دنیابھر کی طرح پاکستان کے حالات بھی بہت تیزی کے ساتھ
تبدیل ہو رہے ہیں۔ہر روز کوئی نہ کوئی واقعہ، حادثہ رونما ہوجاتا ہے جس کی
وجہ سے ہم نے جو سوچا ہوتا ہے کہ آج اس پر کالم لکھوں گا وہ رہ جاتا ہے اور
کسی نئے موضوع پر لکھنا پڑ جاتا ہے ۔صحافت میں زیادہ تر کرنٹ موضوعات میں
لوگ دلچسپی اور پڑھنا پسند کرتے ہیں ،اس لیے ہم بھی زیادہ تر کرنٹ موضوعات
پر لکھتے ہیں۔29دسمبر کو پشاور میں عمران خان نے شوکت خانم کا افتتاح کیا
تو عین اس وقت مردان میں نادرا آفس کے گیٹ پر خود کش حملہ ہوا جس میں اب تک
کے اطلاعات کے مطابق 28افراد شہید ہوچکے ہیں۔اسی طرح وفاقی حکومت نے سرمایہ
داروں اور کاروباری حضرات کو اپنا کالا دھن یعنی پیسہ سفید اور قانونی
بنانے کیلئے ایمنسٹی سکیم کا اجرا کیا تاکہ اپنا ووٹ بنک مضبوط کر یں اور
سرمایہ داروں کو قانونی تحفظ دیا جاسکے۔ اسی طرح سال کے آخرمیں وزیر اعظم
میاں نواز شریف نے بلوچستان میں اقتصادی رہداری روٹ کا افتتا ح کیا اور
باآور کرایا کہ اس مغربی روٹ سے بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں ترقی ہوگی
جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے ۔وزیراعظم نے صرف سڑک کا افتتا ح کیا۔اصل روٹ
پنجاب لاہور سے گزرے گاجس پر صوبائی حکومت کا وفاق سے اختلافات بھی شروع ہے۔
آنے والے دنوں میں یہ مسئلہ مزید بڑھے گاجب تک اس کو حل نہیں کیا جاتا۔ ان
سب موضوعات پر انشاء اﷲ آئند کالم لکھوں گالیکن آج ہم بات کر یں گے شوکت
خانم پشاور کا جس کا باقاعدہ افتتاح 29دسمبر2015کو عمران خان نے کینسر کے
ایک چھوٹے بچے سے کرایا۔بڑے لوگ افتتاح خود کرتے ہیں عمران خان وہ بھی بچوں
سے کراتے ہیں۔
عمران خان کی شخصیت پچپن سے ہی عجیب وغریب رہی ہے ۔جہاں بطور کرکٹر وہ دنیا
کے بہتر ین کرکٹر اور کپتان کا اعزاز رکھتے ہیں تو وہاں پر کرکٹ کے زمانے
سے ہی ان کی شخصیت خبروں کی زینت بنتی رہی۔ صرف پاکستانی عوام نہیں بلکہ
بھارت اور دنیا کے دوسرے ممالک کے عوام بھی ان سے محبت کا جذبہ رکھتے ہیں
اور ان کی شخصیت کو پسند کرتے ہیں۔گزشتہ دنوں انہوں نے ایک دلچسپ بات سنائی
کہ جب میں بطور کرکٹر پاکستانی ٹیم کا حصہ بنا اور کپتان بھی بن گیا تھاتو
میرے والد صاحب ایک دن کہنے لگے کہ تم اپنی زندگی کھیل گود اور کرکٹ ہی میں
گزاروں گے یا کچھ کام بھی کروں گے یعنی ان کو معلوم ہی نہ تھا کہ عمران خان
کپتان بن چکا ہے اور کرکٹ کی کیا اہمیت ہے۔
عمران خان فرماتے ہیں کہ میں نے جس طرح اپنی والدہ شوکت خانم کو کینسرسے
تڑپتے ہوئے دیکھا ہے تو میرا ایمان کمزور ہوگیا کہ اﷲ تعالیٰ ایک انسان کو
اتنی تکلیف کی موت کیسے دے سکتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے حقیقت میں مجھ سے بہت بڑا
کام لینا تھا اور میر ے دل میں یہ بات ڈالا نی تھی کہ میں کینسر کا ہسپتال
بناؤ ں تاکہ لوگوں کی مائیں ،بچے،بیٹوں اور بھائیوں کا علاج ممکن ہوسکیں ۔
میری ماں تو مر گئی تاکہ دوسروں کے مائیں کینسر سے نہ مریں۔ پاکستان میں
کینسر کا ہسپتال بنانا کوئی معمولی کام نہیں تھا ، اس ملک میں جہاں پر
سرکار عام علاج ومعالجے کی سہولت نہیں دے رہی ہے تو کینسر جیسے مہنگے علاج
کی سہولت کیا دیگی۔ یہی وجہ ہے کہ شوکت خانم لاہور کو بیس سال کا عرصہ
گزرنے کے باوجود کسی بھی حکومت نے سرکاری سطح پر کینسر ہسپتال بنانا تو دور
کی بات کبھی غلطی سے یہ بات بھی نہیں کہی کہ حکومت بھی کینسر ہسپتال بنائے
گی۔ان بیس سالوں میں نواز شریف کی 1999سے پہلے کی حکومت ، نو سال پرویز
مشرف کے اور پانچ سال پیپلزپارٹی ،زرداری حکومت کے علاوہ اب ڈھائی سال میاں
نواز شریف حکومت کے ہورہے ہیں جس میں 150ارب روپے تو انہوں نے صرف میٹرو بس
کے پلوں اورسڑ کوں پر خرچ کیے اور اس سے زیادہ اب لاہور ٹرین منصوبے پر خرچ
کر رہی ہے لیکن پانچ ارب روپے کینسر ہسپتال بنانے پر خرچ نہیں کرتی کیوں کہ
اس کا فائد ہ غریب لو گوں کو ہو گا اور ظاہر ی بات ہے کہ جب عمران خان اپنے
خیراتی ہسپتال سے عوام کا70فی صد علاج فری میں کرتے ہیں تو سرکار بھی تو
غریب عوام کو کچھ نہ کچھ فری علاج دے گی۔ دنیا میں خیراتی ہسپتال صرف
پاکستان میں شوکت خانم ہی ہے جو اتنے بڑے پیمانے پر فری علاج مہیا کررہی ہے
۔ ورنہ یہ کام حکومتوں کا ہوتا ہے کہ حکومت عوام کو ایسی سہولت مہیا کر یں
لیکن شاید ہمارے حکمرانوں کی نصیب میں وہ دعا نہیں جو بے کس اور بے سہارا
ماؤں بہنوں ،بیٹوں اور والدین کا عمران خان اور شوکت خانم کے لیے نکل رہی
ہے۔ کسی کا درد اور تکلیف کا احساس صرف وہ لو گ لگا سکتے جن پر یہ تکلیف
گزری رہی ہو۔ کچھ قارئین سوچتے ہوں گے کہ عمران خان نے کینسر ہسپتال بنا
دیا ہے جو کافی ہے حکومت مزید کیا بنائے گی ۔ عرض یہ ہے کہ کینسر واحد مرض
ہے جو سب سے مہنگا ہے ۔ایک مریض پر کم ازکم 20سے 30لاکھ روپے کا خرچ آتا
ہے۔شوکت خانم لاہور ہر سال تین ارب کا مقروض ہو تا ہے اور اب عمران خان نے
شوکت خانم پشاور4ارب روپے سے بنایا جس میں آخری مہینے میں 80کروڑ روپے
درکار تھے اس میں 58کروڑ26دن میں جمع ہوئے باقی 22کروڑ روپے عمران خان کو
ایک پرائیویٹ چینل پر تین گھنٹے شو میں جمع ہوئے ۔ پاکستا نی عوام سمیت
دنیا بھر سے عوام نے ان کو یہ رقم دی ۔عام شہری اور وہ لوگ جن کو اﷲ تعالیٰ
نے نوازا ہے کیوں عمران خان پر بھروسہ نہ کر یں۔ عمران خان نے اپنی شخصیت
ہی کچھ ایسی بنا دی ہے۔ جن پر لوگ اعتبار کرتے ہیں۔ سیاست میں لوگ اقتدار
اور پیسے کے لیے آ تے ہیں، بھارت ، لندن ،امریکا ، دبئی اور ملایشیا میں
جائیدادیں اور پلازے خرید ے ہیں ۔ عمران خان کے پاس ایک پلاٹ تھا جس کی
قیمت تین کروڑ روپے تھی وہ بھی شوکت خانم پشاور کو دی۔شروع میں جب ان کے
والد صاحب شوکت خانم کے معاملات دیکھ رہے تھے تو ان کو بعدازاں اس لئے
ہٹایا گیا کہ وہ اس طرح کام نہیں کر سکتے تھے جس طرح انتظامیہ چاہتی تھی۔
یہ سب کچھ عمران خان ہی کر سکتا ہے ۔
اکثر عوام کا یہ گلہ اور شگواہ ہو تا ہے کہ ہم شوکت خانم ہسپتال لاہور گئے
ہمارے مریض کو داخل نہیں کرایا گیا۔ اکثر لوگ کی سوچ یہ بھی ہے کہ بس ہم نے
وہا ں جانا ہے تو ہمارے مریض کو مفت علاج شروع ہوجائے گا،جوممکن نہیں
ہوتا۔وجہ یہ ہے کہ ہسپتال میں 2سو مریض رکھنے اور علاج کی گنجا ئش ہے جو ہر
وقت آور لوڈ ہوتاہے۔ ملک بھر کے علاوہ افغانستان سے بھی مریض آتے ہیں جن کا
علاج کیا جاتا ہے۔ دوسرا مریض کی کنڈیشن کو دیکھا جاتا ہے کہ وہ علاج کے
قابل ہے ، علاج سے وہ ریکور کر سکتا ہے۔اس کے علاوہ ہسپتال میں مریضوں کی
تعداد کو دیکھا جاتا ہے کہ ہسپتال میں گنجائش ہے بھی کہ نہیں۔علاج کی بہتر
سہولت اور امریکی ہسپتالوں کے طرزکی جدیدمشینری اور ڈاکٹر ز کی موجود گی کی
وجہ سے امیر لوگ بھی سو فیصد خرچ دے کر علاج یہاں پر کرتے ہیں تاکہ بیرونی
ممالک جانے سے بچ سکے۔ بیرونی ممالک میں مریض پر خر چ کم از کم ایک کروڑ
دتک پہنچ جاتا ہے۔عمران خان نے پشاور میں شوکت خانم ہسپتال کا افتتاح کرکے
خیبرپختونخوا اور افغانستان کے عوام پر احسان کیا کہ یہا ں پر ہسپتال بنایا
اور اﷲ تعالیٰ کے فضل سے علاج شروع بھی کیا۔شوکت خانم لاہور میں زیادہ تر
مریض خیبر پختونخوا ، قبائلی علاقوں اور افغانستان کی جاتی ہے ۔ اب یہ لوگ
نزدیک پشاور ہسپتال میں علاج کر سکیں گے۔ شوکت خانم پشاور،لاہور کے ہسپتال
سے بھی بڑا ہے ، بیڈ کی سہولت چار سو تک کی ہے جس میں ابتدائی طور پر اب دو
سومریضوں کا بندوبست شروع ہوگیا ہے لیکن دوسو بیڈ کی سہولت اور اسکے لئے
رقم کا بندوبست ہونا ابھی باقی ہے ۔ ہم سب کو مل کر شوکت خانم ہسپتال کے
ساتھ ہر مہینے کچھ نہ کچھ اپنے بساط کے مطابق مدد کرنی چاہیے۔ اﷲ تعالیٰ
عمران خان سمیت ان کی پوری ٹیم اور ان تمام لوگوں کو اجر دے جنہوں نے اس
میں مالی اور جانی تعاون کیا ہے۔ |