پٹھان کوٹ ایئر بیس حملے کا ہدف مذاکرات سے انکار

شک تو پہلے ہی تھا جو اب یقین میں بدل گیا ہے کہ پٹھان کوٹ ایئر بیس پر حملہ ہوا نہیں بلکہ کرایا گیا ہے کیونکہ حملے سے متعلق کوئی ٹھوس، قابل اعتماد اور قابل ایکشن انٹیلی جنس شیئرنگ کیے بغیر 15جنوری کو ہونے والے سیکرٹری سطح کے پاک بھارت امن مذاکرات کو اس بات سے مشروط کردیا گیا کہ پاک بھارت مذاکرات کے انعقاد کا تعلق بھارت کی طرف سے دیئے جانے والے شواہد پر لیے جانے والے پاکستان کے ایکشن سے ہے۔ گزشتہ روز پاکستان کی اعلیٰ فوجی اور سیاسی قیادت نے دہشت گردی کے خلاف بھارت کے ساتھ مکمل تعاون کے عزم کا اعادہ کیا اور واضح کردیا کہ پاکستان دہشت گردی کے لئے اپنی سرزمین استعمال نہیں ہونے دیگا۔ صرف یہی نہیں بلکہ دہشت گردوں کے خلاف بلا تفریق کارروائیاں جاری رکھی جائیں گی۔ اس موقع پر پٹھان کوٹ واقعہ سے متعلق بھارتی معلومات کا جائزہ بھی لیا گیا تاہم یہ معلومات ٹھوس شواہد پر مبنی نہ ہونے پر بھی غور کیا گیا۔ پاکستان بذات خود دہشت گردی کا شکار ہے اور بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کی دہشت گردانہ کارروائیوں کے ٹھوس شواہد پاکستان اقوام متحدہ کو دے چکا ہے۔ ’’اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے‘‘ والی صورتحال کا پاکستان کو سامنا ہے۔ بھارت دہشت گردوں کی پشت پناہی کررہا ہے اور مشکوک پٹھان کوٹ حملے میں پاکستان کو ملوث کررہا ہے۔ ویسے تو بھارت میں خودساختہ حملوں کے بوگس ڈراموں کی تاریخ نئی نہیں پرانی ہے۔ ہر دفعہ ان بوگس ڈراموں کے تحت فلمائے گئے حملوں کے مقامات تبدیل کر دیئے جاتے ہیں تاہم کہانی کمزور نکلتی ہے۔ ایسا ہی کچھ پٹھان کوٹ ایئر بیس حملے کے بعد ہوابھارتی میڈیا نے حسب روایت پاکستان پر الزام لگانے میں ذرا دیر نہ لگائی لیکن بھارتی میڈیا کے ہی ایک حصے نے تمام تر واقعات پر کئی سوالات کھڑے کر دیئے۔ گزشتہ روز ایئر بیس کے مین گیٹ سے بیریئر ہٹا دئیے گئے تھے اور قریبی دکانیں بھی جلد ہی بند کروا دی گی تھیں۔ آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا۔ پٹھان کوٹ ایئر بیس پر حملہ بھارتی حکام کا رچایا ہوا ڈرامہ نکلا۔ بھارتی شہریوں نے اپنی حکومت کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ عینی شاہدین کے مطابق، گزشتہ روز ایئر بیس کے مرکزی گیٹ کے باہر لگے حفاظتی بیرئیر ہٹا دئیے گئے تھے اور قریبی دکانیں بھی جلد بند کروا دی گئی تھیں۔ پاکستانی سرحد کے قریب رچائے گئے اس بھارتی ڈرامے میں حملہ آور ملٹری یونیفارم میں ملبوس اور سرکاری گاڑی میں سوار تھے۔ سوال یہ ہے کہ حملہ آور اگر پاکستانی تھے تو ان کے لئے بھارتی سرکاری گاڑی اور فوجی یونیفارم کا اہتمام کیسے ہوا۔ حملے کے دوران ہی کال ٹریس بھی ہو گئی۔ حملہ آوروں کے شناختی کارڈ بھی مشکوک نکلے۔ بھارت اور پاکستان میں جب بھی مذاکرات کا آغاز ہونے لگتا ہے، اچانک بھارت میں دہشت گرد حملہ ہوتا ہے اور سب کئے کرائے پر پانی پھر جاتا ہے۔ تاہم اس دفعہ بھارتی وزیر اعظم نے حسب سابق پاکستان پر الزامات نہیں لگائے۔ آخر ہر دفعہ ایسے واقعات سرحد کے قریب ہی کیوں پیش آتے ہیں؟۔ ان واقعات میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی تعداد کیوں کم ہوتی ہے۔ کیسے ہر دفعہ آسانی کے ساتھ فون کالز پاکستان سے ٹریس کرلی جاتی ہیں جبکہ پاکستانی شناختی کارڈ بھی بوگس نکلتے ہیں؟۔

پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے دہلی میں پارلیمنٹ اور ممبئی حملے کے ڈرامے بھی بوگس نکل چکے ہیں۔ بھارتی وزارت داخلہ کے سابق افسر ستیش ورما پولیس ٹریننگ کالج جوناگڑھ کے سربراہ ہیں عشرت جہاں قتل کیس میں بیان دے کر چونکا دیا تھا۔ ستیش ورما اعتراف کرتے ہیں کہ ممبئی اور پارلیمنٹ پر حملے بھارتی حکومت نے خود کرائے تھے اور ان کا مقصد دہشت گردی کے خلاف سخت قانون بنانا تھا نیز یہ بھی کہ حملوں کے بعد پاکستان پر الزامات عائد کر کے دباؤمیں اضافہ کیا گیا ہے۔

دہلی اور ممبئی حملے بھارت میں مقیم مسلمانوں اور پاکستان سے بغرض ملاقات جانے والے ان کے عزیز و اقارب کے لئے اذیت کا سبب بن گئے تھے۔ 13دسمبر 2001کو پارلیمنٹ پر حملے کے بعد P.T.A ایکٹ اور26 نومبر 2011 کو ممبئی حملوں کے بعد یو اے پی اے قوانین میں ترامیم کے بعد بھارت کی مسلم آبادی اور عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا سید علی گیلانی سمیت ہزاروں افراد گرفتار ہوئے اور اتنے ہی ان پر مقدمات بنے۔ بھارتی پولیس اور سکیورٹی اداروں کو دونوں قوانین کی من مانی تشریح کا اختیار مل گیا جسے چاہو پکڑو تدد خوف اور لالچ دے کر جو چاہو اگلوا اور ملبہ پاکستان پر ڈال دو سخت تنقید عوامی احتجاج اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطالبے پر 2004میں پوشا کو منسوخ کرنا پڑا لیکن یو اے پی اے کے تحت آج بھی وہاں بھارتی مسلمان آئے روز نشانہ بنتے ہیں۔بھارت کی موجودہ حکومت ہو یا ماضی کے حکمران ان کی پاکستان مخالف پالیسیاں ایک طے شدہ ایجنڈے کا تسلسل ہیں وہ حکومت کے مخالفوں کو ریاست کا باغی قرار دے کر ماورائے آئین اقدامات کرتی رہیں اور تمام ملبہ پاکستان پر ڈالا گیا ۔

Raja Majid Javed Ali Bhatti
About the Author: Raja Majid Javed Ali Bhatti Read More Articles by Raja Majid Javed Ali Bhatti: 57 Articles with 43838 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.