بنیادی ضرورت!

ریلوے کے مزدور رہنما نے خود کو زنجیر وں میں جکڑا، گلے میں بجلی اور گیس کے میٹر ڈالے، سر پر چولہا رکھا، اور اس پر دیگچی، دیگچی کا خالی ہونا بھی ایک اہم بات ہے، اس سے صرف گیس اور بجلی کا رونا نہیں رویا جاتا ، بلکہ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ دیگچی خالی ہے، اس میں ڈالنے کے لئے پیاز لہسن یا دیگر اشیا بھی اس کی قوت خرید سے باہر ہوچکی ہیں، ہاتھوں میں سوئی گیس اور بجلی کے بل اٹھائے اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ احتجاج کرتے سڑک پر آگیا۔ مزدوروں نے یہ احتجاج بجلی اور گیس کی بندش کے خاتمے کے لئے کیا۔ احتجاج کرنے والوں نے یہ کہا کہ ان کے بچے ناشتے کے بغیر سکول جاتے ہیں، انہوں نے احتجاج کا سلسلہ ٹرین تک بڑھاتے ہوئے ریل کا پہیہ روک دیا۔ مزدور رہنما کا جب ان تمام جکڑ بندیوں میں آیا ہوگا تو یہ منظر کتنا منفرد ہو گا، لوگوں نے اسے کتنی دلچسپی سے دیکھا ہوگا، میڈیا والوں نے اس کی تصویر کشی کی ہوگی، بہت سے لوگ اسے دیکھ کر ہنس بھی رہے ہونگے۔ وہ ظاہر ہے مزدور رہنما ہے، اس لئے اس نے اپنے ساتھیوں کی نمائندگی کرنا تھی، اسی لئے اس نے تمام لوگوں کا دکھ اپنے گلے میں ڈال لیا، اپنے سر پر لاد لیا اور اپنے ہاتھوں میں اٹھا لیا۔ ان کا فرض تھا کہ وہ احتجاج کرتے، اگر کسی کو تکلیف ہے تو رونا تو اس نے ہے، اگر وہ نہیں روئے گا تو اس کی بات کون سنے گا، مگر بدقسمتی سے اپنے ہاں رونے والے کی کوئی نہیں سنتا۔ بلکہ سرکاری کھاتے میں تو یہ ہوتا ہے کہ احتجاج کرنے والوں کو سرکاری طور پر دبا دیا جاتا ہے، اس کو مختلف مقدمات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اسی طرح نجی کاروبار والے لوگ بھی جب احتجاج کرتے ہیں تو حکومت ان کو قابو میں لانے کے لئے مقدمات کا ہتھیار استعمال کرتی ہے، اگلی مرتبہ وہ لوگ احتجاج کرنے سے قبل سوچتے ہیں کہ آیا ہم اپنا کاروبار چلائیں یا عدالتوں میں مقدمات بھگتیں۔ سرکاری ملازمین کو احتجاج سے روکنا انتہائی آسان ہے، کیونکہ ان کی جان سرکاری طوطے میں ہوتی ہے۔

لوگ احتجاج کرتے ہیں، مگر جس کے سامنے احتجاج کیا جاتا ہے وہ یا تو سماعت کی قوت سے محروم ہیں، یا ان کی بصارت کام نہیں کرتی، یا ان کے حواس جواب دے گئے ہیں۔ احتجاج کا فائدہ تب ہی ہے جب ان کی بات سنی جائے، اس پر غور کیا جائے، توجہ دی جائے، اگر مطالبہ جائز ہے تو اسے حل کرنے کی کوشش کی جائے اگر ناجائزیا بلا ضرورت ہے تو اسے نظر انداز بھی کیا جائے اور اس کی حوصلہ شکنی بھی کی جاسکتی ہے۔ مگر یہاں تو روایت ہی الٹی ہے، معقول و نامناسب کا کوئی فرق ہی نہیں، ہر احتجاجی کے خلاف حکومتی لوگوں کا ایک مائنڈ سیٹ ہے، کرسی پر بیٹھا ہوا ہر افسر احتجاج نام کی چیز سے سخت چِڑ رکھتا ہے، احتجاج کا نام سنتے ہی وہ غصے میں آجاتا ہے، اس کی برداشت کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے۔ اسے یہ خیال کرنا چاہیے کہ یہی حال سائل کا بھی ہے، جب کسی کے گھر میں بجلی نہیں ہوگی اور پانی کی ٹینکی بھی خالی ہوگی، تو گھر کا نظام کیسے چلے گا، سکول جانے کے لئے بچے کیسے تیار ہوں گے، چلیں مانا کپڑے تو اس وقت بھی استری کئے جاسکتے ہیں جب بھی بجلی آئے، مگر منہ تو رات کو دھو کر نہیں سویا جاسکتا، اور اسی طرح ناشتہ بھی صبح ہی کرنا پڑتا ہے، یہ کام بھی رات کو کر کے سونے کا نہیں ہے۔

حکومت سی این سٹیشنز کے کھولنے کا اعلان بھی کرتی رہتی ہے، یہ کہانی اور ہے کہ سی این جی سٹیشنز والوں نے اربوں روپے کا نقصان کر لیا، کسی نے اپنے بندوبست کو پٹرول پمپ بنا لیا تو کسی کے ابھی تک بند پڑے ہیں۔ مگر حکومت ہے کہ گیس کے بارے میں کوئی درست اور آخری فیصلہ کرنے سے قاصر ہے۔ اب گیس عوام کی بنیادی ضرورت ہے، اس کے بغیر کام نہیں چلتا، اور یہ سہولت ایک طویل عرصہ سے عوام کو حاصل تھی، آخر اب کونسی آفت آئی ہے کہ گیس منظر سے غائب ہوگئی ہے، لوگوں کے چولہے ٹھنڈے ہوگئے ہیں، کاروبارِ زندگی معطل ہو کر رہ گیا ہے۔ حکمرانوں کے کانوں پر تو جوں رینگتی نہیں، دیگر ذمہ داران اور افسران کو کسی کی کوئی فکر نہیں۔ حکومت کی نگاہ میں شاید گیس بجلی کی لوڈشیڈنگ کوئی بڑا مسئلہ نہیں، کیونکہ حکمرانوں کو توان مسائل کی شدت کا علم ہی نہیں ہوسکتا کیونکہ ان کا واسطہ نہیں پڑتا، مگر چھوٹی دنیا میں رہنے والے چھوٹے وسائل والے عوام کے لئے یہ زندگی موت کا مسئلہ ہے۔ حکمرانوں نے گڈگورننس میگا پروجیکٹس کو سمجھ رکھا ہے، جب کہ عوام کی پہلے اور بہت سی ضرورتیں ہیں، یہ پوری کر کے عوام کو خوش اور مطمئن کیا جاسکتا ہے۔
 

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 430811 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.