پاکستان کیلئے یہ بہت اعزاز کی بات ہے کہ
پاکستان کے بری ا فواج کے سربراہ چیف آف اَرمی سٹاف جنرل راحیل شریف دُنیا
کے 10بہترین جنرلز میں سے نمبر1 پر آگئے ہیں۔امریکی فوج کے سربراہ جنرل
مارٹن ڈمپسی دوسرے اور تیسرے نمبر پرچین کے اَرمی چیف جنرل فینگ فنگ ہیں ۔
امریکی نشریات ادارے اے بی سی نیوز کے مطابق اَرمی چیف راحیل شریف کا ملک
کے اندر و باہر موجود ملک دشمنوں سے انتہائی بہترین حکمتِ عملی سے نمٹنے
اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اعلیٰ کارگردگی پر دُنیا کا بہترین کمانڈر
قرار دیا گیا ہے۔اُنھوں نے پاکستان کے استحکام کیلئے مختصر عرصے میں کئی
کامیاب فوجی آپریشنز کئے ہیں اور دہشت گردی کا ناسور جو چند عشروں سے دُنیا
بھر میں پاکستان کی تباہی کی علامت بن چکا تھا کے خاتمے میں حیران کُن
کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اُنھوں نے افواجِ پاکستان کو سنگل آرڈر سے کنٹرول
کیا ہے۔
باقی چوتھے سے 10ویں نمبر پر بالترتیب نام میں شامل ہیں: روس کے جنرل والرے
گراسیموف ،ترکی کے جنرل ہولوسی اکار،برطانیہ کے جنرل سرنک ہوفٹن ،جنوبی
کوریا کے جنرل یون ہی ائے، بھارت کے اَرمی چیف جنرل دلبیر سنگھ8ویں نمبر
پر،جاپان کے جنرل تسوتوشی کاوانو اور جنرل ودلکر ویکر جرمنی کے ۔
جنرل راحیل شریف نے 29ِ نومبر 2013ء کو پاکستان کے 15ویں چیف آف دی اَرمی
اسٹاف کی حیثیت میں پاک فوج کی کمان سنبھالی۔
وہ 16 ِ جون 1956ء کو کوئٹہ میں راجپوت گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ جبکہ خاندان
کا تعلق گجرات کے علاقے کنجہ سے ہے۔ اُنکے والد محمد شریف فوج سے میجر کے
عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے۔ اُنکے بڑے بھائی میجر شبیر شریف1971ء کی پاک
بھارت جنگ کے دوران بہادُری سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے تھے اور حکومتِ پاکستان
کی طرف سے اُنھیں نشان حیدر دیا گیا تھا۔ایک بھائی کیپٹن ممتاز شریف بھی
بحیثیت فوجی ستارہِ بسالت حاصل کر چکے ہیں۔ نشانِ حیدر حاصل کرنے وا لے
میجر عزیز بھٹی اُنکے ماموں تھے۔ اسطرح اُنکا تعلق باقاعدہ طور پر ایک فوجی
گھرانے سے ہے۔
بھائیوں میں سب سے چھوٹے راحیل شریف نے گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل
کرنے کے بعد پاکستان ملٹری اکیڈمی سے گریجوایشن مکمل کی ۔اُنھوں نے 54واں
کورس پاس کیا اور 1976ء میں پاکستانی فوج کی فرنٹیر فورس رجمنٹ کی 6ویں
بٹالین میں کمیشن حاصل کر لی۔ بعدازاں اُنھوں نے انفینٹری بریگیڈگللگت میں
فرائض سر انجام دیئے اور پھر اپنی قابلیت کے بل بوتے پر پاکستان ملٹری
اکیڈمی کے ایڈ جوٹنٹ ،کمپنی کمانڈر کا کورس جرمنی سے کرنے کے بعد اسکول آف
انفینٹری ان ٹیکٹکس میں انسٹرکٹررہے۔اُنھوں نے کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج
کینیڈا سے اعزاز کے ساتھ اعلیٰ تعلیم پائی ۔اُنھیں انفینٹری بریگیڈ کے
بریگیڈ میجر بننے کا موقع ملا اور کمانڈاینڈ اسٹاف کالج کوئٹہ کی فیکلٹی
میں بھی شامل رہے۔1998ء میں نیشنل یونیورسٹی اسلام آباد میں آرمڈ فورسز وار
کورس میں بھی شرکت کی۔
جنرل پرویز مشرف نے بحیثیت صدرِ پاکستان و اَر می چیف2002ء میں
برگیڈیئرراحیل شریف کو اپنا ملٹری سیکرٹری مقرر کیا ۔ سابق صد رجنرل (ر)
پرویز مشرف سے اُنکے ذاتی طور پر بہت ہی اچھے تعلقات رہے کیونکہ اُنکے
بھائی میجر شبیر شریف (نشانِ حیدر) اور سابق صد ر پرویز مشرف کورس میٹس
تھے۔
پاکستان اور جنرل راحیل شریف کیلئے چیف آف دی اَرمی سٹاف کے عہدے میں واقعی
قسمت کا ہاتھ نظر آتا ہے کیونکہ جب اُنھیں رائل کالج آف ڈیفنس
اسڑٹیجیزبرطانیہ سے گریجوایشن کی پیشکش ہوئی تو اُنھوں نے قبول کر لی اور
وہاں چلے گئے۔اگر وہ پرویز مشرف کے ملٹری سیکرٹری رہنے کو ہی ترجیع دیتے تو
آج اُنھیں اس عہدے کی خوشبو بھی نہ آتی۔بہرحال سابق اَرمی چیف جنرل (ر)
اشفاق پرویز کیانی نے بھی راحیل شریف کو اپنا منظورِ نظر رکھا اوردفاعی
معاملات میں اُنکے مشوروں سے مستفید بھی ہوتے رہے اور اُن کو اہم ذمہ
داریاں بھی سونپتے رہے۔ طالبان سے متعلق اہم امور اُن سے زیرِ بحث رہے۔
لہذا جنرل (ر)اشفاق کیانی کی طرف سے نئے اَرمی چیف کی تقرری کیلئے بھیجے
گئے 5ناموں میں راحیل شریف کا نام بھی شامل تھا۔جنکو وزیر اعطم نواز شریف
نے بغیر کسی سفار ش کے پاکستان کا اَرمی چیف مقرر کر دیا۔
اَرمی چیف جنرل راحیل شریف کیلئے چیلنجز :
جنرل راحیل شریف جب اَرمی چیف کے عہدے پر فائز ہوئے تو اُنکے سامنے اُس وقت
چند اہم مندرجہ ذیل چیلنجز تھے :
1) بھارت نے اپنے ملک کے دفاع کو مزید مضبوط کرنے کیلئے 16ِنومبر2013ء کو
ایک نیا طیارہ بردار جہاز جدید جنگی بنیادوں پرروس سے تیار کروا کر "وکرم
آیتا" کے نام سے بحریہ میں شامل کر لیا تھا۔اس سے پہلے
امریکہ،برطانیہ،فرانس اور برازیل کے پاس ہے اور ایشیا میں یہ پہلا ۔اسکے
علاوہ وہ آسٹریلیا سے یورینیم کے حصول کیلئے بھی کوشش کر رہا تھا ۔حالانکہ
فی الحال یہ بھارت کیلئے ممکن نہیں تھا کیونکہ بھارت،پاکستان اور اسرائیل
نے این پی ٹی کے معاہدے پر دستخط نہیں کیئے ہوئے جسکے تحت ایٹمی ہتھیاروں
کی بندش لازمی ہو جاتی ہے۔لیکن پھر بھی لمحہِ فکریہ تھا۔اسکے علاوہ امریکہ
اور عالمی طاقتوں کا ایران کے ساتھ اُس ملک کی بندشیں ختم کرنے کا معاہدہ
بھارت کیلئے غیر معمولی دلچسپی کا باعث بنا ہوا تھا۔ جس پر پاکستان کو
تشویش ہو رہی تھی۔لہذا ان حالات میں نئے چیف پر بھاری ذمہداری عائد ہوتی
تھی کہ بھارت کے مستقبل کے عزائم پر گہری نظر رکھیں اور اپنے دفاع کو بھی
ناقابلِ تسخیر بنانے کا عزم قائم رکھیں۔
(2 طالبان کی بڑھتی ہوئی طاقت اور حکومتِ وقت کی اُنکے ساتھ مذاکرات کی
کوشش کو کتنا اہم سمجھا جا سکتا ہے یہ بھی نئے چیف کیلئے ایک کڑا امتحان
تھا۔کیونکہ اس دوران امریکہ کی طرف سے جو ڈرون حملوں کا سلسلہ جاری تھا وہ
آئندہ کیسے نتائج کا پیش خیمہ ہوں گے اور اُس پر پاک فوج کے سربراہ کا کیا
فیصلہ ہو گا پوری قوم کی نظر اُس پر رہے گی۔
(3 جنرل (ر) اشفاق کیانی کے دور میں بھی پاکستان کے مزائل پروگرام کا سلسلہ
جاری رہا اور اپنے آخری دنوں میں پاکستانی ڈرون "براق" اور" شہپر" حکومتِ
پاکستان کے تعاون سے نیسکام کے سائنس دانوں اور انجینئرؤں سے تیار کروا کر
پاک فوج کے حوالے کر گئے ہیں۔ بہت بڑا کام ہے۔اب یہ اَرمی چیف جنرل راحیل
شریف کی ذمہداری تھی کہ پاکستان کے دفاع کو مزید جدید اسلحے سے لیس کریں۔
لیکن مقاصد پُر امن ہوں ۔تاکہ دشمن اپنے جنگ کے ارادے ترک کر کے باہمی
تجارت سے تعلق بحال کرنے کو ترجیع دے۔
4) سب سے اہم پاکستان کی عوام کو دہشت گردی سے نجات دلوانے کیلئے بہترین
حکمتِ عملی کو اپنایا جائے۔
جنرل راحیل شریف نے یقیناً اپنی ذمہداریوں کا بہترین احاطہ کر کے اس خوبی
سے ملک کے دفاعی معاملات کو ترجیع دی کہ پاکستان کی عوام ہی نہیں بلکہ
بیرونِ ملک بھی اُنکی صلاحتوں کو زیرِ بحث لایا گیا۔ لہذا اُنھوں نے بھی اس
سلسلے میں وقتاً فوقتاً دوسرے ممالک کادورہ کیا اور وہاں کی حکومتی و دفاعی
شخصیات سے ملاقاتیں کر کے پاکستان کو ایک پُرامن ملک قرار دلوانے میں
کامیابی حاصل کی۔لہذا ایک طرف اُنھوں نے دفاعی معاملات پر گفت و شنید کو
اہمیت دے کر دُنیا بھر میں پاکستانی فوج کا بہترین امیج کو قائم رکھا اور
دوسری طرف ملک کے دفاع کو جدید اسلحے سے لیس کرنے کیلئے اپنی بھرپور ذمہ
داری نبھا رہے ہیں۔
2015ء میں سوشل میڈیا پر " تھینک یو" راحیل شریف کا نعرہ سال بھر لائیکس و
شیئرزکی صورت میں گردش کرتا رہا۔کیونکہ ملکی سرحدوں کے علاوہ کراچی میں
ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری ،اغواء برائے تاوان اور دوسرے مزید جرائم پر قابو
پانے کیلئے حکومت اور اپنے فوجیوں ساتھیوں سے مشاورت کے ساتھ فیصلے کر رہے
ہیں اور جنکے نتائج بھی مُثبت نظر آرہے ہیں۔
2016ء کے آغاز کے پہلے 10دنوں کے دوران اُنکی صلاحیتوں کے مانتے ہوئے جو
اُنکو دُنیا کے 10جنرلوں پر اولیت دیتے ہوئے پہلے نمبر کا اعزاز دیا گیا ہے
وہ جہاں ملک و قوم کیلئے نئے سال کی ایک بہت بڑی خوشخبری ہے وہاں اُنکی
جمہوری حکومت کے ساتھ ایک باقاعدہ ہم آہنگی پاکستان کے روشن مستقبل کی نوید
ہے۔
عوام دُعا گو ہے کہ ہمارے ملک کیلئے سب اچھا ہو۔ |