کے نتیجہ میں 1988ء اور پھر 1991ء میں دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات معطل ہوگئے تھے۔ اس وقت یعنی 22؍ ستمبر 1980سے 20 ؍اگسٹ 1988ء کے دوران عراق ایران جنگ ہوئی تھی اس جنگ میں سعودی عرب اور خلیج تعاون کونسل کے دیگر رکن ممالک عراق کے سابق صدر صدام حسین کی حمایت میں کھڑے ہوئے تھے اور ایران بھی ان ممالک کے بحری جہازوں کو نشانہ بنارہا تھا ، ان ہی دنوں میں سعودی عرب نے بھی اسکی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے پر ایک ایرانی جنگی جہاز کو مار گرایا تھا۔1979کے انقلاب کے بعد سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کی حکومتیں ایران پر مسلسل الزام لگاتی رہی ہیں کہ ایران خطے میں شیعہ عسکریت پسندی کو ہوا دے رہا ہے۔ 1980کے دہے میں سعودی شاہی خاندان کو دھمکیاں دیں گئیں بلکہ سعودی عرب میں کئی مہلک حملے کئے گئے جس کے بعد ایران اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی میں تیزی سے اضافہ ہوا تھا اور 1987ء میں دہشت گرد گروہ ’’حزب اﷲ الحجاز‘ کی بنیاد رکھی گئی جسے ایران کی پشت پناہی حاصل تھی، اس گروہ کی تشکیل لبنان کی حزب اﷲ کی طرز پر کی گئی اور اس نئے گروہ کا مقصد سعودی عرب کے اندر دہشت گردی کی کارروائیاں کرنا تھا۔ ماضی میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان کشیدہ حالات کو دیکھتے ہوئے موجودہ حالات سے جوڑا جائے تو اس مرتبہ حالات مزید خراب ہوتے نظر آرہے ہیں کیونکہ شام اور یمن میں ایران بشارالاسد اور حوثیوں کی مدد کررہا ہے تو دوسری جانب سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک شام میں بشارالاسد کی بے دخلی اور یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف کارروائیاں کررہے ہیں۔ سعودی عرب خطے میں دہشت گردی کا خاتمہ چاہتا ہے اور شام، یمن میں سنی مسلمانوں پر جو ظلم و زیادتی ہورہی ہے اسے ختم کرنا چاہتا ہے۔اسی لئے سعودی عرب میں دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے کسی قسم کی رعایت نہیں کی جاتی یہی وجہ ہے کہ شیعہ عالم نمر النمر کے خلاف بھی دیگر46افراد کے ساتھ سخت کارروائی کرتے ہوئے موت کی سزا دی گئی۔ دیگر اسلامی ممالک یعنی عراق، شام، یمن،اردون، لیبیا، مصر، افغانستان، پاکستان وغیرہ میں جس طرح عوامی احتجاج کی وجہ سے حالات خراب ہوتے رہتے ہیں جبکہ سعودی عرب ،مملکت میں کسی بھی قسم کے احتجاج کی اجازت نہیں دیتا۔سعودی عرب جس طرح دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے سخت قوانین وضع کئے ہیں اور اس کے ذریعہ سخت سزائیں رکھی ہیں اسی کی وجہ سے یہاں پر حالات فی الحال پُر امن ہے یہ اور بات ہے کہ گذشتہ چند ماہ کے دوران بعض مقامات پر شیعہ مساجد میں خودکش حملے ہوئے ہیں جس کے خلاف سعودی حکومت نے مستعدی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حملوں کے ذمہ داروں کو کیفرکردار تک پہنچانے کا اعلان کیا تھا اور ان خودکش حملوں کی سخت مذمت کی تھی۔ مملکت میں شیعہ سنی عوام کے درمیان کسی بھی ناخوشگوار واقعہ کی اجازت نہیں ہے اور تمام عوام کو مل جل کررہنے کی ترغیب دی جاتی ہے اس کے باوجود دہشت گرد مملکت میں فرقہ وارانہ فضا مکدر کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں اسی لئے گذشتہ دنوں شیخ نمر النمر سمیت 47افراد کو سزائے موت دی گئی ہے۔ چونکہ شیخ نمر شیعہ عالم تھے اس لئے ایران، عراق، پاکستان اور دیگر ممالک میں شیعہ عوام نے سعودی عرب کے خلاف احتجاج کررہے ہیں جبکہ دیگر سزائے موت پانے والوں کے خلاف کسی قسم کی آواز اٹھتی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ سعودی عرب کا ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے اور تجارتی و فضائی روابط ختم کرنے کے بعد بحرین نے بھی ایرانی سفارتکاروں کو فوراً ملک چھوڑنے کے احکامات جاری کردیئے ہیں جبکہ سوڈان ، کویت نے بھی ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرلئے ہیں ، ، عرب امارات میں ایرانی سفارتکاروں کی نقل و حرکت پر تحدیدات عائد کردی گئیں ہیں۔ اب دیکھنا ہیکہ مصر،، قطر ، عمان ، ایران کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات بحال رکھتے ہیں یا پھر یہ ممالک بھی ایران سے سفارتی تعلقات منقطع کرلیتے ہیں ویسے مصر میں اتوار کوسعودی عرب کی درخواست پر عرب ممالک ہنگامی منعقد ہونے والا ہے جس میں خطے کی صورتحال سمیت سفارتی تعلقات پر فیصلہ کا امکان ہے۔ سعودی عرب کے اس فیصلہ کے بعد امریکہ ، چین اور ترکی نے دونوں ممالک کو کشیدگی کم کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔ خبررساں ادارے انتولیہ کے مطابق ترک وزیر اعظم کرتلمس نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ دونوں ممالک فوری طور پر اس کشیدگی کو دور کریں جس سے مشرقِ وسطیٰ کے پہلے سے ہی کشیدہ حالات میں اضافہ ہوگا۔انہوں نے ایران سے مطالبہ کیا کہ وہ تمام سفارتی عملے کی حفاظت کریں اور کہا کہ ترکی سزائے موت کے تمام واقعات کے خلاف ہے خاص طور پر اگر یہ سیاسی محرکات کی حامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ کسی بھی ملک میں سزائے موت کی حمایت کریں۔ سعودی عرب اور ایران دونوں ہمارے دوست ہیں اور ہم ان کے درمیان لڑائی نہیں چاہتے کیونکہ یہ وہ آخری عمل ہوگا جو اس خطے کو درکار ہوگا۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات منقطع ہونے کے بعد عالمی سطح پر تشویش پائی جارہی ہے جبکہ دشمنانِ اسلام کو اپنے ہتھیاروں کی فروخت اور نکاسی کے لئے کروڑوں ڈالرزکی لاگت کے ہتھیار سپلائی کرنے کے مزید مواقع فراہم ہورہے ہیں۔

سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے تہران میں سعودی سفارت خانے پر حملے کے بعد اپنی پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ وہ ایران کے ساتھ فضائی سفری روابط اور تجارتی تعلقات ختم کرسکتا ہے اس کے ساتھ ساتھ سعودی شہریوں کے ایران جانے پر بھی پابندی عائد کردی جائے گی۔تاہم خبررساں ادارے روئٹرز کو دیئے گئے انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ مکہ اور مدینہ آنے والے ایرانی زائرین کو آنے کی اجازت ہوگی۔ دوسری جانب ایران کے دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ ریاض تہران میں سعودی عرب کے سفارتخانے پر حملے کو جواز بناکر کشیدگی پیدا کررہا ہے۔ پاکستان نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی میں اضافہ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اختلافات کو پرامن طریقے سے حل کرنے پر زور دیا ہے یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگاپاکستان سعودی عرب او رایران کے ساتھ بہتر تعلقات رکھتا ہے لیکن اب سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی کے بعد اسے سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ہے اگر پاکستان کو کسی ایک ملک کا ساتھ دینے کی بات آتی ہے تو ہوسکتا ہے کہ نواز شریف حکومت سعودی عرب کے ساتھ دے گا اور ایران سے اس کے تعلقات کشیدہ ہوسکتے ہیں ایسی صورت میں پاکستان میں پھر سے ایک مرتبہ شیعہ سنی فسادات کا سلسلہ شروع ہوسکتا ہے ۔

نواز شریف حکومت خطرہ میں۰۰۰
ادھر پاکستانی نواز شریف حکومت کی نےّا بھی پٹھان کوٹ فضائی اڈہ میں جاری دہشت گردانہ کارروائی کے بعد میڈیاکے مطابق ڈوبتی نظر آرہی ہے۔ پاکستانی اور ہندوستانی وزرائے اعظم کی گذشتہ دنوں ملاقات سے سمجھا جارہا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان حالات بہتر ہونگے لیکن بعض گوشوں سے یہ بھی کہا جارہا تھا کہ دونوں وزرائے اعظم کی دوستی کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کا بہتر ہونا ممکن نہیں کیونکہ دونوں ممالک میں موجود تعصب پرست نہیں چاہتے کہ ان ممالک کے درمیان خوشگوار تعلقات ہوں۔ اس سے قبل بھی نواز شریف اور واجپائی کے درمیان بہتر دوستانہ تعلقات تھے اوراس وقت کے پاکستانی فوجی سربراہ پرویز مشرف نہیں چاہتے تھے کہ ہند پاک کے درمیان تعلقات بہتر ہوں یہی وجہ تھی کہ وزیر اعظم نواز شریف اور فوجی سربراہ پرویز مشرف کے درمیان تعلقات کشیدہ ہوئے اور پھر نواز شریف کو اپنے اقتدار سے محروم ہونا پڑا اور آج بھی پاکستانی فوجی سربراہ راحیل شریف پاکستانی فوج اور عوام میں کافی مقبولیت پاچکے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ راحیل شریف ہند پاک دوستانہ تعلقات نہیں چاہتے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق اگر پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تعلقات بہتر ہوتے ہیں کہ ہزاروں فوجی اپنے روزگار سے محروم ہوسکتے ہیں اور فوجی سازو سامان بیکار گوداموں میں پڑا رہے گا اس لئے ہوسکتا ہے کہ پاکستانی فوجی قیادت ، ہندو پاک تعلقات کی بہتری کی کوششوں کو کامیاب ہونے نہیں دیں گی اور پٹھان کوٹ ، ممبئی جیسے دہشت گردانہ حملوں کے خلاف پاکستانی فوجی قیادت خاموش تماشائی بنی رہے گی۔ سابق پاکستانی فوجی سربراہ و سابقہ پاکستانی صدر پرویز مشرف نے پاکستانی ٹی وی چیانل دنیا کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں یہ اعتراف کیا تھا کہ مقبوضہ کشمیر ( ہندوستانی جموں و کشمیر)میں عسکریت پسندی کی پاکستان نے بھرپور حمایت کی تھی اور کئی اپنے عسکریت پسندوں کو وہاں بھیجا بھی تھا۔اوراب راحیل شریف کے تیور بھی ویسے ہی نظر آرہے ہیں ۔ نواز شریف اور مودی دوستی کو دشمنی میں بدلنے کی کوششوں کو مسترد نہیں کیا جاسکتا الکٹرانک میڈیا پٹھان کوٹ معاملہ کے بعد پاکستان کے خلاف کارروائی کرنے کو اکسارہا ہے ، میڈیاکی اطلاع کے مطابق پٹھان کوٹ معاملہ میں پاکستانی دہشت گردوں کے ملوث ہونے کا پاکستان نے اعتراف کرلیا ہے اور اب وہ اس کے خلاف کیا کارروائی کرے گا اس پر ہند پاک تعلقات کا انحصار ہے وزیر اعظم نواز شریف نے ہندوستانی وزیر اعظم مودی سے فون پر بات چیت کرتے ہوئے یقین دہانی کروائی ہے کہ تحقیقات میں ہر ممکن مدد کی جائے گی۰۰۰

Dr M A Rasheed Junaid
About the Author: Dr M A Rasheed Junaid Read More Articles by Dr M A Rasheed Junaid: 352 Articles with 209519 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.