گرینڈ الائینس سے سندھ میں پیپلز پارٹی کو کوئی خطرہ نہیں

سندھ کی متعدد سیاسی و قوم پرست جماعتوں اور سینئر سیاستدانوں نے پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت کے خلاف گرینڈ الائنس کے قیام کا اعلان کر دیا ہے۔ پیر پگارہ ، پیر صبغت اﷲ شاہ راشدی کو گرینڈ الائنس کا سربراہ منتخب کیا گیا ہے۔ گرینڈ الائنس بنانے کا فیصلہ 9جنوری کو گنگری ہاؤس کراچی میں پیر پگارہ کی سربراہی میں منعقدہ اجلاس میں کیا گیا۔ اجلاس میں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف نے مبصر کے طور پر شرکت کی تاہم دونوں جماعتوں کے رہنماؤں نے یہ واضح کیا کہ وہ اتحاد کا حصہ بننے کے حوالے سے فیصلہ بعد میں کریں گے۔ اجلاس میں پانچ سابق وزراء اعلی سندھ، ممتاز علی بھٹو، لیاقت علی خان جتوئی، سید غوث علی شاہ ، ڈاکٹرا رباب غلام رحیم اور سید مظفر حسین شاہ نے شرکت کی جبکہ مسلم لیگ ن کے اسمائیل راہو، سینٹر نہال ہاشمی، حکیم بلوچ، پاکستان تحریک انصاف کے نادر اکمل لغاری، خرم شیر زمان، مسلم لیگ فنگشنل کے پیر صدرالدین شاہ راشدی، پیرزادہ یاسر سائیں، سندھ کے سابق وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا، سید ظفر اقبال شاہ، حسین ہارون اور قومی عوامی تحریک کے سربراہ ایاز لطیف پلیجو کے علاوہ دیگر رہنماؤں نے شرکت کی۔ بظاہر تو ایسا محسو س ہوتا ہے کہ شاید یہ الائینس کسی بہت بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ہو اور شاید یہ اتحاد بنوانے والوں کی خواہش بھی ہو لیکن عملاً ایسا ممکن نظر نہیں آتا۔ پیپلز پارٹی نے حال ہی میں بلدیاتی الیکشن جیت کر ایک مرتبہ پھر یہ بات ثابت کر دی ہے کہ سندھ کے عوام کی اکثریت کا میڈیٹ اس کے پاس ہے۔ تمام تر خرابیوں، خامیوں اور کمزوریوں کے باوجود سندھ کے عوام کی اکثریت آج بھی پیپلز پارٹی کے ساتھ ہے اور فی الحال کوئی بھی الائینس پیپلز پارٹی کی پوزیشن کو کمزورکرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ حالیہ بلدیاتی انتخابات میں اسی گرینڈ الائینس کی جماعتوں اور شخصیتوں نے غیر اعلانیہ طور پر متحد ہو کر پیپلز پارٹی کے خلاف الیکشن لڑا ہے لیکن ا نھیں بری طرح نا کامی ہوئی۔ البتہ فرق صرف اتنا ہے کہ اب یہ گرینڈ الائینس اعلانیہ طور پر سامنے آ گیا ہے۔گرینڈ الائینس کا اعلان کرتے ہوئے الائینس کے سربراہ پیر صبغت اﷲ راشدی(پیر پگارہ) نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے سندھ کو جس قدر نقصان پہنچایا ہے وہ نا قابل بیان بلکہ نا قابل تلافی ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ گڈ کورننس کے حوالے سے پیپلز پارٹی کی پوزیشن کمزور ہے اور وہ گزشتہ سات برسوں میں ڈیلیور کرنے میں ناکام رہی ہے لیکن اس کے باوجود سندھ میں مقبول سیاسی جماعت پیپلز پارٹی ہی ہے۔ بظاہر الائینس میں شریک شخصیات بہت بھاری بھرکم نظر آتی ہیں۔ مثلاً یہ کہ سندھ کے پانچ سابق وزراء اعلی نے اتحاد میں شمولیت کا اعلان کیا یا یہ کہ سابق وزیرداخلہ سندھ ذوالفقار مرزا بھی الائینس میں شامل ہیں لیکن اس سب کے باوجود پیپلز پارٹی کی پوزیشن زیادہ مضبوط ہے۔ مذکورہ الائینس کے قیام سے یہ قیاس آرائیاں بھی سامنے آ رہی ہیں کہ شاید سندھ میں حکومت کی تبدیلی کی کوششیں تیز ہو جائیں تاہم اس کے لئے ایم کیو ایم کو ساتھ ملائے بغیر کوئی ایسا کوئی خیال بھی بعید از امکان ہے اور اگر ایم کیو ایم(جو بظاہر کسی طور بھی اس الائینس کا حصہ نہیں بنے گی)کو ملا بھی لیا جائے تب بھی سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی عددی اکثریت زیادہ ہے اور قائم علی شاہ کی حکومت کو گرانا فی الحال ممکن نظر نہیں آتا۔یہاں ایک اہم بات قابل ذکر ہے کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم اگرچہ بظاہر ایک دوسرے کی مخالف نظر آتی ہیں لیکن دراصل یہ دونوں جماعتیں’’ ایک پیج ‘‘پر ہیں۔ ان دونوں جماعتوں کے اہداف اور مقاصد ایک جیسے ہیں لیکن دکھاوے کے لئے یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف بیان بھی دیتی ہیں اور ایک دوسری کی مخالفت بھی کرتی نظر آتی ہیں۔گویا ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور اور کھانے کے اور۔ مذکورہ دونوں جماعتیں ملٹری اسٹبلشمنٹ کے ہاتھوں عتاب میں ہیں۔ تو کم از کم دونوں یہ قدر تو دونوں جماعتوں میں مشترک ہے لہذا یہ دونوں جماعتیں عملاً ایک دوسرے کے خلاف جانا ’’افورڈ‘‘ نہیں کر سکتیں۔ جہاں تک سندھ میں بننے والے گرینڈ الائینس کا تعلق ہے تو اس میں بھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ الائینس ’’کسی‘‘ کے کہنے پر تشکیل دیا گیا ہے جس کا مقصد پیپلز پارٹی پر دباؤ بڑھانا ہے۔ سندھ میں نہایت خراب کارکردگی کا مظاہر ہ کرنے والی اور کرپشن کا شکار پیپلز پارٹی پر دباؤ بڑھانے کے لئے جن پارٹیوں اور افراد کو چنا گیا ہے وہ ماضی میں بھی کبھی پیپلز پارٹی میں ڈینٹ نہیں ڈال سکیں ہیں اور اب بھی اس طرح کی کسی کارکردگی کی ان سے امید لگانا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے لیکن جب گرینڈ الائینس بنانے کا ’’کسی‘‘ نے فیصلہ کرلیا تو پھر اسے کون سمجھائے۔ حقیقت حال یہ ہے کہ اس طرح کی کوئی بھی کوشش سندھ میں پیپلز پارٹی کو پہلے سے زیادہ مضبوط کر دیتی ہے جیسے کہ کراچی میں ایم کیو ایم کے خلاف کوئی بھی آپریشن ایم کیو ایم کی کمزور پوزیشن کو مضبوط بلکہ مضبوط تر بنا دیتا ہے اسی طرح پیپلز پارٹی کے خلاف اسٹبلشمنٹ کی طرف سے کوئی بھی الیکشن اسے سندھ میں اور زیادہ مضبوط کر دیتا ہے۔ اس وقت پیپلز پارٹی بڑی حد تک سندھ کارڈ کھیل رہی ہے اور پیپلز پارٹی سندھ کا وہ ووٹر جوآصف علی زرداری اور ان کے گرد موجود کچن کیبنٹ سے ناراض تھا وہ ایک دفعہ پھر پیپلز پارٹی کے کیمپ میں جا چکا ہے اس کا ثبوت حالیہ بلدیاتی الیکشن ہیں لہذا فی الحال پیپلز پارٹی کو سندھ میں کوئی خطرہ نہیں۔
Riaz Aajiz
About the Author: Riaz Aajiz Read More Articles by Riaz Aajiz: 95 Articles with 68312 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.