تھر معصوم بچوں کی موت کی وادی !
(Muhammad Arshad Qureshi (Arshi), Karachi)
ڈبلیو ایچ او نے اپنے جائزہ رپورٹ میں کہا ہے کہ تھر میں قریبی صحت مرکز تک پہنچنے کے لیے ایک ہزار سے چار ہزار روپے درکار ہوتے ہیں اور یہ سفر دو سے چار گھنٹوں میں طے ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر بچے صحت مرکز پہنچنے سے پہلے ہی ہلاک ہوجاتے ہیں |
|
|
گذشتہ سال تھر میں قحط سالی اور طبی
سہولیات کے فقدان کی وجہ سے سینکڑوں بچوں کی ہلاکتوں کے بعد نئے سال کے
ابتداء میں ایک مرتبہ پھر ہلاکتوں میں اضافہ ہوگیا اور رواں سال کے ابتدائی
چھ روز کے دوران 15 کمسن بچے ہلاک ہو چکے ہیں اور یہ ہلاکتیں روز آنہ کی
بنیاد پر جاری ہیں جس میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے لیکن افسوس حالات کی
سنگینی کو دیکھتے ہوئے بھی حکومتی توجہ اس جانب نہیں ، حالیہ بلدیاتی
انتخابات میں بلند و بانگ دعوے کرکے ان علاقوں سے ووٹ لینے والے بھی ان
معصوم بچوں کی ہلاکتوں سے قطعی پریشان نظر نہیں آتے ۔ ماضی کی طرح اس مرتبہ
بھی تھر میں ہلاکتوں پر حالات کا جائزہ لینے کے لیئے حکومت سندھ کی جانب سے
ایک دو رکنی کمیٹی بنادی گئی ہے ۔لیکن حالات اس قدر سنگین ہوتے جارہے ہیں
کہ اب کسی کمیٹی کی نہیں بلکہ فوری طور پر عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے
جس میں متاثرہ علاقوں میں پینے کا صاف پانی ، ادویات، خوراک اور وسیع
پیمانے پر طبی ٹیمیں بھیجی جائیں اور یہ سلسلہ مستقل بنیاد پر کیا جائے ،
تھرپارکر اور قرب و جوار میں واقع علاقوں میں قائم اسپتالوں کو فوری طور پر
ادویات فراہم کی جائیں اور ڈاکٹر وں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے ۔
ڈبلیو ایچ او نے اپنے جائزہ رپورٹ میں کہا ہے کہ تھر میں قریبی صحت مرکز تک
پہنچنے کے لیے ایک ہزار سے چار ہزار روپے درکار ہوتے ہیں اور یہ سفر دو سے
چار گھنٹوں میں طے ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر بچے صحت مرکز پہنچنے
سے پہلے ہی ہلاک ہوجاتے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ مستقل بنیادوں پر صحت
مراکز کے طرز پر طبی کیمپ لگائے جائیں ۔متاثرہ علاقوں میں ایمبولینس سروس
کو فعال کیا جائے جو کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں دستیاب ہو۔
سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ لوگ استایلوں تک نہیں آتے، جس کی وجہ سے وہ صحت
کی سہولیات سے محروم رہتے ہیں لیکن کبھی اس بات پر توجہ نہیں دی گئی کہ لوگ
ہسپتالوں تک کیوں نہیں پہنچ پاتے دراصل غربت کے مارے ان لوگوں کے پاس اتنے
وسائل نہیں ہیں کہ وہ ایمبولنس نہ ہونے کی صورت میں ٹیکسی پر سفر کرسکیں
کیوں کہ پبلک ٹرانسپورٹ اور ایمبولنس کے فقدان کی وجہ سے لوگ حالت مجبوری
ایمرجنسی میں ٹیکسی پر ہی سفر کرتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ تھر پار کر کے
متاثرہ علاقوں میں شعبہ صحت تباہ حالی کا شکار ہے اور حکومتی لاپرواہی اسے
مزید تباہی سے دوچار کررہی ہے ، اسپتالوں میں ماہر ڈاکٹروں کی شدید قلت ہے
جہاں ڈاکٹروں کی پچیس اسامیاں ہیں وہاں ایک ڈاکٹر کام کررہا ہے ایک ڈاکٹر
چوبیس گھنٹے ڈیوٹی نہیں دے سکتا جب بچوں کو ایمرجنسی میں اسپتال لایا جاتا
ہے تو کوئی ڈاکٹر موجود نہیں ہوتا اور طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے بچے
ہلاک ہوجاتے ہیں ۔
افسوس اس بات کا ہے کہ بچوں کی ہلاکتوں کے واقعات اچانک نہیں شروع ہوئے یہ
سلسلہ کافی عرصہ سے جاری ہے ہاں اس میں شدت اچانک آجاتی ہے لیکن اس کے
باوجود کسی بھی جانب سے کوئی خاطر خواہ عملی کام نہیں کیا جارہاہے ۔تمام
حکومتی اداروں ، فلاحی اداروں اور تمام صاحب حیثیت افراد سے اپیل ہے کہ وہ
اپنے تمام وسائل بروئے کار لائیں اور خدارا ان معصوم بچوں کی زندگیوں کو
بچائیں ۔ |
|
Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.