نبی صلی اللہ علیہ وسلم وقت سوال قبر میں حاضر نہیں ہوتے!

نبی صلی اللہ علیہ وسلم وقت سوال قبر میں حاضر نہیں ہوتے!
ازعثمان احمد حفظہ اللہ
December 13, 2015

تحریر: حافظ ابو یحییٰ نورپوری حفظہ اللہ

محمد رسول اللہ صلٌی اللہ علیہ و سلٌم کا قبر میں وقتِ سوال ہر میت کے پاس حاضروناضر ہونا صحیح حدیث میں تودرکنار،کسی ضعیف حدیث سے بھی ثابت نہیں۔ سلف صالحین میں اس کاکوئی قائل نہیں، لہٰذا یہ بدعی اورگمراہ عقیدہ ہے۔

قبرمیں میت سے تین سوالات پوچھے جاتے ہیں،جن میں سے ایک سوال یہ بھی ہے:

ما کنت تقول فی ھذا الرجل ۔۔۔۔
“تو اس شخص کے بارے میں کیا کہتا تھا۔”
(صحیح البخاری:۱۳۴۷)

بعض لوگ کہتے ہیں کہ لفظ ہذا اشارہ قریب کے لیے آتا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبئ اکرم صلٌی اللہ علیہ و سلٌم قبر میں ہر میت کے پاس حاضر ہوتے ہیں۔ اس بناپراس حدیث سے یہ مسئلہ کشید کرنا تحریفِ دین اور جہالت کی بات ہے، جیسا کہ:

(۱) سیدنا ابنِ عباس رضی اللہ عنہُ بیان کرتے ہیں کہ جب سیدنا ابو ذرغفاری رضی اللہ عنہٌ کو نبئ اکرم صلٌی اللہ علیہ و سلٌم کی بعثت کی خبر پہنچی توانہوں نے اپنے بھائی سے کہا:

ارکب إلی ھذا الوادی، فاعلم لی علم ہذا الرجل الذی یزعم أنّہ نبیّ۔
"تو اس وادی کی طرف جا اورمیرے لیے اس شخص کا حال معلوم کر،جواللہ تعالٰی کا نبی ہونے کا دعویدارہے۔"
(صحیح البخاری: ۱/۵۴۴،صحیح مسلم: ،۲/ ۲۹۷،ح ۲۴۷۴)

اس حدیث میں سیدنا ابوذرغفاری رضی اللہ عنہٌ مکہ کوھذا الوادی اورنبئ اکرم صلٌی اللہ علیہ و سلٌم کو ھذا الرجل کے الفاظ کے ساتھ تعبیر کررہے ہیں،کہاں قبیلہ غفاراورکہاں مکہ!کیا کوئی عاقل انسان کہہ سکتا ہے کہ سیدناابوذرغفاری رضی اللہ عنہٌ کے ہاں مکہ حاضرتھا؟یا نبئ اکرم صلٌی اللہ علیہ و سلٌم حاضر و ناظر تھے اور وہ اپنے بھائی کو نبی اکرم کے صلٌی اللہ علیہ و سلٌم کے متعلق جاننے کے لیے مکہ بھیجتے رہے ہیں؟

(۲) سیدنا عمروبن سلمہ رضی اللہ عنہٌ بیان کرتے ہیں:
کنّا بماء ممرّالناس، وکان یمرّبنا الرکبان،فنسألھم ماللناس، ماہذا الرجل،فیقولون: یزعم أنّ اللہ أرسلہ،أوحی اللہ کذا۔

“ہم لوگوں کی گزر گاہ اور چشمے کے پاس رہائش پذیر تھے ،ہمارے پاس سے قافلے گزرتے تھے،ہم ان سے پوچھا کرتے تھے کہ لوگوں کا کیا حال ہے ،وہ آدمی کیا ہے؟لوگ جواب دیتےتھے کہ وہ دعویٰ کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے بھیجا ہے،اس کی طرف یہ یہ وحی کی ہے۔” (صحیح البخاری:۶۱۵/۱، ح:۴۳۰۲)
سیدنا عمروبن سلمہ رضی اللہ عنہُ وغیرہ قافلوں سے نبئ اکرم صلٌی اللہ علیہ و سلٌم کے متعلق ہذا الرجل کے الفاظ استعمال کرکے پوچھتے تھے،کیانبئ اکرم صلٌی اللہ علیہ و سلٌم وہاں حاضرناظر تھے؟

(۳) ہرقل نے سیدنا ابوسفیان رضی اللہ عنہٌ اور کفارِ قریش سے نبئ پاک صلٌی اللہ علیہ و سلٌم کے بارے میں دریافت کیا:

أیّکم أقرب نسبا بہذا الرجل الذی یزعم أنّھ نبئ۔ ۔ ۔ إنّی سائل عن ہذا الرجل ۔ ۔ ۔

ہے،جو نبی ہونے کا دعویدار ہے ۔ ۔ ۔ میں اس شخص کے بارے میں سوال کروں گا۔"”
(صحیح البخاری:۴/۱،ح:۷صحیح مسلم :۹۷/۲:۱۷۷۳)

ذخیرہ حدیث میں اس کی بیسیوں مثالیں موجود ہیں۔

نبئ اکرم صلٌی اللہ علیہ و سلٌم قبر میں وقتِ سوال حاضر نہیں ہوتے، کیونکہ:

دلیل نمبر۱:

میت سے پوچھا جاتا ہے کہ:
ما کنت تقول فی ہذا الرجل ، لمحمٌد صلٌی اللہ علیہ و سلٌم فأمٌا المومن فیقول : أشہد أنٌہ عبدہ و رسولہ

“تو اس شخص یعنی محمد صلٌی اللہ علیہ و سلٌم کے بارے میں کیا کہتا تھا ،مومن کہتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور رسول ہیں ۔” (صحیح البخاری: ۱۳۴۷)

اس حدیث میں ہذا الرجل کی وضاحت محمد صلٌی اللہ علیہ و سلٌم کہہ کر کی گئی ہے، اگر آپ صلٌی اللہ علیہ و سلٌم وہاں حاضر ہوتے تو پھر اس وضاحت کی کیا ضرورت ہے؟

دلیل نمبر ۲

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے
فیقال: ما ہذا الرجل الذی کان فیکم؟ فیقول : محمٌد رسول اللہ صلٌی اللہ علیہ و سلٌم جاءنا بالبیٌنات من عند اللہ عزٌ وجلٌ فصدٌقناہ ۔۔۔۔

(قبر میں بوقتِ سوال) کہا جائے گا، وہ شخص کون تھا جو تمہارے اندر مبعوث ہوا تھا، وہ (مومن) کہے گا، وہ محمد رسول اللہ صلٌی اللہ علیہ و سلٌم تھے، جو ہمارے پاس اللہ عز وجل کی طرف سے واضح آیات لے کر آئے تھے، ہم نے ان کی تصدیق کی تھی ۔۔۔۔۔ “
(مسند الامام احمد۱۴۰/۶ و سندہ صحیح)

یہ صریح حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ نبی اکرم صلٌی اللہ علیہ و سلٌم کے متعلق قبر میں میت سے صرف پوچھا جاتا ہے ،آپ صلٌی اللہ علیہ و سلٌم قبر میں دکھائی نہیں دیتے ہیں ۔

دلیل نمبر ۳

سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے روایت کہ رسول اللہ صلٌی اللہ علیہ و سلٌم نے فرمایا کہ میت سے کہا جاتا ہے:
ما ذا تقول فی ہذا الرجل، یعنی النبی صلٌی اللہ علیہ و سلٌم ؟ قال : من ؟
“تو اس شخص، یعنی نبی اکرم صلٌی اللہ علیہ و سلٌم کے بارے میں کیا کہتا ہے، وہ (کافر و فاسق) کہتا ہے کون؟
(مسند الامام احمد : ۳۵۲/۶، سندہ صحیح)

اسی روایت کے الفاظ ہیں کہ میت سے کہا جاتا ہے:

ما ذا تقول فی ھذا الرجل؟ قال :أیّ رجل؟ قال: محمّد۔
“تواس شخص کے بارے میں کیا کہتا ہے،وہ کہتا ہے،کون سا آدمی؟ وہ (فرشتہ) کہتا ہے،محمد صلٌی اللہ علیہ و سلٌم ۔”

مسند الامام احمد:۳۵۳/۶، المعجم الکبیر للطبرانی:۱۲۵/۲۴، وسندہٌ صحیحٌ)

اس حدیث سے واضح ثابت ہورہاہے کہ نبئ اکرم صلٌی اللہ علیہ و سلٌم قبرمیں سوال کے وقت حاضرنہیں ہوتے ہیں ،ورنہ مَنْ اور أَیُّ رَجُلِ کاکیامعنیٰ؟

دلیل نمبر: ۴

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہٌ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلٌی اللہ علیہ و سلٌم نے فرمایا،میت سے کہاجاتاہے:
أرأیتک ھذا الرجل الذی کان فیکم،ماذاتقول فیہ،وماذا تشھدبہ علیہ؟
فیقول:أیّ رجل ،فیقال:الذی کان فیکم،فلایھتدی لاسمہ،حتی یقال لہ:محمّد ۔۔۔

“اس شخص کے بارے میں تیرا کیا خیال ہے،جوتم میں مبعوث ہواتھا،اس کے بارے میں توکیاکہتاہے اور تواس پرکیا گواہی دیتاہے،وہ کہے گا،کون سا آدمی؟اس سے کہاجائےگا،وہ جوتم میں مبعوث ہواتھا،وہ اس کانام نہیں جان پائے گا،حتی کہ اسے کہا جائے گا،وہ جوتم میں مبعوث ہواتھا، وہ اس کا نام نہیں جان پائے گا،حتی کہ اسے کہاجاۓ گا،محمد(صلٌی اللہ علیہ و سلٌم)۔۔۔”
صحیح ابن حبان:۳۱۱۳،الاوسط للطبرانی:۲۶۳۰،المستدرک للحاکم:۳۸۱،۳۸۰،۳۷۹/۱ وسندہٌ حسنٌ)

اس حدیث کوامام ابنِ حبان(۳۱۱۳)نے”صحیح”کہا ہے،امام حاکم (۳۸۰/۱۔۳۸۱) نے امام مسلم کی شرط پر”صحیح”کہا ہے۔حافظ ذہبی رَحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔

حافظ ہیثمی رَحمہُ اللہُ کہتے ہیں: وإسنادہ حسن۔“ اس کی سند حسن ہے۔”
(مجمع الزوائد:۵۱/۳۔۵۲)

اس حدیث پاک نے روزِروشن کی طرح واضح کر دیا ہے کہ نبئ اکرم صلٌی اللہ علیہ و سلٌم کے متعلق قبرمیں صرف پوچھا جاتا ہے،آپ صلٌی اللہ علیہ و سلٌم قبرمیں موجود نہیں ہوتے۔

علامہ احمد قسطلانی رَحمہُ اللہُ ہذا الرجل کی تشریح میں بیان کرتے ہیں:
عبّربذالک امتحانا لئّلایتلقٌن تعظیمہ عن عبارۃالقائل،قیل:یکشف للمیّت حتّی یری النبیّ صلٌی اللہ علیہ و سلٌم،وھی بشری عظیمۃ للمؤمن إن صحٌ ذلک ،ولا نعلم حدیثا صحیحا مرویٌا فی ذلک والقائل بہ إنّمااستندلمجرّدأنّ الإشارۃ لاتکون إّلا للحاضر،لکن یحتمل أن تکون الإشارۃ لمافی الذھن فیکون مجاز۔

“نبئ اکرم صلٌی اللہ علیہ و سلٌم کوہذا الرجل سے مردے کا امتحان کےلیے تعبیرکیاگیاہے تاکہ قائل (فرشتے)کے کہنے سے وہ آپ صلٌی اللہ علیہ و سلٌم کی تعظیم سمجھ نہ پائے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ میت سے پردہ ہٹادیاجاتاہے،حتی کہ وہ نبئ اکرم صلٌی اللہ علیہ و سلٌم کودیکھ لیتی ہے اور اگریہ بات درست ہوتویہ مؤمن کےلیے بہت بڑی بشارت ہے،لیکن ہم اس بارے میں مروی ایک بھی صحیح حدیث نہیں جانتے۔اس قول والوں نےصرف اس بات سےاستدلال کہ اشارہ صرف حاضرکوکیاجاتاہے،لیکن یہ بھی احتمال ہے کہ اشارہ اس چیزکی طرف ہو،جوذہن میں موجودہے ،چنانچہ یہ مجازہوگا۔”
(تحفۃ الاحوذی لمحمد عبدالحمن المبار کفوری:۱۵۵/۴)

حافظ سیوطی رَحمہُ اللہُ لکھتے ہیں:
وسئل:ھل یکشف لہ حتّی یری النبیّ صلٌی اللہ علیہ و سلٌم ؟فأجاب أنّہ لم یردحدیث،وإنّما إدّعاہ بعض من لایحتجّ بہ بغیرمستند سوی قولہ:فی ھذا الرجل،ولاحجّۃ فیہ،لأنّ الإشارۃ إلی الحاضرفی الذہن۔

“حافظ ابنِ حجر رَحمہُ اللہُ سے سوال کیاگیا کہ کیا میت سے پردہ ہٹادیا جاتاہے،حتی کہ وہ نبئ اکرم صلٌی اللہ علیہ و سلٌم کودیکھ لیتی ہے؟آپ رَحمہُ اللہُ نے جواب دیا کہ اس بارے میں کوئی حدیث وارد نہیں ہوئی،بلکہ یہ بعض ان لوگوں کابے دلیل دعویٰ ہے،جن کا کوئی اعتبارنہیں ،صرف یہ دلیل ہے کہ حدیث میں ھذا الرجل کے لفظ آئے ہیں،لیکن ان الفاظ میں کوئی دلیل موجودنہیں،کیونکہ یہاں اشارہ اس چیز کی طرف ہے،جوذہن میں حاضرہے۔”
(شرح الصدورللسیوطی:ص۲۰،طبع مصر)

ثابت ہوا کہ ھذا الرجل سے یہ استدلال پکڑنا کہ میت کو قبر میں نبی اکرم صلٌی اللہ علیہ و سلٌم کی زیارت کرائی جاتی ہے ،بالکل باطل نظریہ ہے اس کے باوجود جناب زکریا تبلیغی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں:

“مرنےکے بعد قبر میں سب سے پہلے سیدالکونین صلٌی اللہ علیہ و سلٌم کی زیارت ہوگی۔”
(داڑھی کاوجواب اززکریا تبلیغی:ص۹)

نیزمحمد یعقوب نانوتوی دیوبندی صاحب کہتے ہیں:
بجاۓ ہمارے جنازے پر تشریف لانے کے حضورقبرمیں ہی تشریف لائیں گے۔"
(قصص الاکابرازاشرف علی تھانوی:ص۱۸۸)

ان کی بات کا ردّ جناب انورشاہ کشمیری دیوبندی صاحب کی بات سے ہوتا ہے،وہ کہتے ہیں:

یکفی العہد فقط، ولادلیل علی المشاہدۃ۔

“یہاں عہدِ ذہنی کا معنٰی ہی کافی ہے، مشاہدہ پر کوئی دلیل نہیں۔”
(العرف الشذی از انورشاہ کشمیری:۴۵۰/۲)

ثابت ہوا کہ بقولِ شاہ صاحب،زکریاصاحب اوریعقوب نانوتوی صاحب کی بات بے دلیل اور بے اصل ہے۔ بے دلیل بات ناقابلِ التفات ہوتی ہے۔

من فارق الدلیل، فقدضلّ عن سواء السبیل!

(جودلیل سے تہی دامن ہوتا ہے،صراطِ مستقیم سے بھٹک جاتا ہے)

ھذا الرجل کے تحت علامہ سندہی حنفی لکھتے ہیں:
أی الرجل المشہوربین أظہرکم،ولایلزم منہ الحضور،وترک ما یشعر بالتعظیم لئّلا یصیرتلقینا،وھویناسب موضع الاختیبار۔

یعنی وہ آدمی جو تمھارے ہاں مشہور تھا،اس سے (نبئی اکرم صلٌی اللہ علیہ و سلٌم کا قبرمیں) حاضرہونا لازم نہیں آتا۔ آپ صلٌی اللہ علیہ و سلٌم کا نام نہ لینا اس لیے ہے کہ تعظیم ظاہر نہ ہواور یہ تلقین نہ بن جائے، امتحان کے مناسب یہی بات ہے۔"
(حاشیۃ السندی علی ابن ماجہ، تحت حدیث:۳۲۵۸،حاشیۃ السندی علی النسائی:۹۷/۴،ح:۲۰۵۲)

فائدہ جلیلہ : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہٌ سے رویت ہے کہ ایک سیاہ فام عورت مسجد میں جھاڑودیتی تھی۔ نبئ اکرم صلٌی اللہ علیہ و سلٌم نے اسے گم پایا تو اس کے بارے میں پوچھا تو صحابہ کرام رضوان اللہ عَلیھم اجمَعینٌ نے عرض کیا، وہ فوت ہوگئ تو آپ صلٌی اللہ علیہ و سلٌم نے فرمایا:

أفلاکنتم آذنتمونی؟ قال: فکأنّھم صغّروا أمرھا أمرہ،فقال:دلّونی علی قبرہ،فدلّوہ،فصلّی علیھا۔

تم نے مجھے اطلاع کیوں نہیں دی؟ گویاانہوں نے اس کے معاملہ کو معمولی سمجھا تھا،آپ صلٌی اللہ علیہ و سلٌم نے فرمایا،مجھے اس کی قبر بتاؤ،صحابہ کرام نے اس کی قبر آپ صلٌی اللہ علیہ و سلٌم کو بتائی تو آپ صلٌی اللہ علیہ و سلٌم نے اس عورت پر نمازِ جنازہ پڑھی۔"

(صحیح البخاری:۱۳۳۷،صحیح مسلم:۹۵۶،واللفظ لہ)

اگر نبئ اکرم صلٌی اللہ علیہ و سلٌم ہر میت کی قبرمیں بوقتِ سوال حاضرہوتے ہیں توآپ صلٌی اللہ علیہ و سلٌم کو اس عورت کے فوت ہونے کی اطلاع کیوں نہ تھی؟

الحاصل: نبئ اکرم صلٌی اللہ علیہ و سلٌم وقتِ سوال قبرمیں حاضرنہیں ہوتے۔
manhaj-as-salaf
About the Author: manhaj-as-salaf Read More Articles by manhaj-as-salaf: 291 Articles with 411856 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.