اس وقت ایران سعودی عرب کشیدگی دنیا کا سب سے
ہاٹ موضوع ہے ، دو مسلم ممالک کے ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑا ہونے سے
مسلمانوں کا متفکر ہونا فطری عمل ہے۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل بن احمد
الجبیر اور سعودی نائب ولی عہد اور وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان کے دورہ
پاکستان کواسی تناظر دیکھا جا رہا ہے، اور خصوصا جناب عادل بن احمد الجبیر
کی پاکستان آمد کے فوری بعد ان کی پاک فوج کے سربراہ جناب راحیل شریف سے
ملاقات کو خصوصی اہمیت کا حامل قرار دیا جا رہا ہے۔سعودی وزیر خارجہ کی
پاکستانی حکمروانوں سے ملاقاتوں کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ میں
کہا گیا ہے کہ پاکستان سعودی عرب کی تحریک وقیادت میں تشکیل پانے والے
چونتیس ملکی اتحاد سے چار شعبوں میں تعاون کرنے پر تیار ہے،مشترکہ اعلامیہ
کے مطابق سعودی عرب کی سلامتی کو خطرات لا حق ہونے کی صورت میں پاکستان
سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہوگا۔وزیر خارجہ عادل بن احمد الجبیر کے دورہ میں
جن چار شعبوں میں تعاون پر اتفاق رائے ہوا ہے نائب ولی عہد اور سعودی عرب
کے وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان ان پر عملی وتحریری معاہدہ کے لیے تشریف
لائے ،ان سطور کی اشاعت تک سعودی ولی عہد و وزیر دفاع اپنا دورہ مکمل کرکے
واپس سعودی عرب لہنچ چکے ہوں گے۔ عالمی میڈیا سعودی نائب ولی عہد کے اس
بیان کو بڑی اہمیت دے رہا ہے کہ ’’ریاض کسی طور بھی تہران سے جنگ کی اجازت
نہیں دے گا اور جو لوگ تہران اور ریاض کے مابین جنگ کی باتیں کررہے ہیں
انکا ذہنی توازن درست نہیں‘‘ ولی عہد کے اس بیان سے کم از کم مسلم امہ سکھ
کا سانس لے گی کہ دو مسلم ممالک کے درمیان جنگ نہیں ہوگی اور غیر یقینی کے
چھائے بادل چھٹ جائیں گے۔ سعودی عرب کی قیادت میں دہشتگردی کے خاتمے کے نام
پر معرج وجود میں آنے والے چونتیس ملکی اتحاد کی تشکیل کے خدوخال واضع ہونے
لگے ہیں۔ شیعہ عالم دین شیخ نمر باقر النمر اور چھالیس دیگر افراد کی سزائے
موت سے تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال سے سب چیزیں عیاں ہو گئیں ہیں عالمی
زرائع ابلاغ کہتا ہے کہ چونتیس ملکی اتحاد کی داغ بیل کیونکر ڈالی گئی
ہے؟کیونکہ سعودی عرب شیخ نمر باقر النمر اور ان کے دیگر ساتھیوں کو سزائے
موت دینے کا حتمی فیصلہ کرچکا تھا اور اسے اس بات کا بھی یقین تھا کہ شیخ
نمر کا سرقلم کرنے کی صورت میں ایران خاموش تماشائی نہیں بنے گا بلکہ ایران
کی شہ پر شیعہ کمیونٹی زوردار ردعمل کا اظہار کرے گی اس لیے سعودی عرب نے
پیش بندی کے طور پر اور حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے چونتیس ملکی اتحاد
تشکیل دیا گیا۔سعودی عرب ایران کے مقبلے میں خود کو نفسیاتی طور پر کمتر
تصور کرتا ہے۔
اندر کی بات سے باخبر اور حالات پر گہری نظر نظرکھنے والوں کا کہنا ہے کہ’’
پاکستان کو ایارن سعودی تنازع ختم کرانے کے لییاپنا کردار ادا کرنا چاہیے
نا کہ سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہوکر پاکستان کی قومی سلامتی کو داؤ پر لگانے
کی پالیسی اختیار کرے‘‘ارکان پارلیمنٹ نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ
ایران سعودی عرب تنازع میں غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ترک کرے اورمسلم امہ
کو تقسیم ہونے سے بچانے کی جدوجہد کرے۔ارکان پارلیمنٹ خصوصا حزب مخالف کا
موقف یہ ہے کہ دونوں فریقین میں جاری کشیدگی علاقائی مسلہ بنتا جا رہا ہے
لہذا پاکستان اس مین فریق نہ بنے بلکہ اپوزیشن سے ملکر متفقہ پالیسی بنائی
جائے جو عالمی امن کو خطرات سے محفوظ رکھنے کا باعث بنے۔
سعودی عرب کی اتحادی افواج کی جانب سے یمن میں ایرانی سفارت خانے پر بمباری
کے بعد سعودی عرب کی اخلاقی اعتبار برتری میں کمی واقع ہو رہی ہے اور تہران
میں سعودی سفارت خانے پر حملہ پر ایران پر ہونے والی تنقید کا رخ سعودی عرب
کی طرف منتقل ہو گیا ہے۔ ایران کے صدر حسن روحانی نے تو تہران مین سعودی
افارت خانے پر دھاوا بولنے والوں کی کارروائی کو قابل مذمت قرار دیتے ہوئے
ایرانی عدلیہ کو بھی ہدایت کی تھی کہ سفارت خانے پر حملے مین ملوث افراد کو
سخت سزائیں دی جائیں لیکن یمن میں ایرانی سفارت خانے کو بمباری کا نشانہ
بنانے والی اتحادی افواج کی کارروائی کی ابھی تک مذمت نہیں کی گئی۔ اور محض
تحقیقات کروانے کی بات کی گئی ہے جو ناکافی ہے۔
چین سعودی عرب اور ایران کے مابین پیدا شدہ کشیدگی کو ختم کرانے اور دونوں
ممالک کو صورتحال کی نزاکت کا احساس دلانے کے لیے گہری دلچسپی دکھا رہا ہے
اور اس نے اپنا نمائندہ بھی سعودی عرب روانہ کر دیا ہے جو ایران کا دورہ
بھی کریگا چین کے اس ذمہ دارانہ اقدام سے امید پیدا ہونے لگی ہے کہ ایران
اور سعودیہ چین کی بات کو توجہ سے سنیں گے اور اسکے مشوروں پر عمل پیرا
ہوکر دنیا کے امن کو خطرے میں نہیں ڈالیں گے۔پاکستان تحریک انصاف کے
چیئرمین عمران خان نے بھی سعودی عرب اور ایران کے سفیروں سے ملاقاتیں کی
ہیں اور انہیں اس کشیدگی سے پیدا شدہ صورتحال اور ممکنہ اثرات و نتائج اور
مسلم امہ کی پریشانی سے آگاہ کیا اور انہین تمام اختلافات باہمی مذاکرات سے
حل کرنے پر زور دیا ہے ۔گو ایران نے بھی سعودی عرب کی مصنوعات کے استعمال
پر مکمل پابندی لگادی ہے اور اپنے شہریوں کے سعودی عرب جانے پر بھی پابندی
عائد کردی ہے۔لیکن اس وقت دنیا بھر کی نظریں پاکستان پر لگی ہوئی ہین
کیونکہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان جاری کشیدگی کے بڑھنے اور ختم ہونے
کا دارومدار پاکستان کے فیصلہ سے وابسطہ قرار دیا جا رہا ہے۔ کیونکہ چونتیس
ملکی فوجی اتحاد میں پاکستان سمیت ایک یا دو ممالک اس قابل ہونگے جنہیں کی
فوجی صلاحیت قابل ذکر ہے باقی سب خانہ پری ہے۔
سعودی عرب اور ایران کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے اپوزیشن مطالبہ کر رہی ہے
کہ پاکستان کی حکومت دونوں ممالک کے درمیان ثالثی کرے کسی ایک فریق کا ساتھ
نہ دے، یہاں مجھے تھوڑا سا اختلاف ہے کیونکہ ثالثی اس وقت کی جاتی ہے جب
دونوں فریق اس پر رضامند ہوں ، برحال جرمنی،فرانس،چین اور دیگر غیر جانب
دار ممالک کی کوشش اس کشیدگی کو ختم کرنے میں بارآور ثابت ہونگی ،برحال ایک
بات طے ہے کہ حکومت پاکستان کو اس معاملے میں سوچ سمجھ کر اور پھونک پھونک
کر قدم اٹھانا ہونگے اور فیصلے کرتے وقت پاکستان کے مفاد کو ترجیح دی جائے
گی اگر سعودی عرب اپنے ہاں کام کرنے والے پاکستانیوں کی قیمت پر کوئی تعاون
طلب کرے تو اسے پاکستان کی قومی سلامتی پر ترجیح نہیں دینی چاہیے۔ |