وہ بات سارے افسانے میں جس کا ذکر نہ نکلا۔۔۔۔۔وہ بات ان
کو بہت ناگوار گزری،جب سے وزیراعظم نریندر مودی نے اپنا ذہن بدلہ ہے کہ
پاکستان کے ساتھ بجائے محاذآرائی کے بات چیت کا راستہ اپنانا جائے گا اور
اس تبدیلی کو انہوں نے پیرس میں میاں نواز شریف کے ساتھ 120سکینڈ کی ملاقات
کر کے اور پھر 25دسمبر کو لاہور کے چند گھنٹے کا دورہ کر کے عملی جامعہ
پہنایا تو پاکستان اور بھارت میں وہ عناسر جو چاہتے ہیں کہ دونوں ممالک ہر
وقت لڑتے رہیں اور مزاکرات کے ذریعے مسائل حل نہ کریں ،اس تاگ میں لگے ہوئے
تھے کہ کس طرح دونوں ریاستوں کے درمیان دوبارہ آگ بھڑکائی جائے ،پٹھان کوٹ
ایئربیس پر حملہ کر کے ان عناصر نے بھرپور کاروائی کی ہے ’’ڈائیلاگ‘‘کے عمل
کو ڈی ریل کیا جائے تاہم اس بار ابھی تک بھارت کی سیاسی لیڈر شپ نے کسی حد
تک عقل مندی کا ثبوت دیا ہے کہ اس نے فورا پاکستان کو ’’مودالزام ‘‘نہیں
ٹھہرایا بلکہ ایسے اقدامات کئے ہیں جو اسے ہمیشہ کرنے چائیں تھے ،جو ابھی
’’ثبوت‘‘اس کے پاس تھے اس نے فورا پاکستان کے حولے کئے جن میں الزام لگایا
گیا تھا کہ پٹھان کوٹ پر حملہ پاکستان کے کچھ لوگوں نے کیا ہے ،اب پاکستان
کے ادارے ان الزامات کی تحقیق کریں گئے اور وزیر اعظم نے اپنے بھارتی ہم
منصب کو یقین دلایا ہے کہ اس دہشتگردی میں اگر کوئی ملوث ہوا تو اس کے خلاف
سخت کاروائی کی جائے گی ،نواز شریف اور نریندر مودی کے درمیان ٹیلی فونک
رابطہ ہوا ہے جو کہ احسن اقدام ہے ،اس کا مقصد پٹھان کوٹ پر حملے پر پر
تشویش کا اظہار کرنا اور پاکستان کی طرف سے تعاون کا یقین دلانا تھا ،اگر
بھارت نے اس واقعہ کو بہانہ بنا کر لڑائی جھگڑے کے لئے آگ نہیں بھڑکائی اور
صبر و تحمل سے کام لیا ہے تو پاکستان نے بھی عقل مندی کا مظاہرہ کیا ہے ،نواز
شریف کے مودی کو فون سے قبل بھارت کے نیشنل سیکورٹی کونسل ایڈوائزر ’’این
ایس ایس‘‘ اجیت دوول نے بھی اپنے پاکستانی ہم منصب جنرل (ر) ناصر جنجوعہ سے
رابطہ کیا اور ان سے معلومات شیئر کیں کہ پاکستان ان پر تحقیقات
کرے۔۔۔اگرچہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانا ایک مشکل
کام ہے گر مودی کی نواز شریف سے دو ملاقاتوں ،دونوں ممالک کے این ایس ایز
کے درمیان تھائی لینڈ میں ہونے والی بات چیت اور اس ماہ کے وسط تک دونوں
فارن سیکرٹریز کے درمیان متوقع ملاقات سے امید کی ایک ہلکی سی کرن پیدا ہو
گی ہے کہ پاکستان اور بھارت اب کسی حد تک سنجیدہ نظر آ رہے ہیں کے بجائے اس
کے کہ ہر وقت مخاصمتی پالیسی اپنائی جائے ۔۔۔۔۔یقینا یہ پراسس دونوں ملکوں
کے درمیان بہت سے عناصر کو ہضم نہیں ہو رہا تھا لہذا پٹھان کوٹ پر دہشت
گردی جیسے واقعات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا تھا،اب پاکستان
اور بھارت دونوں کا امتحان ہے کہ وہ کس طرح اس مشکل صورتحال سے احسن طریقے
سے نکلتے ہیں اور بات چیت کے عمل پیڑی سے اترنے نہیں دیتے ہیں۔۔
فوری طور پر دونوں فارن سیکرٹریز کے درمیان متوقع ملاقات کے بارے میں جاری
شکوک و شہبات پیدا ہو گئے ہیں ان کو ختم کیا جائے اور دونوں وزاء اعظم کا
امتھان ہے کہ اس پراسس کو جاری رکھیں اور پٹھانکوٹ کے واقعے کی انکوائری
کرتے ہوئے ذمہ داران کو قرار واقعی سزا دی جائے اور دونوں ممالک کے درمیان
’’نان اسٹیک ہولڈرز ‘‘ موجود ہیں جو انہیں لڑائی جاری رکھنے میں اپنا کردار
ادا کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔اب بھی بھارت کی طرف سے نجموعی تاثر یہ مل رہا ہے کہ
پاکستان دہشت گردی کا مرکز ہے اور دہشت گرد جہاں بھی بالخصوص بھارتی میڈیا
پنجوں کے بل کھڑا ہو کر شور مچانے لگتا ہے کہ دیکھا پاکستان بہتر تعلقات
قائم نہیں ہونے دیتا ہے ۔۔۔۔۔بھارت اپنے غریب عوام کا پیٹ کاٹ کر اپنی آرمڈ
فورسز پر اسلحہ کی بارش کرتا ہے بھارت کے اینکرز پاکستان کی کردار کشی اور
اسے دہشت گردی کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں شاہد وہ صرف اپنے منہ میں زبان
رکھتے ہیں اور سر میں مغز نہیں رکھتے ہیں پاکستان کے اینکرز ،صحافی اور
دانش ور دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات کو خوش گوار کرنے میں کوشاں
رہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔محکمہ صحت پنجاب نے راقم کو بتایا کہ ڈی سی او اوکاڑا کے
پاس 91ملین روپے کے فندز ٹرانسفر کر دئیے گے ہیں جو کہ ڈی ایچ کیو ہسپتال
اوکارا اور ٹی ایچ کیو ہسپتال دیپالپور پر خرچ ہو ں گے اور ان سے ایک
بہترین عالمی میعار کے ایمرجنسی وارڈز کام فروری تک شروع کر دیں گے ۔۔۔۔۔۔ہم
وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف کے شکر گزار کہ انہوں نے میرے کالم کے
جواب کے لئے ترجمان محکمہ صحت نے میرے سے رابطہ کر کے اپ ڈیٹ کیا میری ڈی
سی او اوکاڑا سقراط امان رانا سے بھی گزارش ہو گی کہ وہ اس پر جلد سے جلد
کام شروع کروائیں اور شفافیت اور معیار پر کوئی سمجھوتہ نہ کریں کیوں کہ
تحصیل ہیڈکواٹر ہسپتال دیپالپور میں پہلے ہی وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں
الطاف حسین کی دی گئی معلومات کے مطابق آوٹ ڈور مریضوں اور ایمرجنسی میں
اپنے وسائل سے بڑھکر ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف بہترین خدمات سر انجام دے
رہے ہیں ۔۔۔۔۔اور آخر میں بقول شاعر کہ ۔۔۔۔بجلی کبھی گرمی ،کبھی صیاد آگیا
ہم نے تو چار دن بھی نہ دیکھے بہار کے ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ختم شد ۔۔ |