پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ۔۔۔۔۔۔۔؟

چین کے صدر شی چن پنگ گزشتہ سال پاکستان کے دورے پر آئے تو نور محمد خان ایئر بیس پر ان کے شاندار استوبال سے لیکر درجنوں معاہدوں سے متعلق مفاہمت کی یاداشتوں پر دستخط کئے گئے 8منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھا چین پا کستان اقتصادی راہداری منصوبہ بر’ی طرح متنازع ہو چکا ہے حکومتی اتحادی جماعتوں کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کی جماعتیں آپس میں متحد نظر آتی ہیں اور اب اس منصوبے کو کالا باغ ڈیم بننے کے خدشات ظاہر کئے جا رہے ہیں انتہائی تشویش ناک بات یہ ہے کہ اب دھمکیاں دینے لگی ہیں اگر مطالبات نہ مانے گے تو منصوبے کو خیبر پختون خوا سے گزرنے نہیں دیں گے تحریک انصاف کی بدترین مخالف جماعت جمعیت علماء اسلام اور پختون خوا ملی عوامی پارٹی بھی شامل ہے اس کے ساتھ ساتھ عوامی نیشنل پارٹی اور پی پی پی اس معاملے پر اس کے ہمرکاب ہیں ۔۔۔۔اور تو اور مسلم لیگ ن کے صوبائی ارکان بھی وفاقی حکومت پر عائد کردہ الزامات پر اپنے بھائی بندوں کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں جس کا بخوبی اندازہ وفاقی وزیر احسن اقبال کو حالیہ دورہ پشاور کے دوران ہو گیا ہو گا۔۔۔۔۔قارئین اکرام یہ صورتحال اس نج تک پہنچی کیوں ہے۔۔؟آئیں اس کا جواب تلاش کرتے ہیں پاک چین اکنامک راہددری منصوبے کی جز ئیات نواز شریف کے بطور وزیر اعظم حلف اٹھانے کے بعد اپنے پہلے سرکاری دورہ چین میں طے پاء گئی تھی مگر فیصلہ کیا گیا کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے تاریخی معاہدے پر دستخط چین کے صدر شی چن پنگ کے دورہ پاکستان کے دوران کئے جائیں گے تاہم صوبائی حکومتوں ماسوائے پنجاب کے کسی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا اسکے بعد وزیراعظم کا دورہ چین ہو یا صدر کا کسی بھی صوبائی نمائندے یا وزیر اعلی کی شرکت نہیں ہوئی اس طرز عمل نے نہ صرف صوبوں میں احساس محرومی کو جنم دیا بلکہ ’’سی پیک‘‘کو متنازع بنانے کی بنیاد رکھی ۔۔۔۔اس پالسی نے صوبوں کے درمیان شکوک و شہبات کو مزید گہرا کردیا ان کی طرف سے مطالبہ کیا جاتا رہا کہ 46ارب ڈالرز کے اس نایاب اور مقدس منصوبے سے متعلق دستاویزات کی زیارت انہیں بھی کرا دی جائے لیکن ہر بار یہ باور کرایا گیا کہ اس پر ان کا استحقاق نہ ہے یہ صوبے بار بار کہتے رہے کہ کم از کم اقتصادی راہداری کا نقشہ ہی دکھا دیا جائے جبکہ معروف صحافی نے اپنے پروگرام میں نقشہ دکھایا تو احسن اقبال فورا بولے یہ اصل نقشہ نہیں ہے اب گزشتہ ہفتے وازارت منصوبہ بندی کی ویب سائیٹ پر پوسٹ کیا گیا ہے اور ساتھ کہا کہ اس کو متنازع نہ بنایا جائے بھائی جب آپ خود اس کو خفیہ رکھ کر متنازع بنا رہے ہیں اب آپ کبھی پشاور اور کبھی کوئٹہ چکر لگا رہے ہیں لیکن نہ آپ کی پرویز خٹک سننے کو تیار ہے اور نہ ہی ڈاکٹر عبدالمالک یقین کرنے کو تیار ہے ۔۔۔۔۔اب آتے ہیں اس منصوبے پر تحفظات ظاہر کرنے والوں کے مطالبات کی کہ کیا وہ واقعی حقائق پر ہیں ۔۔۔۔۔؟مغربی روٹ پر کام شروع نہ کرنے والوں ادارک ہو نا چائیے کہ بلوچستان میں طویل راہداری کی تعمیر کے لئے ایف ڈبلیو او کے 13یونٹس کام کر رہے ہیں اور اب تک مسلح افواج کے تیرہ جوان جام شہادت نوش کر چکے ہیں ،خنجراب سے رائے کوٹ 355کلومیٹر سیکشن مکمل ہو چکا ہے رائے کوٹ سے تھا کوٹ 280کلو میٹر کی فزیبلٹیی مکمل ہو گئی ہے جس سے 147کلومیٹر چینی گرانٹ سے تعمیر بھی ہو چکا ہے ،تھا کوٹ سے حویلیاں کی فزیبلٹیی بھی مکمل کر لی گی ہے جبکہ ست برہان سیکشن کی تعمیر مکمل ہو چکی ہے برہان سے ڈی آئی خان ،ڈی آئی کان سے مغل کوٹ اور مغل کوٹ سے ژوب کی تعمیر کے لئے ٹینڈرز دینے کا کام شروع ہے ۔۔۔۔۔ژوب سے کوئٹہ 331کلومیٹر اور کوئٹہ سے سراب 211کلومیٹر چار رویہ کرنے کے ساتھ ساتھ سراب سے خوشاب 449کلومیٹر کی تعمیر جاری ہے ۔۔۔۔خوشاب سے گوادر 193کلومیٹر کی تعمیر پر بھی کام ہو رہا ہے ۔۔۔۔ان حقائق کے بعد بھی اگر کوئی کہے کہ ’’مغربی روٹ‘‘ پر کام نہیں ہو رہا تو ’’دعا‘] ہی دی جا سکتی ہے اور اﷲ ایسے لوگوں کو دیدہ بینا عطا ء فرما۔۔۔جہاں تک مغربی روٹ کے ساتھ صنعتی زونز کے قیام کا مطالبہ ہے تو اس کے لئے بلوچستان میں سات اور کے پی کے میں 8مقامات کی نشاندہی کی جا چکی ہے تاہم حتمی فیصلہ پاک چین مشترکہ ورکنگ گروپس کرینگے جو تا حال قائم نہیں کئے جا سکے ۔۔۔اعتراض کرنے والوں کو یہ تک معلوم نہیں کہ سی پیک میں ایل این جی ۔تیل اور گیس کی پائپ لائن کا کوئی منصوبہ سرے سے ہے ہی نہیں ۔۔۔۔۔فائبر آپٹک کے اکلوتے منصوبے میں گلگت ،کے پی کے اسلام آباد اور راو لپنڈی شامل ہیں۔۔۔تحفظات ظاہر کرنے والے شاہد بھول گے ہیں کہ پشاور سے کراچی ریلوے لائن کی اپ گریڈیشن 2018ء میں مکمل کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے ۔۔۔۔۔میٹرو بس اور اورنج لائن ٹرین پر اعتراض کرنے والے کیوں بھول گئے کہ نومبر 2014ء میٹروبس پشاور منصوبے کی سنٹرل ڈوپلمنٹ ورکنگ پارٹی سے منظوری کے بعد تاحال پی سی ون تک نہیں بھجوایا ۔۔۔۔اب ذرا ترقیاتی بجٹ کے بارے میں حقائق کہ گزشتہ مال سال میں کے پی کو37ارب روپے اور بلوچستان کو59ارب روپے فراہم کئے گے اور رواں مالی سال میں پرویز خٹک حکومت کو ارب روپے اور بلوچستان کو 48ارب روپے مختص کئے گئے ۔۔۔آخر میں راقم کی تمام سیاسی قائدین سے کہ مل جل کر اس منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچائیں اور اس کو اس قدر متنازع نہ بنائیں ۔۔۔اب وزیر اعظم کو چائیے کہ تام سیاسی قائدین کو ایک میز پے بٹھا کر تحفظات کو دور کریں ۔۔۔کیوں کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے پر اتفاق رائے اب وفاقی وزیر اھسن اقبال کے بس کی بات نہیں-

Dr M Abdullah Tabasum
About the Author: Dr M Abdullah Tabasum Read More Articles by Dr M Abdullah Tabasum: 63 Articles with 49245 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.