کہنے کو تو یونین کونسل بیروٹ اس وقت سرکل
بکوٹ بھر میں پی ایچ ڈی کے 25 سکالرز کے ساتھ ایک مثالی اور سب سے زیادہ
پڑھی لکھی یو سی ہے مگر اندرون خانہ اس یو سی کے تہذیبی، سماجی اور سیاسی
کشمکش کے مثائل اتنے زیادہ ہیں کہ ۔۔۔۔۔ بس اس پر الحفیظ و الامان ہی کہا
جا سکتا ہے، کے پی کے میں نئے بلدیاتی نظام کی پیدائش اور اس کی حالیہ
انتخابات میں اٹھان سے ہم اہلیان بیروٹ اس لحاظ سے پھولے نہیں سما رہے تھے
کہ اب نشیب میں بہنے والے کنیر کس میں پانی کی جگہ دودھ اور مشرق میں بہتے
دریایئے جہلم میں شہد کا پانی چل رہا ہو گا مگر چند ماہ بعد پتہ یہ چلا کہ۔۔۔۔
ہنوز دلی دور است، صورتحال یہ ہے کہ ہم لوگ ایم این اور ایم پی اے کے وی
آئی پی کلچر، شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ اور وزیر اعظم جیسے پروٹوکول اور نشست و
برخاست کا رونا رو رہے تھے اور ہمیں یہ بھی شکایت تھی کہ اپریل میں باسیاں
کے کھلے آسمان تلے تمبو (Tents (میں زندگی بسر کرنے والے متثرین کی ووٹ
لینے کیلئے صرف ۔۔۔۔۔۔ جی ہاں ,صرف ایک بار امداد اور اس کے دستاویزی ثبوت
کیلئے اخبارات میں کلر فوٹوز کی اشاعت کے بعد وعدے وعید کا ایک لمبا سلسلہ
شروع ہو گیا لیکن۔۔۔۔ کیا کیا جائے کہ ناظم بیروٹ خالد عباس عباسی اور نائب
ناظم قاضی سجاول خان اپنے سرکاری اور نجی کاروبار، جنازوں میں شرکت اور
تقریبات عروسی میں دولہا دولہن کے ساتھ اپنے فوٹو سیشن میں اس قدر مصروف
ہیں کہ بیروٹ کے عوام کیلئے ان کے پاس اب وقت ہی نہیں، فون کیا جائے تو وہ
اب اجنبی نمبر کی کال کو بھی اٹنڈ کرنے سے بھی قاصر ہیں، قاضی سجاول خان
سماجی خدمات کے حوالے سے بیروٹ خورد کے عبدالستار ایدھی کہلاتے ہیں مگر اب
اسلام ّباد، ایبٹ ّباد اور پشاور کی اقتداری راہداریوں کی ہوا انہیں بھی لگ
گئی ہے اور وہ بھی اب اپنے پسماندہ بیروٹ خورد کے مسائل کے ہاتھوں مجبور
لوگوں سے کنی کتراتے نظر آتے ہیں اور مقامی تعلیمی، طبی اور سماجی مسائل
سے فرار کی میراتھن ریس میں دوڑ رہے ہیں ، اس نئے مقامی وی آئی پی کلچر کی
اٹھان کے بعد ایک طرف اپنے فرائض سے غفلت برتنے والے والے سرکاری و غیر
سرکاری فرعونوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے وہاں ہی بیروٹ کا بے وسائل،
مہنگائی کے ہاتھوں مجبور و لاچار عام آدمی اس ٹھنڈے ٹھار موسم میں ایک آہ
سرد لے کر رہ جاتا ہے اور پھر مایوسیوں کے عمیق سمندر میں غوطے لگانا شروع
کر دیتا ہے۔
اہلیان بیروٹ کو اس بات سے کوئی لینا دینا نہیں کہ کون سا عوامی نمائندہ کس
پارٹی کا ہے وہ صرف اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں، یو سی بیروٹ کے مسائل وہی
ہیں جو پاکستان بھر کے ہر علاقے کے ہیں، فرق صرف یہ ہے کہ جہاں جہاں قیادت
درد دل اور لگن سے کام کر رہی ہے وہاں کا عام آدمی کم مسائل کا شکار ہے
مگر جہاں موسمی سردی بیروٹ کے عوامی نمائندوں کے عوامی خدمت کے مزاج کو بھی
منجمد کر دے تو پھر ۔۔۔۔۔ عام آدمی اپنی قسمت پر کہاں ناز کر سکتا ہے، وہ
تو آہ سرد بھر کر بجلی کی گھنٹوں غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ، راولپنڈی سے آنے
والی اشیائے خوردونوش دگنی قیمت پر خریدنے، مقامی یوٹیلیٹی سٹورز صرف بااثر
افراد کیلئے مختص ہونے یا رات کی تاریکی میں مقامی دکانداروں کیلئے منڈی
بننے کی وجہ سے مزید دکھی ہو رہا ہے، ضلع ، تحصیل اور مقامی ویلیج کونسلوں
کے چیئرمینوں اور کونسلروں کے نوٹس میں عام آدمی کوئی مسئلہ لائے تو پہلے
تو وہ اللہ رب العزت، پھر خاتم الرسل ﷺ اور آخر مٰ قرآن حکیم فرقان جمید
کی قسمیں اٹھا کر عوامی مجرموں کی بریت کا اعلان کرتے ہیں یا پھر اپنی بے
خبری اور بے بسی کا رونا روتے ہیں، آپ صرف ان زلزلہ سے کرچی کرچی ہونے
والے بوائز ہائی سکول اور سرکل بکوٹ کے حکمرانوں کے چہیتے ٹھیکیداروں کی
لوٹ مار کے شکار گرلز ہائی سکول کی مثال لیجئے، بوائز سکول کے پتھر،
کھڑکیاں ،دروازے، سیلنگ وغیرہ مقامی لٹیرے دن کے اجالے میں ٹرالیاں بھر بھر
کر لے جا رہے ہیں، میرے ہم وطنو۔۔۔۔ کیا اس لوٹ مار کو روکنے کیلئے گورنر
سردار مہتاب احمد خان ، ایم این اے ڈاکٹر اظہر یا ایم پی اے سردار فرید خان
کے پاس جانا پڑے گا۔۔۔۔؟ آخر ویلیج کونسل بیروٹ کے چیئر مین ندیم عباسی،
وائس چیئرمیں عتیق عباسی، ویلج کونسل کہو شرقی کے چیئرمین اسد عباسی، وائس
چیئرمین گفلزمان اور ان کے رفقاء کس مرض کی دوا ہیں کہ وہ ان سکولوں کے
میٹیریل کو شیر مادر سمجھ کر لے جانے والے لٹیروں کو لگام نہیں ڈال سکتے،
ہم سمجھتے ہیں کہ ان دونوں سکولوں کے معاملات سخت الجھے ہوئے ہیں، عوام
علاقہ اسد بات سے بھی بے خبر نہیں کہ بیروٹ کے غریب لوگوں کی اولادوں کو ان
پڑھ رکھنے کی اس سازش اور مقامی سطح پر تعلیمی ساہوکاروں کی دکانداری کے
پہچھے کون کون سی ان دیکھی شریفانہ طاقتیں اپنا کردار ادا کرنے میں مصروف
ہیں۔۔۔ بہر حال۔۔۔۔ اب یہ ذمہ داری ان ویلج کونسلوں کے تمام چھوٹے بڑے
عہدیداروں کی ہے کہ وہ اس تعلیمی درسگاہ کے کم از کم میٹیریل کو ہی لٹیروں
سے بچا لیں، ان کا عوام علاقہ پر بہت بڑا احسان ہو گا۔
ان دنوں سکولوں میں اڑھائی ماہ کی سرمائی تعطیلات جاری ہیں، ان تعطیلات میں
نوجوانوں کھیتوں میں کرکٹ کھیلتے نظر آتے ہیں، اگر گیند کسی کے صحن میں
چلی جائے تو پھر ان کھلاڑیوں کو اہلخانہ کی ۔۔۔ پھٹھ سلٹھی (Insult) کا
نشانہ بننا پڑتا ہے، ایسا کیوں ہے، اس کی بڑی وجہ تعلیمی لحاظ سے بڑوں کی
اس بڑی یونین کونسل میں کھیل کا کوئی سرکاری گرائونڈ نہیں ہے، اس کے باوجود
بیروٹ کے ان بے وسائل کھلاڑیوں کی اہلیت دیکھئے کہ انہوں نے گزشتہ ماہ
ایوبیہ میں ہونے والے کرکٹ ٹورنامنٹ میں چیت کا اعزاز ٹرافی سمیت اپنے نام
کیا، بیروٹ میں بھی منعقدہ ٹورنامنٹ میں وی سی چیئرمین ندیم عباسی نے ونر
اور رنر اپ ٹیموں میں ٹرافیاں تقسیم کیں، اس موقع پر کسی نے یہ لب کشائی
نہیں کی کہ دیہرہ کہو شرقی میں دس سال پہلے جس کرکٹ گرائونڈ کا سردار شمعون
خان نے افتتاح کیا تھا اس کا کیا ہوا یا وہ بیروٹ کی لینڈ مافیا کی بھینٹ
چڑھ گیا، کافی خطیر رقم کنیر کس میں بھی کرکٹ گرائونڈ کی تعمیر کے نام پر
حکمرانوں کے چہیتے ٹھیکیداروں کی جیبیں گرم کرنے کیلئے مختص کی گئی تھی
لیکن یہ کرکٹ گرائونڈ بھی مری سے آنے والی ایک ہی موہری (طغیانی) کی نذر
ہو گیا۔ حالیہ پونژل (Eartquake) کی سیریز میں ایک بار پھر یو سی بیروٹ
متاثر ہوئی ہے مگر اس کی شدت دس سال پہلے والے پونژل (زلزلہ) کی نہیں تھی،
ہر وی سی میں درجنوں مکانات متاثر ہوئے ہیں، سابق ناظم آفاق عباسی اور ان
کے رفقاء کی طرح بیروٹ کی چھ ویلیج کونسلوں کے چیئرمینوں اور کونسلروں کی
کلیم بنانے اور جمع کروانے کی کاوشیں قابل قدر ہیں مگر تین ماہ گزرنے کے
باوجود ضلعی حکام ابھی بیروٹ کے زلزلہ متاثرین کو فراموش کئے ہوئے ہیں، پتہ
نہیں کہ اس کے بارے میں خالد عباس اور قاضی سجاول نے اپنے بڑوں سے کوئی بات
بھی کی ہے یا نہیں، یہ زلزلہ متاثرین آج بھی اپنے ایم این اے اور ایم پی
اے کی راہیں تک رہے ہیں کہ شاید وہ ان کی اشک شوئی کر سکیں، ویلیج کونسلوں
کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ہم نے ابتدائی کارروائی کر کے کیس ایبٹ آباد
بھجوا دیئے ہیں اب متاثرین کیلئے ضلعی حکام اور صوبائی اتھارٹیز سے فنڈز
حاصل کرنا خالد رباس، قاضی سجاول، سردار فرید خان اور ڈاکٹر اظہر کا کام
ہے، ہمارا بھی سرکل بکوٹ کے ان صاحبان اقتدار سے مطالبہ ہے کہ وہ اپنے حلقے
اور یو سی بیروٹ کے زلزلہ متاثرین کو ضلعی صوبائی حکومت سے امداد دلوا کر
ان کی دعائیں لیں، ایسا نہ ہو کہ یو سی بیروٹ کے ان بے کس و بے بس اور
مجبور و مقہور زلزلہ متاثرین کی دلدوز آہیں اور نیم شب سسکیاں عرش بریں کو
ہلا کر رکھ دیں اور جہاں بڑوں بڑوں کے تاج و تخت خاک میں مل گئے ان کی ایم
این اے شپ، ایم پی اے شپ، یو سی کی چیئرمینی اور جنرل کونسلری کا بھی نام و
نشاں نہ رہے کیونکہ قدرت کے فیصلے اسلام آباد اور پشاور کے ایوان ہائے
اقتدار کے تابع فرمان نہیں ہوا کرتے؎
بترس از آہ مظلوماں کہ ہنگام دعا کردن
اجابت از در حق بہر استقبال می آید |